Wednesday, 4 December 2019

کارِ بے کار

تحریر: وسیم خان عابدؔ
ابھی چند سال پہلے کی بات ہے، کہ ہم ایک بڑے شہر کے پوش علاقے میں بے کار پڑے، دیوجانس کلبی کی طرح زندگی کی گھتیوں کو سلجھانے کے بارے میں سوچ بچارکر رہے تھے۔کہ دماغ کے کسی چینل نے ”درائیونگ سیکھ لو“ کا مفت مشورہ دیا۔ حالانکہ زندگی کے بدترین دور سے گزر رہے تھے۔ لیکن من کی دنیا سے اٹھنے والی آوازپر لبیک کہا اورڈرائیونگ سنٹر کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔خیر ایک دوست کے توسط سے ایک انسٹرکٹر صاحب سے ملے،جو اپنے آپ میں ڈاکٹروں سا نخرہ اور نخوت پالے ہوئے تھے۔ موصوف سفید لٹھے میں ملبوس، اور کا فی سے زیادہ چِکنے، مطلب کلین شیوتھے۔ اس لیے اُسے استاجی (استادجی) کہنے کے بجائے سر کہہ کر مخاطب کیا تو صاحب اور بھی پھول گئے، اور جلد از جلد فیس طے کرنے لگے۔۔۔ صاحب نے دبے الفاظ میں یہ بھی کہا کہ: میرے سنٹر سے زیادہ تر لیڈیز ہی ڈرائیونگ سیکھتی ہیں لیکن آپ کو آپکے دوست کی وجہ سے داخلہ دے دیتا ہوں۔۔اور ہم نے کہا۔۔۔جی!!۔ جب ہماری سمجھ میں پوری بات آجائے تو ہمارے منہ سے بے ساختہ۔۔جی۔۔ کے الفاظ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔استاجی کی چکنی کلین شیو بھی سمجھ میں آگئی تھی تب ہی۔۔۔جی!!۔۔۔  کے ساتھ سر بھی اثبات میں ہلا دیا۔
 استادجی کی ٹیسٹ ڈرائیو نگ کا راستہ چونکہ ہمارے گھر کے سامنے سے گرزتا تھااس لیے اُس نے اگلے دن، مطلب فیس جمع کرنے کے اگلے دن”گھر سے باہر نکلو“ کا فون کیا۔ اور ہم سعادت مند شاگرد کی طرح گھر سے باہر نکلے،تو کیا دیکھتے ہیں کہ چکنے استاجی ایک گرے کلر کی بد ترین کھٹارا مہران کار کی فرنٹ سیٹ پہ نیم دراز بیٹھے ہیں اور کھڑکی سے کہنی ایسی نکلی ہے جیسے نو دولتیے پراڈو کا شیشہ نیچے کرکے کہنی کا حصّہ لوگوں کومنہ کی جگہ دکھاتے ہیں۔وہ ہمیں جلدی جلدی پیچھے بیٹھنے کا اشارہ کررہے تھے۔ اس کار پر کار کی جسامت سے بڑا بورڈ بھی لگا تھا جس پر سرخ پینٹ سے،اے بی سی(فرضی)ڈرائیونگ سکو ل کی جلی تحریر کسی فارغ خوش نویس نے اپنا وقت صرف کرکے لکھی تھی۔ہم نے پہنچ کر استاجی کو،سلام کیا تو پچھلی سیٹ پر پہلے سے دو لڑکے براجمان تھے جو مجھے دیکھتے ہی سکڑنا شروع ہوگئے۔کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک کانپتا ہوا نو جوان بیٹھا تھا جس کے ہاتھ پیر نروس ہونے کی وجہ سے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ یہ تینوں بھی میری طرح بالکل نوآموزاور ڈرائیونگ سے انجان تھے۔ انسٹرکٹر صاحب کے پیروں میں بھی ایک کلچ اور بریک ایکسٹرا لگے تھے تاکہ بوقتِ حادثہ دبا سکیں (اگر موقع ملے)۔
 اُس لرزتے کانپتے لڑکے نے جب سات آٹھ کلو میٹر تک گاری چلائی تو مجھے ڈرائیونگ سیٹ پر آنے کا حکم ملا۔میں نے جیسے ہی گاڑی میں گھسنے کی گوشش کی تو گھٹنے اضافی معلوم ہوئے کیونکہ ان کے گھسنے کی جگہ نہیں بن رہی تھی۔میں نے پھر کوشش کرنی چاہی تو استاجی نے ایک لیور کھینچ کر سیٹ کو اپنی آخری حدوں تک دشمن کی فوج کی طرح دھکیل دیا۔اب میں نے اپنے اعضاء سکیڑ کر کار میں داخلے کے لیے ہمت اکھٹی کی تو میری حالت ایسی بنی جیسی، آٹھ نمبر کے جوتے میں دس نمبرکا پیرڈالتے وقت بنتی ہے۔ایسی ہی کسی سچوئیشن میں مرحوم ماموں جان چھوٹی دودھیا پیالیوں کو دیکھ کر فرماگئے تھے،بھانجے! یہ ہماری انگلیوں کے لیے نہیں بنیں، بلکہ چائنہ اور جاپان کے قلیل الوجود مخلوق کے لیے بنی ہیں اس کی ڈنڈی میں انگلی گھسانے کی سعی،لاحاصل ہے۔ میری یہی رائے مہران کار کے متعلق ہے۔خیر سیٹ پر بیٹھنے کے بعدسارا قصور گاڑی کا معلوم نہیں ہوتا تھا بلکہ ہمارے ڈیل ڈول کی بھی کچھ نہ کچھ خطا بنتی تھی۔ جب میری حالت اُردو حرف ”ع“جیسی ہوئی تب ونڈ سکرین سے سڑک نظر آئی۔۔۔استاجی نے سب سے پہلے کلچ بریک اور ریس کے متعلق سمجھانا چاہا جو میرے گھٹنوں اور گاڑی کی سوئچ بورڈ کے چپک جانے کی وجہ سے نظر آنے، نا ممکن تھے۔ استاجی نے زور لگا کر میری ایک ٹانگ مروڑ کر ان تین،آ۔داب، قسم کے لیوز کی طرف اشارہ کیا جن میں سے دو ہم ایک ہی پیر کے نیچے۔۔داب۔۔ چکے تھے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مردانہ پیر سے نوازا ہے۔۔۔استاجی نے گرجدار آواز میں پیرپیچھے ہٹانے کا حکم دیا۔۔ لیکن ہم نے معصومیت سے جواب دیا ”سر، کس طرف ہٹائیں گنجائش کہاں۔۔؟“ کہا!موڑ لو۔۔۔ہمارے منہ سے نکلا ہڈی ہے پلاسٹک نہیں۔۔۔بگڑ گئے کہ بہت بولتے ہو۔حالانکہ ہم نے تو اپنا مدعا بیان کیا تھا۔خیر ہم شاگر د تھے،فوراََسوری کہا۔۔۔ اور پھر سے سیکھنا شروع کردیا۔استاجی کسی ایٹمی سائنس دان کی طرح ایک ایک پرزے پر تبصرہ کر رہے تھے۔ اور گرمی کی بابت اپنے آدھے سر کا پسینہ سفید ٹائلٹ پیپر سے پونچھ رہے تھے۔کیونکہ ٹائلٹ پیپر کی نئی پنی لینے کے لیے سوئچ بورڈ کا ڈھکن کھولتے اور بند کرتے رہتے۔استاجی کے آدھے سر پر،جو اللہ تعالیٰ کی مہر بانی سے فارغ البال تھا، پسینے کی ننھی ننھی بوندیں جھلک رہی تھیں۔ہر پرزے کا اِنٹرو، دیتے ہوئے استاجی بطورِ تکیہ کلام ”یہ تو بچوں کو بھی پتہ ہے“ استعمال کر رہے تھے ہم ٹھہرے شاگر ورنہ کہہ سکتے تھے کہ اگر پتہ ہوتا تو تجھے دس ہزار منہ دکھائی میں کیوں دیتے!!۔۔ لیکن چُپ رہے کیونکہ میری تمام مشکلات کی جڑ میری زبان ہے اور لکھائی ہے بھی۔گھر والے بھی ہرایسی ویسی بات مجھ سے باجماعت چھپاتے ہیں کہ مبادا کسی ڈائری میں لکھ نہ لے۔ایک عزیزہ کی حلوہ بریانی کا ذکرِ خیر کہیں پر کیا تھا تو مہینوں اپنی ریسپی کے بجائے مجھ پر ناراض ہوتی رہی۔۔۔ میرے سامنے صرف و ہی بات کی جاتی ہے جو اگلی نسلوں سے چھپانی نہ پڑے۔اور کچھ ایسا ہی حال میرے دوستوں اور یونیورسٹی فیلوز کابھی ہے۔
استاجی اس گاڑی میں بالکل کنفرٹ ایبل تھے بلکہ اس کے جسم کے حساب سے مہران کی سیٹ اس کے لیے زائد از ضرورت تھی کیونکہ آجکل چھوٹے ماڈل ہی بہت فیشن میں ہیں خواہ انسانوں میں ہوں یا گاڑیوں میں۔۔!۔۔ کیونکہ اکانومیکل ہوتے ہیں۔چھوٹی جسامت والے ایک ہی زندگی میں دس دس کاروبار بھی کرتے ہیں اور تھکتے بھی نہیں، مجھے تو اتنے کام کرنے کے لیے سات جنم لینے پڑیں گے۔  ابھی پچھلے دنوں ایک فنکشن میں جانے کا اتفاق ہوا،تو ایک حد سے زیادہ کانفیڈنس والی آنٹی آئی اور کہا بیٹا بہت لمبے اور موٹے ہو گئے ہو۔۔۔کوئی ایکسرسائز کیوں نہیں کرتے۔۔۔، ہمارے منہ سے بے اختیار نکل گیا نہیں آنٹی ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ آپ نے ساری زندگی چونی کے ساتھ گزاری ہے اس لیے ہزار کا نوٹ بڑا لگ رہا ہے،ورنہ پانچ ہزار اور دس ہزار کے سامنے بالکل چھوٹا ہے!!!۔۔۔ اب اتنی سی بات پر،جو تشبیہ اور استعارے کا سہارا لیکر کی جائے کوئی بھلا مانس ناراض ہوتا ہے،بھلا۔۔۔ منہ پہ بدتمیز کہہ کر چلی گئی۔۔۔!۔۔حالانکہ آپ لوگ اسکے شوہر کو دیکھتے تو خودہی کہہ دیتے کہ چونی بھی زیادہ کہا ہے۔۔
خیر چکنے استاجی نے کہا دائیں پیر کے نیچے ریس ہے، درمیان والا بریک اور بائیں پیر کے نیچے کلچ ہے جسے ہمیشہ دبائے رکھنا ہے جس طرح ہیڈ ماسٹر استادوں کو،افسر کلرکوں کو اور بیویاں شوہروں کو دبا کر رکھتی ہیں ورنہ گاڑی نہیں چلتی جھٹکے لے لے کر بند ہو جاتی ہے۔۔۔۔!!۔۔ایک راڈ جو دونوں سیٹوں کے درمیان تھااور اُس پر ایک دو تین چار بھی لکھے تھے (باقی لکھائی بھی تھی لیکن مٹ چکی تھی)،کو گئیر کہہ کر پکارا جارہا تھا۔پہلا گیئر آگے بائیں کونے میں لگائیں،دوسرا پیچھے بائیں کونے میں لگائیں، تیسرا درمیان میں آگے۔۔۔۔تیسرا درمیان میں،اور آگے!۔۔مجھے رقیب جیسا لگا۔۔۔کیونکہ عاشق سے آگے بھی ہوتا ہے اورمحبت کرنے والوں کے درمیان بھی!!!!۔۔بندہ جیلس ہی ہوجاتا ہے۔۔۔خیر،اسے جملہءِ معترضہ سمجھ لیجئے۔چوتھا بھی درمیان میں تھالیکن،پیچھے تھا اس لیے عاشق سے پیچھے رہنے والے رقیب نقصان دہ نہیں ہوتے۔ اس لیے بُرا نہیں لگا اور نہ جیلسی فیل ہوئی۔۔اور بس!!!۔۔اتنے ہی گیئر مجھے استاجی نے سکھائے۔۔ ریورس کا اُس کی ڈرائیونگ میں کوئی کانسیپٹ ہی نہیں تھا۔ میں نے اللہ کا نام لیکر گاڑی سٹارٹ کی، اور جلدی جلدی چھت سے لٹکی ہوئی سفر کی دعا بھی زبر زیر درست کرکے پڑھی،اور اپنے اوپر آیت الکرسی بھی دم کی،کیونکہ مجھے اپنی قابلیت کا پتہ تھاکہ کتنی جلدی سیکھتا ہوں۔۔گاڑی جوں ہی روانہ ہوئی زور زور سے کھانستے ہوئے اچھلنے لگی،اور چند فٹ مٹکنے کے بعد سپیڈبریکر کے کھڈے میں رک گئی کیونکہ حکومت نے آجکل سپیڈ بریکرز کی جگہ چھ سات انچ کے کھڈے کھود دیے ہیں، تاکہ کچھ تبدیلی دیکھنے کو ملے۔۔۔  استاجی نے غصّے سے گھورا کلچ سے پیر کیوں اُٹھایا۔۔۔ہم نے کہا۔۔۔سر بریک کے لیے۔۔۔تو بریک کی کیا ضرورت تھی؟۔۔۔سر کھڈے کے لیے۔۔لیکن آپ کے سامنے بھی تو کلچ لگا ہے۔۔آپ دباتے۔۔۔ اُس نے ایک بائیں ہاتھ کا تھپڑ اپنے گنجے اور پسینے سے تر سر پر مارا۔۔جس سے پسینے کی چھینٹیں اُڑکر کچھ میرے منہ پر اور کچھ سامنے والے شیسے (ونڈ سکرین)پر  منتقل ہوگئیں۔۔۔۔ تُجھے کون گدھا ڈرائیونگ سکھائے گا۔۔۔ہم نے انکساری سے، چہرے پر معصومیت لاتے ہوئے جواب دیا!۔۔۔۔سر آپ۔۔!!!۔۔
حالات نارمل ہوئے تو،استاجی نے پھر سے گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی جوسٹار ٹ نہ ہوسکی استاجی نے حکم دیا گاڑی گرم کردی ہے تو نے۔۔۔ہم نے کہا۔۔کونسا بابو سر ٹاپ تک لے کے گیا ہوں۔۔؟؟ ابھی تو بمشکل چار فٹ کا فاصلہ طے کیا ہے۔۔۔گاڑی ہی کھٹاراماڈل ہے!!۔۔۔آپ سے بھی تیز گرم ہوتی ہے۔۔۔ استاجی نے پہلے غصے سے دانت پیسے اور پھر زیرِ لب مسکرائے شاید بات سچ لگی یا سینس آف ہیومر جاگ گیا۔۔۔کہ کھٹارا جلد گرم ہوجاتے ہیں۔۔۔!!!۔۔جس کے لیے گاڑی ہونا شرط نہیں!!!انسان بھی!!!۔۔۔۔خیر جب گاڑی پھر سے رواں دوان ہوئی تو سب سے زیادہ دِقت مجھے گیئر بدلتے وقت پیش آئی کیونکہ استاجی فرما رہے تھے کہ گیئر بدلتے وقت گیئر کی طرف نہ دیکھو بلکہ سڑک پر نظر رکھو!۔۔۔حالانکہ کوئی بھی ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے سڑک پر نظر نہیں رکھتا دائیں بائیں پھرنے۔۔والیوں پہ رکھتا ہے!!۔۔۔لیکن ہم بار بار گردن موڑ کرگیئر اور کلچ کی طر دیکھتے رہتے۔۔۔گیئر سے یاد آیا کہ۔۔۔خواتین لڑائی میں اور بچے روتے ہوئے کافی کیئر تبدیل کرتے ہیں۔۔۔۔مشترکہ فیملیز میں پلنے والے بچے اس راز سے بخوبی واقف ہیں۔جبکہ الگ گھروں میں پیدا ہونے والے اس نعمت سے محروم۔۔۔ویسے میرے پاس زندگی کی جتنی بھی معلومات ہیں میں نے بچپن میں عورتوں کی لڑائیوں سے کشید کی ہیں۔میرا پسندیدہ مشغلہ عورتوں کی لڑائی دیکھنا تھا کیونکہ یہ منہ زبانی ہوتی ہے پرتشدد نہیں ہوتی۔۔۔آجکل کے ٹاک شوز ہی کی طرح۔۔خیر خواتین کے جھگڑے کا اصل مزہ پانچویں گیئر میں آتا ہے، جب گھر میں کوئی مرد نہ ہو۔اور اصل معلومات بھی اسی پانچویں گیئر میں شیئر کی جاتی ہیں۔یعنی تاریخ کے جھرونکے کھولے جاتے ہیں۔
اب استاجی، کے ساتھ یہ دس کلومیٹرکا ٹرپ ہمارا معمول بن گیا اور اسکے ساتھ گپ شپ بھی ہو گئی۔اس نے کچھ اشارے بھی سمجھائے اور سکھائے اور یقین مانیں ہمیں سارے ڈرائیونگ کورس میں اشارے ہی اچھے لگے۔اُردو ادب کا طالب علم ہونے کے ناطے اشاروں اور کنایوں کے ساتھ میرا پرانارشتہ ہے۔خیر ادب میں آنکھ کے اشاروں پر زور دیا جاتا ہے جبکہ ڈرائیونگ کورس میں ہاتھ کے اشاروں پر۔لیکن فرق یہ ہے کہ:ہاتھ کے اشاروں پر رکنا پڑتا ہے اور آنکھ کے اشاروں پر۔۔۔!!!!۔۔۔۔ٹریفک کا اشارہ تو ڑو،تو پر چہ ہوتا ہے جبکہ ادب کا اشارہ کرو(کسی انجان کو) تو پر چہ ہوتا ہے۔ خیر ایک ماہ کی محنت کے بعد ہم گاڑی یعنی کھٹارا مہران گاڑی چلانا سیکھ گئے اور کار میں سکڑ کر بیٹھنا بھی۔۔۔۔!!  ایک دن استاجی نے ایک پرانا انجن دکھایا انڈیکیٹر ز کے بارے میں بتایااور گاڑی میں پانی بھرنا سکھایا۔۔۔۔ لیکن اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس نے سکھایا تو ہم سیکھ گئے!!!۔۔۔۔ استاجی نے ایک دن مجھے نوید سُنائی کہ تم اب اکیلے ڈرائیو کر سکتے جو باطل ہی ثابت ہوا، کیونکہ اکیلے آج تک نہیں کی۔۔۔ اس خوشخبری کے بعد بل کھاتی پہاڑیوں میں ڈرائیونگ کے گر سکھانے کے لیے ایک پہاڑی علاقے کا رُخ کیا،اور پیٹرول کا خرچہ فیس پر اضافہ کرکے میرے کھاتے میں ڈال دیا۔۔۔اوریوں ہم نے کارِ بے کارچلاناسیکھ ہی لی۔
٭٭٭٭

Tuesday, 3 December 2019

افسانہ: تیرامُشرک۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔

میں بھی عجیب انسان ہوں قرآن مجید بچپن سے پڑھا،بلکہ مولوی صاحب سے مع ترجمہ اور تشریح کے پڑھا،لیکن مشرک کی وضاحت اس ڈھنگ سے پہلے کبھی نہ سُنی،جو انیلاکی بے تکی باتوں نے کر دی۔آج اتوار کی صبح میں کمرے میں بستر پر اوندھا پڑاچھٹی کا لطف اُٹھا رہا تھا، جبکہ انیلا کمرے کی صفائی میں مصروف میز اور الماری پر کپڑا رگڑ رہی تھی،اورساتھ میں کچھ بڑ بڑا بھی رہی تھی جب میں نے کی وجہ پوچھی تو جھٹ  سے جواب دیا۔۔۔۔ ”عشق خواہ مجازی ہو یا حقیقی مشرک دونوں میں ملعون اور راندہ ہے۔۔۔ سمجھے!!!“۔۔۔۔شرک کی نہ معافی ہے اور نہ تلافی!!۔۔۔۔۔ہائے!۔۔۔میرے منہ سے بستر پر بیٹھتے ہوئے حیرت سے ہائے  کے الفاظ نکلے۔۔۔  اور دماغ میں بچوں کا جھنجھنا،جھنجھنانے لگا۔۔۔ میں نے تعجب سے سوال کیا۔۔۔کیا؟۔۔مشرک؟۔۔کون مشرک۔۔؟۔۔۔اور انیلا نے میری طرف دیکھے بغیر شیشے پر پرانے اخبار کاگیلا ٹکڑا ملتے ہوئے کمال بے پر واہی سے جواب دیا۔۔”جب سر اور دل دو مختلف جگہوں پر جھکنے لگے تو سمجھو مشرک بن چکے ہو“۔۔۔ میں نے خاموشی سے اُسے گھورنا شروع کیا تو اس نے اپنا لباس درست کرتے ہوئے دوپٹے کا پلو پورے سر پر پھیلایا، اور باقی حصّہ اپنے سینے پر ڈالا، گویا نظروں کے تیراس کے بدن کو چھلنی کر دیں گے۔۔۔ انیلا چند لمحوں کی خاموشی کو توڑتے ہوئے پھر سے بول پڑی:مقصود! جب انسان کسی کو دل سے چاہے،تو اُسے چاہیے کہ: اُسی کا ہوکر رہے!!!۔۔ باقی انسانوں کی زندگی برباد نہ کرے!!!۔۔۔ انیلا کا یہ لہجہ میری چار سالہ ازدواجی زندگی میں میرا پہلا تجربہ تھا۔۔۔ کیونکہ اس سے پہلے وہ اس ٹون میں مجھ سے کبھی مخاطب نہیں ہوئی۔۔ انیلا ایک لمحے کے لیے چُپ ہو گئی لیکن میں نے اپنی زندگی کی کتاب کے صفحات اُلٹاناشروع کردیے۔۔۔
انعم۔۔!!۔۔بڑی بڑی آنکھوں والی انعم!! گوری چٹی اور تیکھے نقوش والی ہنس مکھ انعم!!!۔۔خوبصورتی تو ایک طرف۔۔،جس کے سب لوگ معترف تھے۔۔۔!!!۔۔ لیکن جب میں اس کے قریب بیٹھتا تو سکون اور نفاست کا ایک ہالہ اس کے ارد گرد محسوس کرتا ایک روشنی کا دائرہ جس کے اندر داخل ہونے کے بعد میرے سارے غم دور ہوجاتے اور میرا دل ایک انجانی مسرت سے لبریز ہو جاتا۔میں اُسے چھونے کا قائل نہیں تھا بلکہ اُس کی آواز،اس کے جسم سے نکلنے والی لہریں اور اُس کی سانسوں کی خوشبوماحول کو استغراق کی کیفیت عطاکرتیں۔جب وہ میرے آس پاس ہوتی تو میں اپنی روح کو مکمل تصور کرتااور میری ذات کی تکمیل ہوجاتی۔ جب وہ دور جاتی تو ایسا لگتا بدن کا کوئی حصّہ کٹ چکا ہے اور میں اپاہج ہوں۔۔۔!!۔۔وہ مجھے پیار بھرے لہجے میں مقصود،کہہ کر کسی بات کی طرف متوجہ کرتی تو میری تخلیق کا مقصد پورا ہوجاتا۔
انعم پڑھی لکھی اور سجنے سنورنے کی دلدادہ تھی۔۔۔۔شاید اُسے بھی پیار تھا۔۔۔؟۔۔ نہیں،نہیں۔۔۔شاید۔۔۔اُسے اپنائیت محسوس ہوتی تھی؟؟؟۔۔۔نہیں۔۔لیکن اُسے اُنس تھا!!!۔۔شاید۔۔،کیونکہ میرا،ا ُس کے آس پاس ہونا اُسے بھی مسرور کرتا۔۔۔وہ بھی میرے ساتھ ہوتی، تو چہکتی۔۔۔اور خوب چہکتی۔۔سحر خیز پنچھیوں کی طرح۔۔۔۔اپنے آپ کو دانا ثابت کرنے کے لیے بڑی بڑی باتیں کرتی۔۔۔ مجھ سے پیار جتانے کے لیے میری فضول باتوں سے بھی متفق ہوجاتی۔۔۔سرد شاموں میں سنگِ مرمر کے یخ ٹھنڈے بینچ پر بالکل سامنے بیٹھ کر،سوچوں میں گم ہوجاتی اور ٹکٹکی باندھ کر تکتی رہتی۔۔گھر والے اُسے”انو“ کہتے لیکن میں ہمیشہ اس کا پورانام ادا کرتااور اپنا،پورا نام میرے ہونٹوں سے سن کر اُس کا چہرہ بھی کِھل جاتا۔
میں اُس کے ساتھ ہوتا توجان بوجھ کر بھولا بن جاتا، تاکہ اُسے سمجھانے کا موقع ملے۔۔۔اور وہ خود کو جہاندیدہ ثابت کرسکے۔۔۔وہ مجھے ایک ایک چیز کے بارے میں سمجھاتی۔۔۔ اگر پڑھائی کا کوئی ٹاپک ہوتا تو خود کو مجھ سے زیادہ لائق ثابت کرنے کے لیے مختلف چیزیں ایکسپلین کرنے کی کوشش کرتی اور میں چہرے کے ایسے ایکسپریشن دیتا کہ اُسے اپنی قابلیت کا یقین ہوجاتا۔۔۔ انعم میری گنہگار زندگی کی کوئی قبول عبادت تھی، یا تہجد کی کوئی معصوم سی دُعا۔۔۔ وہ مجھے دنیاکی حقیقت سمجھانا چاہتی تھی اور میں صرف اُس کو دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔جب وہ کچھ سمجھانے لگتی،تو میں دھوپ کی عینک میں صرف اس کے چہرے کی معصومیت،اور آنکھوں سے چھلکنے والی ذہانت کو دیکھتا رہتا۔۔۔اور پھر آسمان کی طرف مُنہ اٹھا کر دھیرے سے کہتا۔۔۔۔شکریہ اللہ جی!!!۔۔۔
وقت گزرتا گیا۔۔بلکہ خوشی خوشی گزرتا گیا،لیکن جب ہم دونوں نے اس ادھورے بندھن کو عمر بھر کے لیے باندھنا چاہا توانعم کے والدین کی غیرت والی رگ پھڑک اُٹھی۔۔۔ایک محلے دار سے یہ بھی کہا گیاکہ: کسی کتے کے پلے باندھ دوں گا لیکن مقصود کا گھر آباد نہیں کرے گی میری بیٹی!!!۔۔۔یہ ضد تھی؟۔۔۔ انا تھی؟۔۔۔بیٹی پر غصّہ تھا؟؟۔۔۔۔۔ یا پشتون کلچر؟۔۔کیونکہ نہ خاندانوں کے سٹیٹس میں فرق تھا اور نہ ذات پات کا کوئی مسئلہ۔لیکن اسکا باپ ٹس سے مس نہ ہوا۔۔۔اور اپنی ضد پوری کرلی۔۔پھر؟؟۔۔۔۔ پھر کچھ نہیں ہوا!۔۔۔۔بلکہ ایک دن انعم کی شادی کوئٹہ میں کسی سرکاری ملازم سے ہوگئی۔۔۔ انعم اتنی دور چلی گئی کہ سالوں تک اپنے علاقے کی ہوا تک نہ لگی۔۔۔اور پھر اس کے بچے ہونے لگے،ایک، دو، تین۔۔۔ اوریوں انعم ماممتا میں سر تا،پاڈوب گئی۔۔۔۔انعم کو میں نے بھگانے کی ترکیبیں بھی بنا ئیں۔۔۔لیکن۔۔۔ وہ صرف اپنے باپ کی بیٹی تھی۔۔۔ اور اب اپنے بچوں کی ماں۔۔۔مجھ سے صرف اُنس تھا۔۔۔شاید!!۔۔۔اُنس۔۔!!۔۔نہیں!۔۔۔اُنس۔۔ہاں اُنس ہی تھا!!۔۔
گھر والوں نے زور دیا، معاشرے نے طعنے مارے اور بڑی بوڑھیوں نے مردانہ کمزوری کے مفروضے قائم کیے۔۔۔ ہر آنے جانے والی عورت میری ماں سے کہنے لگی بیٹے میں کچھ مسئلہ ہے؟۔۔۔ شادی کیوں نہیں کر رہا۔۔؟؟۔ اورنہ چاہتے ہوئے بھی مجھے انیلا کو قبول کرنا پڑا۔۔۔میرا بھائی جب کبوتروں کا نیا جوڑا بنا نا چاہتاہے، تو اُسے تین روز اکھٹے ایک دڑبے میں صبح شام بند رکھتا ہے،کچھ دنوں تک نر مادہ لڑتے ہیں،گٹکتے ہیں اورپھر کمپرمائز کر لیتے ہیں اور جوڑا بن جاتا ہے۔۔۔ ہمارے معاشروں کی اکثر شادیاں بھی ”دڑبا چاہت“ کے پیٹرن پر بنتی ہیں یعنی اکھٹے ایک کمرے میں بند ہوئے،کوئی سبیل نہ بنی اور چاہت، چاہت شروع ہوگئی۔۔۔ لیکن میں اس دڑبا چاہت کی زد میں نہیں آیا۔۔ عورت ذات بھی بڑی کائیاں ہوتی ہے،بات کی تہہ تک بڑی جلدی پہنچ جاتی ہے،اُسے چند ہی دنوں میں پتہ چل گیا کہ مقصود کا صرف چھلکا باقی ہے،اور روح نکل چکی ہے۔۔۔ہم دونوں نے زندگی کے چار سال ایک ہی چھت کے نیچے دو الگ الگ پلنگوں پر انجان مسافروں کی طرح گزار لیے۔۔۔۔دُنیا کی نظروں میں ایک ہنستا بستا اور خوشحال جوڑاکمرے کے اندر دو الگ دنیاؤں کے مسافروں  پر مشتمل رہا۔۔۔شاید ایسے دیس کے مسافر جو ایک دوسرے کی زبان تک نہیں جانتے۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ: انیلا بھی کسی مقصود کے لیے انعم ہو، لیکن مجھے اپنی انعم کی یادیں سات جنم گزارنے کے لیے کافی تھیں۔۔۔کیونکہ ہم کبوتر نہیں،انسان تھے۔۔۔ہمیں ربّ نے یاد رکھنے کی صلاحیت دی تھی۔۔۔ اور میں انعم کو کیسے بھول جاتا۔۔۔؟۔۔ کیا کوئی اپنی روح سے کٹ کر باقی رہ سکتا ہے۔۔۔۔؟۔۔۔
انیلا شاید اس بے کیف اور اُجڑی زندگی سے اب تنگ آچکی تھی۔۔اور طعنوں پر اُتر آئی تھی۔۔۔وہ مجھے اپنانا چاہتی تھی۔۔۔وہ ایک گھر چاہتی تھی۔۔۔ایک مکان نہیں۔۔ایک شوہر چاہتی تھی۔۔۔یادوں کا پرانا قبرستان نہیں۔۔۔!!۔۔۔لیکن میری حیثت ایک قبر سے زیادہ نہ تھی۔۔۔اور اس قبر میں بھی ایک بوڑھا عشق دفن تھا۔۔۔ ایک قبر کسی زندہ کو دے بھی کیا سکتی ہے۔۔۔اور مجھ جیسی بے فیض قبر سے مایوسی کے سوا،کسی کو کیا فائدہ پہنچے!!۔۔ انیلا بے چاری نے اس قبر پر چار سال تک سجدہ کیا، بہت سے پاپڑ بیلے لیکن بے سود!۔
انیلا نے آج مشرک اس لیے کہا: کیونکہ میں نے اُس سے شادی کے لیے ہاں کی، اور اسکی زندگی برباد کی۔۔۔۔میں نے سماج کے آگے سر جھکا لیا تھا۔۔!۔۔ لیکن انیلا کو صرف دُکھ دیے۔۔۔۔،طعنوں کے ڈر سے شادی کے لیے ہاں کی!۔۔،گھر والوں کے فیصلے قبول کیے!۔۔لیکن میری روح انعم کے طواف میں گم رہی،جبکہ انیلا ایک شوہر کے لیے ترستی رہی۔۔میں واقعی ایک مشرک بھی تھا!!۔۔اور نیلا کا گنہگار بھی۔!!!۔ کیا میں نے شادی کے لیے ہاں کہہ کر انعم کے عشق میں انیلا کو شریک کیا تھا۔۔۔؟؟؟۔۔یا میں انیلا کا گنہگار تھا؟؟۔۔۔میرے دماغ میں جھنجھنا بجتا رہا۔۔۔!!!۔۔
انیلا کی زندگی کے چار سال میری وجہ سے برباد ہوچکے تھے۔لیکن اُس کی پوری زندگی برباد کرنے کا مجھے کوئی حق حاصل نہیں تھا۔۔۔ میں نے اپنی جمع پونجی اور سارے گہنے،جلدی جلدی سمیٹ کر اس کی گٹھڑی سی کپڑے میں باندھ کر انیلا کے حوالے کی۔۔۔اور چار سالوں میں پہلی بارانیلا کا ہاتھ پکڑ کراُسے اپنی جانب کھینچا۔۔۔ اُس کا ماتھا میرے لِپ لیول پر آیا اور میں نے اُس کے ماتھے پر ایک لمبا، پہلا اور آخری بوسہ ثبت کردیا۔۔۔۔ پھراُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر۔۔۔وقفے۔۔ وقفے سے ایک،دو اور پھر تین کہہ کر، تین طلاقیں پوری کردیں۔۔۔ یہ بوسہ اُن چارسالوں کی ندامت کے لیے تھا جو میں نے اس کی زندگی سے منہا کیے تھے۔۔۔اُس نے برقع اُٹھایا اوروتے، بلکتے ہوئے میرے کمرے سے نکل گئی۔۔۔لیکن نکلنے سے پہلے گہنوں کی گٹھڑی میرے پلنگ پر اس زور سے پھینکی کہ سب کچھ کمرے میں بکھر گیا۔۔۔اُس کو روتا دیکھ کر میری آنکھوں سے بھی آنسو ٹپکنے لگے، اور میں دروازے کا چوکھٹ تھامے اُسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔۔۔ شاید میرا بھی چار سالوں کا اُنس تھا۔۔۔اور انیلا کا بھی۔۔۔!!! اس لیے وہ بھی روتے ہوئے، سرخ آنکھوں سے مجھے بار بار مڑ کے دیکھ رہی تھی۔اور گھر کے مین گیٹ کی طرف پیر گھسیٹ گھسیٹ کر قدم بڑھا رہی تھی۔
٭٭٭٭
نوٹ: یہ کہانی فکشن ہے اور اس کے تمام کردار فرضی ہیں۔کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقیہ ہوگی۔
جملہ حقوقِ اشاعت بحقِ مصنف محفوظ ہیں۔
تحریر:   وسیم خان عابدؔ