میں ترے نام پہ تلوار لیے پھرتا ہوں
ساتھ میں جبہ و دستار لیے پھرتا ہوں
اب تو ممکن نہیں تجھ سے مرا ربطِ باہم
دل شکن ہاتھ میں اوزار لیے پھرتا ہوں
مار ڈالیں گے مجھے یا میں اُنھیں ماروں گا
جسم سے باندھے میں ہتھیار لییپھرتا ہوں
میں نے مسلک نیا اپنایا یہ بدعت کی ہے
مذہبِ عشق میں خود،دار لیے پھرتا ہوں
تجھ سے باہم جو نہیں ہوتی مری ڈور کبھی
دلِ وحشی کو میں بیمار لیے پھرتا ہوں
شہر کا شہر گنہگار نظر آتا ہے
میں بھی اب شیخ کے معیار لیے پھرتا ہوں
ہاں محبت مٰیں اسیری کا میں قائل تو نہیں
پر تری زُلف کے کچھ تار لیے پھرتا ہوں
کون کہتا ہے کہ عابدؔکو کوئی رنج نہیں
دُکھ ترے اب سرِ بازار لیے پھرتا ہوں
وسیم خان عابدؔ
وسیم خان عابدؔ