Tuesday, 12 May 2020

میں ترے نام پہ تلوار لیے پھرتا ہوں
ساتھ میں جبہ و دستار لیے پھرتا ہوں
اب تو ممکن نہیں تجھ سے مرا ربطِ باہم
دل   شکن   ہاتھ   میں  اوزار لیے پھرتا ہوں
مار ڈالیں گے مجھے یا میں اُنھیں ماروں گا
جسم   سے باندھے   میں ہتھیار لییپھرتا ہوں
میں نے   مسلک   نیا اپنایا یہ بدعت کی ہے
مذہبِ عشق   میں خود،دار   لیے پھرتا ہوں
تجھ سے باہم جو نہیں ہوتی مری ڈور کبھی
دلِ   وحشی   کو میں   بیمار لیے پھرتا ہوں
شہر   کا     شہر    گنہگار     نظر آتا  ہے
میں بھی اب شیخ کے معیار لیے پھرتا ہوں
ہاں محبت مٰیں اسیری کا میں قائل تو نہیں
پر تری زُلف کے کچھ تار لیے پھرتا ہوں
کون کہتا ہے کہ عابدؔکو کوئی رنج نہیں
دُکھ ترے اب سرِ بازار لیے پھرتا ہوں

وسیم خان عابدؔ
ابھی    قریب     رہو ،کوئی واردات کرو
مرے رقیب کہو! آج دل کی بات کرو
کہ میں رہوں گا تر ے ساتھ عمر بھر جاناں
وہ     بولی چھوڑیے      صاحب ،  معاملات    کرو
مجھے بُھلا کے وہ خوش ہے خوشی کی با ت سہی
اسے    بھُلا    کے میں زندہ رہوں تو بات کرو
سُنا    ہے    بے وجہ راتوں کو رونے    لگتا ہے
یہ کس    کاغم ہے ،پہ معلوم تو حالات کرو 
حیات     بعد    از   ممات ،    کے حسیں سپنے
ابھی    تو    جاگ    کے کوئی شعورِ ذات کرو

Wednesday, 4 December 2019

کارِ بے کار

تحریر: وسیم خان عابدؔ
ابھی چند سال پہلے کی بات ہے، کہ ہم ایک بڑے شہر کے پوش علاقے میں بے کار پڑے، دیوجانس کلبی کی طرح زندگی کی گھتیوں کو سلجھانے کے بارے میں سوچ بچارکر رہے تھے۔کہ دماغ کے کسی چینل نے ”درائیونگ سیکھ لو“ کا مفت مشورہ دیا۔ حالانکہ زندگی کے بدترین دور سے گزر رہے تھے۔ لیکن من کی دنیا سے اٹھنے والی آوازپر لبیک کہا اورڈرائیونگ سنٹر کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔خیر ایک دوست کے توسط سے ایک انسٹرکٹر صاحب سے ملے،جو اپنے آپ میں ڈاکٹروں سا نخرہ اور نخوت پالے ہوئے تھے۔ موصوف سفید لٹھے میں ملبوس، اور کا فی سے زیادہ چِکنے، مطلب کلین شیوتھے۔ اس لیے اُسے استاجی (استادجی) کہنے کے بجائے سر کہہ کر مخاطب کیا تو صاحب اور بھی پھول گئے، اور جلد از جلد فیس طے کرنے لگے۔۔۔ صاحب نے دبے الفاظ میں یہ بھی کہا کہ: میرے سنٹر سے زیادہ تر لیڈیز ہی ڈرائیونگ سیکھتی ہیں لیکن آپ کو آپکے دوست کی وجہ سے داخلہ دے دیتا ہوں۔۔اور ہم نے کہا۔۔۔جی!!۔ جب ہماری سمجھ میں پوری بات آجائے تو ہمارے منہ سے بے ساختہ۔۔جی۔۔ کے الفاظ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔استاجی کی چکنی کلین شیو بھی سمجھ میں آگئی تھی تب ہی۔۔۔جی!!۔۔۔  کے ساتھ سر بھی اثبات میں ہلا دیا۔
 استادجی کی ٹیسٹ ڈرائیو نگ کا راستہ چونکہ ہمارے گھر کے سامنے سے گرزتا تھااس لیے اُس نے اگلے دن، مطلب فیس جمع کرنے کے اگلے دن”گھر سے باہر نکلو“ کا فون کیا۔ اور ہم سعادت مند شاگرد کی طرح گھر سے باہر نکلے،تو کیا دیکھتے ہیں کہ چکنے استاجی ایک گرے کلر کی بد ترین کھٹارا مہران کار کی فرنٹ سیٹ پہ نیم دراز بیٹھے ہیں اور کھڑکی سے کہنی ایسی نکلی ہے جیسے نو دولتیے پراڈو کا شیشہ نیچے کرکے کہنی کا حصّہ لوگوں کومنہ کی جگہ دکھاتے ہیں۔وہ ہمیں جلدی جلدی پیچھے بیٹھنے کا اشارہ کررہے تھے۔ اس کار پر کار کی جسامت سے بڑا بورڈ بھی لگا تھا جس پر سرخ پینٹ سے،اے بی سی(فرضی)ڈرائیونگ سکو ل کی جلی تحریر کسی فارغ خوش نویس نے اپنا وقت صرف کرکے لکھی تھی۔ہم نے پہنچ کر استاجی کو،سلام کیا تو پچھلی سیٹ پر پہلے سے دو لڑکے براجمان تھے جو مجھے دیکھتے ہی سکڑنا شروع ہوگئے۔کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک کانپتا ہوا نو جوان بیٹھا تھا جس کے ہاتھ پیر نروس ہونے کی وجہ سے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ یہ تینوں بھی میری طرح بالکل نوآموزاور ڈرائیونگ سے انجان تھے۔ انسٹرکٹر صاحب کے پیروں میں بھی ایک کلچ اور بریک ایکسٹرا لگے تھے تاکہ بوقتِ حادثہ دبا سکیں (اگر موقع ملے)۔
 اُس لرزتے کانپتے لڑکے نے جب سات آٹھ کلو میٹر تک گاری چلائی تو مجھے ڈرائیونگ سیٹ پر آنے کا حکم ملا۔میں نے جیسے ہی گاڑی میں گھسنے کی گوشش کی تو گھٹنے اضافی معلوم ہوئے کیونکہ ان کے گھسنے کی جگہ نہیں بن رہی تھی۔میں نے پھر کوشش کرنی چاہی تو استاجی نے ایک لیور کھینچ کر سیٹ کو اپنی آخری حدوں تک دشمن کی فوج کی طرح دھکیل دیا۔اب میں نے اپنے اعضاء سکیڑ کر کار میں داخلے کے لیے ہمت اکھٹی کی تو میری حالت ایسی بنی جیسی، آٹھ نمبر کے جوتے میں دس نمبرکا پیرڈالتے وقت بنتی ہے۔ایسی ہی کسی سچوئیشن میں مرحوم ماموں جان چھوٹی دودھیا پیالیوں کو دیکھ کر فرماگئے تھے،بھانجے! یہ ہماری انگلیوں کے لیے نہیں بنیں، بلکہ چائنہ اور جاپان کے قلیل الوجود مخلوق کے لیے بنی ہیں اس کی ڈنڈی میں انگلی گھسانے کی سعی،لاحاصل ہے۔ میری یہی رائے مہران کار کے متعلق ہے۔خیر سیٹ پر بیٹھنے کے بعدسارا قصور گاڑی کا معلوم نہیں ہوتا تھا بلکہ ہمارے ڈیل ڈول کی بھی کچھ نہ کچھ خطا بنتی تھی۔ جب میری حالت اُردو حرف ”ع“جیسی ہوئی تب ونڈ سکرین سے سڑک نظر آئی۔۔۔استاجی نے سب سے پہلے کلچ بریک اور ریس کے متعلق سمجھانا چاہا جو میرے گھٹنوں اور گاڑی کی سوئچ بورڈ کے چپک جانے کی وجہ سے نظر آنے، نا ممکن تھے۔ استاجی نے زور لگا کر میری ایک ٹانگ مروڑ کر ان تین،آ۔داب، قسم کے لیوز کی طرف اشارہ کیا جن میں سے دو ہم ایک ہی پیر کے نیچے۔۔داب۔۔ چکے تھے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مردانہ پیر سے نوازا ہے۔۔۔استاجی نے گرجدار آواز میں پیرپیچھے ہٹانے کا حکم دیا۔۔ لیکن ہم نے معصومیت سے جواب دیا ”سر، کس طرف ہٹائیں گنجائش کہاں۔۔؟“ کہا!موڑ لو۔۔۔ہمارے منہ سے نکلا ہڈی ہے پلاسٹک نہیں۔۔۔بگڑ گئے کہ بہت بولتے ہو۔حالانکہ ہم نے تو اپنا مدعا بیان کیا تھا۔خیر ہم شاگر د تھے،فوراََسوری کہا۔۔۔ اور پھر سے سیکھنا شروع کردیا۔استاجی کسی ایٹمی سائنس دان کی طرح ایک ایک پرزے پر تبصرہ کر رہے تھے۔ اور گرمی کی بابت اپنے آدھے سر کا پسینہ سفید ٹائلٹ پیپر سے پونچھ رہے تھے۔کیونکہ ٹائلٹ پیپر کی نئی پنی لینے کے لیے سوئچ بورڈ کا ڈھکن کھولتے اور بند کرتے رہتے۔استاجی کے آدھے سر پر،جو اللہ تعالیٰ کی مہر بانی سے فارغ البال تھا، پسینے کی ننھی ننھی بوندیں جھلک رہی تھیں۔ہر پرزے کا اِنٹرو، دیتے ہوئے استاجی بطورِ تکیہ کلام ”یہ تو بچوں کو بھی پتہ ہے“ استعمال کر رہے تھے ہم ٹھہرے شاگر ورنہ کہہ سکتے تھے کہ اگر پتہ ہوتا تو تجھے دس ہزار منہ دکھائی میں کیوں دیتے!!۔۔ لیکن چُپ رہے کیونکہ میری تمام مشکلات کی جڑ میری زبان ہے اور لکھائی ہے بھی۔گھر والے بھی ہرایسی ویسی بات مجھ سے باجماعت چھپاتے ہیں کہ مبادا کسی ڈائری میں لکھ نہ لے۔ایک عزیزہ کی حلوہ بریانی کا ذکرِ خیر کہیں پر کیا تھا تو مہینوں اپنی ریسپی کے بجائے مجھ پر ناراض ہوتی رہی۔۔۔ میرے سامنے صرف و ہی بات کی جاتی ہے جو اگلی نسلوں سے چھپانی نہ پڑے۔اور کچھ ایسا ہی حال میرے دوستوں اور یونیورسٹی فیلوز کابھی ہے۔
استاجی اس گاڑی میں بالکل کنفرٹ ایبل تھے بلکہ اس کے جسم کے حساب سے مہران کی سیٹ اس کے لیے زائد از ضرورت تھی کیونکہ آجکل چھوٹے ماڈل ہی بہت فیشن میں ہیں خواہ انسانوں میں ہوں یا گاڑیوں میں۔۔!۔۔ کیونکہ اکانومیکل ہوتے ہیں۔چھوٹی جسامت والے ایک ہی زندگی میں دس دس کاروبار بھی کرتے ہیں اور تھکتے بھی نہیں، مجھے تو اتنے کام کرنے کے لیے سات جنم لینے پڑیں گے۔  ابھی پچھلے دنوں ایک فنکشن میں جانے کا اتفاق ہوا،تو ایک حد سے زیادہ کانفیڈنس والی آنٹی آئی اور کہا بیٹا بہت لمبے اور موٹے ہو گئے ہو۔۔۔کوئی ایکسرسائز کیوں نہیں کرتے۔۔۔، ہمارے منہ سے بے اختیار نکل گیا نہیں آنٹی ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ آپ نے ساری زندگی چونی کے ساتھ گزاری ہے اس لیے ہزار کا نوٹ بڑا لگ رہا ہے،ورنہ پانچ ہزار اور دس ہزار کے سامنے بالکل چھوٹا ہے!!!۔۔۔ اب اتنی سی بات پر،جو تشبیہ اور استعارے کا سہارا لیکر کی جائے کوئی بھلا مانس ناراض ہوتا ہے،بھلا۔۔۔ منہ پہ بدتمیز کہہ کر چلی گئی۔۔۔!۔۔حالانکہ آپ لوگ اسکے شوہر کو دیکھتے تو خودہی کہہ دیتے کہ چونی بھی زیادہ کہا ہے۔۔
خیر چکنے استاجی نے کہا دائیں پیر کے نیچے ریس ہے، درمیان والا بریک اور بائیں پیر کے نیچے کلچ ہے جسے ہمیشہ دبائے رکھنا ہے جس طرح ہیڈ ماسٹر استادوں کو،افسر کلرکوں کو اور بیویاں شوہروں کو دبا کر رکھتی ہیں ورنہ گاڑی نہیں چلتی جھٹکے لے لے کر بند ہو جاتی ہے۔۔۔۔!!۔۔ایک راڈ جو دونوں سیٹوں کے درمیان تھااور اُس پر ایک دو تین چار بھی لکھے تھے (باقی لکھائی بھی تھی لیکن مٹ چکی تھی)،کو گئیر کہہ کر پکارا جارہا تھا۔پہلا گیئر آگے بائیں کونے میں لگائیں،دوسرا پیچھے بائیں کونے میں لگائیں، تیسرا درمیان میں آگے۔۔۔۔تیسرا درمیان میں،اور آگے!۔۔مجھے رقیب جیسا لگا۔۔۔کیونکہ عاشق سے آگے بھی ہوتا ہے اورمحبت کرنے والوں کے درمیان بھی!!!!۔۔بندہ جیلس ہی ہوجاتا ہے۔۔۔خیر،اسے جملہءِ معترضہ سمجھ لیجئے۔چوتھا بھی درمیان میں تھالیکن،پیچھے تھا اس لیے عاشق سے پیچھے رہنے والے رقیب نقصان دہ نہیں ہوتے۔ اس لیے بُرا نہیں لگا اور نہ جیلسی فیل ہوئی۔۔اور بس!!!۔۔اتنے ہی گیئر مجھے استاجی نے سکھائے۔۔ ریورس کا اُس کی ڈرائیونگ میں کوئی کانسیپٹ ہی نہیں تھا۔ میں نے اللہ کا نام لیکر گاڑی سٹارٹ کی، اور جلدی جلدی چھت سے لٹکی ہوئی سفر کی دعا بھی زبر زیر درست کرکے پڑھی،اور اپنے اوپر آیت الکرسی بھی دم کی،کیونکہ مجھے اپنی قابلیت کا پتہ تھاکہ کتنی جلدی سیکھتا ہوں۔۔گاڑی جوں ہی روانہ ہوئی زور زور سے کھانستے ہوئے اچھلنے لگی،اور چند فٹ مٹکنے کے بعد سپیڈبریکر کے کھڈے میں رک گئی کیونکہ حکومت نے آجکل سپیڈ بریکرز کی جگہ چھ سات انچ کے کھڈے کھود دیے ہیں، تاکہ کچھ تبدیلی دیکھنے کو ملے۔۔۔  استاجی نے غصّے سے گھورا کلچ سے پیر کیوں اُٹھایا۔۔۔ہم نے کہا۔۔۔سر بریک کے لیے۔۔۔تو بریک کی کیا ضرورت تھی؟۔۔۔سر کھڈے کے لیے۔۔لیکن آپ کے سامنے بھی تو کلچ لگا ہے۔۔آپ دباتے۔۔۔ اُس نے ایک بائیں ہاتھ کا تھپڑ اپنے گنجے اور پسینے سے تر سر پر مارا۔۔جس سے پسینے کی چھینٹیں اُڑکر کچھ میرے منہ پر اور کچھ سامنے والے شیسے (ونڈ سکرین)پر  منتقل ہوگئیں۔۔۔۔ تُجھے کون گدھا ڈرائیونگ سکھائے گا۔۔۔ہم نے انکساری سے، چہرے پر معصومیت لاتے ہوئے جواب دیا!۔۔۔۔سر آپ۔۔!!!۔۔
حالات نارمل ہوئے تو،استاجی نے پھر سے گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی جوسٹار ٹ نہ ہوسکی استاجی نے حکم دیا گاڑی گرم کردی ہے تو نے۔۔۔ہم نے کہا۔۔کونسا بابو سر ٹاپ تک لے کے گیا ہوں۔۔؟؟ ابھی تو بمشکل چار فٹ کا فاصلہ طے کیا ہے۔۔۔گاڑی ہی کھٹاراماڈل ہے!!۔۔۔آپ سے بھی تیز گرم ہوتی ہے۔۔۔ استاجی نے پہلے غصے سے دانت پیسے اور پھر زیرِ لب مسکرائے شاید بات سچ لگی یا سینس آف ہیومر جاگ گیا۔۔۔کہ کھٹارا جلد گرم ہوجاتے ہیں۔۔۔!!!۔۔جس کے لیے گاڑی ہونا شرط نہیں!!!انسان بھی!!!۔۔۔۔خیر جب گاڑی پھر سے رواں دوان ہوئی تو سب سے زیادہ دِقت مجھے گیئر بدلتے وقت پیش آئی کیونکہ استاجی فرما رہے تھے کہ گیئر بدلتے وقت گیئر کی طرف نہ دیکھو بلکہ سڑک پر نظر رکھو!۔۔۔حالانکہ کوئی بھی ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے سڑک پر نظر نہیں رکھتا دائیں بائیں پھرنے۔۔والیوں پہ رکھتا ہے!!۔۔۔لیکن ہم بار بار گردن موڑ کرگیئر اور کلچ کی طر دیکھتے رہتے۔۔۔گیئر سے یاد آیا کہ۔۔۔خواتین لڑائی میں اور بچے روتے ہوئے کافی کیئر تبدیل کرتے ہیں۔۔۔۔مشترکہ فیملیز میں پلنے والے بچے اس راز سے بخوبی واقف ہیں۔جبکہ الگ گھروں میں پیدا ہونے والے اس نعمت سے محروم۔۔۔ویسے میرے پاس زندگی کی جتنی بھی معلومات ہیں میں نے بچپن میں عورتوں کی لڑائیوں سے کشید کی ہیں۔میرا پسندیدہ مشغلہ عورتوں کی لڑائی دیکھنا تھا کیونکہ یہ منہ زبانی ہوتی ہے پرتشدد نہیں ہوتی۔۔۔آجکل کے ٹاک شوز ہی کی طرح۔۔خیر خواتین کے جھگڑے کا اصل مزہ پانچویں گیئر میں آتا ہے، جب گھر میں کوئی مرد نہ ہو۔اور اصل معلومات بھی اسی پانچویں گیئر میں شیئر کی جاتی ہیں۔یعنی تاریخ کے جھرونکے کھولے جاتے ہیں۔
اب استاجی، کے ساتھ یہ دس کلومیٹرکا ٹرپ ہمارا معمول بن گیا اور اسکے ساتھ گپ شپ بھی ہو گئی۔اس نے کچھ اشارے بھی سمجھائے اور سکھائے اور یقین مانیں ہمیں سارے ڈرائیونگ کورس میں اشارے ہی اچھے لگے۔اُردو ادب کا طالب علم ہونے کے ناطے اشاروں اور کنایوں کے ساتھ میرا پرانارشتہ ہے۔خیر ادب میں آنکھ کے اشاروں پر زور دیا جاتا ہے جبکہ ڈرائیونگ کورس میں ہاتھ کے اشاروں پر۔لیکن فرق یہ ہے کہ:ہاتھ کے اشاروں پر رکنا پڑتا ہے اور آنکھ کے اشاروں پر۔۔۔!!!!۔۔۔۔ٹریفک کا اشارہ تو ڑو،تو پر چہ ہوتا ہے جبکہ ادب کا اشارہ کرو(کسی انجان کو) تو پر چہ ہوتا ہے۔ خیر ایک ماہ کی محنت کے بعد ہم گاڑی یعنی کھٹارا مہران گاڑی چلانا سیکھ گئے اور کار میں سکڑ کر بیٹھنا بھی۔۔۔۔!!  ایک دن استاجی نے ایک پرانا انجن دکھایا انڈیکیٹر ز کے بارے میں بتایااور گاڑی میں پانی بھرنا سکھایا۔۔۔۔ لیکن اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس نے سکھایا تو ہم سیکھ گئے!!!۔۔۔۔ استاجی نے ایک دن مجھے نوید سُنائی کہ تم اب اکیلے ڈرائیو کر سکتے جو باطل ہی ثابت ہوا، کیونکہ اکیلے آج تک نہیں کی۔۔۔ اس خوشخبری کے بعد بل کھاتی پہاڑیوں میں ڈرائیونگ کے گر سکھانے کے لیے ایک پہاڑی علاقے کا رُخ کیا،اور پیٹرول کا خرچہ فیس پر اضافہ کرکے میرے کھاتے میں ڈال دیا۔۔۔اوریوں ہم نے کارِ بے کارچلاناسیکھ ہی لی۔
٭٭٭٭

Tuesday, 3 December 2019

افسانہ: تیرامُشرک۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔

میں بھی عجیب انسان ہوں قرآن مجید بچپن سے پڑھا،بلکہ مولوی صاحب سے مع ترجمہ اور تشریح کے پڑھا،لیکن مشرک کی وضاحت اس ڈھنگ سے پہلے کبھی نہ سُنی،جو انیلاکی بے تکی باتوں نے کر دی۔آج اتوار کی صبح میں کمرے میں بستر پر اوندھا پڑاچھٹی کا لطف اُٹھا رہا تھا، جبکہ انیلا کمرے کی صفائی میں مصروف میز اور الماری پر کپڑا رگڑ رہی تھی،اورساتھ میں کچھ بڑ بڑا بھی رہی تھی جب میں نے کی وجہ پوچھی تو جھٹ  سے جواب دیا۔۔۔۔ ”عشق خواہ مجازی ہو یا حقیقی مشرک دونوں میں ملعون اور راندہ ہے۔۔۔ سمجھے!!!“۔۔۔۔شرک کی نہ معافی ہے اور نہ تلافی!!۔۔۔۔۔ہائے!۔۔۔میرے منہ سے بستر پر بیٹھتے ہوئے حیرت سے ہائے  کے الفاظ نکلے۔۔۔  اور دماغ میں بچوں کا جھنجھنا،جھنجھنانے لگا۔۔۔ میں نے تعجب سے سوال کیا۔۔۔کیا؟۔۔مشرک؟۔۔کون مشرک۔۔؟۔۔۔اور انیلا نے میری طرف دیکھے بغیر شیشے پر پرانے اخبار کاگیلا ٹکڑا ملتے ہوئے کمال بے پر واہی سے جواب دیا۔۔”جب سر اور دل دو مختلف جگہوں پر جھکنے لگے تو سمجھو مشرک بن چکے ہو“۔۔۔ میں نے خاموشی سے اُسے گھورنا شروع کیا تو اس نے اپنا لباس درست کرتے ہوئے دوپٹے کا پلو پورے سر پر پھیلایا، اور باقی حصّہ اپنے سینے پر ڈالا، گویا نظروں کے تیراس کے بدن کو چھلنی کر دیں گے۔۔۔ انیلا چند لمحوں کی خاموشی کو توڑتے ہوئے پھر سے بول پڑی:مقصود! جب انسان کسی کو دل سے چاہے،تو اُسے چاہیے کہ: اُسی کا ہوکر رہے!!!۔۔ باقی انسانوں کی زندگی برباد نہ کرے!!!۔۔۔ انیلا کا یہ لہجہ میری چار سالہ ازدواجی زندگی میں میرا پہلا تجربہ تھا۔۔۔ کیونکہ اس سے پہلے وہ اس ٹون میں مجھ سے کبھی مخاطب نہیں ہوئی۔۔ انیلا ایک لمحے کے لیے چُپ ہو گئی لیکن میں نے اپنی زندگی کی کتاب کے صفحات اُلٹاناشروع کردیے۔۔۔
انعم۔۔!!۔۔بڑی بڑی آنکھوں والی انعم!! گوری چٹی اور تیکھے نقوش والی ہنس مکھ انعم!!!۔۔خوبصورتی تو ایک طرف۔۔،جس کے سب لوگ معترف تھے۔۔۔!!!۔۔ لیکن جب میں اس کے قریب بیٹھتا تو سکون اور نفاست کا ایک ہالہ اس کے ارد گرد محسوس کرتا ایک روشنی کا دائرہ جس کے اندر داخل ہونے کے بعد میرے سارے غم دور ہوجاتے اور میرا دل ایک انجانی مسرت سے لبریز ہو جاتا۔میں اُسے چھونے کا قائل نہیں تھا بلکہ اُس کی آواز،اس کے جسم سے نکلنے والی لہریں اور اُس کی سانسوں کی خوشبوماحول کو استغراق کی کیفیت عطاکرتیں۔جب وہ میرے آس پاس ہوتی تو میں اپنی روح کو مکمل تصور کرتااور میری ذات کی تکمیل ہوجاتی۔ جب وہ دور جاتی تو ایسا لگتا بدن کا کوئی حصّہ کٹ چکا ہے اور میں اپاہج ہوں۔۔۔!!۔۔وہ مجھے پیار بھرے لہجے میں مقصود،کہہ کر کسی بات کی طرف متوجہ کرتی تو میری تخلیق کا مقصد پورا ہوجاتا۔
انعم پڑھی لکھی اور سجنے سنورنے کی دلدادہ تھی۔۔۔۔شاید اُسے بھی پیار تھا۔۔۔؟۔۔ نہیں،نہیں۔۔۔شاید۔۔۔اُسے اپنائیت محسوس ہوتی تھی؟؟؟۔۔۔نہیں۔۔لیکن اُسے اُنس تھا!!!۔۔شاید۔۔،کیونکہ میرا،ا ُس کے آس پاس ہونا اُسے بھی مسرور کرتا۔۔۔وہ بھی میرے ساتھ ہوتی، تو چہکتی۔۔۔اور خوب چہکتی۔۔سحر خیز پنچھیوں کی طرح۔۔۔۔اپنے آپ کو دانا ثابت کرنے کے لیے بڑی بڑی باتیں کرتی۔۔۔ مجھ سے پیار جتانے کے لیے میری فضول باتوں سے بھی متفق ہوجاتی۔۔۔سرد شاموں میں سنگِ مرمر کے یخ ٹھنڈے بینچ پر بالکل سامنے بیٹھ کر،سوچوں میں گم ہوجاتی اور ٹکٹکی باندھ کر تکتی رہتی۔۔گھر والے اُسے”انو“ کہتے لیکن میں ہمیشہ اس کا پورانام ادا کرتااور اپنا،پورا نام میرے ہونٹوں سے سن کر اُس کا چہرہ بھی کِھل جاتا۔
میں اُس کے ساتھ ہوتا توجان بوجھ کر بھولا بن جاتا، تاکہ اُسے سمجھانے کا موقع ملے۔۔۔اور وہ خود کو جہاندیدہ ثابت کرسکے۔۔۔وہ مجھے ایک ایک چیز کے بارے میں سمجھاتی۔۔۔ اگر پڑھائی کا کوئی ٹاپک ہوتا تو خود کو مجھ سے زیادہ لائق ثابت کرنے کے لیے مختلف چیزیں ایکسپلین کرنے کی کوشش کرتی اور میں چہرے کے ایسے ایکسپریشن دیتا کہ اُسے اپنی قابلیت کا یقین ہوجاتا۔۔۔ انعم میری گنہگار زندگی کی کوئی قبول عبادت تھی، یا تہجد کی کوئی معصوم سی دُعا۔۔۔ وہ مجھے دنیاکی حقیقت سمجھانا چاہتی تھی اور میں صرف اُس کو دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔جب وہ کچھ سمجھانے لگتی،تو میں دھوپ کی عینک میں صرف اس کے چہرے کی معصومیت،اور آنکھوں سے چھلکنے والی ذہانت کو دیکھتا رہتا۔۔۔اور پھر آسمان کی طرف مُنہ اٹھا کر دھیرے سے کہتا۔۔۔۔شکریہ اللہ جی!!!۔۔۔
وقت گزرتا گیا۔۔بلکہ خوشی خوشی گزرتا گیا،لیکن جب ہم دونوں نے اس ادھورے بندھن کو عمر بھر کے لیے باندھنا چاہا توانعم کے والدین کی غیرت والی رگ پھڑک اُٹھی۔۔۔ایک محلے دار سے یہ بھی کہا گیاکہ: کسی کتے کے پلے باندھ دوں گا لیکن مقصود کا گھر آباد نہیں کرے گی میری بیٹی!!!۔۔۔یہ ضد تھی؟۔۔۔ انا تھی؟۔۔۔بیٹی پر غصّہ تھا؟؟۔۔۔۔۔ یا پشتون کلچر؟۔۔کیونکہ نہ خاندانوں کے سٹیٹس میں فرق تھا اور نہ ذات پات کا کوئی مسئلہ۔لیکن اسکا باپ ٹس سے مس نہ ہوا۔۔۔اور اپنی ضد پوری کرلی۔۔پھر؟؟۔۔۔۔ پھر کچھ نہیں ہوا!۔۔۔۔بلکہ ایک دن انعم کی شادی کوئٹہ میں کسی سرکاری ملازم سے ہوگئی۔۔۔ انعم اتنی دور چلی گئی کہ سالوں تک اپنے علاقے کی ہوا تک نہ لگی۔۔۔اور پھر اس کے بچے ہونے لگے،ایک، دو، تین۔۔۔ اوریوں انعم ماممتا میں سر تا،پاڈوب گئی۔۔۔۔انعم کو میں نے بھگانے کی ترکیبیں بھی بنا ئیں۔۔۔لیکن۔۔۔ وہ صرف اپنے باپ کی بیٹی تھی۔۔۔ اور اب اپنے بچوں کی ماں۔۔۔مجھ سے صرف اُنس تھا۔۔۔شاید!!۔۔۔اُنس۔۔!!۔۔نہیں!۔۔۔اُنس۔۔ہاں اُنس ہی تھا!!۔۔
گھر والوں نے زور دیا، معاشرے نے طعنے مارے اور بڑی بوڑھیوں نے مردانہ کمزوری کے مفروضے قائم کیے۔۔۔ ہر آنے جانے والی عورت میری ماں سے کہنے لگی بیٹے میں کچھ مسئلہ ہے؟۔۔۔ شادی کیوں نہیں کر رہا۔۔؟؟۔ اورنہ چاہتے ہوئے بھی مجھے انیلا کو قبول کرنا پڑا۔۔۔میرا بھائی جب کبوتروں کا نیا جوڑا بنا نا چاہتاہے، تو اُسے تین روز اکھٹے ایک دڑبے میں صبح شام بند رکھتا ہے،کچھ دنوں تک نر مادہ لڑتے ہیں،گٹکتے ہیں اورپھر کمپرمائز کر لیتے ہیں اور جوڑا بن جاتا ہے۔۔۔ ہمارے معاشروں کی اکثر شادیاں بھی ”دڑبا چاہت“ کے پیٹرن پر بنتی ہیں یعنی اکھٹے ایک کمرے میں بند ہوئے،کوئی سبیل نہ بنی اور چاہت، چاہت شروع ہوگئی۔۔۔ لیکن میں اس دڑبا چاہت کی زد میں نہیں آیا۔۔ عورت ذات بھی بڑی کائیاں ہوتی ہے،بات کی تہہ تک بڑی جلدی پہنچ جاتی ہے،اُسے چند ہی دنوں میں پتہ چل گیا کہ مقصود کا صرف چھلکا باقی ہے،اور روح نکل چکی ہے۔۔۔ہم دونوں نے زندگی کے چار سال ایک ہی چھت کے نیچے دو الگ الگ پلنگوں پر انجان مسافروں کی طرح گزار لیے۔۔۔۔دُنیا کی نظروں میں ایک ہنستا بستا اور خوشحال جوڑاکمرے کے اندر دو الگ دنیاؤں کے مسافروں  پر مشتمل رہا۔۔۔شاید ایسے دیس کے مسافر جو ایک دوسرے کی زبان تک نہیں جانتے۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ: انیلا بھی کسی مقصود کے لیے انعم ہو، لیکن مجھے اپنی انعم کی یادیں سات جنم گزارنے کے لیے کافی تھیں۔۔۔کیونکہ ہم کبوتر نہیں،انسان تھے۔۔۔ہمیں ربّ نے یاد رکھنے کی صلاحیت دی تھی۔۔۔ اور میں انعم کو کیسے بھول جاتا۔۔۔؟۔۔ کیا کوئی اپنی روح سے کٹ کر باقی رہ سکتا ہے۔۔۔۔؟۔۔۔
انیلا شاید اس بے کیف اور اُجڑی زندگی سے اب تنگ آچکی تھی۔۔اور طعنوں پر اُتر آئی تھی۔۔۔وہ مجھے اپنانا چاہتی تھی۔۔۔وہ ایک گھر چاہتی تھی۔۔۔ایک مکان نہیں۔۔ایک شوہر چاہتی تھی۔۔۔یادوں کا پرانا قبرستان نہیں۔۔۔!!۔۔۔لیکن میری حیثت ایک قبر سے زیادہ نہ تھی۔۔۔اور اس قبر میں بھی ایک بوڑھا عشق دفن تھا۔۔۔ ایک قبر کسی زندہ کو دے بھی کیا سکتی ہے۔۔۔اور مجھ جیسی بے فیض قبر سے مایوسی کے سوا،کسی کو کیا فائدہ پہنچے!!۔۔ انیلا بے چاری نے اس قبر پر چار سال تک سجدہ کیا، بہت سے پاپڑ بیلے لیکن بے سود!۔
انیلا نے آج مشرک اس لیے کہا: کیونکہ میں نے اُس سے شادی کے لیے ہاں کی، اور اسکی زندگی برباد کی۔۔۔۔میں نے سماج کے آگے سر جھکا لیا تھا۔۔!۔۔ لیکن انیلا کو صرف دُکھ دیے۔۔۔۔،طعنوں کے ڈر سے شادی کے لیے ہاں کی!۔۔،گھر والوں کے فیصلے قبول کیے!۔۔لیکن میری روح انعم کے طواف میں گم رہی،جبکہ انیلا ایک شوہر کے لیے ترستی رہی۔۔میں واقعی ایک مشرک بھی تھا!!۔۔اور نیلا کا گنہگار بھی۔!!!۔ کیا میں نے شادی کے لیے ہاں کہہ کر انعم کے عشق میں انیلا کو شریک کیا تھا۔۔۔؟؟؟۔۔یا میں انیلا کا گنہگار تھا؟؟۔۔۔میرے دماغ میں جھنجھنا بجتا رہا۔۔۔!!!۔۔
انیلا کی زندگی کے چار سال میری وجہ سے برباد ہوچکے تھے۔لیکن اُس کی پوری زندگی برباد کرنے کا مجھے کوئی حق حاصل نہیں تھا۔۔۔ میں نے اپنی جمع پونجی اور سارے گہنے،جلدی جلدی سمیٹ کر اس کی گٹھڑی سی کپڑے میں باندھ کر انیلا کے حوالے کی۔۔۔اور چار سالوں میں پہلی بارانیلا کا ہاتھ پکڑ کراُسے اپنی جانب کھینچا۔۔۔ اُس کا ماتھا میرے لِپ لیول پر آیا اور میں نے اُس کے ماتھے پر ایک لمبا، پہلا اور آخری بوسہ ثبت کردیا۔۔۔۔ پھراُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر۔۔۔وقفے۔۔ وقفے سے ایک،دو اور پھر تین کہہ کر، تین طلاقیں پوری کردیں۔۔۔ یہ بوسہ اُن چارسالوں کی ندامت کے لیے تھا جو میں نے اس کی زندگی سے منہا کیے تھے۔۔۔اُس نے برقع اُٹھایا اوروتے، بلکتے ہوئے میرے کمرے سے نکل گئی۔۔۔لیکن نکلنے سے پہلے گہنوں کی گٹھڑی میرے پلنگ پر اس زور سے پھینکی کہ سب کچھ کمرے میں بکھر گیا۔۔۔اُس کو روتا دیکھ کر میری آنکھوں سے بھی آنسو ٹپکنے لگے، اور میں دروازے کا چوکھٹ تھامے اُسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔۔۔ شاید میرا بھی چار سالوں کا اُنس تھا۔۔۔اور انیلا کا بھی۔۔۔!!! اس لیے وہ بھی روتے ہوئے، سرخ آنکھوں سے مجھے بار بار مڑ کے دیکھ رہی تھی۔اور گھر کے مین گیٹ کی طرف پیر گھسیٹ گھسیٹ کر قدم بڑھا رہی تھی۔
٭٭٭٭
نوٹ: یہ کہانی فکشن ہے اور اس کے تمام کردار فرضی ہیں۔کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقیہ ہوگی۔
جملہ حقوقِ اشاعت بحقِ مصنف محفوظ ہیں۔
تحریر:   وسیم خان عابدؔ

Tuesday, 13 August 2019

غزل: اب بھی منصور محبت کی قسم کھاتا ہے

درحقیقت  کوئی معقول سی مجبوری ہو؟
ورنہ کب کون کِسےچھوڑ کے یوں جاتا ہے

تو بھی ہر روز خیالوں میں مری بنتی ہے
جی تُجھے خواب میں چھونے سے بھی گھبراتا ہے

رات کے پچھلےپہر ہوک سی اِک اُٹھتی ہے
میرے پہلو میں تِرا درد سمٹ آتا ہے

جان! گفتار پہ تعزیر نئی بات نہیں
اب بھی منصورمحبت کی قسم کھاتا ہے

سارے آوارہ مزاجوں کی قسم اب عابدؔ
 نہ ہی گھر رکھتا ہے،نہ دیر سے گھر جاتا ہے


وسیم خان عابدؔ

رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن

Saturday, 10 August 2019

افسانہ: تینتیس دانت

یار!۔۔جن لڑکیوں کے سامنے والے دو دانت باقی دانتوں سے چوڑے ہوتے ہیں نا۔۔۔۔وہ بہت کیوٹ اور شریر ہوتی ہیں۔۔۔ارشاد کہتے کہتے رُک گیا اور میری طرف تبصرہ طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔ میں آج بالکل بھی بحث کے موڈ میں نہیں تھا کیونکہ دردِ شقیقہ نے سارا دن میرا رس نچوڑا تھا،اور اب کئی پین کلرزلینے کے بعد نڈھال سا شام کی بیٹھک میں بیٹھا باتیں سُن رہا تھا۔۔۔ اسی لیے چائے کی پیالی سے ایک چھوٹا سا سِپ لیااور خاموشی سے ارشاد اور فرحان کو سُنتا رہا۔۔  ارشاد نے بات بڑھانے کے لیے آگے سے ایک اور لقمہ دیا۔۔۔ لیکن جس کے ڈریکولا دانت کے اوپر ایک ٹیڑھاسا چھوٹا دانت زائد نکلا ہو،اُس کی مسکراہٹ کلیجے چیرتی ہے!۔۔۔ میں نے چائے کی پیالی سے ایک اور سِپ لیا اور ارشاد کی طرف روئے سخن کرکے دریافت کیا۔۔۔ ارشاد!  یار اِس قیافہ شناسی اور دندان شناسی کے نئے فارمولے کہاں سے اخذ ہورہے ہیں؟۔۔۔  ارشاد نے قہقہہ لگا کر فرحان کو چھیڑنے کے انداز میں بات شروع کی۔۔  وسیم بھائی!ماخذ کا پتہ تو فرحان بھائی دیں گے۔۔۔  ہم تو صرف اُس علم کی تشہیر اور تبلیغ کررہے ہیں،جس کی سند فرحان بھائی ہیں۔۔۔  فرحان!  پھر سے یہ سوشل ریسرچ کہاں ہورہی ہے،جس سے نئی نئی تھیوریاں اُبل اُبل کر مارکیٹ میں آرہی ہیں؟میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ان دونوں کی باتوں میں حصّہ لے لیا!۔۔  وسیم بھائی! وہی ملی تھی کل شام،پشاور کی شفیع مارکیٹ میں!۔۔۔ میں نے استفسار کیا۔۔کون وہی۔۔؟۔۔۔ اس نے کچھ بتانے سے پہلے شعرپر اکتفا کر نا ضروری سمجھا۔، ۔۔۔ دوسری بار بھی ہوتی تو تم ہی سے ہوتی۔۔ میں جو بالفرض محبت کو دوبارہ کرتا۔۔۔  ارشاد اور میں نے ہلکی سی واہ واہ کی۔۔۔ تو وہ جھینپ گیا۔۔اور سر جھکا کر کہنے لگا۔۔۔  بھائی کیابھول گئے، اُس تینتیس دانتوں والی کو۔۔؟۔۔۔۔سُنایا تو تھاپوراقصّہ۔۔۔!۔۔
فرحان پشاور یونیورسٹی کا انتہائی لائق فائق اور ذہین طالب علم تھا۔۔۔وہ میڑک سے ہر امتحان میں اے پلس گریڈ لے رہا تھا۔۔۔پشاور یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری بھی گولڈ میڈل کے ساتھ لے چکا تھا،اور اب ایم فل سکالرتھا۔۔۔ گاؤں میں کبھی کبھار آنا ہوتا،کیونکہ اُسے اپنے گاؤں کی زندگی کبھی بھی راس نہ آئی۔ فرحان اور ارشاد سے میری دوستی ایک ہی کلب میں کرکٹ کھیلنے سے ہوئی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اٹوٹ بن گئی۔۔۔ فرحان کا ہر کام پرفیکٹ تھا،خواہ کھیل کا میدان ہو،پڑھائی ہو،یاکالج کی بزمِ ادب تقریبات کا ڈائس۔۔۔۔  لیکن اُس میں ایک نمایاں خامی، بے جا جذباتیت تھی۔۔۔ کچھ لوگوں کے مزاج سخت اور کچھ کے نرم ہوتے ہیں لیکن فرحان محبت مزاج تھا۔۔۔ اُسے ایک عشق سینکڑوں لوگوں سے سینکڑوں مرتبہ ہوچکا تھا۔شاید اُسے لوگوں سے نہیں، بلکہ محبت سے محبت تھی۔ پچاس کے قریب سچے عشق تو اُسے پبلک ٹرانسپورٹ میں لکی مروت سے پشاور جاتے ہوئے ہوچکے تھے۔۔۔ کوئی بھی رومینٹک گانا پسند آتا تو دن رات ایک ہی گانا کانوں میں ہینڈ فری کی ٹونٹیاں لگائے بار بار سُنتا رہتا اور اُس کی آنکھیں سچی محبت کی تلاش میں سرگرداں رہتیں۔۔ پھر جس پر یہ نگاہیں رُکتیں اُس سے محبت ہوجاتی۔۔۔ وہ اُس محبت میں آہیں بھی بھرتا۔۔۔آنکھوں سے نیند بھی رُخصت رہتی لیکن اُس کی پڑھائی پر کوئی منفی اثرنہ پڑتا۔۔۔ ارشاد اور میں دن رات پڑھنے کے باوجود بھی اُن نمبروں کے لیے ترستے جو وہ محبتوں اور فراق کے صدموں کے باوجود آسانی سے حاصل کرلیتا۔۔۔ اگر کوئی اُسے ٹھکرا کر چلی جاتی،تو اس جدائی اورصدمے میں سگریٹ اور نسوار دونوں بیک وقت استعمال کرنے لگ جاتا، ورنہ عام طور پر، دو میں سے صرف ایک ہی پر اکتفا کرتا ہے۔۔۔ جب کسی محبت میں شدید دُکھ ملتااور چوٹ سیدھی دل پر لگتی تو فرحان کے نسوارکی گولی جو نچلے جبڑے کی د اڑھوں کے پاس عموماََ پڑی رہتی، ترقی کرکے اوپری دانتوں اور ہونٹ کے درمیاں آجاتی، اور آدھی مونچھ پھول جاتی۔۔۔ بچوں کے کنچے سے بڑی نسوار کی گولی فرحان کے مُنہ کو ٹیڑھا کر دیتی، اس لیے ان دِنوں میں وہ کسی سے سیدھے مُنہ بات نہ کرتا۔
تینتیس دانتوں والی ماہ نور بھی اُسے پبلک ٹرانسپورٹ میں ملی تھی۔  فرحان اُس روز دورانِ سفرفلائنگ کوچ میں ہینڈفری کے ذریعے اپنا پسندیدہ ہندوستانی فلمی گیت ۔۔ہم جو ہر موسم پہ مرنے لگے،وجہ تم ہووجہ تم ہو۔۔۔ہم جو شعر و شاعری کرنے لگے،وجہ تم ہو وجہ تم ہو۔۔  بار بار سُن رہا تھا،اور اُس کے کسی محبت میں مبتلا ہونے کے چانسز کئی گُنابڑھ چکے تھے جبکہ ماہ نور اُس کے عین سامنے والی لیڈیز سیٹ پراُس کی طرف پشت کرکے بیٹھی اپنے ٹچ موبائل سے کھیل رہی تھی۔ جب وہ دونوں پشاور میں فلائنگ کوچ سے اُترے تو یونیورسٹی کی مشترکہ بس پکڑ لی اور یونیورسٹی کے مین گیٹ سے ایک ساتھ اندر داخل ہوگئے۔اب اتنے اتفاقات کے بعد بات چیت میں پہل نہ کرنا فرحان کے لیے کفرانِ نعمت کے مترادف تھا، اس لیے آگے بڑھ کر بڑا سا سوٹ کیس حوالہ کرنے کی درخواست کی، کیونکہ گرلز ہاسٹل یونیورسٹی کے مین گیٹ سے کافی دور تھا۔ سامان کی زیادتی کے باعث نہ چاہتے ہوئے بھی  ماہ نور نے اپنا سوٹ کیس اُسے پکڑا دیا۔۔۔ ماہ نور نے بھی راستے میں فرحان کو نوٹس کیا تھا کیونکہ چار گھنٹے سے ہمسفر تھے۔۔۔ اس لیے جھٹ سے سوال کیا، نیو ایڈمیشن ہو، نا؟۔۔۔ جی!  فرحان نے معصومیت سے جواب دیا۔۔۔ماہ نور نے پھر سے سوال کیا۔۔۔کونسا ڈیپارٹمنٹ ہے؟۔۔۔جی، انگلش لٹریچر۔۔۔۔اچھا بہت اچھا۔۔۔۔اُس نے سرگوشی کے انداز میں چلتے چلتے الفاظ ادا کیے۔۔۔۔میں سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ سے ہوں اور میرے فائنل ایگزام شروع ہونے والے ہیں اس لیے مہینہ،بیس دن کی مہمان ہوں یونیورسٹی میں۔۔  اگر فیکلٹی میں کچھ کام ہو تو مجھے بتانا،میرے خاندان کے بہت سے لوگ یونیورسٹی کے ملازم ہیں۔۔۔لیکن غیر قانونی کام نہ ہو،ٹھیک!۔۔اُس نے اپنی بات ایک تبسم پر ختم کی اور اُس کی دیکھا دیکھی فرحان کے چہرے پر بھی مسکان دوڑنے لگی،ٹھیک ہے جی!۔۔۔لیکن فرحان کو اُس کی مسکراہٹ کچھ الگ محسوس ہوئی،باقی لوگوں سے دلکش اور خوبصورت۔
پھر جتنے دن ماہ نور یونیورسٹی میں رہی فرحان سے گاہے بگاہے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔۔۔ فرحان کی زبانی ماہ نور کے نین نقش سے زیادہ اُس کے تینتیسویں دانت کے چرچے سُنے، حالانکہ ہم نے کبھی اُس کو دیکھا نہیں تھا۔بقول فرحان کے،تینتیسواں دانت اُس کے ڈریکولا دانت کے اوپربے جا نکل آیا تھا،اور اُس کی مسکراہٹ کو جاذب ا ور اُسے جمیل بنا رہا تھا۔فرحان کو ماہ نور کے یونیورسٹی سے جانے کے بعد بہت سی سچی محبتیں لاحق ہوتی رہیں،لیکن وہ باتوں باتوں میں لاشعوری طور پر ماہ نور کی مسکراہٹ کا ذِکر چھیڑتا رہتا۔ ماہ نور اور فرحان کی دوستی،ماہ نور کے یونیورسٹی سے جانے کے بعد بھی موبائل فون او روٹس ایپ کی ویڈیو کا ل کے ذریعے جاری رہی۔۔۔  لیکن پھر کہانی میں ماہ نور کے بچپن کا منگیتر کود پڑا، اور فرحان سے تینتیسویں دانت کی مسکراہٹ چھین لی۔ ماہ نور بھی شاید ٹائم پاس کررہی تھی،کیونکہ اس رشتے پر وہ نہ روئی دھوئی،نہ سسکیاں بھریں اور نہ گھر والوں کو خودکُشی کی دھمکیاں دیں،بلکہ ہنستے مسکراتے اپنے بچپن کے منگیتر کی دُلہن بن گئی۔
فرحان کے مُنہ میں نسوار کا کنچامسلسل چار ہفتے تک اوپری ہونٹ کے نیچے دبا رہااوروہ کیپسٹن کے سستے سگریٹوں کا دھواں اپنے ٹیڑھے مُنہ سے ادھر اُدھرپھونکتا رہا۔ ہم دوست تواس مرتبہ  اتنے ڈر گئے تھے کہ اُسے اکیلا چھوڑنے کے بھی روادار نہ تھے، کہ مبادا بجلی کی ننگی تاروں کو چُھو کر خود کو کوئلہ نہ کرلے۔۔۔ لیکن پھر وہ،ایم اے کے امتحانات کے سلسلے میں یونیورسٹی چلا گیا اور جب ریزلٹ آیا تو گولڈ میڈل کا حقدار ٹھہرا تھا۔۔۔اور ان امتحانات کے دوران،یونیورسٹی میں نوواردطالبہ سروش کے سِلکی بالوں کا اسیر ہو چکا تھا۔۔۔ اب یہ سلکی بال تینتیسویں دانت پر تقریباََ حاوی ہو چکے تھے،اور ہر دوسری بات میں ان کالے، لمبے، گھنے اورسِلکی بالوں کا ذِکر چِھڑتا رہتا۔
لیکن آج فرحان پھر سے غمگین اور شاعرانہ موڈ میں تھا۔ نسوار کا کنچا اُس کے اوپری ہونٹ میں صاف دِکھ رہا تھا۔میں اپنی چائے کی پیالی ختم کر چکا تھا، اور اُسے سُن رہا تھا۔۔ اُس کی گردن سے ہینڈ فری کی ٹونٹیاں لٹک رہی تھیں شاید حجرے میں آنے سے پہلے اپنے موبائل سے کوئی رومینٹک گانا قطرہ قطرہ اپنے دماغ میں سینکڑوں مرتبہ انڈیل چکا تھا۔۔۔ یار وسیم! مجھے کل ماہ نورپشاور صدر بازار کے شفیع مارکیت میں ملی تھی۔۔ اسکا شوہر شاید کہیں کار پارکنگ میں کھڑا تھا،لیکن وہ مجھ سے دوستوں کی طرح بڑی گرم جوشی سے ملی،بلاخوف و تردد۔۔۔ پانچ دس منٹ میں اس نے بہت ساری باتیں کیں اور میں خاموش کھڑا اُس کی مُسکان دیکھتا رہا۔ شوہر کی طرف سے موبائل فون کی ممانعت کی وجہ سے رابطہ نہ رکھنے پر بھی معذرت کی۔۔لیکن؟۔۔۔۔۔لیکن کیا؟میرے مُنہ سے اُس کے لیکن کہنے پر، غیر ارادی طور پر فوراََسوال نکل گیا۔۔۔ لیکن یہ،کہ اُس کا حُسن اور اُسکی مسکراہٹ شادی کے بعد مزید قاتل ہوچکے ہیں!۔۔۔میں نے کہا،یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔۔وہ مُنہ ٹیڑھا کرکے مسکرانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔۔ہاں!ہاں!۔۔۔ لیکن اِس سے بھی زیادہ  اچھی بات یہ ہے کہ، اُس کی چھوٹی سی بچی کا بھی ایک دانت ڈریکولا دانت کے اوپر نکلاہے،اور وہ بھی بالکل ماہ نور کی طرح مسکراتی ہے!۔۔۔۔
٭٭٭٭٭
   وسیم خان عابدؔ

نوٹ: ۔ کہانی کے تمام کردار فرضی ہیں،کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقی ہوگی۔
  ۔ جملہ حقوقِ اشاعت بحقِ مصنف محفوظ ہیں۔

Tuesday, 25 June 2019

افسانہ: جنوں ہے یا فسوں ہے۔۔۔یوں ہے


نایاب کو میں نے جان بوجھ کے شادی کے لیے منع کر دیا، کیونکہ میں ایک کسان کا بیٹا،جسے چار بڑے بھائیوں نے والدین کی وفات کے بعد گھر سے نکال دیا،کیسے اُس کی زندگی چاند تاروں سے بھرسکتاتھا؟ بھائیوں نے علاقے کے بڑوں (مشران)نے فیصلے کا سہارا لیکر آبائی گھر اپنے پاس رکھ لیا اور مجھے ایک عدد کچا مکان جس میں صرف ایک کمرہ تھا،حوالہ کردیا۔ تقسیم کے نام پر سب اچھی ذرخیز زمینیں اپنے لیے رکھ لیں اور میرے نام بنجر نما زمینیں منتقل کردیں،کیونکہ میں میٹرک کا طالب علم تھااور زمین جائیداد کے چکروں سے ناآشنا!۔بمشکل میٹرک پاس کرکے اپنی زمینوں کی دیکھ بھال سنبھال لی اور اپنے لیے سالانہ اناج اگانے لگا۔ بس یہی میرا گزر بسر، روزی روٹی اور کل اثاثہ تھا۔
نایاب کے والد ایک اچھے سرکاری ملازم اور اونچے خاندان سے تھے۔ میرے نئے مکان سے متصل ان کاخوبصورت اور عالیشان گھر تھا۔پانچ افراد کا یہ خوشحال گھرانہ،جس میں والدین سمیت دو بیٹے اور ایک چھوٹی بیٹی نایاب شامل تھی، میرے لیے باعثِ رشک تھا۔وقت گزرتا گیا اورپھرا نجانے میں، نایاب اور میری جان پہچان کے بعدہماری محبت کا آغاز ہوگیا۔۔۔ شاید قربِ مکان اصل وجہ تھی، ورنہ باقی تونایاب اور میری مثال سنگِ مرمر اور کچی مٹی کی سی تھی جسکا جوڑ کبھی بھی قابلِ برداشت اور دیر پا نہیں رہتا۔۔۔ لیکن محبت کے دس سال پلک جھپکتے گزر گئے۔نایاب نے اپنی تعلیم مکمل کرلی اور میری زندگی ان ہی شب وروز، زمینوں اور کھیتی باڑی میں رُکی رہی۔ لیکن ان دس سالوں اور تعلیم کے بعد بھی نایاب کی محبت اور توجہ میں کمی نہ آئی۔۔۔وقت گزرتا رہا اور پھر ایک دن نایاب کے لیے ایک بڑے سرکاری انجینئر کا رشتہ آگیا۔  دونوں گھرانے اس رشتہ کو جلد از جلدطے کرنے کے لیے پاگل ہورہے تھے،لیکن ابھی نایاب کی ہاں باقی تھی۔۔۔ 
نایاب نے کچھ عرصہ  ٹال مٹول سے کام لیا لیکن جب بلا سر سے ٹلتی نہ دیکھی،توایک شام گھر والوں کی نظروں سے بچ کر ملاقات کے لیے وقت نکالا۔۔۔اور شادی کی ضد کرنے لگی، میرے انکار پر وہ سسکیاں بھر کر رونا شروع ہوگئی، جس کی ہلکی سی ہچکی کی آواز جنوری کے دھندلے اندھیرے میں دور تک ارتعاش پیدا کرتی چلی جاتی۔۔۔۔ مُجھ سے کیوں پیچھا چھڑانا چاہتے ہو؟۔۔اُس کے سوال میں جواب طلبی سے زیادہ ایک بے بس التجا تھی۔۔۔۔۔ پیچھا نہیں چُھڑا رہا پگلی!۔۔ہماری حیثیت میں فرق ہے زمین آسمان کا فرق!۔۔۔ اُس نے پھرسے ہچکی لی۔۔۔اگر اپنانا ہی نہیں تھا تو پہلے دن ہی روک لیتے؟۔۔۔اُ س کے لہجے میں تلخی دھر آئی۔۔۔  اوردوپٹے کے پلو سے آنکھوں کے کونوں سے سرکتی ہوئی بوندیں صاف کیں۔۔۔تمہیں کیسے سمجھاؤں نیئی (نایاب کو میں اپنائیت اور بے تکلفی سے نیئی کہہ کر پکارتا تھا)۔۔۔سمجھنے کو کوشش کرو۔۔ اُس وقت میں بھی انجان تھا۔۔۔ اس سماج کے اصولوں سے، اونچ نیچ اور ذات پات کے بندھنوں سے۔۔۔میری مجبوریوں کو سمجھونیئی۔۔میری مجبوریوں کو سمجھو!۔۔ میں بھی نہیں جانتا تھا کہ انسان کا رتبہ، دولت،خاندان اور اچھی نوکری سے بنتا بگڑتا ہے!۔۔۔ لیکن ایک مرتبہ بابا سے بات تو کرو،وہ دل کے اچھے ہیں،نانہیں کریں گے۔۔بات کرنے میں کیا حرج ہے؟۔اُس نے پھر سے امید کی کٹی پتنگ کی ڈوری تھامتے ہوئے، مجھے ہمت دینے کی کوشش کی۔۔۔ نیئی میں بات کرچکا ہوں۔۔۔اپنے بھائیوں، بھابھیوں بلکہ اپنے خاندان کے بڑے بزرگوں سے بھی بات کی ہے۔سب نے مجھے دھتکارا ہے۔۔۔ اُن سب نے یہی کہا ہے کہ ایسا سوچنا بھی گناہِ کبیرہ ہے۔۔۔ اور ایسی بات منہ سے نکالنا اپنے پورے خاندان کو خود ہی قتل کرنے کے مترادف ہے۔۔۔ ہم غریب اس سماج کے شودر ہیں،نیئی!۔۔۔ہم کسانوں کی حیثیت تمہارے خاندان کے سامنے دوکوڑی کی بھی نہیں!۔۔۔ نیئی پاگل مت بنو!۔۔انجینئرتمہیں خوش رکھے گا!۔۔۔۔۔ اُس نے اپنی  ہچکی روکتے ہوئے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں بھینچ لیا۔۔۔جیسے آتش فشاں کو پھٹنے سے روک رہی ہو۔۔۔ وہ کھل کر رونا چاہتی تھی،چیخنا چاہتی تھی،لیکن منہ بند تھا!۔۔۔  اُس کی آنکھیں کھولتے پانی کی طرح اُبل رہی تھیں، جس میں گزشتہ دس سالوں کی ساری ملاقاتیں اور پیا ر بھری باتیں،ایک ایک کرکے اُبھر آئی تھیں۔۔۔۔کچھ دیر خاموش بے حس و حرکت کھڑی مُجھے گھورتی رہی، اور پھربولنے کے لیے توانائی اور حوصلہ جمع کرکے مُنہ دوسری طرف پھیر ا،اور اپنے آخری الفاظ کمال بیگانگی اور گستاخی سے ادا کیے۔۔۔بے شک،خوش رکھے گا!۔۔ اور دوڑ کر دروازے سے نکل گئی۔۔۔۔ 
اس آخری ملاقات کے ایک ہفتے کے اندر اندر میں نے اپنا گھر اونے پونے داموں بھائیوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا،اور شہر سے دور ایک غیر آباد علاقے میں ایک مکان خریدا،جس کی تعمیر اور حالت پہلے والے مکان سے قدرے بہتر تھی، کیونکہ اس میں پکی اینٹوں سے بنے دوکمرے تھے،ایک کمرے کے ساتھ اٹیچ باتھ روم پلس واش روم اور ایک کنال کا صحن بھی تھاجس کی پکی چاردیواری تھی، لیکن ویرانے میں ہونے کی وجہ سے دام نہایت معقول تھے۔۔ایک کمرے میں اناج اور کچن کا سامنا پڑا رہتا اور دوسرے کمرے میں، میں نے رہائش رکھ لی۔چند ماہ بعد نایاب کی شادی ہوگئی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ کسی بڑے شہر منتقل ہوگئی۔۔۔
اس نئے گھر میں رہتے ہوئے مجھے ایک سال ہوچکا تھاکہ اچانک کچھ عجیب سے واقعات رونما ہونے لگے۔۔۔  پہلے پہل جب میں باتھ روم کے اندرجا کر پانی کا نل کھولتا،تو مجھے اُس گرتے پانی میں سے نسوانی فریاد کی آوازیں سُنائی دینے لگتیں۔۔لیکن پانی کا نل بند کرنے پر وہ آوازیں خود بخود ختم ہوجاتیں۔ میری راتوں کی نیند کم ہونے لگی اور جب آنکھ لگتی، تو کوئی بہت ہی ڈراؤنا خواب دیکھ کر آنکھ کھل جاتی، دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں، حلق میں خشکی کی وجہ سے کانٹے  چبھنے لگتے،اور باقی رات جاگتے ہوئے گزرتی۔۔۔ دن کے وقت بھی وہی خوفناک چہرے میرے ذہن میں تصویروں کی شکل میں ابھر ابھر کر سامنے آتے اور بے چینی میں اضافہ کرتے۔۔۔ میں تنہائی کا عادی تھا،اور غیر مرئی طاقتوں کا ڈر کبھی بھی دل میں نہیں بٹھایا۔۔۔ اعلیٰ تعلیم نہ ہونے کے باوجود بھی جن بھوت،بدروح یا کسی غیر مرئی مخلوق پر اعتقاد نہ تھا۔۔۔ جو کچھ آنکھوں سے دیکھتا اسی کو زندگی سمجھتا۔۔۔ زندگی میں کبھی نماز روزہ کا احتمام نہ کیا اور نہ کبھی کسی پیرفقیر کے ڈیرے یا کسی ولی کے مزار،یا درگاہ پر حاضری دی،کیونکہ ان سب باتوں کی میرے ہاں کوئی اہمیت نہ تھی۔۔۔  لیکن نسوانی آوازیں آہستہ آہستہ تیز ہونے لگیں،اور پانی کے کھلے نل کے بغیر بھی سُنائی دینے لگیں۔۔ شام ڈھلتے ہی گھر کے تاریک کونوں سے ابتسام۔۔۔۔ابتسام۔۔۔کی صدائیں اُٹھنی شروع ہوجاتیں، اور صبح کی آذان تک وقفے وقفے سے جاری رہتیں۔۔۔ ہر رات میرے لیے ایک اذیت اور کرب کا پیغام لیکر آتی۔۔لیکن دن کچھ آرام سے گزرجاتا۔۔
پھر کچھ عرصہ بعد گھر کے مین گیٹ پر دستک کا سلسلہ شروع ہوا،میں دن میں سو سومرتبہ بڑے گیٹ تک جاتا،لیکن کسی دستک دینے والے کو نہ پاتا۔۔۔ میرے بھائی، میرے بھتیجے مجھ سے کیوں ملنے آتے۔۔میرا کون تھا جو میرے جینے مرنے کی فکر کرتا۔۔نیئی کو تو میں نے خود اپنے ہی ہاتھوں کھودیا تھا۔۔۔کیونکہ اگر اُس کا باپ راضی بھی ہوجاتا،تب بھی میں اُسے نہ اپناتا۔۔۔ میں اُس سے بے پناہ محبت کرتا تھااور اب بھی کرتا ہوں،اس لیے اپنی غربت، بے بسی اور نیچ خاندان کی کالک سے اُس کی روشن زندگی کیوں تاریک بناتا؟میں اتنا خودغرض نہیں تھا۔۔۔ نیئی کے علاوہ باقی کسی کو کیا پرواہ تھی میرے ہونے نہ ہونے کی!۔۔۔۔ لیکن میں جب دستک کے جواب میں گیٹ نہ کھولتا، تو اس پر پڑنے والے ضربات شدید سے شدید تر ہوتے جاتے اور برداشت سے باہر ہو جاتے اس لیے گیٹ کھول کر باہر جھانکناپڑتا۔۔
 نہ میراکوئی پڑوسی تھا اور نہ آس پاس کوئی گھر بلکہ ایک ویران سامیدان تھاجس میں ریت اور خود رو جھاڑیاں تھیں۔۔۔گرمیوں کی دوپہر میں ہر روز،عین تین بجے میرے کمرے کا دروازہ ایک دھکے سے کھلتا اور ہوا کا ایک بگولا اندر گھاس پھونس تنکے اور خشک پتے چھوڑ کر تحلیل ہوجاتا۔۔۔ میں ان چیزوں کو سمجھنے سے قاصر تھا لیکن،مجھے کوئی ڈر نہیں تھا کیونکہ میرے تکیے کے نیچے میرا پستول ہر وقت پڑا رہتا تھا۔۔اور جب حوصلہ پست ہونے لگتا تو پستول ہاتھ میں لیکرخود اعتمادی اور قوت حاصل کرلیتا۔۔۔
 کبھی کبھی خواب میں ایک ہیولاسیاہ ماتمی لباس میں منہ دیوار کی طرف پھیر کر بین کر تا نظر آتا اور،باالکل نایاب کی آخری سسکیوں سی سسکیاں بھرتا۔۔۔ جب ان خوابوں کو ایک مہینہ گزر گیا تو مجھے میرے گھر میں اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی چھاپ سُنائی دینے لگی،جب میں چلتا تو میرے پیچھے کوئی چلنے لگتا،جب میں رُکتا تو وہ بھی رُک جاتا،جب میں مُڑکے دیکھتا تو کوئی بھی تو نہ ہوتا۔۔ میں اکثر اندھیرے میں پیچھے دیکھے بغیرصحن سے بھاگ کرگزرتا ہوا، اپنے کمرے میں داخل ہوجاتااور کنڈی لگا کر اپنے پستول پر ہاتھ رکھ لیتا۔ کسی کے ہونے کا ایک قوی احساس میرے اندر گھر کر چکا تھا۔۔۔اب تو میں اُس کی چلتی ہوئی سانسیں بھی محسوس کرنے لگا تھا۔۔۔۔ میں کب تک اُسے وہم سمجھتا۔۔۔ کیونکہ کوئی میرے ساتھ تھا۔۔۔واقعی کوئی میرے ساتھ رہ رہا تھا!۔۔۔ میں ایک عجیب سی الجھن کا شکار تھا۔۔میرے حواس کسی چیز کا ادراک کر رہے تھے، لیکن میری آنکھیں اُس کی تصدیق سے عاری تھیں۔۔۔جس نے میرے سارے جسم کو ایک اذیت اور ایک کرب میں مبتلا کر رکھا تھا۔۔ مجھے بے سبب اپنا زندہ رہنا بوجھ لگ رہا تھا۔۔۔اور مجھ میں مرنے کی ایک شدید خواہش جنم لے رہی تھی۔۔۔ میں اپنے پستول کو دیکھتا اور سوچتا،کتنا اچھا ہوتا اگر اس کی ایک گرم سنسناتی گولی میرے دماغ کے پار ہو جائے یا میرے بے چین دل کے پار۔۔۔اور سارے مسائل ختم ہوجائیں۔۔۔ کتنی اچھی نیند ہوگی۔۔۔مرنے کے بعد!۔۔۔ نہ بڑے گیٹ پہ دستک ہوگی اور نہ کوئی ابتسام کا نام زور زور سے پکارے گا۔کیونکہ مجھے اپنے نام سے نفرت ہوچکی تھی۔۔۔میں خود کو اس دھرتی کا بوجھ سمجھ رہا تھا۔میری زندگی بے فائدہ تھی۔۔۔میں کیوں زندہ تھا۔۔۔؟
میں رات کو اپنی چارپائی پرگھٹنے موڑ کر اور گول ہوکر لیٹتا کیونکہ جب بھی میرے پیر ادوائن کے پاس جاتے یا چارپائی سے لمبے ہونے لگتے تو کوئی بلی اپنی ٹھنڈی،گیلی ناک سے میرے تلوؤں پر گدگدی کرنے لگتی،لیکن کمرے میں بلی کا دور دور تک نام و نشان نہ ہوتا۔۔ اُس رات بھی جب میں سیدھا لیٹ کر سونے کی کوشش کر رہا تھا تو میرے پیر چار پائی سے لمبے ہوگئے اور ابھی پلکیں بھاری ہونے لگی تھیں کہ بلی کی ٹھندی نرم ناک میرے تلوؤں کو گدگدانے لگی۔۔۔میں نے جلتی لالٹین کواُٹھا کر بلی کو تلاش کرنا چاہا،تو چارپائی کے ادوائن سے ایک سُرخ آنکھ مجھے گھورنے لگی۔۔۔ میں نے اُچھل کر لالٹین چارپائی کے نیچے رکھ لی۔۔۔ اور آنکھ تلاش کرنے لگ گیا۔۔۔ یکایک پیچھے سے وہی مدھرنسوانی آواز گونجنا شروع ہوگئی۔۔۔۔ابتسام۔۔۔او۔۔ابتسام۔۔۔ادھر آؤ نا۔۔۔ میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو وہی سیاہ پوش کاندھوں پر سیاہ زلفیں بکھیرے دیوار کی طرف منہ کرکے مجھے آوازیں دے رہا تھا۔۔۔ میں واقعی ڈر گیا،کیونکہ کمرے کا دروازہ اندر سے مقفل تھا۔۔۔اس کی آواز میرے لیے مانوس تھی۔۔۔لیکن میرا ذہن اُسے دیکھنے کے بعد کچھ سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔  میرے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے اور ڈر کے مارے میرا ذہن مفلوج ہورہا تھا۔۔۔میرے پیر وں کے ساتھ منوں وزن بندھا محسوس ہو رہا تھا،کہ اچانک میرا لرزتا ہوا ہاتھ میرے سرہانے کے نیچے پڑے ٹھنڈے پستول کی طر ف اُٹھ گیا۔۔۔ دوسرے ہاتھ نے پستول کا اوپری کور کھینچ کر گولی چیمبر میں لوڈ کی اورمیں نے پستول انجان سیاہ پوش پر تان لیا۔۔۔۔ اُسکی مدھر آواز پھر سے کمرے کی خاموش فضا میں گونجی۔۔ابتسام۔۔۔یہ کیا؟۔۔۔ کوئی اپنوں کو مارتا ہے بھلا؟۔۔۔کیا مجھے مارنا چاہتے ہو؟۔۔۔ کیا مجھے ماردو گے؟۔۔۔کیا تم مجھے ماروگے؟۔۔۔میں نے ٹریگر پر انگلی رکھی اور پستول اُس کے کاندھے سے مس کرنی چاہی۔۔۔کہ یکا یک اُس نے ایک پُر ہیبت چیخ مار کر اپنا رُخ میری طرف پھیر لیا۔۔۔ حیرت اور وحشت سے میری انگلی نے ٹریگرپر دباؤ بڑھایا اور ایک دھماکے کے ساتھ چنگاریاں چھوڑتا ہوا شعلہ اُس کے سینے میں گھس گیا۔۔سیاہ پوش میرے اورپر گرپڑا۔۔لیکن اُس کا چہرہ تو ہوبہو میرے جیسا تھا۔۔۔وہ تو میں تھا۔۔۔ میں ہی اپنے نیچے پڑا تڑپ رہاتھا۔۔۔اُس کے سینے سے خون کے قطرے اُچھل اُچھل کر میرے سینے پر گرنے لگے۔۔۔میں نے اس لاش کو خود سے پرے دھکیلااور پستول وہیں کمرے میں پھینک کر، گرتا پڑتا دروازے اور بڑے گیٹ کو کھولتا ہوا،  میدان میں نکل آیا۔۔۔۔ میرے سینے میں درد کی ٹھیسیں اُٹھ رہی تھیں اور اسکی شدت سے ٹھنڈی ریت پر دوزانوں ہوکر بیٹھ گیا۔۔۔میرا سینہ گیلا ہو رہا تھا۔۔شاید اُس لاش کا خون ابھی تک میرے سینے پر رینگ رہا تھا۔۔۔ دور کسی مسجد سے آذان کی آواز آنے لگی۔۔۔اصلوٰت خیرم من النوم۔۔۔اصلوٰت خیرم من النوم۔۔۔ درد کی شدت سے میری آنکھیں بند ہورہی تھیں۔۔۔ دماغ سن ہو رہا تھا۔۔۔ میں نیند کا بھوکا تھااس لیے اصلوٰت خیرم من النوم کی نصیحت سُن کر بھی ٹھنڈی ریت پر اوندھے منہ گر کر سوگیا۔۔۔
میری آنکھ کھلنے لگی تو کچھ سائے میرے اردگرد پھر رہے تھے۔۔۔ کوئی خاتون مجھ پر بار بار جھک کر کہہ رہی تھی آنکھیں کھولیں آپ ٹھیک ہیں۔۔آنکھیں کھولیں۔۔۔اور پھر اُس نے ساتھ کھڑے کسی شخص کو آواز دی،اللہ کا شکر ادا کریں مریض کو ہوش آگیا۔۔کمرے کی دیواریں کبھی مجھ سے دور بھاگتیں تو کبھی سب کے چہرے میرے قریب آجاتے۔۔۔اور پھر میرے حواس بحال ہوگئے۔۔۔ میرے بھائی بھتیجے اور باقی رشتہ دار مغموم کھڑے مجھے دیکھ رہے تھے۔۔۔میرا بایاں ہاتھ سفید پٹیوں میں لپٹا میرے ساتھ بے حس و حرکت پڑا تھا اور میرے سینے پر روئی کا ایک بڑا گالا پٹیوں سے باندھا گیا تھا۔۔۔میری قمیص اتارلی گئی تھی، اور خون کی ایک بوتل کیل سے لٹک رہی تھی جو قطرہ قطرہ میرے جسم میں داخل ہورہا تھا۔۔۔۔کسی نے پولیس والے کو آواز دی جو ایک عدد امتحانی گتہ جس پر سفید کاغذ چڑھے ہوئی تھے بغل میں دبائے میرے بیڈ تک آیا اور ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔مجھے میرے ہاتھوں قتل ہونے والے میرے ہم شکل سیاہ پوش کی لاش کی فکر اور قاتل بننے کی ندامت نے گھیر لیا تھا۔۔۔پولیس والے نے زبان کھولی۔۔۔ شکر کرو!۔۔خانہ بدوش کاروان نے بروقت ہسپتال پہنچا دیا ورنہ قبر میں ہوتے آج!۔۔میں ٹکٹکی باندے اُسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ گتے پر کاغذ درست کرکے نئے بال پوائنٹ پین کی نِب کو زبان سے گیلا کرکے کاغذ کے کونے پر چیک کیا۔۔اور پھر سے گویا ہوا۔۔۔ بتاؤ ابتسام۔۔خودکشی کی کوئی خاص وجہ۔۔؟ اور حیرت سے میرا منہ کُھلے کا کھلا رہ گیا۔۔۔کیا۔۔۔خودکشی۔۔۔۔؟۔۔۔۔نہیں تو۔۔۔؟

وسیم خان عابدؔ
23جون2019
نوٹ: جملہ حقوقِ اشاعت بحقِ مصنف محفوظ ہیں 
٭٭٭٭٭٭