Saturday, 29 December 2018

عشق سے عاشقی۔۔۔۔۔


تیری محفل میں مجھ سے ہزاروں صنم 
میری بانہوں میں تجھ سا نہیں اور ہے
تیری باتیں صنم مختصر ہیں بہت۔۔۔۔
تیری مہماں نوازی میں بھی چور ہے؟
ہم زمانے میں رُسوا یوں، پہلے نہ تھے
سُرخ ہونٹوں کی چاہت کا یہ شور ہے
دل تو پاگل ہوا تیری مسکان سے
!ایسے ناداں پہ میرا کہاں زور ہے
یہ گنہگار تیرے سرِ دار ہیں
عاشقوں کی سزا زلفِ گھنگھور ہے
زندگی کا قرینہ سمجھنے لگا۔۔۔۔۔۔
تجھ سے باہم جو میری ہوئی ڈور ہے
یہ کہانی بھی سادہ سے لوگوں کی ہے
تیرا شاعر دکھاوےسے بھی کور ہے
تیرے عابدؔکو تجھ سے غرض ہی نہیں
عشق سے عاشقی اب نیا طور ہے

وسیم خان عابدؔ

متدارک مثمن سالم
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن

Sunday, 23 December 2018

اتنے پابند، یہ اظہار کے پیمانے کیوں؟

کون کہتا ہے کہ ہم تیرے خریدار نہیں؟
تم ہی یوسف ہو!یہاں مصر کےبازار نہیں
خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے شاداں پھرنا
لوگ بیزار محبت سے ،میں بیزار نہیں
تم جب آتے ہو مرےسوچ کے پیمانوں میں
ترے دیوانے کو دُنیا سے سروکار نہیں
سر جھکاتا تو ہے ہرروز تری چوکھٹ پر
ترے عابد کو وہ کہتے ہیں کہ دیں دار نہیں
حُسن تیرا یوں ہی دلکش ہے سنورتے کیوں ہو؟
مجھ کو بھاتی ہے نزاکت تری، سنگھار نہیں
پیار انجانا سا احساسِ جنوں ہے جاناں
تیر اعاشق ترے ہونٹوں کا طلبگار نہیں
بن پئےہم تری آنکھوں سے بہکنے والے
ہوش والوں میں گِنے جاتے ہیں ہشیار نہیں
ہم نہ دلی کے نہ امروہہ نہ لاہور سے ہیں
مرے اشعار ،میں معنی کے جو انبار نہیں
تری موہوم سی یادوں کا پُرانا خاکہ
نقش ہے دل پہ ،اگر صاحبِ اظہار نہیں
ہم نے مٹی سے بنا ڈالے ہزاروں پنچھی
دمِ عیسیٰ ہےکہاں؟ قشقہ و زنار نہیں
اپنی دانائی کے زمرے میں سیاست بھی نہیں
فہم رکھتے ہیں مگر ہم ابھی عیار نہیں
اتنے پابند، یہ اظہار کے پیمانے کیوں؟
چن لیا جس کو، وہ جمہور تھا جبار نہیں
تری بانہوں میں اُسے چین ملے میرے رقیب
ہائے عابدؔ کو سیاست سے سروکار نہیں

وسیم خان عابدؔ
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن

Monday, 3 December 2018

غزل نمبر 11۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم سے جو سال بھر کی دوری ہے

تم سے جو سال بھر کی دوری ہے
آبِ احمر بڑا ضروری ہے
مئے عنبر سے دست کش ہی رہے
جانے اب کیسی نا صبوری ہے؟
ہم نے جی جان تم کو سمجھا ہے
تیری یہ سوچ کیوں فتوری ہے؟
ربطِ باہم سے اُنس بڑھتا ہے
عشق کا فاصلہ صدوری ہے
تم سے یہ عشق روز بڑھتا  ہے
زندگی بِن ترے ادھوری ہے

وسیم خان عابدؔ
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن مفاعلن فِعْلن

Sunday, 2 December 2018

غزل نمبر 10۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عشق۔۔۔۔۔عقل۔۔۔۔۔اور پرُانی کشمکش

حرم ِعشق پہ لکھی تھی عبارت یہ بڑی
عشق دیوانگی ، دیوانگی کی کس کو پڑی
عقل والے تو ابھی گن ہی رہے تھے دانے
عشق والوں نے پرو ڈالی اطاعت کی لڑی
سوچ والے تو مگن پردہ ہٹانے میں رہے
عشق والوں کو ملی پردوں میں جاگیر بڑی
چشمِ بینا سے تو اوجھل رہے سب منظر
دلِ بینا پہ نظاروں کی تھی پر زور جھڑی
ہوش والوں کو کہاں بے خودی کے رمز ملے
عقل بے چاری تھی کم عقل اکیلی تھی کھڑی
عشق کی سادہ عبارت تھی جسے سب سمجھے
فلسفہ، منطق اور کلام کی تاویل سڑی

وسیم خان عابدؔ
2010

غزل 9۔۔۔۔2011 کی لکھی ہوئی ایک پرانی غزل کچھ رد و بدل کے ساتھ

اس گلشن میں ہر روز نئے قانون بنائے جاتے ہیں
جو پنچھی دن کو قید ہوئے وہ شام اُڑائے جاتے ہیں
جینے کے لئے دو سانسیں بھی دشوار ہیں مزدوروں کیلئے
آمر آجر کی قبروں پر کیوں پھول چڑھائے جاتے ہیں؟
ہم اندھے ہیں بے کار سہی ،پر دیپ چراغاں رستے میں
سر پھوڑ نہ دیں آنکھوں والے ، ہر شام جلائے جاتے ہیں
جینے مرنے کا ڈر کیسا ؟پر وقت سے ہے پرخاش مجھے
یہ عمرِ رواں جاتی ہے کہاں ؟ کیوں ساتھ نبھائے جاتے ہیں
ہم جیتے جی سب کرتے ہیں، کیوں جیتے ہیں؟ کیوں مرتے ہیں؟
جو مرتے ہیں کیا کرتے ہیں؟ اُلجھن سلجھائے جاتے ہیں
!عابدؔکا نام مقام نہیں ،     ہرصبح نہیں!    ہر شام نہیں
اس پیار بھرے میخانے سے کچھ جام اُٹھائے جاتے ہیں

وسیم خان عابدؔ
بحرِ زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف
فعْلن فعْلن فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن