حرم ِعشق پہ لکھی تھی عبارت یہ بڑی
عشق دیوانگی ، دیوانگی کی کس کو پڑی
عقل والے تو ابھی گن ہی رہے تھے دانے
عشق والوں نے پرو ڈالی اطاعت کی لڑی
سوچ والے تو مگن پردہ ہٹانے میں رہے
عشق والوں کو ملی پردوں میں جاگیر بڑی
چشمِ بینا سے تو اوجھل رہے سب منظر
دلِ بینا پہ نظاروں کی تھی پر زور جھڑی
ہوش والوں کو کہاں بے خودی کے رمز ملے
عقل بے چاری تھی کم عقل اکیلی تھی کھڑی
عشق کی سادہ عبارت تھی جسے سب سمجھے
فلسفہ، منطق اور کلام کی تاویل سڑی
عشق دیوانگی ، دیوانگی کی کس کو پڑی
عقل والے تو ابھی گن ہی رہے تھے دانے
عشق والوں نے پرو ڈالی اطاعت کی لڑی
سوچ والے تو مگن پردہ ہٹانے میں رہے
عشق والوں کو ملی پردوں میں جاگیر بڑی
چشمِ بینا سے تو اوجھل رہے سب منظر
دلِ بینا پہ نظاروں کی تھی پر زور جھڑی
ہوش والوں کو کہاں بے خودی کے رمز ملے
عقل بے چاری تھی کم عقل اکیلی تھی کھڑی
عشق کی سادہ عبارت تھی جسے سب سمجھے
فلسفہ، منطق اور کلام کی تاویل سڑی
وسیم خان عابدؔ
2010
No comments:
Post a Comment