Sunday, 23 December 2018

اتنے پابند، یہ اظہار کے پیمانے کیوں؟

کون کہتا ہے کہ ہم تیرے خریدار نہیں؟
تم ہی یوسف ہو!یہاں مصر کےبازار نہیں
خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے شاداں پھرنا
لوگ بیزار محبت سے ،میں بیزار نہیں
تم جب آتے ہو مرےسوچ کے پیمانوں میں
ترے دیوانے کو دُنیا سے سروکار نہیں
سر جھکاتا تو ہے ہرروز تری چوکھٹ پر
ترے عابد کو وہ کہتے ہیں کہ دیں دار نہیں
حُسن تیرا یوں ہی دلکش ہے سنورتے کیوں ہو؟
مجھ کو بھاتی ہے نزاکت تری، سنگھار نہیں
پیار انجانا سا احساسِ جنوں ہے جاناں
تیر اعاشق ترے ہونٹوں کا طلبگار نہیں
بن پئےہم تری آنکھوں سے بہکنے والے
ہوش والوں میں گِنے جاتے ہیں ہشیار نہیں
ہم نہ دلی کے نہ امروہہ نہ لاہور سے ہیں
مرے اشعار ،میں معنی کے جو انبار نہیں
تری موہوم سی یادوں کا پُرانا خاکہ
نقش ہے دل پہ ،اگر صاحبِ اظہار نہیں
ہم نے مٹی سے بنا ڈالے ہزاروں پنچھی
دمِ عیسیٰ ہےکہاں؟ قشقہ و زنار نہیں
اپنی دانائی کے زمرے میں سیاست بھی نہیں
فہم رکھتے ہیں مگر ہم ابھی عیار نہیں
اتنے پابند، یہ اظہار کے پیمانے کیوں؟
چن لیا جس کو، وہ جمہور تھا جبار نہیں
تری بانہوں میں اُسے چین ملے میرے رقیب
ہائے عابدؔ کو سیاست سے سروکار نہیں

وسیم خان عابدؔ
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن

No comments:

Post a Comment