Sunday, 2 December 2018

غزل 9۔۔۔۔2011 کی لکھی ہوئی ایک پرانی غزل کچھ رد و بدل کے ساتھ

اس گلشن میں ہر روز نئے قانون بنائے جاتے ہیں
جو پنچھی دن کو قید ہوئے وہ شام اُڑائے جاتے ہیں
جینے کے لئے دو سانسیں بھی دشوار ہیں مزدوروں کیلئے
آمر آجر کی قبروں پر کیوں پھول چڑھائے جاتے ہیں؟
ہم اندھے ہیں بے کار سہی ،پر دیپ چراغاں رستے میں
سر پھوڑ نہ دیں آنکھوں والے ، ہر شام جلائے جاتے ہیں
جینے مرنے کا ڈر کیسا ؟پر وقت سے ہے پرخاش مجھے
یہ عمرِ رواں جاتی ہے کہاں ؟ کیوں ساتھ نبھائے جاتے ہیں
ہم جیتے جی سب کرتے ہیں، کیوں جیتے ہیں؟ کیوں مرتے ہیں؟
جو مرتے ہیں کیا کرتے ہیں؟ اُلجھن سلجھائے جاتے ہیں
!عابدؔکا نام مقام نہیں ،     ہرصبح نہیں!    ہر شام نہیں
اس پیار بھرے میخانے سے کچھ جام اُٹھائے جاتے ہیں

وسیم خان عابدؔ
بحرِ زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف
فعْلن فعْلن فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن

No comments:

Post a Comment