Thursday, 24 January 2019

افسانہ: مانی

میں نے کانپتے ہاتھوں اور بوجھل دل کے ساتھ موبائل فون میں ٹیکسٹ لکھااور بھیجنے کے لیے اوکے کا بٹن دبانا چاہا۔۔مگر دل میں خلش پیدا ہوئی اور شش و پنج کی سی کیفیت نے گھیر لیا۔ لکھائی مٹانے کے لیے انگوٹھا خود بخود ڈیلیٹ کی طرف اُٹھا۔۔۔۔لیکن دل نے دماغ کو شہہ دی ۔۔۔بھیج دو میسیج۔۔۔اب تو سب کچھ ختم ہو چکا ہے !۔۔۔جسم دماغ کا ساتھ دینے سے قاصر تھا۔۔۔۔کیونکہ برسوں میں جو عمارت کھڑی ہوئی تھی وہ لمحوں میں گر رہی تھی۔۔۔۔
جب چھٹیوں کے بعد یونیورسٹی کی کلاسیں شروع ہوئیں،تو میں کئی دنوں تک آلکسیا بنا رہا۔ تنہائی میں بے کا ر پڑے رہنے اور بِلا وجہ چھت کو گھورنے کا بھوت سوار رہا۔جب کچھ آفاقہ ہوا تو نبیل کی ہاں میں ہاں ملائی ،اور ایک رف کاپی اُٹھا کر کلاس کی طرف روانہ ہوا۔مُنہ سے رات کے کھانے کی سڑی ہوئی بو آرہی تھی جبکہ بال ایک ہفتے کے میل کچیل سے سر کے ساتھ گوند کی مانند چپک گئے تھے۔ٹوتھ پیسٹ اور روزانہ کی صا ف صفائی کو میں زنانہ چونچلے سمجھتاہوں۔۔۔اور ان تکلفات کا جھنجھٹ نہیں پالتا۔۔ نبیل مُنہ اندھیرے اُٹھ کر عبادات اور پڑھائی میں مشغول ہو جاتا ،جبکہ میں کمرے میں دس بجے تک اونگھتا اور جمائیاں لیتارہتا ۔نبیل کی زندگی قاعدے قوانین کی پیروی اور عبادات کے لیے وقف تھی،جبکہ مجھے روٹین اور رولز سے سخت نفرت تھی۔ لیکن پھر بھی اچھے روم میٹ تھے ۔۔اُسے دیکھ کر کبھی کبھی اپنے آپ کو گنہگار سا محسوس کرتا، لیکن اللہ تعالیٰ سے کمبل کے اندر مُنہ چُھپاکرمکمل تنہائی میں اپنی کاہلی اور بے پرواہی کی معافی بھی مانگ لیتا۔۔۔ہاں کوئی لمبے چوڑے وعدے نہیں کرتا،کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میں ڈسپلن نہیں نبھا سکتا ۔۔۔ڈسپلن اور روٹین سے میرا دم گھٹنے لگتا ہے ۔۔۔ یہاں تک کہ سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔۔۔ جب کوئی عزیز رشتہ دار مرتا تو ہفتوں تک طبیعت میں رِقت موجود رہتی۔۔۔نمازیں پڑھتا،تسبیح پھراتا اور وظائف بھی شروع کر دیتا۔۔لیکن پھرتعلقات کی یہ گرمجوشی سرد مہری کا شکار ہوجاتی۔۔۔
یونیورسٹی کی یہ پہلی کلاس بھی عجیب تھی۔۔ نبیل میری وجہ سے آج پہلی بار کلاس سے لیٹ ہورہا تھا۔۔۔وہ تیز تیز قدموں سے کلاس کی طرف گامزن تھا کیونکہ میڈم عنبر کی کلاس شروع ہوچکی تھی ۔۔اور میڈم عنبر کے متعلق نبیل کو معلوم تھا کہ اتنی مُنہ پھٹ ہے کہ بندے کے کپڑے بیچ چوراہے میں اُتروا دیتی ہے۔۔۔البتہ اُس سے میرا واسطہ ابھی تک نہیں پڑا تھا کیونکہ میں کبھی کلاس میں گیا ہی نہیں تھا۔۔ نبیل کے CR(کلاس ری پریزینٹیٹیو)ہونے کا ایک ہی توفائدہ تھا کہ حاضری لگ جاتی تھی۔۔۔جب ہم کلاس میں داخل ہوئے تو ایک بہت بڑے مُنہ والی عورت نے چنگھاڑکرمُجھے روکا اور انگریزی اور اُردو مِلاکر کچھ باتیں کیں۔۔۔۔پہلے کلاس میں کھی کھی کی آوازیں اُٹھیں اور پھر لڑکے لڑکیاں کُھل کر ہنسنے لگے۔۔۔میں نے میڈم کی طرف دیکھا تو اُس کا چہرہ اتنا بڑا تھا کہ جسم اُس کے چہرے کا ضمیمہ لگ رہا تھا۔میرے کان لال ہورہے تھے خجالت کی وجہ سے زبان اٹک رہی تھی کیونکہ میں نے مرد و زن کی مشترکہ کلاس اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔۔۔اُس نے کچھ میلے کچیلے کا طعنہ مارا تھا۔۔۔اور طلباء ہنس رہے تھے ۔۔۔۔پہلی کلاس میں اتنی بے عزتی۔۔۔ میرا تو رواں رواں شرمندہ ہو ریا تھا۔۔۔اور جسم پر چیونٹیاں سی دوڑ رہی تھیں۔۔۔۔میڈم نے میری حالت بھانپ لی اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔نبیل کی طرف دیکھ کر کچھ نہیں کہا کیونکہ وہ میڈم کی گڈبُک میں تھا،اور میرے لیے ابھی تک کوئی کتاب مختص نہیں تھی۔جب میں دورویہ کرسیوں کے درمیاں گزرکر آخری قطار میں بیٹھنے کے لیے جا رہا تھا تو ایک لڑکی نے اپنی ہنسی بمشکل روکتے ہوئے ،ساتھ والی سے باآوازِ بلند کہا۔۔صاحب کو خوب میڈل ملے ہیں۔۔۔ اور پھر سے کھی کھی شروع ہوگئی۔۔۔
جب میڈم عنبر کلاس سے نکلی تو لڑکے لڑکیاں مُجھے مُڑ مُڑ کر دیکھنے اور ہنسنے لگے۔۔۔اور ساتھ میں کچھ مجنوں ۔۔مجنوں کا ورد بھی کرنے لگے۔۔۔ہم جب کلاس سے نکلے تو نبیل سے پوچھا۔۔۔یار۔۔یہ کلاس فیلوز کیا کہہ رہے تھے؟۔۔۔وہ مسکرایا ۔۔تم نے نہیں سُنا میڈم عنبر نے کیا کہاتھا؟ ۔۔۔میں نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔نہیں تو!۔۔۔ مجنوں کی میلی آتما یہ کلاس ہے جنگل نہیں۔۔۔لیلیٰ کا سوگ کسی ویرانے میں مناؤ۔۔۔۔یونیورسٹی میں نہیں۔۔۔۔اتنا سا تو کہا تھا!۔۔نبیل کہہ کر، ہنس پڑا۔۔۔۔اووو۔۔۔۔۔۔میں نے ایک لمبی سانس لی۔۔۔اچھا۔۔۔اپنا مُنہ نہیں دیکھا اُس۔۔۔۔ نے۔۔۔۔جیسے ۔۔۔۔اور خفت مٹانے کے لیے ایسی بہت سی باتیں۔۔
چند دنوں بعد وہ میڈل کا طنزکرنے والی تیز طرار لڑکی نبیل کے پاس حاضری لگوانے کے لیے آئی۔۔۔۔۔میں نے بے رُخی سے مُنہ دوسری طرف پھیر دیا لیکن اُس نے باتیں شروع کردیں۔۔۔اور میری بے اعتنائی کے باوجودنبیل کے ساتھ ساتھ مُجھ سے بھی فری ہونے لگی۔۔۔۔اس لڑکی میں کشش نام کی کوئی چیزنہ تھی ۔۔ انتہائی لاغر بدن،پچکے گال اور بڑی بڑی آنکھیں جو اس چہرے کے ساتھ زیادتی ہی تھی۔۔۔اُسے دیکھنے کے بعد یوں لگتا تھا جیسے اللہ میاں کو صرف آنکھیں ہی پیدا کرنا تھیں چہرہ اور لڑکی بطورِ تکلف چپکا دیے۔۔۔بال کھول لیتی تو قدرے بہتری آجاتی ،لیکن زنانہ لوازمات سے باالکل محروم تھی۔۔۔ کلاس میں کوئی لڑکا اُس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا۔۔لڑکیاں تو لڑکیاں لڑکے بھی اُس کا مذاق اُڑاتے ، اور یہی کچھ سہتے سہتے وہ مذاق پروف بن چکی تھی۔۔۔اسی لیے وہ بھی کسی سے لگی لپٹی نہیں کرتی،اور جو جی میں آتا کہہ دیتی۔۔مُجھے اُلجھے بالوں اور صفائی سے پرہیز کی بابت مجنوں کی آتما کہہ کر مخاطب کرتی۔۔ ۔اور میں چھیڑنے کے لیے ایکس ریز کہتا۔۔اس لڑکی کا جسم اور شکل تو اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی لیکن گھر والوں نے نام اتنا مشکل رکھا تھاکہ انگریزی کے ہجے آج بھی مشکل ہی سے کروں گا۔۔۔۔۔۔ منزہ اصفہانی لڑکے لڑکیوں کے ساتھ یکسان رویہ رکھتی ،یعنی بے باک۔۔۔اُسے مرد ذات کا کوئی ڈر نہیں تھا۔۔ وہ لڑکوں سے بات کرتے ہوئے خود کو ایلین تصور نہ کرتی۔۔۔نہ مرد اُسے درندے لگتے ،جو اُسے نوچ کر کھا جائیں گے۔۔۔نہ جسم کے بھوکے اور نہ ظالم بھیڑیے۔۔ بلکہ پورے اعتماد کے ساتھ ہر ایک سے بات کرلیتی۔۔۔شاید وہ مرد کی ہوس سے بے خبر تھی۔۔۔۔یا اپنی شکل و صورت نے اُسے بے باک بنا دیا تھا۔۔۔ وہ رکھ رکھاؤ کو بالائے طاق رکھتی اور باتوں باتوں میں اتنے قریب آجاتی کہ کپڑے تک مس ہونے لگتے ۔۔۔موڈ میں ہوتی تو کاندھے پر چپت بھی لگا لیتی۔۔۔سب کلاس فیلوز اُسے مانی کہتے۔۔۔۔ اور وہ خود بھی منزہ اصفہانی کی جگہ مانی سُن کر خوش ہوتی۔۔عام سا قاعدہ ہے کہ ؛عورت کتنی ہی بدصورت کیوں نہ ہولیکن اٹھارہ سے بچیس سال کی عمر کے دوراں ،اور ہنستے ہوئے تو بھلی لگتی ہے لیکن مانی کی شکل ہنستے ہوئے مزید ڈراؤنی ہوجاتی۔۔۔رنگ چمپئی تھا لیکن ہڈیاں گوشت سے محروم۔۔۔۔
سال گزرتا گیا اور مانی سے بے تکلفی بڑھتی گئی۔۔۔ہم کلاس روم ،کینٹین اور لان میں کہیں بھی ایک دوسرے کو دیکھ کر باتیں شروع کر دیتے۔۔۔ ان باتوں باتوں میں ہم ایک دوسرے کے قریب پھرنے لگے۔۔۔ مذاق مذاق میں اور ایک دوسرے کو تنگ کرتے ہوئے ہم ایک دوسرے کی باتوں کے عادی ہوگئے ۔۔۔مانی کھانے کے خلاف تھی اور میں کھانے پینے کا عاشق۔۔اُس کے مُنہ میں تین زبانیں تھیں اور میرے چار کان۔۔۔اس لیے ایک دوسرے کے لیے قابلِ برداشت تھے۔۔۔ایک دوسرے کی کمیاں پوری کر رہے تھے۔۔۔ میں بولنے سے زیادہ سننے کا عادی تھااور اُسے خاموشی سے نفرت۔۔۔جب کافی بے تکلفی ہوگئی تو فون نمبر ایکسچینج کر لیے اوردن کے ساتھ ساتھ رات کو بھی باتیں شروع ہوگئیں۔۔۔۔وہ انتہائی فضول سی باتیں کرتی، اپنی پسند نا پسند سے آگاہ کرتی اور اپنی زندگی کی داستانیں سُناتی۔۔ میں ہوں ہاں کرتا اور اُس کی باتوں کو سراہتا۔۔۔اُسے ایک قابلِ اعتماد سامع کی ضرورت تھی، جسے دل کھول کر سب سُنا سکے۔۔۔اور میں ایک اچھا سامع تھا۔۔۔میں کبھی کبھی اُس کی باتوں سے تنگ آکر ڈنڈی مار لیتا اور مختلف بہانوں سے فون بند رکھتا۔۔۔اوروہ اس غیر حاضری پر ناک بھوئیں چڑھا تی اور روٹھ جاتی ۔۔۔پھر میں طرح طرح کے جھوٹ بول کر اُسے منا لیتا۔۔۔ حالانکہ سچ مچ میں وہ بھی روٹھنا نہیں چاہتی تھی ۔۔میں اگنوربھی کردیتا،توخود ہی مان جاتی۔ لیکن میں ہر دفعہ اُسکا مان رکھتا۔۔ ۔
پھر نجانے کیوں اور کس وقت وہ مُجھے خوبصورت لگنے لگی پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔یہ اُنس تھا،ایک دوسرے پر اعتماد تھایا سچ میں پیار ،لیکن وہ کلاس کی سب لڑکیوں سے خوبصورت لگنے لگی۔۔۔ جب اُس سے بات نہ ہوتی تو طبیعت بوجھل سی رہتی ۔۔۔کوئی کمی سی محسوس ہوتی۔۔۔ایسا لگتا جیسے کوئی چیز گم ہوچکی ہو۔۔۔جیسے کچھ بھول گیا ہوں اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کیا بھولا ہوں۔۔۔پھر یونیورسٹی میں ہم ایک ساتھ دکھائی دینے لگے ۔۔۔اکھٹے بیٹھتے، اکھٹے کھاتے اور ایک ہی بوتل سے پانی پیتے۔۔۔وقت گزرتا گیا اور دوسال مکمل ہوگئے ۔۔۔ یونیورسٹی والوں نے ہمیں ماسٹر کی ایک ایک عدد ڈگری تھما کر چلتا کر دیا۔۔۔ ان دو سالوں میں ، میں نے مانی کے سوا کچھ نہیں پایا۔ اپنے امتحانات، میں نبیل کی وجہ سے پاس کرتا گیا، لیکن کبھی بھی اپنے مضمون کی سمجھ نہ آئی، نہ کوئی لیکچر پلے پڑا۔ ۔۔کیونکہ دماغ میں صُبح شام مانی اور اُسکی باتیں رہتیں۔۔۔مانی رٹے لگانے میں مجھ سے بہت بہتر تھی، اس لیے ہر ٹرم میں زیادہ نمبر لیتی،اور میرے سامنے اُس پر اتراتی رہتی۔
جب یونیورسٹی سے رُخصت ہوئے تو ملاقاتوں کا سلسلہ کچھ عرصے تک موقوف رہا،لیکن جلد ہی ہم نے باہمی مشاورت سے اس کا حل ڈھونڈ نکالا۔مانی مہینے میں دو تین مرتبہ کسی نہ کسی بہانے سے گھر سے نکلتی اور ہم ریسٹ ہاؤس کا کوئی کمرہ چوبیس گھنٹوں کے لیے بُک کرکے اُس میں دن کے دس بارہ گھنٹے گزارتے۔۔۔میرے لیپ ٹاپ پر فلمیں دیکھتے گپ شپ لگاتے اور مانی کی لو سٹوریاں سُنتے۔۔ مانی کو بیس پچیس کے لگ بھک محبتیں لا حق ہوچکی تھیں۔جن میں سے دس تو مُجھ سے ملنے کے بعد ہوئی تھیں۔مجھے معلوم تھا کہ کوئی بھی لڑکا اُسے گھاس نہیں ڈالتا لیکن اُس کی طبیعت چپکو تھی اور اپنی اس چپکن کو وہ محبت کا نام دیتی۔۔۔مُجھے اُس نے کبھی محبت کے قابل نہیں سمجھا، میں صرف اور صرف ایک سامع تھا جو اُس کی ہر کہانی نئے عزم سے سُنتا اور ضرورت کے وقت مشورہ بھی دیتا۔۔۔وہ ہر نئی محبت کے بعد اپنے عاشق کے ساتھ ایک گھر بسانے کی پلاننگ کرتی۔۔۔اپنے عاشق کے وفا کی قسمیں کھاتی۔۔۔۔ شادی کے بعد خوبصورت وادیوں کی سیرکی پلاننگ کرتی اور مجھے ہر ایک علاقے کے بارے میں بریف کرتی۔۔۔کبھی وہ سکردوکے دیوسائی کے میدانوں میں گھومنا چاہتی تو کبھی نیلم ویلی میں لیٹ کر آسمان کو گھورنا چاہتی۔۔۔اور کبھی جھیل سیف الملوک کی پریوں کے پروں پر ہاتھ پھیرنا چاہتی۔۔۔لیکن ان تمام جگہوں کا رومان اُس نے انٹر نیٹ کی تصاویر اور ادبی کہانیوں سے کشید کیا تھا۔۔۔پھر جلدہی اُس کی لوسٹوری کا دی اینڈ ہوجاتا ۔۔۔ اور اپنے زیزہ زیزہ خواب لیے کسی ریسٹ ہاؤس کے کمرے میں مُجھ سے لپٹ کر دیر تک روتی رہتی۔۔۔وہ دل سے روتی اور اسکا انگ انگ اُس کے رونے میں مدد کرتا۔۔۔ وہ بچوں کی طرح بلکتی، سسکیاں لیتی اور ٹشو پیپر کا ڈبہ ناک پونچھتے پونچھتے ختم کر دیتی جس سے ناک کی لوئیں دہکتا انگارا بن جاتیں،اور میں تسلیاں دیتے دیتے تھک جاتا۔۔۔۔ اگلی ملاقات میں مانی پھر وہی پُرانی مانی ہوتی جسے چند روز بعد پھر سے نئی محبت لاحق ہو تی۔۔۔۔
یو نیورسٹی کے بعد پانچ سال ہم نے ہنسی مذاق اور آئے روز کی محبتوں کی داستانوں میں گزارے۔ہم دونوں نے بی۔ایڈ اور ایم۔ایڈ کی ڈگریاں لیں۔میری بھی جاب لگ گئی اور مانی بھی اُستانی بن گئی۔ لیکن ملاقاتوں کا سلسلہ نہ ٹوٹا ۔۔۔کبھی ہم دونوں مشترکہ چُھٹی کرلیتے تو کبھی اتوار کی چُھٹی کا سہارا لیتے۔ ۔۔ہر نئی آنے والی فلم ان ریسٹ ہاؤس کے کمروں میں دیکھتے، ایک دوسرے پر ہنستے،چاکلیٹ کھاتے اور ایک دوسرے کے سر بہانے بہانے سے ٹریٹ تھوپتے ،کیونکہ اب دونوں تنخواہ دار تھے ،اور زندگی انجوائے کرتے۔۔۔وقت گزر تا گیا۔۔۔۔لیکن یہ اچانک مانی کو کیا ہوا؟ ۔۔۔ساری کایا ہی پلٹ دی۔۔
ایک مہینے سے مانی کے رابطے ختم تھے۔۔۔ میں نے رابطے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اُس کے سارے فون نمبرز بند تھے۔۔۔ اُس کے گھر جانے کی ہمت تو نہیں کی لیکن۔۔ اس کے نمبر پر کئی میسیج چھوڑے !، جسکا جواب ایک مہینے بعد ملا۔۔۔۔ایک لمبے میسیج کی صورت میں۔۔۔ مانی نے ایک عجیب سا سوال پوچھا تھا۔۔۔۔ہمارے رشتے کے بارے میں۔۔۔۔ ہمارے رشتے کا کیا نام ہے؟۔۔دُنیا کی نظروں میں ہمارے رشتے کا کیا نام ہے؟۔۔میں نے رپلائی میں دوست لکھنا چاہا۔۔۔۔لیکن پھر سوچنے لگا کہ ہمارے معاشرے میں دوست کا کونسا رشتہ ہے؟۔۔۔کیا مخالف جنس کے انسانوں کی دوستی دُنیا قبول کرتی ہے؟۔۔۔۔یقیناََ دُنیا رشتے کا نام مانگتی ہے شاید مانی سے بھی رشتے کا نام مانگا گیا ہو؟۔۔۔ مخالف جنس کی دوستی کو دُنیاعیاشی کی نظر سے دیکھتی ہے۔۔۔ہمارے ہاں داشتہ اور رکھیل کے القابات اور کردار موجود ہیں، لیکن دو مخالف جنس کے لوگ دوست نہیں ہوسکتے ۔۔۔ ہمارے اس رشتے کا بھی کوئی نام نہیں تھا۔۔خواہ یہ دس سال سے زیادہ قائم رہا۔۔۔کیونکہ مانی نہ میری بیوی تھی اور نہ لونڈی۔۔۔بلکہ ہم ایک دوسرے کیساتھ خوش دو آزاد انسان تھے۔۔ ہمارا رشتہ معاشرے کی سمجھ سے باہر تھا ۔۔۔۔ مانی لڑکی تھی اس لیے شاید اُسے معاشرے کو باور کرانے کی ضرورت تھی ۔۔۔۔رشتے کا نام بتانے کی ضرورت تھی۔۔۔ مانی نے اگلے میسیج میں لکھا۔۔ میں اپنی زندگی جینا چاہتی ہوں ، ایک گھر بسانا چاہتی ہوں۔۔ بچوں کا پیار چاہتی ہوں۔۔۔ تم میرے راستے کا روڑا ہو۔۔۔ تمہاری وجہ سے میری زندگی بے کار ہوگئی ہے۔۔۔میں ابھی اپنے سم کارڈ ضائع کررہی ہوں ۔۔۔۔آج کے بعد مجھ سے رابطے کی کو شش مت کرنا۔۔۔آج اُس کی باتوں کے آخر میں پلیز بھی تو نہیں تھا۔۔۔
شاید اُس کی باتیں سچ تھیں۔۔۔۔اُس کی زندگی کے دس سال ضائع ہوچکے تھے۔۔۔لیکن زندگی تو میری بھی اُس سے مختلف نہ تھی۔۔نہ بیوی تھی نہ بچے۔۔۔صر ف میں اور مانی ،دو ہی تو انسان تھے میری زندگی میں۔۔۔کیااپنے اس فیصلے سے وہ مجھے بچا رہی تھی؟ خود کو بچا رہی تھی؟۔۔۔یا انجانے میں دو خاص زندگیاں عام بنا رہی تھی؟۔۔ میں نے میسیج لکھ دیا تھا۔۔۔کیونکہ مجھے رشتہ درکار نہ تھا ۔۔۔۔۔ رشتہ نبھانا پڑتا ہے ۔۔سنبھالنا پڑتا ہے۔۔۔۔میں بے نام سے بندھنوں کا عاشق تھا۔۔۔جس میں کوئی دکھاوا نہ ہو ۔۔۔جس میں کوئی جبر نہ ہو۔۔۔جس میں کوئی چُھپی ہوی باتیں نہ ہو۔۔۔۔جسے نوکری کی طرح نبھانا نہ پڑے۔۔۔جو لگے بندھے اصولوں کے مطابق نہ ہو۔۔۔۔جس میں بے بسی نہ ہو۔۔۔جس میں شوہر بیوی کا دیوتا نہ ہو اورنہ بیوی داسی ۔۔بلکہ دوستی ہو۔۔۔برابری کی دوستی ۔۔۔کُھل کر سب کچھ بتانے کا رشتہ۔۔۔ جس میں جنون ہو۔۔ دیوانگی ہو۔۔۔ وارفتگی ہو۔۔نشہ ہو۔۔۔اور خودساختہ،جھوٹی پاکیزگی سے بڑھ کر بے باک سچائی ہو۔۔۔ میں یہ سب باتیں مانی کو سمجھانے کی پوزیشن میں نہیں تھا اور وہ بھی عمر کی اِس منزل پر تھی جہاں سر کے بالوں میں چاندی اُتر آتی ہے۔۔۔پھر عورت مستقبل کے بارے میں سوچتی ہے،بڑھاپے کا سہارا چاہتی ہے اولاد چاہتی ہے۔۔رشتوں کے نام چاہتی ہے۔۔عمر کے اس حصے میں بے باکی کو مامتا گھیر لیتی ہے ۔۔۔شاید ۔۔۔۔۔۔مانی کی مامتا جاگ چکی ہو۔۔۔۔ اب اس سمندر کے آگے بند باندھنا میرے بس کا کام نہیں تھا۔۔۔ میں نے کانپتی اُنگلیاں پھر سے اوکے بٹن کی طرف بڑھائیں اور ٹیکسٹ دوبارہ پڑھا۔۔۔۔آپ سم توڑنا چاہیں یا نہ چاہیں۔۔۔ میں اسے توڑ رہا ہوں۔۔آئندہ کوئی رابطہ نہیں رکھوں گا۔۔۔۔اور اوکے کرکے میسیج بھیج دیا۔۔۔فون سے سم کارڈ نکال کر چبا ڈالیں۔۔۔پتہ نہیں اُس نے پہلے سم کارڈ توڑے ہوں گے یا میں نے؟؟؟؟۔۔۔۔۔

وسیم خان عابدؔ 
18-11-2012
نوٹ: افسانہ کے سبھی کردار فرضی ہیں کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقی ہوگی
جملہ حقوق بحقِ مصنف محفوظ ہیں کاپی پیسٹ کرنا قانوناََ جرم ہے

Sunday, 20 January 2019

ساہیوال19/01/2019یہ بھی دہشت گرد ہے

بکھرے بال ،ہیں اُجڑی آنکھیں،چہرہ کتنا زرد ہے
میرے دیس میں رہنے والو...! یہ بھی دہشت گرد ہے
گونگے بھی اب بول اُٹھے ہیں،ہر چہرے پہ درد ہے
میرے دیس میں رہنے والو...! یہ بھی دہشت گرد ہے
جس نے کُھل کے سچ نہ بولا۔۔۔ وہ بھی کوئی مرد ہے
میرے دیس میں رہنے والو...! یہ بھی دہشت گرد ہے


(ساہیوال واقعے کے بعد ننھے بچے کی ویڈیو دیکھنے،اور حکومت کا موقف جاننے کے بعد)

Thursday, 17 January 2019

منٹو میرامینٹور

تماشا،خونی تھوک،طاقت کا امتحان، انقلاب پسند،دیوانہ شاعراور چوری جیسے افسانوں سے آغاز کیا۔۔۔وکٹر ہیوگو کے نظم سے متاثر ہو کر ماہی گیر لکھا۔ پھاہا، کھول دو، دھوان ،بواور ٹھنڈا گوشت سے خوب تنقید کمائی مقدمے بھگتے۔۔ ممد بھائی، بابو گوپی ناتھ،بش سنگھ(ٹوبہ ٹیک سنگھ)، سہائے ،منگو کوچوان(نیا قانون)،اورایشر سنگھ جیسے کردارتخلیق کیے۔اللہ دتا جیسے مرد معاشرے کو دکھائے(اللہ دتا)۔مومن جیسے نوعمر ملازم کی ذہنی کشمکش کا نقشہ کھینچا (بلاؤز)اور مسعود جیسے سکول جانے والے بچے کی نفسیات کے بارے میں بتایا(دھواں)۔۔ موذیل کی بے باکی(موذیل)، کلونت کورکی جلن(ٹھنڈا گوشت)، سلطانہ کی نبھانے کی خو(کالی شلوار)، نیتی کی حلال روزی کی کشمکش(لائسنس) اور کوٹھے پر بیٹھنے والی سوگندی کی عزتِ نفس کی بھڑک دکھائی(ہتک)۔ ممی کی محبت کا اعترا ف کیا(ممی)۔محمودہ کی قسمت کا رونا بھی رویا(محمودہ)۔ شاردا کی خوداری کو سراہا(دوقومیں)۔۔پھر صرف 43سال کی عمر میں18جنوری 1955کو سعادت حسن مرگیا۔۔۔لیکن منٹو آج بھی زندہ ہے ۔۔کہانیاں سُناتا ہے۔۔۔اصل چہرے دکھاتا ہے۔۔۔نقابوں کے پیچھے چُھپے ہوئے چہرے گندے چہرے۔۔۔۔ یہ نقاب رشتے ، رتبے،مذہب، اور طاقت کے ہیں،اور منٹو نقاب کھینچنے والا ہاتھ۔۔۔ اسی لیے منٹو فحش نگار ہے۔۔۔اور رہے گا۔۔۔کیونکہ وہ مفلس بھی تھا اور خود سر بھی۔۔۔اور نام نہاد ٹھیکیداروں سے بہت اونچا۔۔۔۔الگ سوچنے والا۔۔۔۔۔۔
(تحریر وسیم خان عابدؔ )

Sunday, 13 January 2019

کشتیاں جلانے سے فائدہ نہیں کوئی

کشتیاں جلانے سے فائدہ نہیں کوئی
چند بادبانوں کو ساحلوں پہ رہنے دو
سچ پہ سر کا کٹنا گر اب یہاں وطیرہ ہے
اتنی سی تو مہلت ہو پوری بات کہنے دو
جاں گسل جُدائی میں یاد تیرے آنے کی
آنکھ پھر سے بھر آئی،اشک پھر سے بہنے دو
جھوٹ سے بھری دنیاعشق تیرا کیا جانے
میں وفا کا مارا دِل مُجھ کو درد سہنے دو
عشق کا یہ چولا اب ہم نہیں اُتاریں گے
نام کاترے ملبوس چار دن تو پہنے دو
چند روزہ جیون میں نفرتوں کے کیا معنی
پیار پیار اوڑھو سب پیار پیار کہنے دو
جب ترا ہوا عابدؔاب تجھے شکایت کیوں؟
گیسوئے معطر میں چند روز رہنے دو

وسیم خان عابدؔ
ہزج مثمن اشتر
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن

Monday, 7 January 2019

افسانہ : سرمدی

دایان نے بار ہا ساتھ لیجانے کی ضد کی مگر میں نے کبھی حامی نہیں بھری ۔حالانکہ اچھی خاصی کمائی اور جوانی کے باوجود اپنے خوف اور جھجھک کے باعث ایسی جگہوں پر جانے سے کنی کتراتارہا ہوں۔دایان عام سی شکل و صورت اور چھوٹے قد کا لڑکا ہے لیکن زبان اتنی تیز اور لہجہ اتنا پُر اعتماد کہ کسی کو بھی مِنٹوں میں اپنا ہمنوا بنا لے۔میں اُس کی نفسیات سے واقف تھا کیونکہ ہم دوست جس دایان کا بے تکلف محفلوں میں مذاق اُڑاتے تھے ،وہ مُجھے اپنا اثر و رسوخ دکھانا چاہتا تھا۔اُسے میری مستی سے کوئی غرض نہ تھی صرف اپنی نمائش درکار تھی۔اسی لیے میں اُس کی کہانیاں سُننے کے بعد بھی ہنس کے اگنور کر دیتا تھا۔۔۔کیونکہ اُس کے واقعات میں، واقعہ کم اورخودستائی زیادہ ہوتی۔۔ 
پشاور کا علاقہ حیات آباد ایک خوبصورت اور پوش علاقہ ہے ۔جہاں بڑے سرمایہ دار اور اعلیٰ سرکاری افسران رہائش پزیر ہیں اور یہ پشاور شہر سے کافی دور کارخانوں مارکیٹ کے قریب ہے۔اکثر بڑے شہروں میں امراء کو عوام سے الگ رکھنے کے لیے ایسے علاقے بنائے گئے ہیں ۔جہاں کرایے اور مہنگائی باقی شہرسے کئی گُنا زیادہ ہوتی ہے اور غریب چاہتے ہوئے بھی ان علاقوں کا رُخ نہیں کرسکتے۔لیکن جسم کا دھندا اب تنگ و تاریک گلیوں اور کسمپرسی کو چھوڑ کران عالیشان علاقوں میں قدم جماچکا ہے۔ہر ایک نائیکہ کے پاس کئی بنگلے ہوتے ہیں جن میں سے اکثر کرایوں پر لیے ہوتے ہیں تاکہ تبدیل کرنے میں زحمت نہ ہو۔ ہر رات کا ٹھکانہ الگ ہوتا ہے جس کی خبرصرف نائیکہ کے پکے گاہکوں ،شوقین افسروں اور پولیس والوں کو ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ریسٹ ہاؤس کے نام پر بھی یہ کاروبار کرتے ہیں،جہاں گاہک کمرہ لیتا ہے رات گزارتا ہے اور صبح چلا جاتا ہے۔
دسمبرکے چھوٹے سے دن کی شام ہورہی تھی دایان آج مجھ سے پہلے ہی گھر پہنچ چکا تھا کیونکہ اُس کی گاڑی کیراج میں کھڑی تھی۔جب میں کمرے میں داخل ہوا تو وہ سُرخ ہیٹر پر اکڑوں بیٹھا ہاتھ سینک رہا تھا اور ہاتھوں کی گرمی دُعائیہ انداز میں چہرے پر بار بار پھیر رہا تھا۔میرے آنے کااُس نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا اور اپنا آسن نہیں بگاڑا۔ میں نے سلام کیا تو بے دلی سے صرف وعلیکم کہا۔۔اور سر جھکا لیا۔۔میری ناک بھی ٹھنڈک سے برف کی ڈلی بن چکی تھی اور اُسے ہیٹر کی حرارت درکار تھی لیکن دایان کے آسن کو بگاڑنے کے ڈر سے چُپ چاپ بیٹھ کر ٹی وی آن کر لیا۔۔۔ہم ایک گاؤں کے ، بے تکلف دوست ہیں،اور جاب کے بعد پشاور میں بھی مشترکہ رہائش رکھ لی تھی، لیکن آج اتنی روکھائی کچھ سمجھ سے باہر تھی۔۔میں نے وجہ پوچھی۔۔ تو پھٹ پڑے۔۔۔ شہلا سے آپ کی اتنی تعریفیں کی ہیں کہ آج ساتھ لانے کی ضد کر بیٹھی ہے ،اور ایک آپ ہیں کہ۔۔۔۔۔کہہ کر فقرہ ادھورا چھوڑدیا۔۔۔ پتہ نہیں کونسا طعنہ مارنا چاہتے تھے۔۔۔شکل ،عقل یا شرافت کا۔۔۔۔۔مگر دوستی کے لحاظ میں ہضم کر گئے۔۔۔۔میں نے کہا۔۔بھائی۔۔ شہر کے حالات خراب ہیں ،پولیس رات کے وقت شریفوں سے دہشت گردوں کا سا سلوک کرتی ہے۔گھر والے چُھڑانے بھی نہیں آئیں گے۔۔۔کیوں ایسی ویسی جگہ پھنسا کر مارنا چاہتے ہو؟۔۔۔۔اُس نے بس اتنا کہا سب میرے سر۔۔دوست نہیں؟۔۔۔۔اور میرا مُنہ سوالیہ نشان بن گیا!۔۔۔
دسمبر کی یخ بستہ سڑک پر رات ۹ بجے کے قریب ہماری گاڑی رنگ روڈ گڑھی قمر دین کے راستے حیات آباد کی طرف گامزن تھی۔ تہکال کا علاقہ جان بوجھ کے چھوڑا تھا ورنہ پشاور کینٹ سے دونوں راستے برابر ہی پڑتے ہیں۔دایان گاڑی چلا رہا تھا اور میں ساتھ والی سیٹ پر بیٹھاکھڑکی کے شیشے میں بال برابر جگہ چھوڑ کر ٹھندی ہوا کو اپنے بال بکھیرنے کا موقع فراہم کر رہا تھا۔۔۔۔کھڑکی بند کرکے مجھ سے کبھی بھی گاڑی میں نہیں بیٹھا جاتا ۔۔۔کیونکہ تیز ہوا جب بالوں میں کنگھی کرتی ہے تو ایک مسحور کُن احساس ہوتا ہے باالکل ویسے ہی جیسے کوئی پریوں کے دیس میں ہوائی گھوڑے پر سوار ہو۔۔اور اُس کے بال اُڑتے ہوئے شانوں کو چُھو رہے ہوں۔۔۔تھوڑی مسافت کے بعد دایان نے اپنا فون نکال لیا ،اور شہلا سے بات چیت شروع کردی۔ان باتوں سے اتنا احساس ہو رہا تھا کہ ہم منزل کے قریب ہیں۔گھبراہت، سنسنی،اشتیاق ،ٹھنڈک اور تاریک سڑک نے مجھے کچھ ایسے مِلے جُلے احساسات فراہم کیے کہ میں نیوٹرل ساہوگیا ، ایٹم کے نیوٹران کی طرح جس پر کوئی بھی چارج نہ ہو نہ منفی اور نہ مثبت۔شہلا کے بارے میں میری ساری امیجری ہندوستانی فلموں سے کشید کی ہوئی تھی۔۔۔۔جس میں ادھیڑ عمر نائیکہ ایک جھولے پر جھولتے ہوئے پان کا ڈبہ پہلو میں دبائے گاہکوں سے سودے طے کرتی ہے۔۔۔ کراہت آمیز ہنسی ہنستی ہے، اور پان کی پیکیں چھوڑتی رہتی ہے۔۔شہلا کے بارے میں یہی خیالات ذہن میں اُبھر اُبھر کر سطح پر بلبلے بنا رہےتھے۔۔ان ہی سوچوں میں گم، ہماری گاڑی ایک بڑے بنگلے کے گیٹ کے سامنے رُکی اور ایک موٹے سے پستہ قد آدمی نے گیٹ کھول کر استقبال کیا اُس کے ماتھے کے بال پیلے رنگے گئے تھے جسے بلونڈ کرنا کہتے ہیں۔جبکہ باقی سر کالا تھا۔۔۔وہ وہیں گیٹ کے قریب کمرے میں چلا گیا اور جیسے ہی ہم لان سے گزرے،ایک بڑے دروازے سے ایک 25سالہ خوبرو ،سیڈول جسم ، اور گاڑھے میک اپ والی لڑکی نے نکل کردایان کو گلے لگالیا ۔۔۔ دایان نے اسی حالت میں اس کا تعارف کرایا ، ان سے ملیے یہ ہیں مِس شہلا۔۔۔اور میری ساری فلمی امیجری دھری کی دھری رہ گئی۔۔۔۔ میں نے مُسکرا کر زبانی سلام سے کام لیا مگر اُس نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔۔۔۔اور مائل بہ شرارت نظرآئی ۔۔۔لیکن دایان نے بروقت بیچ میں پڑ کر گلوخلاصی کرادی۔۔ہم تینوں ایک بڑے سے ہال نما ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے جس کی دیواریں خوبصورت سینریوں سے سجی اور ڈرائنگ روم بہترین اور اعلیٰ قسم کے فرنیچر سے مزین ،صاف ستھرا تھا۔۔سامنے کی دیوار پر بڑے بڑے تہہ دار پردے لٹک رہے تھے جس کے پیچھے شاید وہ بڑا چمکدار شیشہ تھا جس میں باہر کی طرف سے دیکھنے والے کو صرف اپنی شبیہ نظر آتی ہے،اور اندر بیٹھنے والے کو آنے والا مہمان۔۔۔ شہلا مہمانوں کی طرح ہماری خاطر داری کرنے لگی ۔اور چندمنٹ کے بعدایک کمسن لڑکا چائے کی دوپیالیاں اور بینسن سگریٹ کی ایک ڈبی ہمارے سامنے رکھ کرچلا گیا۔۔۔شہلا ادھر اُدھر کی باتیں اور مذاق کرنے لگی۔۔۔اُس کی زبان دایان سے بھی زیادہ تیز، لہجہ پُر اعتماداور ادائیں بے باک تھیں۔۔۔وہ ہر رسم و رواج سے بے پرواہ،دُنیا سے بے نیاز اور مُسکراہٹوں کا مجموعہ تھی، اور اُس کی یہ مسکراہٹیں کاروباری بھی نہیں تھیں کیونکہ کاروباری مُسکراہٹ میں اتنی کشش نہیں ہوتی۔۔۔میں حیران تھا کہ اتنا اعتماد اور یہ سرشاری جانے کتنی ٹھوکریں اور دھوکے کھانے کے بعد نصیب ہوئی ہوگی؟۔۔۔شہلا کے بال کُھلے تھے اور اُس کے بالوں میں اُس کی پوری شخصیت پنہاں تھی کیونکہ یہ کمر کے حدورد سے آگے بڑھ چکے تھے اور پانچ فٹ سے نکلتے ہوئے قد پر بہت جچ رہے تھے۔۔۔۔۔ہمارے صوبے میں جب کسی کو عزت دی جائے یا اُس کی بڑائی مقصود ہوتو، خان صاحب کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔ شہلا بھی مجھے میرے نام کے بجائے خان صاحب کہہ کر مخاطب کرر ہی تھی،جو میری سماعتوں کو گراں گزر رہا تھا، البتہ دایان کو بے تکلف دوست کی طرح اُس کے نام ،تم اور تو سے متوجہ کررہی تھی۔۔۔تھوڑی سی گپ شپ کے بعد شہلا نے دایان کے ہاتھ کو سہلایا۔۔۔آپ تو میرے ساتھ ہیں نا۔۔؟۔۔۔اور دایان نے ۔۔تو اور کیا۔۔کہہ کر بات ختم کردی۔۔۔شہلا نے میرے بارے میں اسفسار کیا تو ۔۔دایان نے عجیب سی بے فکری سے کہا۔۔۔۔ بچہ تو نہیں ہے خود دیکھ لے گا۔۔۔۔اوراس کے بعد وہ دونوں اُٹھ کر کسی اور کمرے میں چلے گئے۔۔۔پھریکدم سے سات لڑکیاں کمرے میں داخل ہوئیں جس سے کمرے میں شور اور شہد کی مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ پید اہوگئی۔۔۔۔۔سب لڑکیوں نے کافی نفیس میک اپ کیا تھا ۔۔اور قریب بیٹھنے پراُن سے کاسمیٹک کی دُکان کی سی خوشبو اُٹھ رہی تھی۔۔۔۔۔ بال سلیقے سے بنے اور سنوارےگئے تھے ،سب اچھی اور قیمتی پو شاکوں میں ملبوس تھیں ۔۔۔۔میرے سامنے والے صوفے کے کونے میں ایک متناسب جسم کی 22,20سالہ لڑکی دُبک کر بیٹھ گئی اور اپنے دوپٹے پر لگے پوم پوم کے ساتھ اپنی انگلیوں سے کھیلنے لگی۔باقی چھ لڑکیوں کے مقابلے میں کافی سے زیادہ شرمیلی اور غیر محفوظ ہونے کے احساس سے بھری ہوئی تھی۔۔باقی لڑکیوں نے پاس بیٹھ کر بات چیت شروع کر دی ۔۔جس میں زیادہ تر باتیں جان پہچان کے متعلق تھیں البتہ چند ایک نے ۔۔۔مُجھ پہ یہ رنگ سوٹ کر رہا ہے نا۔۔۔لپ سٹک زیادہ پھیلی تو نہیں قسم کے سوالات بھی بے تکلفی پیدا کرنے کے لیے کیے۔۔۔ اور میں نے بہت اچھا کمبی نیشن ہے کہہ اُنکا دل رکھا۔۔ ایک نے بینسن کی ڈبی سے سگریٹ نکال کر ایک ہلکا سا پف لیااورباقی کی مُجھے پیشکش کی لیکن ۔۔۔میں نے شکریہ کے ساتھ واپس کردیا۔۔۔اور پھر کسی انجانی اکساہٹ پر خودہی ایک سگریٹ نکال کر سلگائی اور فوک میوزک کی طرح مدہم مدہم سے کش لگا کر دھویں کے چھلے اُڑانے لگا۔۔۔فضا اُس شرمیلی کی خاموش موجودگی سے معطر ہو رہی تھی ۔۔۔شاید اُس کا ،،،اورہ،،،مجھے اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔۔۔جس میں باقی چھ لڑکیوں کی کھی کھی بے محل اور سماعت پر بوجھ بن رہی تھی۔۔۔ شہلا کمرے میں داخل ہوئی اور سیچوئیشن کو سمجھ کر باقیوں کوپتہ نہیں کیا اشارہ کیا، کہ وہ سب کی سب ایک ایک کرکے اُٹھنے لگیں،اجازت چاہی اور چلی گئیں۔۔۔۔لیکن وہ شرمیلی وہیں پرنظریں جُھکائے بیٹھی رہی،دُنیا ومافیہا سے بے خبر۔۔۔شہلا نے اُسے آواز دی ۔۔۔سرمدی!۔۔۔۔سرمدی نے خیالات کے تسلسل کو توڑا ۔۔اور جی آپی۔۔کہہ کراپنے ہونے کا احساس دلایا۔۔۔۔۔سرمدی!۔۔۔۔۔ خان صاحب ہمارے مہمان ہیں! ۔۔۔خیال رکھنا!۔۔۔۔اور ۔۔جی آپی ۔۔۔کےوہی مدہم الفاظ ایک مرتبہ پھر سماعتوں سے ٹکرائے۔۔۔۔شہلا چلی گئی۔۔اور۔۔۔سرمدی اُٹھ کر میرے پہلو میں بیٹھ گئی۔۔۔سرمدی میں یونانی دیویوں کا سا حُسن اور قمری کی سی نزاکت اور نفاست تھی۔۔۔انتہائی ترشی تراشی مورت ۔۔۔جو اپنے کاریگر کی صناعی کا مُنہ بولتا ثبوت تھی۔۔۔نرم پولیسٹر سے بنی ہوئی مرمریں اُنگلیاں بے داغ ریشم جیسے ملائم ہاتھ اور اُس میں ہلکے زمرد کی لہریں رگوں کی صورت میں نمایاں تھیں۔۔۔مراقبے میں غرق صوفیوں کا سا مدہم بے نیاز لہجہ ۔۔۔اور الفاظ میں ادب آداب کی چاشنی۔۔۔ میری طرف رُخ پھیرکر گویا ہوئی ۔۔۔آپ روز پیتے ہیں یا اِدھر آنے کے بعد من کیا؟۔۔۔۔میں حیرت سے منہ تکنے لگا۔۔۔کیوں۔۔۔؟ ۔۔کیونکہ سارا دھواں نمائشی پینے والوں کی طرح باہر جا رہا تھا۔۔۔جو منہ میں بھر کر پھونک دیتے ہیں۔۔۔ اند رلیجا کر پھیپھڑوں کو خراب نہیں کرتے!۔۔۔ میں ہنس دیا۔۔۔ مُجھے اُس کی قوتِ مشاہدہ پر اور بھی حیرت ہوئی۔۔۔۔ وہ ذہانت کے ساتھ ساتھ صاف گوئی کی صفت سے بھی متصف تھی۔۔۔۔۔اُسکی جھجھک ،شرم ،اور نیچی نظریں تو مجھے پسند تھیں ہی ،لیکن اُس پر ذہانت اور صاف گوئی نے سہاگے کا کام کردیا ۔۔۔ ان سب باتوں نے مل کر مجھ پر ایک طلسم سا ڈال کر  اپنے بس میں کر لیا،ٹھیک اُسی طرح، جس طرح چلے کا جِن انتالیس دن آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ہاتھ پیر مارتا ہے لیکن چالیسویں روز اپنی گردن عامِل کے گردگول دائرے پر رکھ کر خود کو اُس کےحوالے کردیتا ہے۔۔۔وہ اورقریب سرک آئی۔۔۔اُس نے اپنے ملبوس اور جسم پر جو عِطر چھڑکا تھا،شاید ہزاروں لوگ وہی استعمال کرتے ہوں گے۔۔۔لیکن عطر اُس کے جسم سے چھو کر جتنی مہک رہی تھی ۔۔۔وہ صرف سرمدی کی خوشبو تھی۔۔۔

وسیم خان عابدؔ 
دسمبر 2018
نوٹ: کہانی کے سارے کردارفرضی ہیں  کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقی ہوگی۔

سب یار دوست بھاگ کے خرگوش ہوگئے

زُلفوں میں تیری سوگئے ،مدہوش ہوگئے
ایسے ہوئے کہ راستےروپوش ہوگئے
واپس جو مانگا ہم نے ہمارا  فگار دل
لَب تھے سُخن تراش پہ خاموش ہوگئے
غیروں نے تیرا نام جو باندھا رقیب سے
عابد خُدا کے در پہ بادہ نوش ہوگئے
گھنگھرو کے ساتھ آپ نے باندھے ہزار دل
قدموں میں سارے گِر کے ہوا دوش ہوگئے
نام اُس نے مِرا لے کے بہ اندازِ رقابت
خوش فہمیوں سے ہم ہمہ تن گوش ہوگئے
اخبار کی خبریں تو ہیں پابندِسلاسل
شاعر ہمارے شہر کے خاموش ہوگئے
کچھ فہم و فراست کا لہو خاک ہوا ہے
کچھ بے ضمیر ظلم کے پاپوش ہوگئے
عابدؔ کے مصائب کا جب ادراک ہوا تب
سب یار دوست بھاگ کے خرگوش ہوگئے

وسیم خان عابدؔ

Friday, 4 January 2019

نظم: ایک ننھے بچے کا سر۔۔۔۔۔

اِک سردیوں کی صبح۔۔میں۔۔۔
نکل کے گھر سے چل پڑا
ہر ایک بوند سرد تھی
ہر ایک اوس برف تھی
جہاں پہ دُھند کا دھواں
تھا نصف شب سے چھا گیا
گزر تھا ,ایک راہ سے
جہاں پہ ڈھیر تھا بنا
غلاظتوں بھرا ہوا ،سڑاند سے اٹا ہوا
کہ شہر کی عفونتیں تھی مجتمع۔۔۔
مگر وہا ں ہجوم تھا ،ہر ایک لب پہ آہ تھی
ہر ایک دلگداز تھا۔۔
ہر آنکھ اشکبار تھی،ہاں درد کا شکار تھی
ہجوم چیرتا ہوا،میں پاس جا کھڑا ہوا ،
جو دیکھا ڈھیر کی طرف وہاں پہ ایک لاش تھی
وہ لاش تھی ،یاسرتھا وہ؟
ہاں سر تھاوہ!۔۔۔۔
کہ ننھےپیارے پھول کا۔۔۔ہی سر تھا وہ
کہ ہاتھ پیر کاٹ کر سگانِ شہرکھا چکےتھےرات کو
کہ سرتھا وہ۔۔۔جو جسم سے جُدا ہوا۔۔۔۔
وہ ماں کی لاج رکھ گیا۔۔۔۔جو بہہ گئی تھی عشق میں
محبتوں کی لہر میں۔۔۔۔ رفاقتوں کے بحر میں!
کہ چاہتوں کے سحر۔۔۔!
یا جبر کا شکار تھی؟۔۔۔۔یا تر نوالاتھی کوئی۔۔؟
جو راز پہ نثار تھی۔۔۔!
ہاں سر تھا وہ!۔۔۔جو نیلے نیلےہونٹ تھے
جمے ہوئے لہوکےچھوٹے چھوٹے پیارےلوتھڑے
ہنسی سے نابلد ابھی ۔۔۔وہ ہونٹ تھے۔۔
معاشرے پہ طنز سے ۔۔۔وہ کیا ہنسیں۔۔؟
وہ آنکھ جو نہ وا ہوئی۔۔۔۔بھرم تو رکھ گئی تھی ہاں۔۔۔
معاشرے کے طعن سے ۔۔۔۔بچاچکی تھی باپ کو۔۔۔!
ہاں۔۔۔۔۔۔ سر تھا وہ۔۔۔۔!
وہ ایک لمحہ پیار کے۔۔۔ وصال کاکمال تھا!
وہ عشق کا جنون بھی تھا
ملن کا وہ جمال تھا
وہ ڈھیر پر پڑا ہوا ۔۔۔گلاب تھا
وہ پھول تھا۔۔یا سر تھا وہ۔۔۔۔۔۔
یا ۔۔۔عشق کا مزار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

وسیم خان عابدؔ
جنوری2019
نوٹ: جملہ حقوقِ اشاعت بحق شاعر محفوظ ہیں

Tuesday, 1 January 2019

غزل: ایک انکار نہ کرنا آیا

جب اُسے پیار نہ کرنا آیا
ہم کو اظہار نہ کرنا آیا
سو بہانے ہیں الگ رہنے کے
ایک انکار نہ کرنا آیا
اُس نے سوچا تھا خود ہی بولے گا
مُجھ کو گفتار نہ کرنا آیا
تھا جو احساسِ محبت لوگو!
ہائے!دیدار نہ کرنا آیا
اُس نے جانے کی جو رُخصت مانگی
مُجھ کو تکرار نہ کرنا آیا
تری پائل میں یہ چُپ کیسی ہے؟
اس کو جھنکار نہ کرنا آیا
روز ملنے کے بہانے ڈھونڈے
پھر بھی اقرار نہ کرنا آیا
تیرے عابدؔکی عبادت کیسی
دل پہ جب وار نہ کرنا آیا

وسیم خان عابدؔ
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن فَعِلاتن فِعْلن
نوٹ: حوالے کے بغیر کاپی کرنے کی اجازت نہیں

غزل: اُس کو آیت کی طرح یاد کیا

اُس کو آیت کی طرح یاد کیا
دل کی نگری کو بھی آبادکیا
کوئی سکتہ سامری باتوں میں
پڑگیا تجھ کو جب آزاد کیا
غیر پہلو میں تیرے بیٹھ گیا
اِک ستم پھر نیا ایجاد کیا
تو ہی شیریں کی نہ وارث ٹھہری
ہم نے تیشے کو بھی فرہاد کیا
اتنے کم ظرف تیری محفل میں؟
خود پہ کیوں تو نے یہ بیداد کیا
مرگئے مِٹ گئے ویران ہوئے 
تو نے جس جس کو بھی برباد کیا
کس نے مانگا ہے بہشتوں کا سکوں؟
کیوں یوں دُھتکار کے شداد کیا؟
کفر گلیوں میں پنپتا ہی رہا
واعظا! تو نے جب الحاد کیا
یہ جو پنچھی سا تڑپتا ہے دل
تجھ کو عابدؔنے ہی صیاد کیا

وسیم خان عابدؔ
نوٹ: حوالے کے بغیر کا پی پیسٹ کی اجازت نہیں

ایک شعر۔۔۔۔ یکم جنوری 2019

سال جو بھی ہو، نیا ہو کہ پُرانا عابدؔ
اُس سے ملنا ہے ابھی دور تلک جانا ہے