Saturday, 23 February 2019

وہ لڑکی ہے تو اُس کا شعر بھی اعلٰی معیاری ہے

وہ لڑکی ہے تو اُس کا شعر بھی اعلٰی معیاری ہے
او ر اُس کی خامہ فرسائی ہر اِک شاعر پہ بھاری ہے
وہ لکھتی واہ ہے تو سینکڑوں آہ آہ کرتے ہیں
قلم کی ایک جنبش پر ہزاروں لوگ مرتے ہیں
وہ کم لکھتی ہے لیکن ہنس کے پورا کام کرتی ہے
ادب سے نام لیتی ہے ادب کا کام کرتی ہے
ہاں اُس کی سٹیج پر موجودگی بادِ بہاری ہے
وہ لڑکی ہے تو اُس کا شعر بھی اعلٰی معیاری ہے
نظم کر تی ہے کچھ باتیں غزل بھی روز لکھتی ہے
وہ سب سے داد لیتی ہے یہی امروز لکھتی ہے
معرٰی نظم کہتی ہے کبھی آزاد لکھتی ہے
کبھی تو ملنے والی داد بھی بے داد لکھتی ہے
میں لڑکا ہوں میری غزلیں میرادیوان خواری ہے
وہ لڑکی ہے تو اُس کا شعر بھی اعلٰی معیاری ہے
وسیم خان عابدؔ
فروری2019

افسانہ: اظہار

میں پاگل نہیں ہوں، پھر کیوں مجھے پاگل خانے میں ڈالا گیا ہے؟۔۔۔ آپ ہی بتائیں۔۔۔ پروفیسر صاحب۔۔؟ رحیم خان نے اپنے پیروں سے بندھی ہوئی زنجیر جھنجھنائی ۔۔۔اور سارے پاگل اُس کی طرف دیکھنے لگے۔ مجھے رحیم خان کے ساتھ اس پاگل خانے میں رہتے ہوئے چھ ماہ سے اوپر ہوگئے ہیں۔ رحیم خان انتہائی باتونی، ہنس مکھ ، وجیہہ اور من موہنی شخصیت کا مالک ہے۔ بلا کا ذہین ،لیکن کبھی کبھی اپنا آپا کھو بیٹھتا ہے۔ ۔ اُس کا غصہ کبھی بھی بے جا نہیں ہوتا، کیونکہ اُسے لگتا ہے، کہ دُنیا میں ایک و ہی سیدھے راستے پر ہے باقی سب گمراہ۔۔۔ لیکن اُسے میں نے کبھی چُپ نہیں دیکھا جب بھی دیکھا ہے بولتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ بھی خود کو تندرست اور ذہین سمجھتا ہے اور میں بھی ٹھیک ٹھاک ہوں ۔۔۔لیکن مجھے بھی ڈاکٹروں نے نجانے کیوں پاگل سمجھ کر یہاں قید کر دیا۔۔۔میرے پیروں میں رحیم خان کی طرح زنجیر نہیں ۔۔ میں تو کھل کر چلتا پھرتا ہوں اور یہاں پر موجود سٹاف سے بات چیت بھی کرتا ہوں ۔۔۔میں ایک سکول ٹیچر ہوں، لیکن جانے کس خوش فہمی میں سارا سٹاف اوراُن کی دیکھا دیکھی، سارے پاگل مجھے پروفیسر صاحب کہتے ہیں۔۔۔؟۔۔۔ میں ہر شام سونے سے پہلے اپنی ڈائری میں کچھ نہ کچھ گزرے ہوئے دن کے بارے میں ضرورلکھتا ہوں ، اور سارے پاگل مجھے ڈائری لکھنے کے دوراں عجیب سی نظروں سے گھورتے رہتے ہیں۔۔۔ چند ایک بے ضرر قسم کے پاگل تو پاس آکر بیٹھ جاتے ہیں اور فرمائشیں کرتے ہیں،کہ حکومت کو ہمارے بارے میں بھی بتا دو۔۔۔ رحیم خان بھی تو روزمُجھ سے اصرار کرتا ہے، کہ اس ڈائری میں ہم سب کے بارے میں لکھنا!۔۔۔ اور باہر جاکر چھاپ دینا تاکہ سب کو ہمارے بارے میں پتہ چلے، کہ ہم پر حکومت کیا کیا مظالم ڈھا رہی ہے!۔۔۔ ہم سب مُحبت سے لبریز،اور حق پرست دانشوروں کو ڈاکٹر پاگل سمجھ رہے ہیں۔۔۔ اور میں سب سُن کر ہنس دیتا ہوں، ہاں ضرور بتاؤں گا، باہر جاکر!۔۔۔
ہم پاگل خانے کے اُس حصے میں ہیں جہاں پھل کھانے کے لیے بھی چاقو چھری رکھنے کی اجازت نہیں بلکہ دھاتی چمچ کی بھی ممانعت ہے ،مبادا،کوئی اپنی یا کسی دوسرے کی شہہ رگ نہ کاٹ ڈالے ، نہ رسی ،تار اور ایسا کپڑا چھوڑا جاتا ہے جس سے پھانسی لگائی جاسکے۔ بجلی کے بلب اونچے چھتوں سے لٹکے ہوئے ہیں لیکن ان کی ساری وائرنگ اور جلنے بجھنے کے سوئچ بھی پہرے دار کے کمرے میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔ ہمیں نرم پلاسٹک کی تھالیوں اور چمچوں سے کھانا دیا جاتا ہے، اورسارے گلاس بھی ڈسپوزایبل ہیں۔میں اپنے بارے میں تو روز لکھتا ہوں لیکن ،آج میں اپنے بارے میں کچھ نہیں لکھوں گا بلکہ آج رحیم خان نے مجھے اپنی زندگی کی کہانی سُنائی ہے،وہی لکھوں گا۔۔۔
میں تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے اوسط درجے کا طالب علم تھا، نہ غبی اور نہ پوزیشن لینے والا بلکہ یوں کہیں کہ میں کبھی کلاس میں موجود ہی نہ تھا ،اُستاد جب بھی پڑھانا شروع کرتا، میں اپنی ایک الگ دُنیا تخلیق کر لیتا جس میں ہوائی گھوڑے اُڑتے ، پریاں اپنے پر پھڑپھڑاتیں،سفید دودھیا روشنی کی آبشاریں گرتیں،سبزے کے وسیع میدان اور اُس میں مدہم ہواؤں سے رقص کرتے ہوئے نیلے نیلے پھول ہوتے،جگنو اور تتلیاںآ، آکر میرے ہاتھوں پیروں کے بوسے لیتیں، اور سکول کے چار پانچ گھنٹے ان ہی سوچوں میں گزر جاتے۔۔نہ میں سویا ہوتا اور نہ جاگتا، بلکہ ان کے درمیان کی ایک دُنیا میں رہتا ۔۔۔۔ سکول میں نہ میں کچھ سمجھتاکیونکہ میں کچھ سننے کی کوشش ہی نہ کرتا، اور نہ اساتذہ کچھ سمجھانے پر بضد ہوتے کیونکہ چالیس بچوں کی کلاس میں کون اتنی خبر رکھے۔۔۔ رفتہ رفتہ وقت گزرتا گیا اور جب میٹرک کے امتحان ہورہے تھے ،تو ظہرہ آنٹی پشاورسے چند دنوں کے لیے ہمارے ہاں لاہور،رہنے آئی، اُس کے ساتھ اُس کی اکلوتی بیٹی شائستہ بھی تھی جو شاید آٹھویں میں پڑھ رہی تھی،انتہائی خود سر اور اڈیل قسم کی لڑکی ۔۔۔ مجھے پہلی نظر میں تو نہیں،لیکن کچھ ملاقاتوں کے بعد بہت ہی اچھی لگنے لگی۔۔۔ وہ ہر وقت مُنہ پھلا ئے رہتی، بات بات پہ شکایتیں لگاتی،اور چھوٹی سے چھوٹی بات کا بتنگڑ بناتی۔ لیکن اُس کی ان باتوں میں بھی معصومیت تھی۔ اُس میں اتنی ذہانت ضرور تھی کہ لوگوں کے سامنے جھوٹ موٹ کی ہنسی ہنس لیتی،کیونکہ اکثر عورتیں یہ اداکاری اچھے طریقے سے کرتی ہیں۔ وہ اپنے سے بڑی عمر کی عورتوں کی بیچ بیٹھ کر اُن کی باتیں غور سے سُنتی اور پھر اسی انداز میں بولنے کی کوشش کرتی ، جس میں کبھی کبھی گالیاں بھی شامل ہوجاتیں۔ بڑی کرسی میں پیر اوپر کرکے گھٹنوں پر گال رکھتی اور گھر میں ہونے والے والی چہل پہل کا جائزہ لیتی۔ اکثر چپ رہتی لیکن جب بھی مُنہ کھولتی شکایتیں لگاتی یا کسی چیز سے بیزاری کا اظہار کرتی۔
جب سے شائستہ سے بات چیت شروع ہوئی ،میرے ذہن سے اُڑنے والے گھوڑے،پریاں ،جگنو اور تتلیاں محو ہوگئیں،دن رات آنکھوں کے سامنے شائستہ چلتی پھرتی رہتی ،کبھی مُنہ پھلائے کتاب کے پنے اُلٹ رہی ہے تو کبھی عورتوں کے درمیان بیٹھی جھوٹ موٹ کی ہنسی ہنس رہی ہے اور گالیاں سیکھ رہی ہے،کبھی میرے پاس آکر مجھ سے کسی کی شکایتیں لگا رہی ہے ،تو کبھی،اپنی سہیلیوں کے طرزِ عمل میں مین میخ نکال رہی ہے۔۔۔۔یہ ایک نہ رُکنے والی فلم میرے ذہن میں شروع ہوچکی تھی۔۔حالانکہ اُس سے مہینوں اور سالوں ملاقات نہ ہوتی۔۔لیکن میرے ذہن کی فلم میں روز نئی نئی اداؤں کا اضافہ ہوتا رہتا ۔میرے تصور میں ہم،کبھی لانگ ڈرائیو پر نکل کرراستے میں فلمی گیت سُنتے، شام تک پارک کے بینچوں پر بیٹھے رہتے، کبھی واہگہ بارڈر پر ملی نغموں کی تال پر ہاتھ اُٹھا کر جھومتے اور کبھی شاہی قلعے کی دیواروں کے ساتھ ٹیک لگائے ایک دوسرے کو تکتے رہتے۔۔۔فورٹ ریس کے سینما میں رات گئے کا شو دیکھتے۔۔۔ کبھی گھنے پیڑوں میں شام کے وقت چہچہاتے پنچھیوں کے شور سے لطف اُٹھاتے تو کبھی داتا دربار کے برآمدے میں دوزانوں ہوکر داتا صاحب کا،ا پنے ملن کے لیے شکریہ ادا کرتے۔۔۔ اورداتا صاحب کے گنبد کے کبوتروں کو شائستہ کے ہاتھ سے دانہ کھلاتے۔ 
وقت گزرتا گیا اور میں اپنی تعلیمی منازل طے کرتا رہا لیکن اپنی ہر ڈگری مجھے شائستہ کے قرب کا ایک مائل سٹون لگتی ،کیونکہ میں نے کبھی بھی شائستہ کے علاؤہ اپنی زندگی میں کسی اور چیز کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا، میرے ہم جماعت ڈاکٹر ، انجینئر ،بینک مینیجرزاور پتہ نہیں کون کون سے پروفیشن کے سپنے دیکھتے لیکن۔۔۔۔۔ میری زندگی کا مقصد صرف شائستہ کا ساتھ تھا۔۔۔ وہ ساتھ تھی تو زندگی ہر رنگ میں گلزار تھی اور اُس کے بغیریہ بنجر صحرا سے بھی تکلیف دہ اور بے وقعت۔۔۔ اُس کو منفی کرنے کا مطلب زندگی کو صفر سے ضرب دینے کے مترادف تھا، دولت شہرت سب فضولیات تھیں۔۔۔ اس لیے میں نے کبھی اُس کے سوا کچھ سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔ کیریئر کیا ہوتا ہے۔۔۔؟۔۔۔ کبھی غور ہی نہیں کیا۔۔۔کیونکہ شائستہ سے آگے مجھے کچھ نظر ہی نہیں آتا!۔۔
فیملی تعلقات کے باعث شائستہ اور اُس کے گھر والوں کا آنا جانا لگا رہتا۔۔ عید بقر عید پر ملاقات ہوجاتی ۔۔۔خوب ہنس کے باتیں ہوتیں۔۔۔وہ کالج یونیورسٹی سے فارغ ہو کر گھر بیٹھ گئی تھی ۔۔ میں نے بھی جیسے تیسے اپنے امتحانات پاس کرکے کچھ روزگار حاصل کر لیا تھا۔ جس سے سفید پوشی برقرار رکھی جاسکے۔ ۔۔۔کچھ مقابلے کے امتحانات کی تیاریاں بھی ہورہی تھی، کیونکہ یہ بھی شائستہ کو حاصل کرنے کا ایک راستہ تھا ،ورنہ مجھ میں پاس کرنے کی اہلیت باالکل بھی نہ تھی۔۔۔ والدین اکثرشادی کے لیے اصرار کرتے لیکن میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔۔۔، کچھ بننا چاہتا ہوں۔۔۔، کہہ کر ٹال دیتا، کیونکہ شائستہ سے آگے میری آنکھیں اندھی تھیں۔۔۔
پھر ایک دن شائستہ کی منگنی کی خبر سُنی۔۔۔ پتہ نہیں کیوں شائستہ نے کسی اور سے شادی کا فیصلہ کیا۔۔۔؟۔۔۔ لیکن اُسے تومیری محبت کا پتہ ہی نہیں تھا۔۔۔!۔۔۔ میں نے نجانے کونسے ڈر کی وجہ سے اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا۔ کیا ٹھکرائے جانے کا خوف تھا۔۔؟ ۔۔۔یا کچھ اور۔۔۔۔کچھ اور کیا تھا؟۔۔۔۔کیا شائستہ کو میں پسند نہیں تھا۔۔۔؟۔۔۔ لیکن جب بھی ملاقات ہوتی وہ میرے ساتھ ہی باتوں میں لگ جاتی میرے پاس گھنٹوں بیٹھی رہتی۔۔۔ مجھ سے ساری باتیں کرتی۔۔۔ وہ تو مجھے ہر دُکھ درد میں شریک رکھتی ، ہر خوشی کی خبر سُناتی۔۔۔۔ اور ہر مذاق میں شریک بناتی ۔۔۔جب بھی کسی کی غیبت کرنی ہوتی تو میرے سامنے ہی کرتی۔۔۔۔ جب بھی ملتی سارے عرصے کی سٹور کی ہوئی باتیں حافظے سے اُگل اُگل کر مُجھ تک پہنچاتی ۔۔۔ میرے پاس بیٹھ کے اُسے بھی اچھا لگتا۔۔بلکہ بہت اچھا لگتا۔۔۔لیکن ۔۔۔ لیکن میں کیا چاہتا تھا۔۔؟۔۔سب گھر والوں کے سامنے وہ میرے ساتھ بیٹھی باتیں کرتی رہتی۔۔۔۔ اس سے زیادہ ایک لڑکی اور کیا،اظہار کر سکتی ہے؟۔۔۔ لیکن میں نے ۔۔۔اظہار کیوں نہیں ۔۔؟۔۔ جب وہ اپنے رشتے کے بارے میں بتا رہی تھی۔۔۔جب وہ رشتہ کے لیے آنے والی عورتوں کے بارے میں بتا رہی تھی ۔۔۔۔ تو میں نے کیوں ہنس کر کہا ۔۔ہاں بہت اچھا رشتہ ہے، خوش رہو گی۔۔۔ میں ہر بات پر کیوں انجان بننے کی اداکاری کرتا ۔۔؟۔۔ میں کیوں اپنی دلچسپی کا اظہار نہ کرتا ۔۔۔میں کیوں اُس کے لیے اپنے دل میں موجود،اُسکاپیار اُس سے چُھپاتا رہا۔۔۔ میں کیوں چُپ رہا جب اُس نے باتوں باتوں میں پوچھ لیاتھا کہ :۔۔۔۔کسی خاص کے انتظار میں بیٹھ کر بوڑھے ہو جاؤگے، شادی کرلو! ۔۔۔ لیکن میں نے بات ہنسی میں اُڑادی تھی۔۔۔ہاں کسی بہت ہی خاص کا انتظار ہے،جواب میں کہاتھا۔۔!۔۔۔ لیکن اُس نے بھی تو کبھی نہیں کہا کہ تم مُجھے اچھے لگتے ہو۔۔مجھے تم سے پیار ہے!۔۔۔وہ بھی تو یہی کہتی تھی، کہ تم بہت اچھے انسان ہو!۔۔۔ اور اچھے انسان تو دُنیا میں کروڑوں ہیں ۔۔۔ اُسے بھی تو کہنا چاہیے تھا کہ ۔۔۔ تم مجھے اچھے لگتے ہو۔۔۔ میں تو مرد تھا۔۔۔ میں کیسے کہتا؟۔۔۔کہ تم مجھے اچھی لگتی ہو!۔۔۔میں تم سے پیار کرتا ہوں!۔۔۔میں تمہارے بن ادھورا ہوں!۔۔۔ تم میری جان ہو!۔۔۔۔ یہ زندگی تیرے لیے ہی وقف ہے۔۔۔ یہ کوئی فلم تھوڑی ہے؟۔۔۔یہ تو زندگی ہے !۔۔۔اگر وہ بُرا مان جاتی تو میں ایک دوست ۔۔۔ایک بے تکلف دوست سے بھی محروم ہوجاتا۔۔۔پتہ نہیں وہ کیا سوچتی میرے بارے میں ؟۔۔۔ ہاں پروفیسر صاحب۔۔۔؟۔۔۔ وہ کیا سوچتی میرے بارے میں ؟۔۔۔رحیم خان نے اپنی باتوں کا سلسلہ توڑتے ہوئے ۔۔۔میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیا ؟۔۔۔وہ کیا سوچتی میرے بارے میں ۔۔۔پروفیسر صاحب۔۔۔ اُس کی اُلجھی ہوئی میلی کچیلی داڑھی کے بالوں میں آنسوؤں کے قطرے شبنم کی طرح چمک رہے تھے۔۔۔ اور نتھنوں سے بھی پانی کے چند قطرے ٹپکنا شروع ہوچکے تھے۔۔۔ اُس نے اپنی کھلی ،لٹکتی ہوئی آستین سے ناک پونچھتے ہوئے میرے ہاتھ کو چھوکر تھپتھپایا۔۔۔۔پروفیسر صاحب !۔۔۔۔ شائستہ کو ہی اظہار کرنا چاہیے تھا!۔۔۔ ہاں۔نا۔۔ پروفیسر صاحب۔۔؟۔۔ کرنا چاہیے تھا ۔۔نا۔۔؟۔۔ ۔ اگر اُسے مجھ سے محبت تھی تو اُس کے لیے تو اظہار آسان تھا ۔۔۔کسی کاغذ پر انگریزی کے تین الفاظ لکھ کر تھما دیتی ۔۔میں کیسے نا کہتا!۔۔۔۔۔لیکن نہیں! ۔۔۔وہ کسی اور کی ہوگئی۔۔۔ہنسی خوشی!۔۔۔۔ میں کیسے اظہار کر تا ۔۔۔پشتون خاندانوں میں !۔۔میں کیسے اظہار کرتا؟۔۔۔ پروفیسر صاحب !۔۔آپ ہی بتائیں میں کیسے اظہار کرتا؟۔۔۔۔آج بھی وہ ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ کا سٹینڈ بنا کر میرے سامنے کر سی پر چُپ چاپ بیٹھ جاتی ہے اور مجھے گھورتی رہتی ہے۔۔۔ کیا سب میری غلطی تھی؟۔۔۔وہ بھی تو کہہ سکتی تھی،کہ تم مجھے اچھے لگتے ہو!۔۔۔ وہ کہہ سکتی تھی نا؟۔۔۔۔ وہ سامنے کرسی دیکھ رہے ہو۔۔۔ٹھیک میری چارپائی کے سامنے۔۔۔دیکھ رہے ہو ، نا۔۔۔ پروفیسر صاحب؟۔۔۔ اُس پرروز بیٹھتی ہے۔۔۔۔۔ اپنے پیروں کے گرد ہاتھ کس کر باندھ لیتی ہے، اوراپنے گھٹنوں پر گال رکھ کر مُجھ پہ ہنستی رہتی ہے۔۔۔ میں اگر ڈر رہا تھا ۔۔تو وہ بھی تو کہہ سکتی تھی؟۔۔۔۔۔ہاں پروفیسر صاحب!۔۔۔ہے۔۔ نا؟۔۔۔ اُس نے زنجیر پھر سے پکڑ کر زور زور سے جھنجھنائی۔۔رحیم خان بول رہا تھا۔۔۔اور میں سُن رہا تھا۔۔۔ہم دونوں کی داڑھیاں تر تھیں۔۔۔۔کیا ایسا بھی ہوتا ہے۔۔؟۔۔ کہ اتنے پاس آکر بھی لوگ بچھڑ جاتے ہیں۔۔؟۔۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے۔۔۔؟؟؟؟۔۔۔کیا شائستہ کو بھی رحیم خان سے محبت تھی۔۔۔۔؟؟؟۔۔۔۔کیا یہ رحیم کی ہی کہانی ہے۔۔۔۔۔؟؟؟۔۔۔ میں کیا لکھ رہا ہوں۔۔۔۔؟؟؟۔۔۔۔۔چُپ ہو جاؤ رحیم خان۔۔۔۔ اب چُپ۔۔۔۔!!!!!!۔۔۔۔۔۔۔۔


وسیم خان عابدؔ 
فروری 2019 
نوٹ: جملہ حقوق بحقِ مصنف محفوظ ہیں ۔ تمام کردار فرضی ہیں، کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقی ہوگی

Monday, 11 February 2019

ہم جو اب تھوڑے سے ہر جائی نظر آتے ہیں

ہم جو اب تھوڑے سے ہر جائی نظر آتے ہیں
تیری یادوں کے ہی شیدائی نظر آتے ہیں
موڑ دیتے ہیں جو عظمت سے رُخِ دریا کو
تیرے در پر وہ تمنائی نظر آتے ہیں
کیسے فطرت کا میں منکر رہوں گا میرے صنم
شاخِ گل تیری ہی انگڑائی نظر آتےہیں
مرے نالوں پہ وہ ظالم بھی یہی کہتا ہے
شعر سب قافیہ پیمائی نظر آتےہیں
عہدباندھے تھے جو پیپل کی گھنی چھاؤں میں
اُس کو اب باعثِ رسوائی نظر آتے ہیں
بعد مدت کے مجھے دیکھ کے اتنا بولے
ہو بہو آپ مجھے بھائی نظر آتے ہیں
دَم نہ نکلا ترے عابدؔ کا بہ وقتِ رُخصت 
عشق مائل بہ شکیبائی نظر آتے ہیں

وسیم خان عابدؔ
2019

رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن

Saturday, 9 February 2019

ویلینٹائن ڈے سپیشل : مجھ کو بس اُس سے ہی محبت ہے

یہ پتہ بھی نہیں وہ کیا چاہے 
یہ خبر بھی نہیں کہ جانے گی
مجھ کو دیکھے گی ،کیا وہ سوچے گی؟
دیکھنے پر ہی بُرا مانے گی۔۔۔۔؟
ہاں مگر پھر بھی ایک الفت ہے
مجھ کو بس اُس سے ہی محبت ہے۔۔۔
نہ غرض ہے مجھے اداؤں سے 
اُس کے آنچل سے نہ ہواؤں سے
مرمریں ہاتھ کے نہ نرم سے لمس
اور نہ زلفوں کی ان گھٹاؤں سے
پھر بھی جذبوں میں کوئی حدت ہے
مجھ کو بس اُس سے ہی محبت ہے۔۔۔
نہ غرض مجھ کو عشوے غمزے سے
اُس کے ہونٹوں کے سُرخ لالوں سے
میں نے دیکھا نہیں ہے اُس کی طرف
کیسے کہہ دوں کہ اُس کے بالوں سے
چاہے جانے کی، اُس کو عادت ہے 
مجھ کو بس اُس سے ہی محبت ہے۔۔۔
اُس کی آنکھیں ہوں ،جھیل جیسی ہوں
چھوٹی چھوٹی یا نیل جیسی ہوں
دُبلی پتلی ہو یا وہ موٹی ہو
سرو قامت ہو یا وہ چھوٹی ہو
میں نے دیکھا نہیں ہے اُس کی طرف
کیسے کہہ دوں وہ کیسی لگتی ہے؟
پھر بھی سینے میں کوئی آہٹ ہے
مجھ کو بس اُس سے ہی محبت ہے۔۔۔
کیا ہو؟ اچھی ہو یا بُری ہووہ
تُرش رو ہو، یا منچلی ہو وہ
کوئی خوش باش رہنے والی ہو
کوئی ویران زندگی ہو وہ؟
میں نے سوچا نہیں ہے کچھ بھی عبث
اُس کی یادوں میں بھی تو راحت ہے
مجھ کو بس اُس سے ہی محبت ہے۔۔۔
کیا ہوا، ساتھ اُس کے غیر رہے
وہ جُدا بھی رہے بخیر رہے
زندگانی میں اُونچ نیچ نہ ہو
گنگناتی برنگِ شعر رہے
میں تو کچھ اور سوچتا ہی نہیں
میں تو کچھ اور دیکھتا ہی نہیں
مجھ کو بس اُس سے ہی محبت ہے۔۔۔

وسیم خان عابدؔ 
فروری 2019
جملہ حقوق بہ حقِ شاعر محفوظ ہیں کاپی پیسٹ کی اجازت نہیں

Tuesday, 5 February 2019

مضمون: سعادت حسن منٹو صاحب۔۔۔میں کیا اور میری بساط کیا

سعادت حسن منٹومشہور افسانہ نگاراور مختصر کہانی کے بادشاہ، کی پیدائش وفات اور حالاتِ زندگی کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا۔ہجرت سے پہلے اُس کی زندگی کیسی تھی اور پاکستان میں آکر کیسی گزاری یہ بھی سب جانتے ہیں۔۔۔لیکن سب سے پہلا سوال جو منٹو کا نام سننے کے بعدہمارے ہاں عام پوچھا جاتا ہے ۔۔۔کیا منٹو فحش نگار تھے؟۔۔۔ہے۔ منٹو شناسی کا پیمانہ یہی رکھا گیا ہے کہ منٹو کے فحش نگاری کے متعلق کوئی کیا رائے رکھتا ہے۔یہ نہیں پوچھا جاتا کہ منٹو کیا کہنا چاہتے تھے۔ وہ جس چیز کاوہ ابلاغ چاہتے تھے ،وہ اُس کے جیتے جی اور اُس کے بعد کس قدر موثر طریقے سے ہوا۔ وہ کس طرح کے سماج کے خواہاں تھے اور کون سی روایات سے متنفر اور باغی۔۔۔ لیکن فحش نگاری کا اتنا پرچار ہوا ، کہ منٹو کے ذکر پر آج بھی سب سے پہلا جواب فحش نگاری کا دینا پڑتا ہے ۔۔۔مگر ہم آج پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سعادت حسن منٹو کو کیوں پڑھا جائے؟ فحش نگاری کی بات بعد میں۔ لٹریچر/ادب چونکہ معاشرے کا پر تو ہے اور انسانی رویوں کی ایک فلم جس سے آگاہی بصیرت عطا کرتی ہے ، جس کے زیرِ اثر انسان اپنی زندگی بہتر طور سے گزار سکتا ہے ۔یہ بصیرت دوسروں کو تسلیم کرنے اور اُن کا حق ماننے کا حوصلہ اور ظرف فراہم کرتا ہے۔لٹریچر انسانوں کو بتاتا ہے کہ وہ کونسے حالات ہوتے ہیں جن کے زیرِ اثر انسان دوسرے انسانوں کے لیے ضرر رساں بن جاتا ہے ۔ وہ کونسے فیصلے ہوتے ہیں جو انسان پر مصیبتوں کے پہاڑ گراتے ہیں اور وہ کونسے فیصلے ہوتے ہیں جن سے انسانی زندگی سُکھ چین کا استعارا بن جاتی ہے۔ وہ کیسے معاشرے ہیں جہاں سچ کو سُنا جاتا ہے برداشت کیا جاتا ہے اور سراہا جاتا ہے اور وہ کیسے معاشرے ہیں جہاں جھوٹ کی اتنی عادت پڑجاتی ہے کہ سچائی کے علمبرداروں کی زبانیں بند کرنے کے لیے زہر کے پیالے پلائے جاتے ہیں اور جسم کو جلاکر اناالحق کو دبانے کی کوشش کی جاتی ۔ادب سے محبت ایک زندگی میں سینکڑوں زندگیاں جینے کا سرور اور تجربہ عطا کرتی ہے۔انسان کی فطرت میں جاننے کی خواہش پوشیدہ ہے اور ادب سے اس خواہش کی آبیاری ہوتی ہے۔جہاں تک کہانی پڑھنے کی بات ہے تو کہانی پڑھنے والا جب لہر کو پکڑ لیتا ہے تو اُس میں بہتا ہی چلا جاتا ہے۔قاری کہانی کے ساتھ جُڑ جاتا ہے اور پھر جس کردار کے ساتھ وہ جُڑ گیا اُس کے دُکھ درد ،ہنسی خوشی سب کچھ جھیلتا اور انجوائے کرتا ہے۔اُن کے حالات و واقعات سے تجربات حاصل کرتا ہے اور کتھارسس بھی کرلیتا ہے۔بے اختیار آنکھوں سے آنسوبھی بہنے لگتے ہیں اور لب مُسکراہٹ کے لیے کُھل بھی جاتے ہیں۔شاید میں منٹو کے بارے میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ منٹوں نے جو لکھا مجھے بالکل حقیقی دُنیا سا محسوس ہوانیتی کو تانگے کا لائسنس نہ ملنے پر غصّہ آیا اور سلطانہ کی محرم کے لیے خُدابخش سے کالی شلوار کے لیے بچوں کی طرح ضدکرنابہت معصوم لگا۔ لیکن منٹو صاحب کی ٹریجڈی یہ ہے کہ اُسے سمجھنے کی کوشش سرے سے ہوئی نہیں یا دیدہ و دانستہ عوام کو اُن نظریات سے بھٹکایا گیااور فحش فحش کے نعرے لگا کر اصل مدعا کو دبا دیا گیا ۔۔۔شاید اسی لیے اُسے فحش نگار کہہ کر اُس سے گردن چُھڑا لی گئی۔ حالانکہ اگر ذہن میں بہت سارا تعصب بھی بھر لیا جائے، پھر بھی اُسے ایک زاویہءِ نظر کے طور پر تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ 
میں آج کی بات کر رہا ہوں 2019 کی ،جب موبائل فون پر تیز ترین انٹر نیٹ بھی موجود ہے اور لاکھوں کی تعدار میں ویب سائٹس بھی ۔۔۔میں اس جدیددور کی بات کر رہا ہوں جہاں نالج کے ایکسپلوژن/دھماکے کی ٹرمینالوجی چار دانگ ہے۔۔۔اس دور میں بھی اگر ایک ایم فل سکالر یہ کہے کہ ۔۔۔منٹو کو اس لیے نہیں پڑھا کیونکہ وہ ایسے ویسے ہیں۔۔۔ تومجھے سچ میں بہت مایوسی ہوتی ہے۔ کہ ہمارے پاس آج بھی،جب علم تک رسائی جیب میں موبائل فون کی صورت میں پڑی ہے، تحقیق کے بغیر فتوے صادر کرنے کی خو کتنی پکی ہے۔ ہماری پسند نا پسند کا معیار آج بھی کسی دوسرے کے نظریات ،تحریری یا تقریری ہوتے ہیں نہ کہ ہماری اپنی کاوش۔۔۔ ہماری رائے آزاد رائے کو ہمارا مسلک ،علاقہ ،برادری اورنسل کس قدر آسانی سے کچل دیتے ہیں، اور ہم کتنے متعصب ہوجاتے ہیں۔لیکن جب پوچھا جاتا ہے کہ ایسا ویساکا کیامطلب ہے اور کہاں پڑھا ؟ توکوئی قابِل ذکر توجیہہ نہیں ہوتی بلکہ اصلی ماخذ کا بھی پتہ نہیں ہوتا۔۔۔جس طرح ایک مصری عالم کے قتل کے بعد قاتل کا بیان تھا کہ میں نے اُس کے لکھے ہوئے کو پڑھا تک نہیں لیکن فتوی موجود تھا اس لیے یہ قدم اُٹھا لیا۔منٹو کے ایسے ویسے کی بھی یہی تاویل عام ہے۔ ۔ ایسا ہی ایک واقعہ فحش نگاری کے ایک مقدمے میں بھی پیش آیا،جب منٹو کے افسانے میں لفظ عاشق کو استغاثہ کے نانک چند ناز ایڈیٹر پربھات کی طرف سے فحش قرار دیا گیاتو منٹوکی حسِ ظرافت پھڑکی اور اسکا شائستہ مترادف پوچھا۔۔۔پھر خود ہی نعم البدل۔۔ یار۔۔ پیش کیا،تو محفل کشتِ زعفران بن گئی۔ 
اب آتے ہیں فحش کے بحث کی طرف۔۔منٹو نے اس الزام کا خود جواب ،مجموعے ٹھنڈا گوشت کے دیباچے میں بہ عنوان زحمتِ مہر درخشاں بہ حوالہءِ افسانہ ۔۔کھول دو۔۔ اور ۔۔۔ ٹھنڈا گوشت ۔۔۔اور مجموعہ لذتِ سنگ کے دیباچے میں بحوالہءِ افسانہ۔۔۔بو۔۔۔ اور مضمون۔۔۔ادب جدید۔۔۔دیا ہے۔عابد علی عابد صاحب نے ٹھنڈا گوشت کو کورٹ میں ادب پارہ کہااور ادب کبھی فحش نہیں ہوتا۔ادب تنقیدِ حیات ہے۔جیسے الفاظ استعمال کیے۔۔۔خیر ایک عام فہم بات ہے کہ الفاظ اور فقرے اگر تحریر سے الگ کیے جائیں تو اُس کے مطالب اور مفہوم پر گہرا اثر پڑتا ہے، اور ہر کوئی اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ اگر یہی اصول مان لیا جائے تو ایسے قابلِ تعزیر فقرے تو بہت سی مقدس کتابوں میں بھی ڈھونڈلیے جاتے ہیں چہ جائیکہ ادب۔۔۔ ادب اور زندگی تو براہ راست منسلک ہیں اس لیے کانٹے کو پھول کہنا منافقت اور ادب سے غداری ہے۔۔۔ اس میں اچھے بُرے کی بات نہیں ،کانٹا کانٹا ہے اور پھول پھول الگ الگ فطرت اور الگ الگ کام۔منٹو صاحب کے افسانوں کے اگر فقروں کو الگ کر لیا جائے تو آپ کوئی بھی لیبل لگا سکتے ہیں لیکن کسی فن پارے کو دیکھنے کے لیے اُس کا مجموعی تاثر لینا چاہیے افسانہ ٹھنڈا گوشت کو لیجئے اس کہانی کا مجموعی تاثر شہوت انگیز باالکل بھی نہیں کیونکہ ایشر سنگھ نے ایک ظلم کیا تھا جس کے نتیجے میں وہ ذہنی نامردی کا شکار ہوگیا اور اپنے انجام کو بھی پہنچ گیا۔ کیونکہ انسان کے اندر ضمیر نام کی چیز بھی رہتی ہے، ایشر سنگھ اور کلونت کور کا رشتہ منٹو صاحب نے افسانے میں واضح نہیں کیا لیکن کلونت کور کی جلن اس حد کی تھی کہ ایشر سنگھ پر خنجر کا وار کردیا،دونوں نے عام زبان استعمال کی ،اور روزمرہ کی گالیاں بھی دیں ،کیونکہ وہ دونوں گنوار تھے پی ایچ ڈی سکالرز نہیں۔ یہ سچ ہے کہ منٹو صاحب کے پاس معاشرے کی تصویر کھینچنے کے لیے سیلفی یا بیوٹیفیکیشن کیمرہ نہیں تھا اور وہ چیچک زدہ چہرے پر ریگمال پھیر کر اُسے ملائم دکھانے کے قائل نہ تھے،درحقیقت یہی چیز تو اُسے منٹو بناتی ہے۔اُس نے خود ہی کہا تھاکہ ۔۔۔ میں معاشرے کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔۔۔ اب اگر یہ سوال پیداہو کہ پھر فحش کیا ہے؟ تو اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ اگر لکھنے والے کی نیت کسی تخلیق سے تلذزاور اکساہٹ پیدا کرنے کی ہو تو فحش ہے ورنہ معلومات اور سبق دینے کی نیت سے کوئی واقعہ فحش نہیں ہوسکتا۔۔۔ اس کی سادہ سی مثال اتنی سی ہے کہ کوئی بھی زوالوجی کی کتاب اُٹھا کے دیکھ لیں،یا مسائلِ بہشتی زیوراز مولانا اشر ف علی تھانوی پڑھ لیں جہاں اشاروں کنایوں نہیں بلکہ کھلم کھلا بیانات موجود ہیں۔۔۔ اور موخر الذکر کا حوالہ تو عصمت چغتائی صاحبہ نے عدالت میں بھی دیا تھا،افسانہ لحاف کے دفاع کے سلسلے میں۔۔۔
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہم بطورِ معاشرہ کیا چھپانا چاہتے تھے جسے منٹو نے بیچ چوراہے لٹکا دیا؟۔۔۔ ہاں منٹو نے وہی سب کچھ بتایا جسے ہم کارپٹ کے نیچے ڈال کر سب اچھا کے نعرے لگا رہے تھے،اور منٹو نے ان کھوکھلے نعروں کا بھرم توڑ دیا۔ یہی کچھ ساحر لدھیانوی بھی کہاکہ: ۔۔۔ثناء خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں۔۔۔۔لیکن ہم بُرائی کو بُرائی نہیں سمجھتے بلکہ اُس کے ظاہر ہونے کو بُرا سمجھتے ہیں ۔۔۔منٹو نے اپنا دور دیکھا ، لیکن معاشرہ آج بھی ایسے ہزاروں واقعات سے بھرا پڑا ہے جس میں مقدش رشتوں کو پامال کیا جاتا ہے، زینب جیسے ہزاروں معصوم بچے ہوس کا شکار ہوکر مار دیے جاتے ہیں۔۔۔ اور گھریلو ملازمین کوتشدد سے قتل کر کے گندی نالیوں میں بہایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد ایسے کیس تواتر سے رپورٹ ہورہے ہیں۔ لیکن ہم نے ریشم کے کیڑوں کی طرح اپنے گرد کوکون بنائے ہیں خود ساختہ پاکیزگی کے، احساس جرم میں لتھڑے رہنے کے باوجود دکھاوے کی پارسائی کے، کیونکہ ،لوگ کیا کہیں گے کی لٹکتی تلوار ہمیں کاٹ ڈالے گی۔۔۔ مگرمنٹو ان سب سے بے نیاز تھا بے باک۔۔اس لیے۔۔۔ لوگ کیا کہیں گے۔۔۔ کی تلوار توڑ ڈالی،اور خودساختہ پارسائی کا کوکون پھاڑ دیا ،اسی لیے فحش نگار قرار دیے گئے اور مقدمے بھگتے۔ اور عدالتوں میںیہی صفائیاں پیش کر تے رہ گئے کہ وہ تخلیقیت سے لبریز ہیں، جنسی جذبات کے اشتعال سے اُسے کیا لینا دینا۔ ۔۔لیکن ہمیں اسلام کے قلعے میں منٹو کھٹک رہا تھااور کھٹکتا رہے گا کیونکہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کی عادت ہمارے ہاں عقیدہ بن چکا ہے۔۔۔ عدالتوں نے فحاشی کے الزام سے بری کر دیا لیکن سوال آج بھی وہی ہے کیا وہ فحش نگار تھے؟ کیونکہ ہم عدالت سے بھی اپنی مرضی کا فیصلہ چاہتے ہیں۔۔۔ ٹھیک اُسی عقیدے کے مطابق جو ماں باپ سے سُنا ،دیکھا اور سیکھاہے ۔۔ اور اُس خودساختہ سچ سے ایک انچ ہٹنے کو تیار نہیں۔ اسی لیے تو منٹو کے نام سے بننے والی فلم کو نمائش کی اجازت ہی نہ مل سکی۔۔کیوں؟۔۔۔ اس کیوں کے پیچھے بہت کچھ ہے؟وہ اس پاک سر زمین میں دفن ہوسکتا ہے لیکن اُس کی فلم سینما میں نہیں چل سکتی۔۔۔کیوں؟۔۔۔منٹوکو اجازت اس لیے نہیں ملتی کیونکہ وہ اللہ دتا جیسے مردوں کے بارے میں سب کو کھلم کھلا بتاتا ہے جنھیں اپنی بھوک کے آگے کوئی پاک رشتہ دکھائی نہیں دیتا(اللہ دتا)۔بابو کندن لال کے چہرے سے نقاب کھینچتا ہے،کیونکہ اُس کی سالی سمتری کی سسکیاں اسے بے چین کرتی ہیں(جاؤ حنیف جاؤ)۔ سکینہ کی بے بسی جو ہندوستان سے اپنی عزت بچا کر اپنوں میں پہنچ گئی، لیکن اپنوں کے ہاتھوں عزت کی پونجی لُٹا دی(کھول دو) ، ایسا کُھلا سچ ہم کیسے ہضم کرتے کیونکہ ہمیں تو یہی درس ملتا ہے کہ عیسائی، سکھ اور ہندو عورتوں کی جبری بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔۔۔۔ کالی شلوار کی سلطانہ تو رزق کے لیے دربدر پھر رہی تھی، خدا بخش جیسے مرد کے آسرے بیٹھی تھی، جو محنت سے جی چُرا کر پیر فقیروں کی منتیں کرتا رہا ۔۔۔اس افسانے میں تو منٹو نے فحاشی کا در اتنی سی بات کہہ کربند کر دیا، کہ جب شنکر نے سلطانہ سے اُس کے کام کے متعلق استفسار کیا ۔۔تو سلطانہ کا جواب۔۔جھک مارتی ہوں۔۔تھا(کالی شلوار)،مومن پندرہ سالہ ملازم کن ذہنی کیفیات سے گزرتا ہے، کن واقعات سے دوچار ہوتا ہے، جب وہ جوانی کی سرحدوں میں قدم رکھتا ہے، اور جب اُسے کھلے عام زنانے میں پھرنے کی اجازت ہو(بلاؤز)،مسعود جیسا سکول جانے والا بچہ دُنیا کو کس نظر سے دیکھتا ہے ،اس کے احساسات کیا ہیں، اور جب اسکا والد دن کے وقت کنڈی لگا کربچوں کے جاگتے ہوئے اُس کی امی سے سر دبوانے کا بہانہ کرتا ہے تو اُس بچے کے ذہن میں کیسی سرسراہٹیں ہوتی ہیں۔ (دھواں)، رندھیر کو گھاٹن لڑکی کے میلے اور بدبودار جسم میں جو گناہ کی لذت ملی وہ اپنی خوبصورت اور دولت مند بیوی کے قرب میں نصیب کیوں نہیں ہوئی(بو)،منٹو نے نذیرجیسے مردوں کے بارے میں بھی کھلم کھلا لکھا جو اپنی بیوی میں کبھی بھی سکون نہیں پاتے۔ کیونکہ وہی شارداجس میں اُسے کریم دلال کے ڈھیرے پر دنیا جہان کا سرور ملتا تھاجب گھر آئی تو اُسے وہ التفات نہ رہا(شاردا)،ہتک کی سوگندی اس لیے منٹو کو پسند تھی کیونکہ اُس کی انا جسم فروشی کے باوجود بھی زندہ تھی(ہتک) ۔۔۔منٹو نے ڈھائی سو کے لگ بھک کہانیاں لکھیں، جن میں سے متنازعہ کہانیاں بہت معمولی مقدار میں ہیں،کیونکہ منٹو نے ماہی گیر، تماشا، ٹوبہ ٹیک سنگھ،دیوانہ شاعر ،طاقت کا امتحان،انقلاب پسند، جی آیا صاحب، مزدوری ،چوری اور جھوٹی کہانی جیسے افسانے بھی لکھے،بابو گوپی ناتھ ، ممی اور ممد بھائی جیسے کردار معاشرے سے چُن چُن کر کاغذ پر امر کردیے اور لائسنس کی نیتی جیسے المیے بھی بیان کیے، جس پر شوہر ابو کوچوان کے مرنے کے بعد حلال روزی کے تمام دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور چار و ناچار جسم فروشی پر مجبور کردی جاتی ہے۔۔۔ منٹوجب کہتا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جو عورت کسی سے محبت کرے وہ بدکردار ہو۔۔۔۔ تو معاشرہ کیوں برداشت نہیں کرسکتا؟ جب منٹو غریب کے منہ سے بلواتا ہے کہ زندگی کتوں والی ملی اور حساب انسانوں والا دینا پڑے گا تو کیوں معاشرے کو فحش اور بے دین لگتا ہے؟
ایک لکھاری نے لکھا کہ منٹو کو ہر طوائف میں اچھائی اور ہر مولوی میں بُرائی نظر آتی ہے۔ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے،لیکن طوائف کی گندگی کے متعلق تو سب یک زبان ہیں منٹو اسی لیے منٹو ہے کہ اُس نے ظاہر سے آگے سوچا ،وہ وجہ تلاش کی جس کے باعث طوائف اور جسم فروش معاشرے کے لیے گالی بنی۔۔۔ منٹو کو جانکی کا بُرا فعل نظر آیا لیکن اُس کی بے بسی بھی نظر آئی ، اور اُس میں آیا اور عورت کا خلوص بھی دیکھا۔۔۔اسی لیے منٹو طوائف سے نفرت نہیں کرتا ،اسی لیے منٹو کے لیے وہ غلاظت کا ڈھیر نہیں ۔۔۔ حالانکہ اس میں سفید پوش ہی منہ ماری کرتے ہیں ۔۔۔ منٹو کے لیے وہ انسان ہے،جیتا جاگتا سانس لیتا اچھائی بُرائی محسوس کرنے والا انسان۔ورنہ جانکی کو کیا پڑی تھی کہ بیماری کے باوجود عزیز کی آیا بنی رہے اور اُس کے لیے دھویں میں پھونکیں مار مار کر پانی گرم کرتی رہے۔
لیکن پھربھی اگر کسی کے جذبات منٹو کے افسانے پڑھتے ہوئے مشتعل ہوتے ہیں تو اُسے لٹریچر کی نہیں کسی ماہرِنفسیات کی ضرورت ہے،کیونکہ ایسے لوگ درختوں پر پرندے دیکھ کر بھی مشتعل ہوسکتے ہیں اور آئے روز کی خبروں اور سوشل میڈیا سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ تو چند ماہ سے لیکر چند سال کے معصوم بچوں کو دیکھ کربھی مشتعل ہورہے ہیں اور اپنے افعال کے بعد اپنے اشتعال دلانے والے /والی کو قتل بھی کردیتے ہیں(استغفراللہ) یقیناََ ان سب نے منٹو کے افسانے نہیں پڑھے ہوں گے،اُن کے جذبات میں اشتعال کسی افسانے نے پیدا نہیں کیا ہوگا ۔اُن کے دماغوں میں کجی ہے اور اُن کے سافٹ وئیر کرپٹ ہیں۔۔ہر ذی شعور کوجس کے سافٹ وئیر میں کوئی خرابی نہ ہو، سلطانہ ،نیتی،سوگندی،جانکی ، سمتری، صغرٰی اور کتاب کا خلاصہ نامی کہانی کے کردار بملا کی بے بسی پر رونا ضرور آتاہوگا۔۔۔کیونکہ ان کرداروں میں بے بسی کے سوا کچھ بھی تو نظر نہیں آتا۔۔۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ منٹو نے ان موضوعات کو کیوں چُنا؟۔۔۔ اس کا جواب بھی اتنا ہی ہے کہ اُس نے کردار اپنے ارد گرد سے لیے وہ فلمی دنیا سے وابستہ رہا ، مشاہدہ کیا اور لکھا۔وہ کوئی رومانوی داستان گو نہیں تھا ،جنہیں ماورائی دُنیائیں ستاتی ہوں بلکہ ایک سرجن تھا جو چُن چُن کر ناسوروں کی نشاندہی کرتا ،کیونکہ صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے ان سےآگاہی اور ان کا علاج ضروری تھا۔
منٹو کیا کہنا چاہتاتھا ۔۔۔وہ سچ کہنا چاہتا تھا صرف سچ جو مصلحت آمیز نہ۔۔۔بس یہی کہ منافقت اُسے نہیں آتی ۔۔۔اور وہ کھلے گناہ کو منافقت اور ریا بھری نیکی پر ترجیع دیتا تھا۔ اُسے دو رُخے لوگ پسند نہ تھے۔افسانہ خورشٹ میں منٹو اور اُس کی بیوی صفیہ نے پارسی ڈاکٹر کی بیوی سے کراہت کا اظہار کیا ہے،جواپنی ڈیڑہ سالہ بچی کو چھوڑ کر ڈاکٹر کاپڑیا کے سکھ دوست کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔ ۔۔وہ کھلے عام کہتا ہے کہ پاکستان آزاد ہوا ہندوستان آزاد ہوگیا لیکن انسان دونوں ملکوں میں غلام تھا ،مذہبی جنونیت کا ،تعصب کا،حیوانیت اور بربریت کا۔۔۔ وہ اس پردے کو خطرناک کہتا ہے جو درپردہ نہ کیاجائے۔۔۔وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اگر معاشرہ کوٹھوں پر جانے والے بے غیرت اور شہوانیت بھرے لوگ پیدا کر سکتا ہے، تو اس معاشرے سے رنڈی پیدا کرنے پر حیرانگی کیوں ہوتی ہے، یہ تو سیدھا سادھا طلب اور رسد کا قانون ہے۔۔۔ اگر یہ باتیں غلط ہیں تو منٹوواقعی فحش نگار بھی تھا اور زبان دراز بھی۔۔۔اور پابندی کے لائق بھی!۔۔
منٹو جو کہنا چاہتا تھا اُس کا ابلاغ ہوا؟۔۔۔۔بے شک کیونکہ میں لکی مروت میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں ۔۔۔ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ پابندیوں سے سچ کی آواز نہیں دب سکتی۔۔
وسیم خان عابدؔ 
فروری 2019
جملہ حقوق بحقِ مصنف محفوظ ہیں اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا قانوناََ جرم ہے۔

ایک شعر

اُسےبُھلا نے کی کوشش میں خود کو بھول گیا
مِرا عدو بھی مری قبر سے ملول گیا

غزل: ہمارے ہاتھ سے کھینچا سپر گِرا ڈالا

تمہارے ساتھ جو گزرا وہ ایک، اک لمحہ
تراش کر دلِ گلدان میں سجا ڈالا
برنگِ بادہ و ساغر رہیں گے ساتھ صنم
یہ کیا کہ دل کا دیا صبح دم بجھا ڈالا
اُسے خبر تھی عدو ساتھ اب نہ چھوڑیں گے
ہمارے ہاتھ سے کھینچا سپر گِرا ڈالا
ہمارے ساتھ ملائک رہیں گے روتے ہوئے
یہ سچ سمجھ کے غمِ یار کو بُھلا ڈالا
تمہارے زانو پہ جو سر پڑا تھا تیرے بعد
فصیلِ شہر کی چوکٹ پہ ہی سجا ڈالا

وسیم خان عابدؔ

مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فِعْلن
جملہ حقوق بحقِ شاعر محفوظ ہیں حوالے کے بغیر کاپی پیسٹ کی اجازت نہیں

Saturday, 2 February 2019

میں جس کو روز بُھلانے کی سعی کرتا ہوں

وہ ساتھ تھے تو نظارے سبھی سہانے لگے
فضا مہکنے لگی غنچے چہچہانے لگے
کہیں پہ تتلیاں اُس کے طواف میں گم تھیں
کہیں پہ سروسمن کورنش بجانے لگے
وہ اپنا ہاتھ مرے ہاتھ میں تھما کر جو
بہشت کی سبھی رعنائیاں بُھلانے لگے
کبھی جو مولوی صاحب بیانِ حور کریں
قسم خُدا کی ترا ساتھ یاد آنے لگے
زمانے والے تُجھے لے اُڑے مرے ہمدم
برنگِ قیس مُجھے لوگ آزمانے لگے
میں جس کو روز بُھلانے کی سعی کرتا ہوں
اُسی کی یاد میں اس عمر کے خزانے لگے
ابھی تو آئے ہو بیٹھے ہو ذرا بات کرو
یہ کس کا فون ہے؟ یہ کس کے پاس جانے لگے؟
لگا دیا ہے دلِ ناتواں کو ہستی میں
فریب خوردہ نظر اب کہاں ٹھکانے لگے
سُنا کے چل پڑا عابدؔہر اِک غزل اپنی
وہ خود پسند اپنے شعر گنگنانے لگے

وسیم خان عابدؔ
مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن
حوالے کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا قانوناََ جرم ہے۔جملہ حقوق بحقِ شاعر محفوظ ہیں

Friday, 1 February 2019

کیسے صیاد ہو خُدا جانے

ہائے! بدنام کرکے چھوڑ دیا
دل نے کیاکام کرکے چھوڑ دیا
دولتِ حُسن رب نے دے کے اُسے
مُجھ کو ناکام کرکے چھوڑ دیا
تُجھ سے ملنے کو جی مچلتا ہے
کیسا الہام کرکے چھوڑ دیا
کیسے صیاد ہو خُدا جانے
پھر تہہِ دام کرکے چھوڑ دیا
کچھ بہانہ تو ہو جُدائی کا
کیوں مُجھے رام کرکے چھوڑدیا؟
جس نے رکھا ہے تجھ سے ربط صنم
اُس کو گمنام کرکے چھوڑ دیا
خاص اِک شخص تھا ترا عابدؔ
تو نے اب عام کرکے چھوڑ دیا

وسیم خان عابدؔ
خفیف مسدس مخبون محذوف
فاعلاتن مفاعلن فَعِلن

جملہ حقوق بحقِ شاعر محفوظ ہیں کاپی پیسٹ کی اجازت نہیں