ہم جو اب تھوڑے سے ہر جائی نظر آتے ہیں
تیری یادوں کے ہی شیدائی نظر آتے ہیں
موڑ دیتے ہیں جو عظمت سے رُخِ دریا کو
تیرے در پر وہ تمنائی نظر آتے ہیں
کیسے فطرت کا میں منکر رہوں گا میرے صنم
شاخِ گل تیری ہی انگڑائی نظر آتےہیں
مرے نالوں پہ وہ ظالم بھی یہی کہتا ہے
شعر سب قافیہ پیمائی نظر آتےہیں
عہدباندھے تھے جو پیپل کی گھنی چھاؤں میں
اُس کو اب باعثِ رسوائی نظر آتے ہیں
بعد مدت کے مجھے دیکھ کے اتنا بولے
ہو بہو آپ مجھے بھائی نظر آتے ہیں
دَم نہ نکلا ترے عابدؔ کا بہ وقتِ رُخصت
عشق مائل بہ شکیبائی نظر آتے ہیں
وسیم خان عابدؔ
2019
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
تیری یادوں کے ہی شیدائی نظر آتے ہیں
موڑ دیتے ہیں جو عظمت سے رُخِ دریا کو
تیرے در پر وہ تمنائی نظر آتے ہیں
کیسے فطرت کا میں منکر رہوں گا میرے صنم
شاخِ گل تیری ہی انگڑائی نظر آتےہیں
مرے نالوں پہ وہ ظالم بھی یہی کہتا ہے
شعر سب قافیہ پیمائی نظر آتےہیں
عہدباندھے تھے جو پیپل کی گھنی چھاؤں میں
اُس کو اب باعثِ رسوائی نظر آتے ہیں
بعد مدت کے مجھے دیکھ کے اتنا بولے
ہو بہو آپ مجھے بھائی نظر آتے ہیں
دَم نہ نکلا ترے عابدؔ کا بہ وقتِ رُخصت
عشق مائل بہ شکیبائی نظر آتے ہیں
وسیم خان عابدؔ
2019
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
No comments:
Post a Comment