وہ ساتھ تھے تو نظارے سبھی سہانے لگے
فضا مہکنے لگی غنچے چہچہانے لگے
کہیں پہ تتلیاں اُس کے طواف میں گم تھیں
کہیں پہ سروسمن کورنش بجانے لگے
وہ اپنا ہاتھ مرے ہاتھ میں تھما کر جو
بہشت کی سبھی رعنائیاں بُھلانے لگے
کبھی جو مولوی صاحب بیانِ حور کریں
قسم خُدا کی ترا ساتھ یاد آنے لگے
زمانے والے تُجھے لے اُڑے مرے ہمدم
برنگِ قیس مُجھے لوگ آزمانے لگے
میں جس کو روز بُھلانے کی سعی کرتا ہوں
اُسی کی یاد میں اس عمر کے خزانے لگے
ابھی تو آئے ہو بیٹھے ہو ذرا بات کرو
یہ کس کا فون ہے؟ یہ کس کے پاس جانے لگے؟
لگا دیا ہے دلِ ناتواں کو ہستی میں
فریب خوردہ نظر اب کہاں ٹھکانے لگے
سُنا کے چل پڑا عابدؔہر اِک غزل اپنی
وہ خود پسند اپنے شعر گنگنانے لگے
فضا مہکنے لگی غنچے چہچہانے لگے
کہیں پہ تتلیاں اُس کے طواف میں گم تھیں
کہیں پہ سروسمن کورنش بجانے لگے
وہ اپنا ہاتھ مرے ہاتھ میں تھما کر جو
بہشت کی سبھی رعنائیاں بُھلانے لگے
کبھی جو مولوی صاحب بیانِ حور کریں
قسم خُدا کی ترا ساتھ یاد آنے لگے
زمانے والے تُجھے لے اُڑے مرے ہمدم
برنگِ قیس مُجھے لوگ آزمانے لگے
میں جس کو روز بُھلانے کی سعی کرتا ہوں
اُسی کی یاد میں اس عمر کے خزانے لگے
ابھی تو آئے ہو بیٹھے ہو ذرا بات کرو
یہ کس کا فون ہے؟ یہ کس کے پاس جانے لگے؟
لگا دیا ہے دلِ ناتواں کو ہستی میں
فریب خوردہ نظر اب کہاں ٹھکانے لگے
سُنا کے چل پڑا عابدؔہر اِک غزل اپنی
وہ خود پسند اپنے شعر گنگنانے لگے
وسیم خان عابدؔ
مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن
حوالے کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا قانوناََ جرم ہے۔جملہ حقوق بحقِ شاعر محفوظ ہیں
No comments:
Post a Comment