Wednesday, 4 December 2019

کارِ بے کار

تحریر: وسیم خان عابدؔ
ابھی چند سال پہلے کی بات ہے، کہ ہم ایک بڑے شہر کے پوش علاقے میں بے کار پڑے، دیوجانس کلبی کی طرح زندگی کی گھتیوں کو سلجھانے کے بارے میں سوچ بچارکر رہے تھے۔کہ دماغ کے کسی چینل نے ”درائیونگ سیکھ لو“ کا مفت مشورہ دیا۔ حالانکہ زندگی کے بدترین دور سے گزر رہے تھے۔ لیکن من کی دنیا سے اٹھنے والی آوازپر لبیک کہا اورڈرائیونگ سنٹر کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔خیر ایک دوست کے توسط سے ایک انسٹرکٹر صاحب سے ملے،جو اپنے آپ میں ڈاکٹروں سا نخرہ اور نخوت پالے ہوئے تھے۔ موصوف سفید لٹھے میں ملبوس، اور کا فی سے زیادہ چِکنے، مطلب کلین شیوتھے۔ اس لیے اُسے استاجی (استادجی) کہنے کے بجائے سر کہہ کر مخاطب کیا تو صاحب اور بھی پھول گئے، اور جلد از جلد فیس طے کرنے لگے۔۔۔ صاحب نے دبے الفاظ میں یہ بھی کہا کہ: میرے سنٹر سے زیادہ تر لیڈیز ہی ڈرائیونگ سیکھتی ہیں لیکن آپ کو آپکے دوست کی وجہ سے داخلہ دے دیتا ہوں۔۔اور ہم نے کہا۔۔۔جی!!۔ جب ہماری سمجھ میں پوری بات آجائے تو ہمارے منہ سے بے ساختہ۔۔جی۔۔ کے الفاظ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔استاجی کی چکنی کلین شیو بھی سمجھ میں آگئی تھی تب ہی۔۔۔جی!!۔۔۔  کے ساتھ سر بھی اثبات میں ہلا دیا۔
 استادجی کی ٹیسٹ ڈرائیو نگ کا راستہ چونکہ ہمارے گھر کے سامنے سے گرزتا تھااس لیے اُس نے اگلے دن، مطلب فیس جمع کرنے کے اگلے دن”گھر سے باہر نکلو“ کا فون کیا۔ اور ہم سعادت مند شاگرد کی طرح گھر سے باہر نکلے،تو کیا دیکھتے ہیں کہ چکنے استاجی ایک گرے کلر کی بد ترین کھٹارا مہران کار کی فرنٹ سیٹ پہ نیم دراز بیٹھے ہیں اور کھڑکی سے کہنی ایسی نکلی ہے جیسے نو دولتیے پراڈو کا شیشہ نیچے کرکے کہنی کا حصّہ لوگوں کومنہ کی جگہ دکھاتے ہیں۔وہ ہمیں جلدی جلدی پیچھے بیٹھنے کا اشارہ کررہے تھے۔ اس کار پر کار کی جسامت سے بڑا بورڈ بھی لگا تھا جس پر سرخ پینٹ سے،اے بی سی(فرضی)ڈرائیونگ سکو ل کی جلی تحریر کسی فارغ خوش نویس نے اپنا وقت صرف کرکے لکھی تھی۔ہم نے پہنچ کر استاجی کو،سلام کیا تو پچھلی سیٹ پر پہلے سے دو لڑکے براجمان تھے جو مجھے دیکھتے ہی سکڑنا شروع ہوگئے۔کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک کانپتا ہوا نو جوان بیٹھا تھا جس کے ہاتھ پیر نروس ہونے کی وجہ سے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ یہ تینوں بھی میری طرح بالکل نوآموزاور ڈرائیونگ سے انجان تھے۔ انسٹرکٹر صاحب کے پیروں میں بھی ایک کلچ اور بریک ایکسٹرا لگے تھے تاکہ بوقتِ حادثہ دبا سکیں (اگر موقع ملے)۔
 اُس لرزتے کانپتے لڑکے نے جب سات آٹھ کلو میٹر تک گاری چلائی تو مجھے ڈرائیونگ سیٹ پر آنے کا حکم ملا۔میں نے جیسے ہی گاڑی میں گھسنے کی گوشش کی تو گھٹنے اضافی معلوم ہوئے کیونکہ ان کے گھسنے کی جگہ نہیں بن رہی تھی۔میں نے پھر کوشش کرنی چاہی تو استاجی نے ایک لیور کھینچ کر سیٹ کو اپنی آخری حدوں تک دشمن کی فوج کی طرح دھکیل دیا۔اب میں نے اپنے اعضاء سکیڑ کر کار میں داخلے کے لیے ہمت اکھٹی کی تو میری حالت ایسی بنی جیسی، آٹھ نمبر کے جوتے میں دس نمبرکا پیرڈالتے وقت بنتی ہے۔ایسی ہی کسی سچوئیشن میں مرحوم ماموں جان چھوٹی دودھیا پیالیوں کو دیکھ کر فرماگئے تھے،بھانجے! یہ ہماری انگلیوں کے لیے نہیں بنیں، بلکہ چائنہ اور جاپان کے قلیل الوجود مخلوق کے لیے بنی ہیں اس کی ڈنڈی میں انگلی گھسانے کی سعی،لاحاصل ہے۔ میری یہی رائے مہران کار کے متعلق ہے۔خیر سیٹ پر بیٹھنے کے بعدسارا قصور گاڑی کا معلوم نہیں ہوتا تھا بلکہ ہمارے ڈیل ڈول کی بھی کچھ نہ کچھ خطا بنتی تھی۔ جب میری حالت اُردو حرف ”ع“جیسی ہوئی تب ونڈ سکرین سے سڑک نظر آئی۔۔۔استاجی نے سب سے پہلے کلچ بریک اور ریس کے متعلق سمجھانا چاہا جو میرے گھٹنوں اور گاڑی کی سوئچ بورڈ کے چپک جانے کی وجہ سے نظر آنے، نا ممکن تھے۔ استاجی نے زور لگا کر میری ایک ٹانگ مروڑ کر ان تین،آ۔داب، قسم کے لیوز کی طرف اشارہ کیا جن میں سے دو ہم ایک ہی پیر کے نیچے۔۔داب۔۔ چکے تھے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مردانہ پیر سے نوازا ہے۔۔۔استاجی نے گرجدار آواز میں پیرپیچھے ہٹانے کا حکم دیا۔۔ لیکن ہم نے معصومیت سے جواب دیا ”سر، کس طرف ہٹائیں گنجائش کہاں۔۔؟“ کہا!موڑ لو۔۔۔ہمارے منہ سے نکلا ہڈی ہے پلاسٹک نہیں۔۔۔بگڑ گئے کہ بہت بولتے ہو۔حالانکہ ہم نے تو اپنا مدعا بیان کیا تھا۔خیر ہم شاگر د تھے،فوراََسوری کہا۔۔۔ اور پھر سے سیکھنا شروع کردیا۔استاجی کسی ایٹمی سائنس دان کی طرح ایک ایک پرزے پر تبصرہ کر رہے تھے۔ اور گرمی کی بابت اپنے آدھے سر کا پسینہ سفید ٹائلٹ پیپر سے پونچھ رہے تھے۔کیونکہ ٹائلٹ پیپر کی نئی پنی لینے کے لیے سوئچ بورڈ کا ڈھکن کھولتے اور بند کرتے رہتے۔استاجی کے آدھے سر پر،جو اللہ تعالیٰ کی مہر بانی سے فارغ البال تھا، پسینے کی ننھی ننھی بوندیں جھلک رہی تھیں۔ہر پرزے کا اِنٹرو، دیتے ہوئے استاجی بطورِ تکیہ کلام ”یہ تو بچوں کو بھی پتہ ہے“ استعمال کر رہے تھے ہم ٹھہرے شاگر ورنہ کہہ سکتے تھے کہ اگر پتہ ہوتا تو تجھے دس ہزار منہ دکھائی میں کیوں دیتے!!۔۔ لیکن چُپ رہے کیونکہ میری تمام مشکلات کی جڑ میری زبان ہے اور لکھائی ہے بھی۔گھر والے بھی ہرایسی ویسی بات مجھ سے باجماعت چھپاتے ہیں کہ مبادا کسی ڈائری میں لکھ نہ لے۔ایک عزیزہ کی حلوہ بریانی کا ذکرِ خیر کہیں پر کیا تھا تو مہینوں اپنی ریسپی کے بجائے مجھ پر ناراض ہوتی رہی۔۔۔ میرے سامنے صرف و ہی بات کی جاتی ہے جو اگلی نسلوں سے چھپانی نہ پڑے۔اور کچھ ایسا ہی حال میرے دوستوں اور یونیورسٹی فیلوز کابھی ہے۔
استاجی اس گاڑی میں بالکل کنفرٹ ایبل تھے بلکہ اس کے جسم کے حساب سے مہران کی سیٹ اس کے لیے زائد از ضرورت تھی کیونکہ آجکل چھوٹے ماڈل ہی بہت فیشن میں ہیں خواہ انسانوں میں ہوں یا گاڑیوں میں۔۔!۔۔ کیونکہ اکانومیکل ہوتے ہیں۔چھوٹی جسامت والے ایک ہی زندگی میں دس دس کاروبار بھی کرتے ہیں اور تھکتے بھی نہیں، مجھے تو اتنے کام کرنے کے لیے سات جنم لینے پڑیں گے۔  ابھی پچھلے دنوں ایک فنکشن میں جانے کا اتفاق ہوا،تو ایک حد سے زیادہ کانفیڈنس والی آنٹی آئی اور کہا بیٹا بہت لمبے اور موٹے ہو گئے ہو۔۔۔کوئی ایکسرسائز کیوں نہیں کرتے۔۔۔، ہمارے منہ سے بے اختیار نکل گیا نہیں آنٹی ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ آپ نے ساری زندگی چونی کے ساتھ گزاری ہے اس لیے ہزار کا نوٹ بڑا لگ رہا ہے،ورنہ پانچ ہزار اور دس ہزار کے سامنے بالکل چھوٹا ہے!!!۔۔۔ اب اتنی سی بات پر،جو تشبیہ اور استعارے کا سہارا لیکر کی جائے کوئی بھلا مانس ناراض ہوتا ہے،بھلا۔۔۔ منہ پہ بدتمیز کہہ کر چلی گئی۔۔۔!۔۔حالانکہ آپ لوگ اسکے شوہر کو دیکھتے تو خودہی کہہ دیتے کہ چونی بھی زیادہ کہا ہے۔۔
خیر چکنے استاجی نے کہا دائیں پیر کے نیچے ریس ہے، درمیان والا بریک اور بائیں پیر کے نیچے کلچ ہے جسے ہمیشہ دبائے رکھنا ہے جس طرح ہیڈ ماسٹر استادوں کو،افسر کلرکوں کو اور بیویاں شوہروں کو دبا کر رکھتی ہیں ورنہ گاڑی نہیں چلتی جھٹکے لے لے کر بند ہو جاتی ہے۔۔۔۔!!۔۔ایک راڈ جو دونوں سیٹوں کے درمیان تھااور اُس پر ایک دو تین چار بھی لکھے تھے (باقی لکھائی بھی تھی لیکن مٹ چکی تھی)،کو گئیر کہہ کر پکارا جارہا تھا۔پہلا گیئر آگے بائیں کونے میں لگائیں،دوسرا پیچھے بائیں کونے میں لگائیں، تیسرا درمیان میں آگے۔۔۔۔تیسرا درمیان میں،اور آگے!۔۔مجھے رقیب جیسا لگا۔۔۔کیونکہ عاشق سے آگے بھی ہوتا ہے اورمحبت کرنے والوں کے درمیان بھی!!!!۔۔بندہ جیلس ہی ہوجاتا ہے۔۔۔خیر،اسے جملہءِ معترضہ سمجھ لیجئے۔چوتھا بھی درمیان میں تھالیکن،پیچھے تھا اس لیے عاشق سے پیچھے رہنے والے رقیب نقصان دہ نہیں ہوتے۔ اس لیے بُرا نہیں لگا اور نہ جیلسی فیل ہوئی۔۔اور بس!!!۔۔اتنے ہی گیئر مجھے استاجی نے سکھائے۔۔ ریورس کا اُس کی ڈرائیونگ میں کوئی کانسیپٹ ہی نہیں تھا۔ میں نے اللہ کا نام لیکر گاڑی سٹارٹ کی، اور جلدی جلدی چھت سے لٹکی ہوئی سفر کی دعا بھی زبر زیر درست کرکے پڑھی،اور اپنے اوپر آیت الکرسی بھی دم کی،کیونکہ مجھے اپنی قابلیت کا پتہ تھاکہ کتنی جلدی سیکھتا ہوں۔۔گاڑی جوں ہی روانہ ہوئی زور زور سے کھانستے ہوئے اچھلنے لگی،اور چند فٹ مٹکنے کے بعد سپیڈبریکر کے کھڈے میں رک گئی کیونکہ حکومت نے آجکل سپیڈ بریکرز کی جگہ چھ سات انچ کے کھڈے کھود دیے ہیں، تاکہ کچھ تبدیلی دیکھنے کو ملے۔۔۔  استاجی نے غصّے سے گھورا کلچ سے پیر کیوں اُٹھایا۔۔۔ہم نے کہا۔۔۔سر بریک کے لیے۔۔۔تو بریک کی کیا ضرورت تھی؟۔۔۔سر کھڈے کے لیے۔۔لیکن آپ کے سامنے بھی تو کلچ لگا ہے۔۔آپ دباتے۔۔۔ اُس نے ایک بائیں ہاتھ کا تھپڑ اپنے گنجے اور پسینے سے تر سر پر مارا۔۔جس سے پسینے کی چھینٹیں اُڑکر کچھ میرے منہ پر اور کچھ سامنے والے شیسے (ونڈ سکرین)پر  منتقل ہوگئیں۔۔۔۔ تُجھے کون گدھا ڈرائیونگ سکھائے گا۔۔۔ہم نے انکساری سے، چہرے پر معصومیت لاتے ہوئے جواب دیا!۔۔۔۔سر آپ۔۔!!!۔۔
حالات نارمل ہوئے تو،استاجی نے پھر سے گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی جوسٹار ٹ نہ ہوسکی استاجی نے حکم دیا گاڑی گرم کردی ہے تو نے۔۔۔ہم نے کہا۔۔کونسا بابو سر ٹاپ تک لے کے گیا ہوں۔۔؟؟ ابھی تو بمشکل چار فٹ کا فاصلہ طے کیا ہے۔۔۔گاڑی ہی کھٹاراماڈل ہے!!۔۔۔آپ سے بھی تیز گرم ہوتی ہے۔۔۔ استاجی نے پہلے غصے سے دانت پیسے اور پھر زیرِ لب مسکرائے شاید بات سچ لگی یا سینس آف ہیومر جاگ گیا۔۔۔کہ کھٹارا جلد گرم ہوجاتے ہیں۔۔۔!!!۔۔جس کے لیے گاڑی ہونا شرط نہیں!!!انسان بھی!!!۔۔۔۔خیر جب گاڑی پھر سے رواں دوان ہوئی تو سب سے زیادہ دِقت مجھے گیئر بدلتے وقت پیش آئی کیونکہ استاجی فرما رہے تھے کہ گیئر بدلتے وقت گیئر کی طرف نہ دیکھو بلکہ سڑک پر نظر رکھو!۔۔۔حالانکہ کوئی بھی ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے سڑک پر نظر نہیں رکھتا دائیں بائیں پھرنے۔۔والیوں پہ رکھتا ہے!!۔۔۔لیکن ہم بار بار گردن موڑ کرگیئر اور کلچ کی طر دیکھتے رہتے۔۔۔گیئر سے یاد آیا کہ۔۔۔خواتین لڑائی میں اور بچے روتے ہوئے کافی کیئر تبدیل کرتے ہیں۔۔۔۔مشترکہ فیملیز میں پلنے والے بچے اس راز سے بخوبی واقف ہیں۔جبکہ الگ گھروں میں پیدا ہونے والے اس نعمت سے محروم۔۔۔ویسے میرے پاس زندگی کی جتنی بھی معلومات ہیں میں نے بچپن میں عورتوں کی لڑائیوں سے کشید کی ہیں۔میرا پسندیدہ مشغلہ عورتوں کی لڑائی دیکھنا تھا کیونکہ یہ منہ زبانی ہوتی ہے پرتشدد نہیں ہوتی۔۔۔آجکل کے ٹاک شوز ہی کی طرح۔۔خیر خواتین کے جھگڑے کا اصل مزہ پانچویں گیئر میں آتا ہے، جب گھر میں کوئی مرد نہ ہو۔اور اصل معلومات بھی اسی پانچویں گیئر میں شیئر کی جاتی ہیں۔یعنی تاریخ کے جھرونکے کھولے جاتے ہیں۔
اب استاجی، کے ساتھ یہ دس کلومیٹرکا ٹرپ ہمارا معمول بن گیا اور اسکے ساتھ گپ شپ بھی ہو گئی۔اس نے کچھ اشارے بھی سمجھائے اور سکھائے اور یقین مانیں ہمیں سارے ڈرائیونگ کورس میں اشارے ہی اچھے لگے۔اُردو ادب کا طالب علم ہونے کے ناطے اشاروں اور کنایوں کے ساتھ میرا پرانارشتہ ہے۔خیر ادب میں آنکھ کے اشاروں پر زور دیا جاتا ہے جبکہ ڈرائیونگ کورس میں ہاتھ کے اشاروں پر۔لیکن فرق یہ ہے کہ:ہاتھ کے اشاروں پر رکنا پڑتا ہے اور آنکھ کے اشاروں پر۔۔۔!!!!۔۔۔۔ٹریفک کا اشارہ تو ڑو،تو پر چہ ہوتا ہے جبکہ ادب کا اشارہ کرو(کسی انجان کو) تو پر چہ ہوتا ہے۔ خیر ایک ماہ کی محنت کے بعد ہم گاڑی یعنی کھٹارا مہران گاڑی چلانا سیکھ گئے اور کار میں سکڑ کر بیٹھنا بھی۔۔۔۔!!  ایک دن استاجی نے ایک پرانا انجن دکھایا انڈیکیٹر ز کے بارے میں بتایااور گاڑی میں پانی بھرنا سکھایا۔۔۔۔ لیکن اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس نے سکھایا تو ہم سیکھ گئے!!!۔۔۔۔ استاجی نے ایک دن مجھے نوید سُنائی کہ تم اب اکیلے ڈرائیو کر سکتے جو باطل ہی ثابت ہوا، کیونکہ اکیلے آج تک نہیں کی۔۔۔ اس خوشخبری کے بعد بل کھاتی پہاڑیوں میں ڈرائیونگ کے گر سکھانے کے لیے ایک پہاڑی علاقے کا رُخ کیا،اور پیٹرول کا خرچہ فیس پر اضافہ کرکے میرے کھاتے میں ڈال دیا۔۔۔اوریوں ہم نے کارِ بے کارچلاناسیکھ ہی لی۔
٭٭٭٭

Tuesday, 3 December 2019

افسانہ: تیرامُشرک۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔

میں بھی عجیب انسان ہوں قرآن مجید بچپن سے پڑھا،بلکہ مولوی صاحب سے مع ترجمہ اور تشریح کے پڑھا،لیکن مشرک کی وضاحت اس ڈھنگ سے پہلے کبھی نہ سُنی،جو انیلاکی بے تکی باتوں نے کر دی۔آج اتوار کی صبح میں کمرے میں بستر پر اوندھا پڑاچھٹی کا لطف اُٹھا رہا تھا، جبکہ انیلا کمرے کی صفائی میں مصروف میز اور الماری پر کپڑا رگڑ رہی تھی،اورساتھ میں کچھ بڑ بڑا بھی رہی تھی جب میں نے کی وجہ پوچھی تو جھٹ  سے جواب دیا۔۔۔۔ ”عشق خواہ مجازی ہو یا حقیقی مشرک دونوں میں ملعون اور راندہ ہے۔۔۔ سمجھے!!!“۔۔۔۔شرک کی نہ معافی ہے اور نہ تلافی!!۔۔۔۔۔ہائے!۔۔۔میرے منہ سے بستر پر بیٹھتے ہوئے حیرت سے ہائے  کے الفاظ نکلے۔۔۔  اور دماغ میں بچوں کا جھنجھنا،جھنجھنانے لگا۔۔۔ میں نے تعجب سے سوال کیا۔۔۔کیا؟۔۔مشرک؟۔۔کون مشرک۔۔؟۔۔۔اور انیلا نے میری طرف دیکھے بغیر شیشے پر پرانے اخبار کاگیلا ٹکڑا ملتے ہوئے کمال بے پر واہی سے جواب دیا۔۔”جب سر اور دل دو مختلف جگہوں پر جھکنے لگے تو سمجھو مشرک بن چکے ہو“۔۔۔ میں نے خاموشی سے اُسے گھورنا شروع کیا تو اس نے اپنا لباس درست کرتے ہوئے دوپٹے کا پلو پورے سر پر پھیلایا، اور باقی حصّہ اپنے سینے پر ڈالا، گویا نظروں کے تیراس کے بدن کو چھلنی کر دیں گے۔۔۔ انیلا چند لمحوں کی خاموشی کو توڑتے ہوئے پھر سے بول پڑی:مقصود! جب انسان کسی کو دل سے چاہے،تو اُسے چاہیے کہ: اُسی کا ہوکر رہے!!!۔۔ باقی انسانوں کی زندگی برباد نہ کرے!!!۔۔۔ انیلا کا یہ لہجہ میری چار سالہ ازدواجی زندگی میں میرا پہلا تجربہ تھا۔۔۔ کیونکہ اس سے پہلے وہ اس ٹون میں مجھ سے کبھی مخاطب نہیں ہوئی۔۔ انیلا ایک لمحے کے لیے چُپ ہو گئی لیکن میں نے اپنی زندگی کی کتاب کے صفحات اُلٹاناشروع کردیے۔۔۔
انعم۔۔!!۔۔بڑی بڑی آنکھوں والی انعم!! گوری چٹی اور تیکھے نقوش والی ہنس مکھ انعم!!!۔۔خوبصورتی تو ایک طرف۔۔،جس کے سب لوگ معترف تھے۔۔۔!!!۔۔ لیکن جب میں اس کے قریب بیٹھتا تو سکون اور نفاست کا ایک ہالہ اس کے ارد گرد محسوس کرتا ایک روشنی کا دائرہ جس کے اندر داخل ہونے کے بعد میرے سارے غم دور ہوجاتے اور میرا دل ایک انجانی مسرت سے لبریز ہو جاتا۔میں اُسے چھونے کا قائل نہیں تھا بلکہ اُس کی آواز،اس کے جسم سے نکلنے والی لہریں اور اُس کی سانسوں کی خوشبوماحول کو استغراق کی کیفیت عطاکرتیں۔جب وہ میرے آس پاس ہوتی تو میں اپنی روح کو مکمل تصور کرتااور میری ذات کی تکمیل ہوجاتی۔ جب وہ دور جاتی تو ایسا لگتا بدن کا کوئی حصّہ کٹ چکا ہے اور میں اپاہج ہوں۔۔۔!!۔۔وہ مجھے پیار بھرے لہجے میں مقصود،کہہ کر کسی بات کی طرف متوجہ کرتی تو میری تخلیق کا مقصد پورا ہوجاتا۔
انعم پڑھی لکھی اور سجنے سنورنے کی دلدادہ تھی۔۔۔۔شاید اُسے بھی پیار تھا۔۔۔؟۔۔ نہیں،نہیں۔۔۔شاید۔۔۔اُسے اپنائیت محسوس ہوتی تھی؟؟؟۔۔۔نہیں۔۔لیکن اُسے اُنس تھا!!!۔۔شاید۔۔،کیونکہ میرا،ا ُس کے آس پاس ہونا اُسے بھی مسرور کرتا۔۔۔وہ بھی میرے ساتھ ہوتی، تو چہکتی۔۔۔اور خوب چہکتی۔۔سحر خیز پنچھیوں کی طرح۔۔۔۔اپنے آپ کو دانا ثابت کرنے کے لیے بڑی بڑی باتیں کرتی۔۔۔ مجھ سے پیار جتانے کے لیے میری فضول باتوں سے بھی متفق ہوجاتی۔۔۔سرد شاموں میں سنگِ مرمر کے یخ ٹھنڈے بینچ پر بالکل سامنے بیٹھ کر،سوچوں میں گم ہوجاتی اور ٹکٹکی باندھ کر تکتی رہتی۔۔گھر والے اُسے”انو“ کہتے لیکن میں ہمیشہ اس کا پورانام ادا کرتااور اپنا،پورا نام میرے ہونٹوں سے سن کر اُس کا چہرہ بھی کِھل جاتا۔
میں اُس کے ساتھ ہوتا توجان بوجھ کر بھولا بن جاتا، تاکہ اُسے سمجھانے کا موقع ملے۔۔۔اور وہ خود کو جہاندیدہ ثابت کرسکے۔۔۔وہ مجھے ایک ایک چیز کے بارے میں سمجھاتی۔۔۔ اگر پڑھائی کا کوئی ٹاپک ہوتا تو خود کو مجھ سے زیادہ لائق ثابت کرنے کے لیے مختلف چیزیں ایکسپلین کرنے کی کوشش کرتی اور میں چہرے کے ایسے ایکسپریشن دیتا کہ اُسے اپنی قابلیت کا یقین ہوجاتا۔۔۔ انعم میری گنہگار زندگی کی کوئی قبول عبادت تھی، یا تہجد کی کوئی معصوم سی دُعا۔۔۔ وہ مجھے دنیاکی حقیقت سمجھانا چاہتی تھی اور میں صرف اُس کو دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔جب وہ کچھ سمجھانے لگتی،تو میں دھوپ کی عینک میں صرف اس کے چہرے کی معصومیت،اور آنکھوں سے چھلکنے والی ذہانت کو دیکھتا رہتا۔۔۔اور پھر آسمان کی طرف مُنہ اٹھا کر دھیرے سے کہتا۔۔۔۔شکریہ اللہ جی!!!۔۔۔
وقت گزرتا گیا۔۔بلکہ خوشی خوشی گزرتا گیا،لیکن جب ہم دونوں نے اس ادھورے بندھن کو عمر بھر کے لیے باندھنا چاہا توانعم کے والدین کی غیرت والی رگ پھڑک اُٹھی۔۔۔ایک محلے دار سے یہ بھی کہا گیاکہ: کسی کتے کے پلے باندھ دوں گا لیکن مقصود کا گھر آباد نہیں کرے گی میری بیٹی!!!۔۔۔یہ ضد تھی؟۔۔۔ انا تھی؟۔۔۔بیٹی پر غصّہ تھا؟؟۔۔۔۔۔ یا پشتون کلچر؟۔۔کیونکہ نہ خاندانوں کے سٹیٹس میں فرق تھا اور نہ ذات پات کا کوئی مسئلہ۔لیکن اسکا باپ ٹس سے مس نہ ہوا۔۔۔اور اپنی ضد پوری کرلی۔۔پھر؟؟۔۔۔۔ پھر کچھ نہیں ہوا!۔۔۔۔بلکہ ایک دن انعم کی شادی کوئٹہ میں کسی سرکاری ملازم سے ہوگئی۔۔۔ انعم اتنی دور چلی گئی کہ سالوں تک اپنے علاقے کی ہوا تک نہ لگی۔۔۔اور پھر اس کے بچے ہونے لگے،ایک، دو، تین۔۔۔ اوریوں انعم ماممتا میں سر تا،پاڈوب گئی۔۔۔۔انعم کو میں نے بھگانے کی ترکیبیں بھی بنا ئیں۔۔۔لیکن۔۔۔ وہ صرف اپنے باپ کی بیٹی تھی۔۔۔ اور اب اپنے بچوں کی ماں۔۔۔مجھ سے صرف اُنس تھا۔۔۔شاید!!۔۔۔اُنس۔۔!!۔۔نہیں!۔۔۔اُنس۔۔ہاں اُنس ہی تھا!!۔۔
گھر والوں نے زور دیا، معاشرے نے طعنے مارے اور بڑی بوڑھیوں نے مردانہ کمزوری کے مفروضے قائم کیے۔۔۔ ہر آنے جانے والی عورت میری ماں سے کہنے لگی بیٹے میں کچھ مسئلہ ہے؟۔۔۔ شادی کیوں نہیں کر رہا۔۔؟؟۔ اورنہ چاہتے ہوئے بھی مجھے انیلا کو قبول کرنا پڑا۔۔۔میرا بھائی جب کبوتروں کا نیا جوڑا بنا نا چاہتاہے، تو اُسے تین روز اکھٹے ایک دڑبے میں صبح شام بند رکھتا ہے،کچھ دنوں تک نر مادہ لڑتے ہیں،گٹکتے ہیں اورپھر کمپرمائز کر لیتے ہیں اور جوڑا بن جاتا ہے۔۔۔ ہمارے معاشروں کی اکثر شادیاں بھی ”دڑبا چاہت“ کے پیٹرن پر بنتی ہیں یعنی اکھٹے ایک کمرے میں بند ہوئے،کوئی سبیل نہ بنی اور چاہت، چاہت شروع ہوگئی۔۔۔ لیکن میں اس دڑبا چاہت کی زد میں نہیں آیا۔۔ عورت ذات بھی بڑی کائیاں ہوتی ہے،بات کی تہہ تک بڑی جلدی پہنچ جاتی ہے،اُسے چند ہی دنوں میں پتہ چل گیا کہ مقصود کا صرف چھلکا باقی ہے،اور روح نکل چکی ہے۔۔۔ہم دونوں نے زندگی کے چار سال ایک ہی چھت کے نیچے دو الگ الگ پلنگوں پر انجان مسافروں کی طرح گزار لیے۔۔۔۔دُنیا کی نظروں میں ایک ہنستا بستا اور خوشحال جوڑاکمرے کے اندر دو الگ دنیاؤں کے مسافروں  پر مشتمل رہا۔۔۔شاید ایسے دیس کے مسافر جو ایک دوسرے کی زبان تک نہیں جانتے۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ: انیلا بھی کسی مقصود کے لیے انعم ہو، لیکن مجھے اپنی انعم کی یادیں سات جنم گزارنے کے لیے کافی تھیں۔۔۔کیونکہ ہم کبوتر نہیں،انسان تھے۔۔۔ہمیں ربّ نے یاد رکھنے کی صلاحیت دی تھی۔۔۔ اور میں انعم کو کیسے بھول جاتا۔۔۔؟۔۔ کیا کوئی اپنی روح سے کٹ کر باقی رہ سکتا ہے۔۔۔۔؟۔۔۔
انیلا شاید اس بے کیف اور اُجڑی زندگی سے اب تنگ آچکی تھی۔۔اور طعنوں پر اُتر آئی تھی۔۔۔وہ مجھے اپنانا چاہتی تھی۔۔۔وہ ایک گھر چاہتی تھی۔۔۔ایک مکان نہیں۔۔ایک شوہر چاہتی تھی۔۔۔یادوں کا پرانا قبرستان نہیں۔۔۔!!۔۔۔لیکن میری حیثت ایک قبر سے زیادہ نہ تھی۔۔۔اور اس قبر میں بھی ایک بوڑھا عشق دفن تھا۔۔۔ ایک قبر کسی زندہ کو دے بھی کیا سکتی ہے۔۔۔اور مجھ جیسی بے فیض قبر سے مایوسی کے سوا،کسی کو کیا فائدہ پہنچے!!۔۔ انیلا بے چاری نے اس قبر پر چار سال تک سجدہ کیا، بہت سے پاپڑ بیلے لیکن بے سود!۔
انیلا نے آج مشرک اس لیے کہا: کیونکہ میں نے اُس سے شادی کے لیے ہاں کی، اور اسکی زندگی برباد کی۔۔۔۔میں نے سماج کے آگے سر جھکا لیا تھا۔۔!۔۔ لیکن انیلا کو صرف دُکھ دیے۔۔۔۔،طعنوں کے ڈر سے شادی کے لیے ہاں کی!۔۔،گھر والوں کے فیصلے قبول کیے!۔۔لیکن میری روح انعم کے طواف میں گم رہی،جبکہ انیلا ایک شوہر کے لیے ترستی رہی۔۔میں واقعی ایک مشرک بھی تھا!!۔۔اور نیلا کا گنہگار بھی۔!!!۔ کیا میں نے شادی کے لیے ہاں کہہ کر انعم کے عشق میں انیلا کو شریک کیا تھا۔۔۔؟؟؟۔۔یا میں انیلا کا گنہگار تھا؟؟۔۔۔میرے دماغ میں جھنجھنا بجتا رہا۔۔۔!!!۔۔
انیلا کی زندگی کے چار سال میری وجہ سے برباد ہوچکے تھے۔لیکن اُس کی پوری زندگی برباد کرنے کا مجھے کوئی حق حاصل نہیں تھا۔۔۔ میں نے اپنی جمع پونجی اور سارے گہنے،جلدی جلدی سمیٹ کر اس کی گٹھڑی سی کپڑے میں باندھ کر انیلا کے حوالے کی۔۔۔اور چار سالوں میں پہلی بارانیلا کا ہاتھ پکڑ کراُسے اپنی جانب کھینچا۔۔۔ اُس کا ماتھا میرے لِپ لیول پر آیا اور میں نے اُس کے ماتھے پر ایک لمبا، پہلا اور آخری بوسہ ثبت کردیا۔۔۔۔ پھراُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر۔۔۔وقفے۔۔ وقفے سے ایک،دو اور پھر تین کہہ کر، تین طلاقیں پوری کردیں۔۔۔ یہ بوسہ اُن چارسالوں کی ندامت کے لیے تھا جو میں نے اس کی زندگی سے منہا کیے تھے۔۔۔اُس نے برقع اُٹھایا اوروتے، بلکتے ہوئے میرے کمرے سے نکل گئی۔۔۔لیکن نکلنے سے پہلے گہنوں کی گٹھڑی میرے پلنگ پر اس زور سے پھینکی کہ سب کچھ کمرے میں بکھر گیا۔۔۔اُس کو روتا دیکھ کر میری آنکھوں سے بھی آنسو ٹپکنے لگے، اور میں دروازے کا چوکھٹ تھامے اُسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔۔۔ شاید میرا بھی چار سالوں کا اُنس تھا۔۔۔اور انیلا کا بھی۔۔۔!!! اس لیے وہ بھی روتے ہوئے، سرخ آنکھوں سے مجھے بار بار مڑ کے دیکھ رہی تھی۔اور گھر کے مین گیٹ کی طرف پیر گھسیٹ گھسیٹ کر قدم بڑھا رہی تھی۔
٭٭٭٭
نوٹ: یہ کہانی فکشن ہے اور اس کے تمام کردار فرضی ہیں۔کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقیہ ہوگی۔
جملہ حقوقِ اشاعت بحقِ مصنف محفوظ ہیں۔
تحریر:   وسیم خان عابدؔ

Tuesday, 13 August 2019

غزل: اب بھی منصور محبت کی قسم کھاتا ہے

درحقیقت  کوئی معقول سی مجبوری ہو؟
ورنہ کب کون کِسےچھوڑ کے یوں جاتا ہے

تو بھی ہر روز خیالوں میں مری بنتی ہے
جی تُجھے خواب میں چھونے سے بھی گھبراتا ہے

رات کے پچھلےپہر ہوک سی اِک اُٹھتی ہے
میرے پہلو میں تِرا درد سمٹ آتا ہے

جان! گفتار پہ تعزیر نئی بات نہیں
اب بھی منصورمحبت کی قسم کھاتا ہے

سارے آوارہ مزاجوں کی قسم اب عابدؔ
 نہ ہی گھر رکھتا ہے،نہ دیر سے گھر جاتا ہے


وسیم خان عابدؔ

رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن

Saturday, 10 August 2019

افسانہ: تینتیس دانت

یار!۔۔جن لڑکیوں کے سامنے والے دو دانت باقی دانتوں سے چوڑے ہوتے ہیں نا۔۔۔۔وہ بہت کیوٹ اور شریر ہوتی ہیں۔۔۔ارشاد کہتے کہتے رُک گیا اور میری طرف تبصرہ طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔ میں آج بالکل بھی بحث کے موڈ میں نہیں تھا کیونکہ دردِ شقیقہ نے سارا دن میرا رس نچوڑا تھا،اور اب کئی پین کلرزلینے کے بعد نڈھال سا شام کی بیٹھک میں بیٹھا باتیں سُن رہا تھا۔۔۔ اسی لیے چائے کی پیالی سے ایک چھوٹا سا سِپ لیااور خاموشی سے ارشاد اور فرحان کو سُنتا رہا۔۔  ارشاد نے بات بڑھانے کے لیے آگے سے ایک اور لقمہ دیا۔۔۔ لیکن جس کے ڈریکولا دانت کے اوپر ایک ٹیڑھاسا چھوٹا دانت زائد نکلا ہو،اُس کی مسکراہٹ کلیجے چیرتی ہے!۔۔۔ میں نے چائے کی پیالی سے ایک اور سِپ لیا اور ارشاد کی طرف روئے سخن کرکے دریافت کیا۔۔۔ ارشاد!  یار اِس قیافہ شناسی اور دندان شناسی کے نئے فارمولے کہاں سے اخذ ہورہے ہیں؟۔۔۔  ارشاد نے قہقہہ لگا کر فرحان کو چھیڑنے کے انداز میں بات شروع کی۔۔  وسیم بھائی!ماخذ کا پتہ تو فرحان بھائی دیں گے۔۔۔  ہم تو صرف اُس علم کی تشہیر اور تبلیغ کررہے ہیں،جس کی سند فرحان بھائی ہیں۔۔۔  فرحان!  پھر سے یہ سوشل ریسرچ کہاں ہورہی ہے،جس سے نئی نئی تھیوریاں اُبل اُبل کر مارکیٹ میں آرہی ہیں؟میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ان دونوں کی باتوں میں حصّہ لے لیا!۔۔  وسیم بھائی! وہی ملی تھی کل شام،پشاور کی شفیع مارکیٹ میں!۔۔۔ میں نے استفسار کیا۔۔کون وہی۔۔؟۔۔۔ اس نے کچھ بتانے سے پہلے شعرپر اکتفا کر نا ضروری سمجھا۔، ۔۔۔ دوسری بار بھی ہوتی تو تم ہی سے ہوتی۔۔ میں جو بالفرض محبت کو دوبارہ کرتا۔۔۔  ارشاد اور میں نے ہلکی سی واہ واہ کی۔۔۔ تو وہ جھینپ گیا۔۔اور سر جھکا کر کہنے لگا۔۔۔  بھائی کیابھول گئے، اُس تینتیس دانتوں والی کو۔۔؟۔۔۔۔سُنایا تو تھاپوراقصّہ۔۔۔!۔۔
فرحان پشاور یونیورسٹی کا انتہائی لائق فائق اور ذہین طالب علم تھا۔۔۔وہ میڑک سے ہر امتحان میں اے پلس گریڈ لے رہا تھا۔۔۔پشاور یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری بھی گولڈ میڈل کے ساتھ لے چکا تھا،اور اب ایم فل سکالرتھا۔۔۔ گاؤں میں کبھی کبھار آنا ہوتا،کیونکہ اُسے اپنے گاؤں کی زندگی کبھی بھی راس نہ آئی۔ فرحان اور ارشاد سے میری دوستی ایک ہی کلب میں کرکٹ کھیلنے سے ہوئی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اٹوٹ بن گئی۔۔۔ فرحان کا ہر کام پرفیکٹ تھا،خواہ کھیل کا میدان ہو،پڑھائی ہو،یاکالج کی بزمِ ادب تقریبات کا ڈائس۔۔۔۔  لیکن اُس میں ایک نمایاں خامی، بے جا جذباتیت تھی۔۔۔ کچھ لوگوں کے مزاج سخت اور کچھ کے نرم ہوتے ہیں لیکن فرحان محبت مزاج تھا۔۔۔ اُسے ایک عشق سینکڑوں لوگوں سے سینکڑوں مرتبہ ہوچکا تھا۔شاید اُسے لوگوں سے نہیں، بلکہ محبت سے محبت تھی۔ پچاس کے قریب سچے عشق تو اُسے پبلک ٹرانسپورٹ میں لکی مروت سے پشاور جاتے ہوئے ہوچکے تھے۔۔۔ کوئی بھی رومینٹک گانا پسند آتا تو دن رات ایک ہی گانا کانوں میں ہینڈ فری کی ٹونٹیاں لگائے بار بار سُنتا رہتا اور اُس کی آنکھیں سچی محبت کی تلاش میں سرگرداں رہتیں۔۔ پھر جس پر یہ نگاہیں رُکتیں اُس سے محبت ہوجاتی۔۔۔ وہ اُس محبت میں آہیں بھی بھرتا۔۔۔آنکھوں سے نیند بھی رُخصت رہتی لیکن اُس کی پڑھائی پر کوئی منفی اثرنہ پڑتا۔۔۔ ارشاد اور میں دن رات پڑھنے کے باوجود بھی اُن نمبروں کے لیے ترستے جو وہ محبتوں اور فراق کے صدموں کے باوجود آسانی سے حاصل کرلیتا۔۔۔ اگر کوئی اُسے ٹھکرا کر چلی جاتی،تو اس جدائی اورصدمے میں سگریٹ اور نسوار دونوں بیک وقت استعمال کرنے لگ جاتا، ورنہ عام طور پر، دو میں سے صرف ایک ہی پر اکتفا کرتا ہے۔۔۔ جب کسی محبت میں شدید دُکھ ملتااور چوٹ سیدھی دل پر لگتی تو فرحان کے نسوارکی گولی جو نچلے جبڑے کی د اڑھوں کے پاس عموماََ پڑی رہتی، ترقی کرکے اوپری دانتوں اور ہونٹ کے درمیاں آجاتی، اور آدھی مونچھ پھول جاتی۔۔۔ بچوں کے کنچے سے بڑی نسوار کی گولی فرحان کے مُنہ کو ٹیڑھا کر دیتی، اس لیے ان دِنوں میں وہ کسی سے سیدھے مُنہ بات نہ کرتا۔
تینتیس دانتوں والی ماہ نور بھی اُسے پبلک ٹرانسپورٹ میں ملی تھی۔  فرحان اُس روز دورانِ سفرفلائنگ کوچ میں ہینڈفری کے ذریعے اپنا پسندیدہ ہندوستانی فلمی گیت ۔۔ہم جو ہر موسم پہ مرنے لگے،وجہ تم ہووجہ تم ہو۔۔۔ہم جو شعر و شاعری کرنے لگے،وجہ تم ہو وجہ تم ہو۔۔  بار بار سُن رہا تھا،اور اُس کے کسی محبت میں مبتلا ہونے کے چانسز کئی گُنابڑھ چکے تھے جبکہ ماہ نور اُس کے عین سامنے والی لیڈیز سیٹ پراُس کی طرف پشت کرکے بیٹھی اپنے ٹچ موبائل سے کھیل رہی تھی۔ جب وہ دونوں پشاور میں فلائنگ کوچ سے اُترے تو یونیورسٹی کی مشترکہ بس پکڑ لی اور یونیورسٹی کے مین گیٹ سے ایک ساتھ اندر داخل ہوگئے۔اب اتنے اتفاقات کے بعد بات چیت میں پہل نہ کرنا فرحان کے لیے کفرانِ نعمت کے مترادف تھا، اس لیے آگے بڑھ کر بڑا سا سوٹ کیس حوالہ کرنے کی درخواست کی، کیونکہ گرلز ہاسٹل یونیورسٹی کے مین گیٹ سے کافی دور تھا۔ سامان کی زیادتی کے باعث نہ چاہتے ہوئے بھی  ماہ نور نے اپنا سوٹ کیس اُسے پکڑا دیا۔۔۔ ماہ نور نے بھی راستے میں فرحان کو نوٹس کیا تھا کیونکہ چار گھنٹے سے ہمسفر تھے۔۔۔ اس لیے جھٹ سے سوال کیا، نیو ایڈمیشن ہو، نا؟۔۔۔ جی!  فرحان نے معصومیت سے جواب دیا۔۔۔ماہ نور نے پھر سے سوال کیا۔۔۔کونسا ڈیپارٹمنٹ ہے؟۔۔۔جی، انگلش لٹریچر۔۔۔۔اچھا بہت اچھا۔۔۔۔اُس نے سرگوشی کے انداز میں چلتے چلتے الفاظ ادا کیے۔۔۔۔میں سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ سے ہوں اور میرے فائنل ایگزام شروع ہونے والے ہیں اس لیے مہینہ،بیس دن کی مہمان ہوں یونیورسٹی میں۔۔  اگر فیکلٹی میں کچھ کام ہو تو مجھے بتانا،میرے خاندان کے بہت سے لوگ یونیورسٹی کے ملازم ہیں۔۔۔لیکن غیر قانونی کام نہ ہو،ٹھیک!۔۔اُس نے اپنی بات ایک تبسم پر ختم کی اور اُس کی دیکھا دیکھی فرحان کے چہرے پر بھی مسکان دوڑنے لگی،ٹھیک ہے جی!۔۔۔لیکن فرحان کو اُس کی مسکراہٹ کچھ الگ محسوس ہوئی،باقی لوگوں سے دلکش اور خوبصورت۔
پھر جتنے دن ماہ نور یونیورسٹی میں رہی فرحان سے گاہے بگاہے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔۔۔ فرحان کی زبانی ماہ نور کے نین نقش سے زیادہ اُس کے تینتیسویں دانت کے چرچے سُنے، حالانکہ ہم نے کبھی اُس کو دیکھا نہیں تھا۔بقول فرحان کے،تینتیسواں دانت اُس کے ڈریکولا دانت کے اوپربے جا نکل آیا تھا،اور اُس کی مسکراہٹ کو جاذب ا ور اُسے جمیل بنا رہا تھا۔فرحان کو ماہ نور کے یونیورسٹی سے جانے کے بعد بہت سی سچی محبتیں لاحق ہوتی رہیں،لیکن وہ باتوں باتوں میں لاشعوری طور پر ماہ نور کی مسکراہٹ کا ذِکر چھیڑتا رہتا۔ ماہ نور اور فرحان کی دوستی،ماہ نور کے یونیورسٹی سے جانے کے بعد بھی موبائل فون او روٹس ایپ کی ویڈیو کا ل کے ذریعے جاری رہی۔۔۔  لیکن پھر کہانی میں ماہ نور کے بچپن کا منگیتر کود پڑا، اور فرحان سے تینتیسویں دانت کی مسکراہٹ چھین لی۔ ماہ نور بھی شاید ٹائم پاس کررہی تھی،کیونکہ اس رشتے پر وہ نہ روئی دھوئی،نہ سسکیاں بھریں اور نہ گھر والوں کو خودکُشی کی دھمکیاں دیں،بلکہ ہنستے مسکراتے اپنے بچپن کے منگیتر کی دُلہن بن گئی۔
فرحان کے مُنہ میں نسوار کا کنچامسلسل چار ہفتے تک اوپری ہونٹ کے نیچے دبا رہااوروہ کیپسٹن کے سستے سگریٹوں کا دھواں اپنے ٹیڑھے مُنہ سے ادھر اُدھرپھونکتا رہا۔ ہم دوست تواس مرتبہ  اتنے ڈر گئے تھے کہ اُسے اکیلا چھوڑنے کے بھی روادار نہ تھے، کہ مبادا بجلی کی ننگی تاروں کو چُھو کر خود کو کوئلہ نہ کرلے۔۔۔ لیکن پھر وہ،ایم اے کے امتحانات کے سلسلے میں یونیورسٹی چلا گیا اور جب ریزلٹ آیا تو گولڈ میڈل کا حقدار ٹھہرا تھا۔۔۔اور ان امتحانات کے دوران،یونیورسٹی میں نوواردطالبہ سروش کے سِلکی بالوں کا اسیر ہو چکا تھا۔۔۔ اب یہ سلکی بال تینتیسویں دانت پر تقریباََ حاوی ہو چکے تھے،اور ہر دوسری بات میں ان کالے، لمبے، گھنے اورسِلکی بالوں کا ذِکر چِھڑتا رہتا۔
لیکن آج فرحان پھر سے غمگین اور شاعرانہ موڈ میں تھا۔ نسوار کا کنچا اُس کے اوپری ہونٹ میں صاف دِکھ رہا تھا۔میں اپنی چائے کی پیالی ختم کر چکا تھا، اور اُسے سُن رہا تھا۔۔ اُس کی گردن سے ہینڈ فری کی ٹونٹیاں لٹک رہی تھیں شاید حجرے میں آنے سے پہلے اپنے موبائل سے کوئی رومینٹک گانا قطرہ قطرہ اپنے دماغ میں سینکڑوں مرتبہ انڈیل چکا تھا۔۔۔ یار وسیم! مجھے کل ماہ نورپشاور صدر بازار کے شفیع مارکیت میں ملی تھی۔۔ اسکا شوہر شاید کہیں کار پارکنگ میں کھڑا تھا،لیکن وہ مجھ سے دوستوں کی طرح بڑی گرم جوشی سے ملی،بلاخوف و تردد۔۔۔ پانچ دس منٹ میں اس نے بہت ساری باتیں کیں اور میں خاموش کھڑا اُس کی مُسکان دیکھتا رہا۔ شوہر کی طرف سے موبائل فون کی ممانعت کی وجہ سے رابطہ نہ رکھنے پر بھی معذرت کی۔۔لیکن؟۔۔۔۔۔لیکن کیا؟میرے مُنہ سے اُس کے لیکن کہنے پر، غیر ارادی طور پر فوراََسوال نکل گیا۔۔۔ لیکن یہ،کہ اُس کا حُسن اور اُسکی مسکراہٹ شادی کے بعد مزید قاتل ہوچکے ہیں!۔۔۔میں نے کہا،یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔۔وہ مُنہ ٹیڑھا کرکے مسکرانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔۔ہاں!ہاں!۔۔۔ لیکن اِس سے بھی زیادہ  اچھی بات یہ ہے کہ، اُس کی چھوٹی سی بچی کا بھی ایک دانت ڈریکولا دانت کے اوپر نکلاہے،اور وہ بھی بالکل ماہ نور کی طرح مسکراتی ہے!۔۔۔۔
٭٭٭٭٭
   وسیم خان عابدؔ

نوٹ: ۔ کہانی کے تمام کردار فرضی ہیں،کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقی ہوگی۔
  ۔ جملہ حقوقِ اشاعت بحقِ مصنف محفوظ ہیں۔

Tuesday, 25 June 2019

افسانہ: جنوں ہے یا فسوں ہے۔۔۔یوں ہے


نایاب کو میں نے جان بوجھ کے شادی کے لیے منع کر دیا، کیونکہ میں ایک کسان کا بیٹا،جسے چار بڑے بھائیوں نے والدین کی وفات کے بعد گھر سے نکال دیا،کیسے اُس کی زندگی چاند تاروں سے بھرسکتاتھا؟ بھائیوں نے علاقے کے بڑوں (مشران)نے فیصلے کا سہارا لیکر آبائی گھر اپنے پاس رکھ لیا اور مجھے ایک عدد کچا مکان جس میں صرف ایک کمرہ تھا،حوالہ کردیا۔ تقسیم کے نام پر سب اچھی ذرخیز زمینیں اپنے لیے رکھ لیں اور میرے نام بنجر نما زمینیں منتقل کردیں،کیونکہ میں میٹرک کا طالب علم تھااور زمین جائیداد کے چکروں سے ناآشنا!۔بمشکل میٹرک پاس کرکے اپنی زمینوں کی دیکھ بھال سنبھال لی اور اپنے لیے سالانہ اناج اگانے لگا۔ بس یہی میرا گزر بسر، روزی روٹی اور کل اثاثہ تھا۔
نایاب کے والد ایک اچھے سرکاری ملازم اور اونچے خاندان سے تھے۔ میرے نئے مکان سے متصل ان کاخوبصورت اور عالیشان گھر تھا۔پانچ افراد کا یہ خوشحال گھرانہ،جس میں والدین سمیت دو بیٹے اور ایک چھوٹی بیٹی نایاب شامل تھی، میرے لیے باعثِ رشک تھا۔وقت گزرتا گیا اورپھرا نجانے میں، نایاب اور میری جان پہچان کے بعدہماری محبت کا آغاز ہوگیا۔۔۔ شاید قربِ مکان اصل وجہ تھی، ورنہ باقی تونایاب اور میری مثال سنگِ مرمر اور کچی مٹی کی سی تھی جسکا جوڑ کبھی بھی قابلِ برداشت اور دیر پا نہیں رہتا۔۔۔ لیکن محبت کے دس سال پلک جھپکتے گزر گئے۔نایاب نے اپنی تعلیم مکمل کرلی اور میری زندگی ان ہی شب وروز، زمینوں اور کھیتی باڑی میں رُکی رہی۔ لیکن ان دس سالوں اور تعلیم کے بعد بھی نایاب کی محبت اور توجہ میں کمی نہ آئی۔۔۔وقت گزرتا رہا اور پھر ایک دن نایاب کے لیے ایک بڑے سرکاری انجینئر کا رشتہ آگیا۔  دونوں گھرانے اس رشتہ کو جلد از جلدطے کرنے کے لیے پاگل ہورہے تھے،لیکن ابھی نایاب کی ہاں باقی تھی۔۔۔ 
نایاب نے کچھ عرصہ  ٹال مٹول سے کام لیا لیکن جب بلا سر سے ٹلتی نہ دیکھی،توایک شام گھر والوں کی نظروں سے بچ کر ملاقات کے لیے وقت نکالا۔۔۔اور شادی کی ضد کرنے لگی، میرے انکار پر وہ سسکیاں بھر کر رونا شروع ہوگئی، جس کی ہلکی سی ہچکی کی آواز جنوری کے دھندلے اندھیرے میں دور تک ارتعاش پیدا کرتی چلی جاتی۔۔۔۔ مُجھ سے کیوں پیچھا چھڑانا چاہتے ہو؟۔۔اُس کے سوال میں جواب طلبی سے زیادہ ایک بے بس التجا تھی۔۔۔۔۔ پیچھا نہیں چُھڑا رہا پگلی!۔۔ہماری حیثیت میں فرق ہے زمین آسمان کا فرق!۔۔۔ اُس نے پھرسے ہچکی لی۔۔۔اگر اپنانا ہی نہیں تھا تو پہلے دن ہی روک لیتے؟۔۔۔اُ س کے لہجے میں تلخی دھر آئی۔۔۔  اوردوپٹے کے پلو سے آنکھوں کے کونوں سے سرکتی ہوئی بوندیں صاف کیں۔۔۔تمہیں کیسے سمجھاؤں نیئی (نایاب کو میں اپنائیت اور بے تکلفی سے نیئی کہہ کر پکارتا تھا)۔۔۔سمجھنے کو کوشش کرو۔۔ اُس وقت میں بھی انجان تھا۔۔۔ اس سماج کے اصولوں سے، اونچ نیچ اور ذات پات کے بندھنوں سے۔۔۔میری مجبوریوں کو سمجھونیئی۔۔میری مجبوریوں کو سمجھو!۔۔ میں بھی نہیں جانتا تھا کہ انسان کا رتبہ، دولت،خاندان اور اچھی نوکری سے بنتا بگڑتا ہے!۔۔۔ لیکن ایک مرتبہ بابا سے بات تو کرو،وہ دل کے اچھے ہیں،نانہیں کریں گے۔۔بات کرنے میں کیا حرج ہے؟۔اُس نے پھر سے امید کی کٹی پتنگ کی ڈوری تھامتے ہوئے، مجھے ہمت دینے کی کوشش کی۔۔۔ نیئی میں بات کرچکا ہوں۔۔۔اپنے بھائیوں، بھابھیوں بلکہ اپنے خاندان کے بڑے بزرگوں سے بھی بات کی ہے۔سب نے مجھے دھتکارا ہے۔۔۔ اُن سب نے یہی کہا ہے کہ ایسا سوچنا بھی گناہِ کبیرہ ہے۔۔۔ اور ایسی بات منہ سے نکالنا اپنے پورے خاندان کو خود ہی قتل کرنے کے مترادف ہے۔۔۔ ہم غریب اس سماج کے شودر ہیں،نیئی!۔۔۔ہم کسانوں کی حیثیت تمہارے خاندان کے سامنے دوکوڑی کی بھی نہیں!۔۔۔ نیئی پاگل مت بنو!۔۔انجینئرتمہیں خوش رکھے گا!۔۔۔۔۔ اُس نے اپنی  ہچکی روکتے ہوئے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں بھینچ لیا۔۔۔جیسے آتش فشاں کو پھٹنے سے روک رہی ہو۔۔۔ وہ کھل کر رونا چاہتی تھی،چیخنا چاہتی تھی،لیکن منہ بند تھا!۔۔۔  اُس کی آنکھیں کھولتے پانی کی طرح اُبل رہی تھیں، جس میں گزشتہ دس سالوں کی ساری ملاقاتیں اور پیا ر بھری باتیں،ایک ایک کرکے اُبھر آئی تھیں۔۔۔۔کچھ دیر خاموش بے حس و حرکت کھڑی مُجھے گھورتی رہی، اور پھربولنے کے لیے توانائی اور حوصلہ جمع کرکے مُنہ دوسری طرف پھیر ا،اور اپنے آخری الفاظ کمال بیگانگی اور گستاخی سے ادا کیے۔۔۔بے شک،خوش رکھے گا!۔۔ اور دوڑ کر دروازے سے نکل گئی۔۔۔۔ 
اس آخری ملاقات کے ایک ہفتے کے اندر اندر میں نے اپنا گھر اونے پونے داموں بھائیوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا،اور شہر سے دور ایک غیر آباد علاقے میں ایک مکان خریدا،جس کی تعمیر اور حالت پہلے والے مکان سے قدرے بہتر تھی، کیونکہ اس میں پکی اینٹوں سے بنے دوکمرے تھے،ایک کمرے کے ساتھ اٹیچ باتھ روم پلس واش روم اور ایک کنال کا صحن بھی تھاجس کی پکی چاردیواری تھی، لیکن ویرانے میں ہونے کی وجہ سے دام نہایت معقول تھے۔۔ایک کمرے میں اناج اور کچن کا سامنا پڑا رہتا اور دوسرے کمرے میں، میں نے رہائش رکھ لی۔چند ماہ بعد نایاب کی شادی ہوگئی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ کسی بڑے شہر منتقل ہوگئی۔۔۔
اس نئے گھر میں رہتے ہوئے مجھے ایک سال ہوچکا تھاکہ اچانک کچھ عجیب سے واقعات رونما ہونے لگے۔۔۔  پہلے پہل جب میں باتھ روم کے اندرجا کر پانی کا نل کھولتا،تو مجھے اُس گرتے پانی میں سے نسوانی فریاد کی آوازیں سُنائی دینے لگتیں۔۔لیکن پانی کا نل بند کرنے پر وہ آوازیں خود بخود ختم ہوجاتیں۔ میری راتوں کی نیند کم ہونے لگی اور جب آنکھ لگتی، تو کوئی بہت ہی ڈراؤنا خواب دیکھ کر آنکھ کھل جاتی، دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں، حلق میں خشکی کی وجہ سے کانٹے  چبھنے لگتے،اور باقی رات جاگتے ہوئے گزرتی۔۔۔ دن کے وقت بھی وہی خوفناک چہرے میرے ذہن میں تصویروں کی شکل میں ابھر ابھر کر سامنے آتے اور بے چینی میں اضافہ کرتے۔۔۔ میں تنہائی کا عادی تھا،اور غیر مرئی طاقتوں کا ڈر کبھی بھی دل میں نہیں بٹھایا۔۔۔ اعلیٰ تعلیم نہ ہونے کے باوجود بھی جن بھوت،بدروح یا کسی غیر مرئی مخلوق پر اعتقاد نہ تھا۔۔۔ جو کچھ آنکھوں سے دیکھتا اسی کو زندگی سمجھتا۔۔۔ زندگی میں کبھی نماز روزہ کا احتمام نہ کیا اور نہ کبھی کسی پیرفقیر کے ڈیرے یا کسی ولی کے مزار،یا درگاہ پر حاضری دی،کیونکہ ان سب باتوں کی میرے ہاں کوئی اہمیت نہ تھی۔۔۔  لیکن نسوانی آوازیں آہستہ آہستہ تیز ہونے لگیں،اور پانی کے کھلے نل کے بغیر بھی سُنائی دینے لگیں۔۔ شام ڈھلتے ہی گھر کے تاریک کونوں سے ابتسام۔۔۔۔ابتسام۔۔۔کی صدائیں اُٹھنی شروع ہوجاتیں، اور صبح کی آذان تک وقفے وقفے سے جاری رہتیں۔۔۔ ہر رات میرے لیے ایک اذیت اور کرب کا پیغام لیکر آتی۔۔لیکن دن کچھ آرام سے گزرجاتا۔۔
پھر کچھ عرصہ بعد گھر کے مین گیٹ پر دستک کا سلسلہ شروع ہوا،میں دن میں سو سومرتبہ بڑے گیٹ تک جاتا،لیکن کسی دستک دینے والے کو نہ پاتا۔۔۔ میرے بھائی، میرے بھتیجے مجھ سے کیوں ملنے آتے۔۔میرا کون تھا جو میرے جینے مرنے کی فکر کرتا۔۔نیئی کو تو میں نے خود اپنے ہی ہاتھوں کھودیا تھا۔۔۔کیونکہ اگر اُس کا باپ راضی بھی ہوجاتا،تب بھی میں اُسے نہ اپناتا۔۔۔ میں اُس سے بے پناہ محبت کرتا تھااور اب بھی کرتا ہوں،اس لیے اپنی غربت، بے بسی اور نیچ خاندان کی کالک سے اُس کی روشن زندگی کیوں تاریک بناتا؟میں اتنا خودغرض نہیں تھا۔۔۔ نیئی کے علاوہ باقی کسی کو کیا پرواہ تھی میرے ہونے نہ ہونے کی!۔۔۔۔ لیکن میں جب دستک کے جواب میں گیٹ نہ کھولتا، تو اس پر پڑنے والے ضربات شدید سے شدید تر ہوتے جاتے اور برداشت سے باہر ہو جاتے اس لیے گیٹ کھول کر باہر جھانکناپڑتا۔۔
 نہ میراکوئی پڑوسی تھا اور نہ آس پاس کوئی گھر بلکہ ایک ویران سامیدان تھاجس میں ریت اور خود رو جھاڑیاں تھیں۔۔۔گرمیوں کی دوپہر میں ہر روز،عین تین بجے میرے کمرے کا دروازہ ایک دھکے سے کھلتا اور ہوا کا ایک بگولا اندر گھاس پھونس تنکے اور خشک پتے چھوڑ کر تحلیل ہوجاتا۔۔۔ میں ان چیزوں کو سمجھنے سے قاصر تھا لیکن،مجھے کوئی ڈر نہیں تھا کیونکہ میرے تکیے کے نیچے میرا پستول ہر وقت پڑا رہتا تھا۔۔اور جب حوصلہ پست ہونے لگتا تو پستول ہاتھ میں لیکرخود اعتمادی اور قوت حاصل کرلیتا۔۔۔
 کبھی کبھی خواب میں ایک ہیولاسیاہ ماتمی لباس میں منہ دیوار کی طرف پھیر کر بین کر تا نظر آتا اور،باالکل نایاب کی آخری سسکیوں سی سسکیاں بھرتا۔۔۔ جب ان خوابوں کو ایک مہینہ گزر گیا تو مجھے میرے گھر میں اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی چھاپ سُنائی دینے لگی،جب میں چلتا تو میرے پیچھے کوئی چلنے لگتا،جب میں رُکتا تو وہ بھی رُک جاتا،جب میں مُڑکے دیکھتا تو کوئی بھی تو نہ ہوتا۔۔ میں اکثر اندھیرے میں پیچھے دیکھے بغیرصحن سے بھاگ کرگزرتا ہوا، اپنے کمرے میں داخل ہوجاتااور کنڈی لگا کر اپنے پستول پر ہاتھ رکھ لیتا۔ کسی کے ہونے کا ایک قوی احساس میرے اندر گھر کر چکا تھا۔۔۔اب تو میں اُس کی چلتی ہوئی سانسیں بھی محسوس کرنے لگا تھا۔۔۔۔ میں کب تک اُسے وہم سمجھتا۔۔۔ کیونکہ کوئی میرے ساتھ تھا۔۔۔واقعی کوئی میرے ساتھ رہ رہا تھا!۔۔۔ میں ایک عجیب سی الجھن کا شکار تھا۔۔میرے حواس کسی چیز کا ادراک کر رہے تھے، لیکن میری آنکھیں اُس کی تصدیق سے عاری تھیں۔۔۔جس نے میرے سارے جسم کو ایک اذیت اور ایک کرب میں مبتلا کر رکھا تھا۔۔ مجھے بے سبب اپنا زندہ رہنا بوجھ لگ رہا تھا۔۔۔اور مجھ میں مرنے کی ایک شدید خواہش جنم لے رہی تھی۔۔۔ میں اپنے پستول کو دیکھتا اور سوچتا،کتنا اچھا ہوتا اگر اس کی ایک گرم سنسناتی گولی میرے دماغ کے پار ہو جائے یا میرے بے چین دل کے پار۔۔۔اور سارے مسائل ختم ہوجائیں۔۔۔ کتنی اچھی نیند ہوگی۔۔۔مرنے کے بعد!۔۔۔ نہ بڑے گیٹ پہ دستک ہوگی اور نہ کوئی ابتسام کا نام زور زور سے پکارے گا۔کیونکہ مجھے اپنے نام سے نفرت ہوچکی تھی۔۔۔میں خود کو اس دھرتی کا بوجھ سمجھ رہا تھا۔میری زندگی بے فائدہ تھی۔۔۔میں کیوں زندہ تھا۔۔۔؟
میں رات کو اپنی چارپائی پرگھٹنے موڑ کر اور گول ہوکر لیٹتا کیونکہ جب بھی میرے پیر ادوائن کے پاس جاتے یا چارپائی سے لمبے ہونے لگتے تو کوئی بلی اپنی ٹھنڈی،گیلی ناک سے میرے تلوؤں پر گدگدی کرنے لگتی،لیکن کمرے میں بلی کا دور دور تک نام و نشان نہ ہوتا۔۔ اُس رات بھی جب میں سیدھا لیٹ کر سونے کی کوشش کر رہا تھا تو میرے پیر چار پائی سے لمبے ہوگئے اور ابھی پلکیں بھاری ہونے لگی تھیں کہ بلی کی ٹھندی نرم ناک میرے تلوؤں کو گدگدانے لگی۔۔۔میں نے جلتی لالٹین کواُٹھا کر بلی کو تلاش کرنا چاہا،تو چارپائی کے ادوائن سے ایک سُرخ آنکھ مجھے گھورنے لگی۔۔۔ میں نے اُچھل کر لالٹین چارپائی کے نیچے رکھ لی۔۔۔ اور آنکھ تلاش کرنے لگ گیا۔۔۔ یکایک پیچھے سے وہی مدھرنسوانی آواز گونجنا شروع ہوگئی۔۔۔۔ابتسام۔۔۔او۔۔ابتسام۔۔۔ادھر آؤ نا۔۔۔ میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو وہی سیاہ پوش کاندھوں پر سیاہ زلفیں بکھیرے دیوار کی طرف منہ کرکے مجھے آوازیں دے رہا تھا۔۔۔ میں واقعی ڈر گیا،کیونکہ کمرے کا دروازہ اندر سے مقفل تھا۔۔۔اس کی آواز میرے لیے مانوس تھی۔۔۔لیکن میرا ذہن اُسے دیکھنے کے بعد کچھ سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔  میرے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے اور ڈر کے مارے میرا ذہن مفلوج ہورہا تھا۔۔۔میرے پیر وں کے ساتھ منوں وزن بندھا محسوس ہو رہا تھا،کہ اچانک میرا لرزتا ہوا ہاتھ میرے سرہانے کے نیچے پڑے ٹھنڈے پستول کی طر ف اُٹھ گیا۔۔۔ دوسرے ہاتھ نے پستول کا اوپری کور کھینچ کر گولی چیمبر میں لوڈ کی اورمیں نے پستول انجان سیاہ پوش پر تان لیا۔۔۔۔ اُسکی مدھر آواز پھر سے کمرے کی خاموش فضا میں گونجی۔۔ابتسام۔۔۔یہ کیا؟۔۔۔ کوئی اپنوں کو مارتا ہے بھلا؟۔۔۔کیا مجھے مارنا چاہتے ہو؟۔۔۔ کیا مجھے ماردو گے؟۔۔۔کیا تم مجھے ماروگے؟۔۔۔میں نے ٹریگر پر انگلی رکھی اور پستول اُس کے کاندھے سے مس کرنی چاہی۔۔۔کہ یکا یک اُس نے ایک پُر ہیبت چیخ مار کر اپنا رُخ میری طرف پھیر لیا۔۔۔ حیرت اور وحشت سے میری انگلی نے ٹریگرپر دباؤ بڑھایا اور ایک دھماکے کے ساتھ چنگاریاں چھوڑتا ہوا شعلہ اُس کے سینے میں گھس گیا۔۔سیاہ پوش میرے اورپر گرپڑا۔۔لیکن اُس کا چہرہ تو ہوبہو میرے جیسا تھا۔۔۔وہ تو میں تھا۔۔۔ میں ہی اپنے نیچے پڑا تڑپ رہاتھا۔۔۔اُس کے سینے سے خون کے قطرے اُچھل اُچھل کر میرے سینے پر گرنے لگے۔۔۔میں نے اس لاش کو خود سے پرے دھکیلااور پستول وہیں کمرے میں پھینک کر، گرتا پڑتا دروازے اور بڑے گیٹ کو کھولتا ہوا،  میدان میں نکل آیا۔۔۔۔ میرے سینے میں درد کی ٹھیسیں اُٹھ رہی تھیں اور اسکی شدت سے ٹھنڈی ریت پر دوزانوں ہوکر بیٹھ گیا۔۔۔میرا سینہ گیلا ہو رہا تھا۔۔شاید اُس لاش کا خون ابھی تک میرے سینے پر رینگ رہا تھا۔۔۔ دور کسی مسجد سے آذان کی آواز آنے لگی۔۔۔اصلوٰت خیرم من النوم۔۔۔اصلوٰت خیرم من النوم۔۔۔ درد کی شدت سے میری آنکھیں بند ہورہی تھیں۔۔۔ دماغ سن ہو رہا تھا۔۔۔ میں نیند کا بھوکا تھااس لیے اصلوٰت خیرم من النوم کی نصیحت سُن کر بھی ٹھنڈی ریت پر اوندھے منہ گر کر سوگیا۔۔۔
میری آنکھ کھلنے لگی تو کچھ سائے میرے اردگرد پھر رہے تھے۔۔۔ کوئی خاتون مجھ پر بار بار جھک کر کہہ رہی تھی آنکھیں کھولیں آپ ٹھیک ہیں۔۔آنکھیں کھولیں۔۔۔اور پھر اُس نے ساتھ کھڑے کسی شخص کو آواز دی،اللہ کا شکر ادا کریں مریض کو ہوش آگیا۔۔کمرے کی دیواریں کبھی مجھ سے دور بھاگتیں تو کبھی سب کے چہرے میرے قریب آجاتے۔۔۔اور پھر میرے حواس بحال ہوگئے۔۔۔ میرے بھائی بھتیجے اور باقی رشتہ دار مغموم کھڑے مجھے دیکھ رہے تھے۔۔۔میرا بایاں ہاتھ سفید پٹیوں میں لپٹا میرے ساتھ بے حس و حرکت پڑا تھا اور میرے سینے پر روئی کا ایک بڑا گالا پٹیوں سے باندھا گیا تھا۔۔۔میری قمیص اتارلی گئی تھی، اور خون کی ایک بوتل کیل سے لٹک رہی تھی جو قطرہ قطرہ میرے جسم میں داخل ہورہا تھا۔۔۔۔کسی نے پولیس والے کو آواز دی جو ایک عدد امتحانی گتہ جس پر سفید کاغذ چڑھے ہوئی تھے بغل میں دبائے میرے بیڈ تک آیا اور ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔مجھے میرے ہاتھوں قتل ہونے والے میرے ہم شکل سیاہ پوش کی لاش کی فکر اور قاتل بننے کی ندامت نے گھیر لیا تھا۔۔۔پولیس والے نے زبان کھولی۔۔۔ شکر کرو!۔۔خانہ بدوش کاروان نے بروقت ہسپتال پہنچا دیا ورنہ قبر میں ہوتے آج!۔۔میں ٹکٹکی باندے اُسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ گتے پر کاغذ درست کرکے نئے بال پوائنٹ پین کی نِب کو زبان سے گیلا کرکے کاغذ کے کونے پر چیک کیا۔۔اور پھر سے گویا ہوا۔۔۔ بتاؤ ابتسام۔۔خودکشی کی کوئی خاص وجہ۔۔؟ اور حیرت سے میرا منہ کُھلے کا کھلا رہ گیا۔۔۔کیا۔۔۔خودکشی۔۔۔۔؟۔۔۔۔نہیں تو۔۔۔؟

وسیم خان عابدؔ
23جون2019
نوٹ: جملہ حقوقِ اشاعت بحقِ مصنف محفوظ ہیں 
٭٭٭٭٭٭

Sunday, 19 May 2019

اُس کی آنکھوں میں پھر نمی ہوگی

اُس کی آنکھوں میں پھر نمی ہوگی
 مجھ کودن رات سوچتی ہوگی؟
تو جو، اب رتجگوں پہ مائل ہے
زندگی میں کوئی کمی  ہوگی
ہم کہاں تک اُسے بھلائیں گے
اُسکی تصویر ناچتی ہوگی
آسمانوں سے حکم آیا ہے
تو کسی غیر کی ہوئی ہوگی
اس نے تجھ کو گلے لگانے سے 
میری خوشبو کشید کی ہوگی
جس قبیلے میں عشق کافر ہو
اس میں شادی تری ہوئی ہوگی
ہاں مرا نام لکھتے لکھتے تو
پھوٹ کے پھر سے رو پڑی ہوگی
زندگی رات بن گئی ہوگی 
آنکھ پھر صبح پر جمی ہوگی؟
تیرے عابد کی تیرے بن پگلی
!!کتنی بے رنگ زندگی ہوگی

Saturday, 23 February 2019

وہ لڑکی ہے تو اُس کا شعر بھی اعلٰی معیاری ہے

وہ لڑکی ہے تو اُس کا شعر بھی اعلٰی معیاری ہے
او ر اُس کی خامہ فرسائی ہر اِک شاعر پہ بھاری ہے
وہ لکھتی واہ ہے تو سینکڑوں آہ آہ کرتے ہیں
قلم کی ایک جنبش پر ہزاروں لوگ مرتے ہیں
وہ کم لکھتی ہے لیکن ہنس کے پورا کام کرتی ہے
ادب سے نام لیتی ہے ادب کا کام کرتی ہے
ہاں اُس کی سٹیج پر موجودگی بادِ بہاری ہے
وہ لڑکی ہے تو اُس کا شعر بھی اعلٰی معیاری ہے
نظم کر تی ہے کچھ باتیں غزل بھی روز لکھتی ہے
وہ سب سے داد لیتی ہے یہی امروز لکھتی ہے
معرٰی نظم کہتی ہے کبھی آزاد لکھتی ہے
کبھی تو ملنے والی داد بھی بے داد لکھتی ہے
میں لڑکا ہوں میری غزلیں میرادیوان خواری ہے
وہ لڑکی ہے تو اُس کا شعر بھی اعلٰی معیاری ہے
وسیم خان عابدؔ
فروری2019

افسانہ: اظہار

میں پاگل نہیں ہوں، پھر کیوں مجھے پاگل خانے میں ڈالا گیا ہے؟۔۔۔ آپ ہی بتائیں۔۔۔ پروفیسر صاحب۔۔؟ رحیم خان نے اپنے پیروں سے بندھی ہوئی زنجیر جھنجھنائی ۔۔۔اور سارے پاگل اُس کی طرف دیکھنے لگے۔ مجھے رحیم خان کے ساتھ اس پاگل خانے میں رہتے ہوئے چھ ماہ سے اوپر ہوگئے ہیں۔ رحیم خان انتہائی باتونی، ہنس مکھ ، وجیہہ اور من موہنی شخصیت کا مالک ہے۔ بلا کا ذہین ،لیکن کبھی کبھی اپنا آپا کھو بیٹھتا ہے۔ ۔ اُس کا غصہ کبھی بھی بے جا نہیں ہوتا، کیونکہ اُسے لگتا ہے، کہ دُنیا میں ایک و ہی سیدھے راستے پر ہے باقی سب گمراہ۔۔۔ لیکن اُسے میں نے کبھی چُپ نہیں دیکھا جب بھی دیکھا ہے بولتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ بھی خود کو تندرست اور ذہین سمجھتا ہے اور میں بھی ٹھیک ٹھاک ہوں ۔۔۔لیکن مجھے بھی ڈاکٹروں نے نجانے کیوں پاگل سمجھ کر یہاں قید کر دیا۔۔۔میرے پیروں میں رحیم خان کی طرح زنجیر نہیں ۔۔ میں تو کھل کر چلتا پھرتا ہوں اور یہاں پر موجود سٹاف سے بات چیت بھی کرتا ہوں ۔۔۔میں ایک سکول ٹیچر ہوں، لیکن جانے کس خوش فہمی میں سارا سٹاف اوراُن کی دیکھا دیکھی، سارے پاگل مجھے پروفیسر صاحب کہتے ہیں۔۔۔؟۔۔۔ میں ہر شام سونے سے پہلے اپنی ڈائری میں کچھ نہ کچھ گزرے ہوئے دن کے بارے میں ضرورلکھتا ہوں ، اور سارے پاگل مجھے ڈائری لکھنے کے دوراں عجیب سی نظروں سے گھورتے رہتے ہیں۔۔۔ چند ایک بے ضرر قسم کے پاگل تو پاس آکر بیٹھ جاتے ہیں اور فرمائشیں کرتے ہیں،کہ حکومت کو ہمارے بارے میں بھی بتا دو۔۔۔ رحیم خان بھی تو روزمُجھ سے اصرار کرتا ہے، کہ اس ڈائری میں ہم سب کے بارے میں لکھنا!۔۔۔ اور باہر جاکر چھاپ دینا تاکہ سب کو ہمارے بارے میں پتہ چلے، کہ ہم پر حکومت کیا کیا مظالم ڈھا رہی ہے!۔۔۔ ہم سب مُحبت سے لبریز،اور حق پرست دانشوروں کو ڈاکٹر پاگل سمجھ رہے ہیں۔۔۔ اور میں سب سُن کر ہنس دیتا ہوں، ہاں ضرور بتاؤں گا، باہر جاکر!۔۔۔
ہم پاگل خانے کے اُس حصے میں ہیں جہاں پھل کھانے کے لیے بھی چاقو چھری رکھنے کی اجازت نہیں بلکہ دھاتی چمچ کی بھی ممانعت ہے ،مبادا،کوئی اپنی یا کسی دوسرے کی شہہ رگ نہ کاٹ ڈالے ، نہ رسی ،تار اور ایسا کپڑا چھوڑا جاتا ہے جس سے پھانسی لگائی جاسکے۔ بجلی کے بلب اونچے چھتوں سے لٹکے ہوئے ہیں لیکن ان کی ساری وائرنگ اور جلنے بجھنے کے سوئچ بھی پہرے دار کے کمرے میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔ ہمیں نرم پلاسٹک کی تھالیوں اور چمچوں سے کھانا دیا جاتا ہے، اورسارے گلاس بھی ڈسپوزایبل ہیں۔میں اپنے بارے میں تو روز لکھتا ہوں لیکن ،آج میں اپنے بارے میں کچھ نہیں لکھوں گا بلکہ آج رحیم خان نے مجھے اپنی زندگی کی کہانی سُنائی ہے،وہی لکھوں گا۔۔۔
میں تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے اوسط درجے کا طالب علم تھا، نہ غبی اور نہ پوزیشن لینے والا بلکہ یوں کہیں کہ میں کبھی کلاس میں موجود ہی نہ تھا ،اُستاد جب بھی پڑھانا شروع کرتا، میں اپنی ایک الگ دُنیا تخلیق کر لیتا جس میں ہوائی گھوڑے اُڑتے ، پریاں اپنے پر پھڑپھڑاتیں،سفید دودھیا روشنی کی آبشاریں گرتیں،سبزے کے وسیع میدان اور اُس میں مدہم ہواؤں سے رقص کرتے ہوئے نیلے نیلے پھول ہوتے،جگنو اور تتلیاںآ، آکر میرے ہاتھوں پیروں کے بوسے لیتیں، اور سکول کے چار پانچ گھنٹے ان ہی سوچوں میں گزر جاتے۔۔نہ میں سویا ہوتا اور نہ جاگتا، بلکہ ان کے درمیان کی ایک دُنیا میں رہتا ۔۔۔۔ سکول میں نہ میں کچھ سمجھتاکیونکہ میں کچھ سننے کی کوشش ہی نہ کرتا، اور نہ اساتذہ کچھ سمجھانے پر بضد ہوتے کیونکہ چالیس بچوں کی کلاس میں کون اتنی خبر رکھے۔۔۔ رفتہ رفتہ وقت گزرتا گیا اور جب میٹرک کے امتحان ہورہے تھے ،تو ظہرہ آنٹی پشاورسے چند دنوں کے لیے ہمارے ہاں لاہور،رہنے آئی، اُس کے ساتھ اُس کی اکلوتی بیٹی شائستہ بھی تھی جو شاید آٹھویں میں پڑھ رہی تھی،انتہائی خود سر اور اڈیل قسم کی لڑکی ۔۔۔ مجھے پہلی نظر میں تو نہیں،لیکن کچھ ملاقاتوں کے بعد بہت ہی اچھی لگنے لگی۔۔۔ وہ ہر وقت مُنہ پھلا ئے رہتی، بات بات پہ شکایتیں لگاتی،اور چھوٹی سے چھوٹی بات کا بتنگڑ بناتی۔ لیکن اُس کی ان باتوں میں بھی معصومیت تھی۔ اُس میں اتنی ذہانت ضرور تھی کہ لوگوں کے سامنے جھوٹ موٹ کی ہنسی ہنس لیتی،کیونکہ اکثر عورتیں یہ اداکاری اچھے طریقے سے کرتی ہیں۔ وہ اپنے سے بڑی عمر کی عورتوں کی بیچ بیٹھ کر اُن کی باتیں غور سے سُنتی اور پھر اسی انداز میں بولنے کی کوشش کرتی ، جس میں کبھی کبھی گالیاں بھی شامل ہوجاتیں۔ بڑی کرسی میں پیر اوپر کرکے گھٹنوں پر گال رکھتی اور گھر میں ہونے والے والی چہل پہل کا جائزہ لیتی۔ اکثر چپ رہتی لیکن جب بھی مُنہ کھولتی شکایتیں لگاتی یا کسی چیز سے بیزاری کا اظہار کرتی۔
جب سے شائستہ سے بات چیت شروع ہوئی ،میرے ذہن سے اُڑنے والے گھوڑے،پریاں ،جگنو اور تتلیاں محو ہوگئیں،دن رات آنکھوں کے سامنے شائستہ چلتی پھرتی رہتی ،کبھی مُنہ پھلائے کتاب کے پنے اُلٹ رہی ہے تو کبھی عورتوں کے درمیان بیٹھی جھوٹ موٹ کی ہنسی ہنس رہی ہے اور گالیاں سیکھ رہی ہے،کبھی میرے پاس آکر مجھ سے کسی کی شکایتیں لگا رہی ہے ،تو کبھی،اپنی سہیلیوں کے طرزِ عمل میں مین میخ نکال رہی ہے۔۔۔۔یہ ایک نہ رُکنے والی فلم میرے ذہن میں شروع ہوچکی تھی۔۔حالانکہ اُس سے مہینوں اور سالوں ملاقات نہ ہوتی۔۔لیکن میرے ذہن کی فلم میں روز نئی نئی اداؤں کا اضافہ ہوتا رہتا ۔میرے تصور میں ہم،کبھی لانگ ڈرائیو پر نکل کرراستے میں فلمی گیت سُنتے، شام تک پارک کے بینچوں پر بیٹھے رہتے، کبھی واہگہ بارڈر پر ملی نغموں کی تال پر ہاتھ اُٹھا کر جھومتے اور کبھی شاہی قلعے کی دیواروں کے ساتھ ٹیک لگائے ایک دوسرے کو تکتے رہتے۔۔۔فورٹ ریس کے سینما میں رات گئے کا شو دیکھتے۔۔۔ کبھی گھنے پیڑوں میں شام کے وقت چہچہاتے پنچھیوں کے شور سے لطف اُٹھاتے تو کبھی داتا دربار کے برآمدے میں دوزانوں ہوکر داتا صاحب کا،ا پنے ملن کے لیے شکریہ ادا کرتے۔۔۔ اورداتا صاحب کے گنبد کے کبوتروں کو شائستہ کے ہاتھ سے دانہ کھلاتے۔ 
وقت گزرتا گیا اور میں اپنی تعلیمی منازل طے کرتا رہا لیکن اپنی ہر ڈگری مجھے شائستہ کے قرب کا ایک مائل سٹون لگتی ،کیونکہ میں نے کبھی بھی شائستہ کے علاؤہ اپنی زندگی میں کسی اور چیز کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا، میرے ہم جماعت ڈاکٹر ، انجینئر ،بینک مینیجرزاور پتہ نہیں کون کون سے پروفیشن کے سپنے دیکھتے لیکن۔۔۔۔۔ میری زندگی کا مقصد صرف شائستہ کا ساتھ تھا۔۔۔ وہ ساتھ تھی تو زندگی ہر رنگ میں گلزار تھی اور اُس کے بغیریہ بنجر صحرا سے بھی تکلیف دہ اور بے وقعت۔۔۔ اُس کو منفی کرنے کا مطلب زندگی کو صفر سے ضرب دینے کے مترادف تھا، دولت شہرت سب فضولیات تھیں۔۔۔ اس لیے میں نے کبھی اُس کے سوا کچھ سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔ کیریئر کیا ہوتا ہے۔۔۔؟۔۔۔ کبھی غور ہی نہیں کیا۔۔۔کیونکہ شائستہ سے آگے مجھے کچھ نظر ہی نہیں آتا!۔۔
فیملی تعلقات کے باعث شائستہ اور اُس کے گھر والوں کا آنا جانا لگا رہتا۔۔ عید بقر عید پر ملاقات ہوجاتی ۔۔۔خوب ہنس کے باتیں ہوتیں۔۔۔وہ کالج یونیورسٹی سے فارغ ہو کر گھر بیٹھ گئی تھی ۔۔ میں نے بھی جیسے تیسے اپنے امتحانات پاس کرکے کچھ روزگار حاصل کر لیا تھا۔ جس سے سفید پوشی برقرار رکھی جاسکے۔ ۔۔۔کچھ مقابلے کے امتحانات کی تیاریاں بھی ہورہی تھی، کیونکہ یہ بھی شائستہ کو حاصل کرنے کا ایک راستہ تھا ،ورنہ مجھ میں پاس کرنے کی اہلیت باالکل بھی نہ تھی۔۔۔ والدین اکثرشادی کے لیے اصرار کرتے لیکن میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔۔۔، کچھ بننا چاہتا ہوں۔۔۔، کہہ کر ٹال دیتا، کیونکہ شائستہ سے آگے میری آنکھیں اندھی تھیں۔۔۔
پھر ایک دن شائستہ کی منگنی کی خبر سُنی۔۔۔ پتہ نہیں کیوں شائستہ نے کسی اور سے شادی کا فیصلہ کیا۔۔۔؟۔۔۔ لیکن اُسے تومیری محبت کا پتہ ہی نہیں تھا۔۔۔!۔۔۔ میں نے نجانے کونسے ڈر کی وجہ سے اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا۔ کیا ٹھکرائے جانے کا خوف تھا۔۔؟ ۔۔۔یا کچھ اور۔۔۔۔کچھ اور کیا تھا؟۔۔۔۔کیا شائستہ کو میں پسند نہیں تھا۔۔۔؟۔۔۔ لیکن جب بھی ملاقات ہوتی وہ میرے ساتھ ہی باتوں میں لگ جاتی میرے پاس گھنٹوں بیٹھی رہتی۔۔۔ مجھ سے ساری باتیں کرتی۔۔۔ وہ تو مجھے ہر دُکھ درد میں شریک رکھتی ، ہر خوشی کی خبر سُناتی۔۔۔۔ اور ہر مذاق میں شریک بناتی ۔۔۔جب بھی کسی کی غیبت کرنی ہوتی تو میرے سامنے ہی کرتی۔۔۔۔ جب بھی ملتی سارے عرصے کی سٹور کی ہوئی باتیں حافظے سے اُگل اُگل کر مُجھ تک پہنچاتی ۔۔۔ میرے پاس بیٹھ کے اُسے بھی اچھا لگتا۔۔بلکہ بہت اچھا لگتا۔۔۔لیکن ۔۔۔ لیکن میں کیا چاہتا تھا۔۔؟۔۔سب گھر والوں کے سامنے وہ میرے ساتھ بیٹھی باتیں کرتی رہتی۔۔۔۔ اس سے زیادہ ایک لڑکی اور کیا،اظہار کر سکتی ہے؟۔۔۔ لیکن میں نے ۔۔۔اظہار کیوں نہیں ۔۔؟۔۔ جب وہ اپنے رشتے کے بارے میں بتا رہی تھی۔۔۔جب وہ رشتہ کے لیے آنے والی عورتوں کے بارے میں بتا رہی تھی ۔۔۔۔ تو میں نے کیوں ہنس کر کہا ۔۔ہاں بہت اچھا رشتہ ہے، خوش رہو گی۔۔۔ میں ہر بات پر کیوں انجان بننے کی اداکاری کرتا ۔۔؟۔۔ میں کیوں اپنی دلچسپی کا اظہار نہ کرتا ۔۔۔میں کیوں اُس کے لیے اپنے دل میں موجود،اُسکاپیار اُس سے چُھپاتا رہا۔۔۔ میں کیوں چُپ رہا جب اُس نے باتوں باتوں میں پوچھ لیاتھا کہ :۔۔۔۔کسی خاص کے انتظار میں بیٹھ کر بوڑھے ہو جاؤگے، شادی کرلو! ۔۔۔ لیکن میں نے بات ہنسی میں اُڑادی تھی۔۔۔ہاں کسی بہت ہی خاص کا انتظار ہے،جواب میں کہاتھا۔۔!۔۔۔ لیکن اُس نے بھی تو کبھی نہیں کہا کہ تم مُجھے اچھے لگتے ہو۔۔مجھے تم سے پیار ہے!۔۔۔وہ بھی تو یہی کہتی تھی، کہ تم بہت اچھے انسان ہو!۔۔۔ اور اچھے انسان تو دُنیا میں کروڑوں ہیں ۔۔۔ اُسے بھی تو کہنا چاہیے تھا کہ ۔۔۔ تم مجھے اچھے لگتے ہو۔۔۔ میں تو مرد تھا۔۔۔ میں کیسے کہتا؟۔۔۔کہ تم مجھے اچھی لگتی ہو!۔۔۔میں تم سے پیار کرتا ہوں!۔۔۔میں تمہارے بن ادھورا ہوں!۔۔۔ تم میری جان ہو!۔۔۔۔ یہ زندگی تیرے لیے ہی وقف ہے۔۔۔ یہ کوئی فلم تھوڑی ہے؟۔۔۔یہ تو زندگی ہے !۔۔۔اگر وہ بُرا مان جاتی تو میں ایک دوست ۔۔۔ایک بے تکلف دوست سے بھی محروم ہوجاتا۔۔۔پتہ نہیں وہ کیا سوچتی میرے بارے میں ؟۔۔۔ ہاں پروفیسر صاحب۔۔۔؟۔۔۔ وہ کیا سوچتی میرے بارے میں ؟۔۔۔رحیم خان نے اپنی باتوں کا سلسلہ توڑتے ہوئے ۔۔۔میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیا ؟۔۔۔وہ کیا سوچتی میرے بارے میں ۔۔۔پروفیسر صاحب۔۔۔ اُس کی اُلجھی ہوئی میلی کچیلی داڑھی کے بالوں میں آنسوؤں کے قطرے شبنم کی طرح چمک رہے تھے۔۔۔ اور نتھنوں سے بھی پانی کے چند قطرے ٹپکنا شروع ہوچکے تھے۔۔۔ اُس نے اپنی کھلی ،لٹکتی ہوئی آستین سے ناک پونچھتے ہوئے میرے ہاتھ کو چھوکر تھپتھپایا۔۔۔۔پروفیسر صاحب !۔۔۔۔ شائستہ کو ہی اظہار کرنا چاہیے تھا!۔۔۔ ہاں۔نا۔۔ پروفیسر صاحب۔۔؟۔۔ کرنا چاہیے تھا ۔۔نا۔۔؟۔۔ ۔ اگر اُسے مجھ سے محبت تھی تو اُس کے لیے تو اظہار آسان تھا ۔۔۔کسی کاغذ پر انگریزی کے تین الفاظ لکھ کر تھما دیتی ۔۔میں کیسے نا کہتا!۔۔۔۔۔لیکن نہیں! ۔۔۔وہ کسی اور کی ہوگئی۔۔۔ہنسی خوشی!۔۔۔۔ میں کیسے اظہار کر تا ۔۔۔پشتون خاندانوں میں !۔۔میں کیسے اظہار کرتا؟۔۔۔ پروفیسر صاحب !۔۔آپ ہی بتائیں میں کیسے اظہار کرتا؟۔۔۔۔آج بھی وہ ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ کا سٹینڈ بنا کر میرے سامنے کر سی پر چُپ چاپ بیٹھ جاتی ہے اور مجھے گھورتی رہتی ہے۔۔۔ کیا سب میری غلطی تھی؟۔۔۔وہ بھی تو کہہ سکتی تھی،کہ تم مجھے اچھے لگتے ہو!۔۔۔ وہ کہہ سکتی تھی نا؟۔۔۔۔ وہ سامنے کرسی دیکھ رہے ہو۔۔۔ٹھیک میری چارپائی کے سامنے۔۔۔دیکھ رہے ہو ، نا۔۔۔ پروفیسر صاحب؟۔۔۔ اُس پرروز بیٹھتی ہے۔۔۔۔۔ اپنے پیروں کے گرد ہاتھ کس کر باندھ لیتی ہے، اوراپنے گھٹنوں پر گال رکھ کر مُجھ پہ ہنستی رہتی ہے۔۔۔ میں اگر ڈر رہا تھا ۔۔تو وہ بھی تو کہہ سکتی تھی؟۔۔۔۔۔ہاں پروفیسر صاحب!۔۔۔ہے۔۔ نا؟۔۔۔ اُس نے زنجیر پھر سے پکڑ کر زور زور سے جھنجھنائی۔۔رحیم خان بول رہا تھا۔۔۔اور میں سُن رہا تھا۔۔۔ہم دونوں کی داڑھیاں تر تھیں۔۔۔۔کیا ایسا بھی ہوتا ہے۔۔؟۔۔ کہ اتنے پاس آکر بھی لوگ بچھڑ جاتے ہیں۔۔؟۔۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے۔۔۔؟؟؟؟۔۔۔کیا شائستہ کو بھی رحیم خان سے محبت تھی۔۔۔۔؟؟؟۔۔۔۔کیا یہ رحیم کی ہی کہانی ہے۔۔۔۔۔؟؟؟۔۔۔ میں کیا لکھ رہا ہوں۔۔۔۔؟؟؟۔۔۔۔۔چُپ ہو جاؤ رحیم خان۔۔۔۔ اب چُپ۔۔۔۔!!!!!!۔۔۔۔۔۔۔۔


وسیم خان عابدؔ 
فروری 2019 
نوٹ: جملہ حقوق بحقِ مصنف محفوظ ہیں ۔ تمام کردار فرضی ہیں، کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقی ہوگی

Monday, 11 February 2019

ہم جو اب تھوڑے سے ہر جائی نظر آتے ہیں

ہم جو اب تھوڑے سے ہر جائی نظر آتے ہیں
تیری یادوں کے ہی شیدائی نظر آتے ہیں
موڑ دیتے ہیں جو عظمت سے رُخِ دریا کو
تیرے در پر وہ تمنائی نظر آتے ہیں
کیسے فطرت کا میں منکر رہوں گا میرے صنم
شاخِ گل تیری ہی انگڑائی نظر آتےہیں
مرے نالوں پہ وہ ظالم بھی یہی کہتا ہے
شعر سب قافیہ پیمائی نظر آتےہیں
عہدباندھے تھے جو پیپل کی گھنی چھاؤں میں
اُس کو اب باعثِ رسوائی نظر آتے ہیں
بعد مدت کے مجھے دیکھ کے اتنا بولے
ہو بہو آپ مجھے بھائی نظر آتے ہیں
دَم نہ نکلا ترے عابدؔ کا بہ وقتِ رُخصت 
عشق مائل بہ شکیبائی نظر آتے ہیں

وسیم خان عابدؔ
2019

رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن

Saturday, 9 February 2019

ویلینٹائن ڈے سپیشل : مجھ کو بس اُس سے ہی محبت ہے

یہ پتہ بھی نہیں وہ کیا چاہے 
یہ خبر بھی نہیں کہ جانے گی
مجھ کو دیکھے گی ،کیا وہ سوچے گی؟
دیکھنے پر ہی بُرا مانے گی۔۔۔۔؟
ہاں مگر پھر بھی ایک الفت ہے
مجھ کو بس اُس سے ہی محبت ہے۔۔۔
نہ غرض ہے مجھے اداؤں سے 
اُس کے آنچل سے نہ ہواؤں سے
مرمریں ہاتھ کے نہ نرم سے لمس
اور نہ زلفوں کی ان گھٹاؤں سے
پھر بھی جذبوں میں کوئی حدت ہے
مجھ کو بس اُس سے ہی محبت ہے۔۔۔
نہ غرض مجھ کو عشوے غمزے سے
اُس کے ہونٹوں کے سُرخ لالوں سے
میں نے دیکھا نہیں ہے اُس کی طرف
کیسے کہہ دوں کہ اُس کے بالوں سے
چاہے جانے کی، اُس کو عادت ہے 
مجھ کو بس اُس سے ہی محبت ہے۔۔۔
اُس کی آنکھیں ہوں ،جھیل جیسی ہوں
چھوٹی چھوٹی یا نیل جیسی ہوں
دُبلی پتلی ہو یا وہ موٹی ہو
سرو قامت ہو یا وہ چھوٹی ہو
میں نے دیکھا نہیں ہے اُس کی طرف
کیسے کہہ دوں وہ کیسی لگتی ہے؟
پھر بھی سینے میں کوئی آہٹ ہے
مجھ کو بس اُس سے ہی محبت ہے۔۔۔
کیا ہو؟ اچھی ہو یا بُری ہووہ
تُرش رو ہو، یا منچلی ہو وہ
کوئی خوش باش رہنے والی ہو
کوئی ویران زندگی ہو وہ؟
میں نے سوچا نہیں ہے کچھ بھی عبث
اُس کی یادوں میں بھی تو راحت ہے
مجھ کو بس اُس سے ہی محبت ہے۔۔۔
کیا ہوا، ساتھ اُس کے غیر رہے
وہ جُدا بھی رہے بخیر رہے
زندگانی میں اُونچ نیچ نہ ہو
گنگناتی برنگِ شعر رہے
میں تو کچھ اور سوچتا ہی نہیں
میں تو کچھ اور دیکھتا ہی نہیں
مجھ کو بس اُس سے ہی محبت ہے۔۔۔

وسیم خان عابدؔ 
فروری 2019
جملہ حقوق بہ حقِ شاعر محفوظ ہیں کاپی پیسٹ کی اجازت نہیں

Tuesday, 5 February 2019

مضمون: سعادت حسن منٹو صاحب۔۔۔میں کیا اور میری بساط کیا

سعادت حسن منٹومشہور افسانہ نگاراور مختصر کہانی کے بادشاہ، کی پیدائش وفات اور حالاتِ زندگی کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا۔ہجرت سے پہلے اُس کی زندگی کیسی تھی اور پاکستان میں آکر کیسی گزاری یہ بھی سب جانتے ہیں۔۔۔لیکن سب سے پہلا سوال جو منٹو کا نام سننے کے بعدہمارے ہاں عام پوچھا جاتا ہے ۔۔۔کیا منٹو فحش نگار تھے؟۔۔۔ہے۔ منٹو شناسی کا پیمانہ یہی رکھا گیا ہے کہ منٹو کے فحش نگاری کے متعلق کوئی کیا رائے رکھتا ہے۔یہ نہیں پوچھا جاتا کہ منٹو کیا کہنا چاہتے تھے۔ وہ جس چیز کاوہ ابلاغ چاہتے تھے ،وہ اُس کے جیتے جی اور اُس کے بعد کس قدر موثر طریقے سے ہوا۔ وہ کس طرح کے سماج کے خواہاں تھے اور کون سی روایات سے متنفر اور باغی۔۔۔ لیکن فحش نگاری کا اتنا پرچار ہوا ، کہ منٹو کے ذکر پر آج بھی سب سے پہلا جواب فحش نگاری کا دینا پڑتا ہے ۔۔۔مگر ہم آج پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سعادت حسن منٹو کو کیوں پڑھا جائے؟ فحش نگاری کی بات بعد میں۔ لٹریچر/ادب چونکہ معاشرے کا پر تو ہے اور انسانی رویوں کی ایک فلم جس سے آگاہی بصیرت عطا کرتی ہے ، جس کے زیرِ اثر انسان اپنی زندگی بہتر طور سے گزار سکتا ہے ۔یہ بصیرت دوسروں کو تسلیم کرنے اور اُن کا حق ماننے کا حوصلہ اور ظرف فراہم کرتا ہے۔لٹریچر انسانوں کو بتاتا ہے کہ وہ کونسے حالات ہوتے ہیں جن کے زیرِ اثر انسان دوسرے انسانوں کے لیے ضرر رساں بن جاتا ہے ۔ وہ کونسے فیصلے ہوتے ہیں جو انسان پر مصیبتوں کے پہاڑ گراتے ہیں اور وہ کونسے فیصلے ہوتے ہیں جن سے انسانی زندگی سُکھ چین کا استعارا بن جاتی ہے۔ وہ کیسے معاشرے ہیں جہاں سچ کو سُنا جاتا ہے برداشت کیا جاتا ہے اور سراہا جاتا ہے اور وہ کیسے معاشرے ہیں جہاں جھوٹ کی اتنی عادت پڑجاتی ہے کہ سچائی کے علمبرداروں کی زبانیں بند کرنے کے لیے زہر کے پیالے پلائے جاتے ہیں اور جسم کو جلاکر اناالحق کو دبانے کی کوشش کی جاتی ۔ادب سے محبت ایک زندگی میں سینکڑوں زندگیاں جینے کا سرور اور تجربہ عطا کرتی ہے۔انسان کی فطرت میں جاننے کی خواہش پوشیدہ ہے اور ادب سے اس خواہش کی آبیاری ہوتی ہے۔جہاں تک کہانی پڑھنے کی بات ہے تو کہانی پڑھنے والا جب لہر کو پکڑ لیتا ہے تو اُس میں بہتا ہی چلا جاتا ہے۔قاری کہانی کے ساتھ جُڑ جاتا ہے اور پھر جس کردار کے ساتھ وہ جُڑ گیا اُس کے دُکھ درد ،ہنسی خوشی سب کچھ جھیلتا اور انجوائے کرتا ہے۔اُن کے حالات و واقعات سے تجربات حاصل کرتا ہے اور کتھارسس بھی کرلیتا ہے۔بے اختیار آنکھوں سے آنسوبھی بہنے لگتے ہیں اور لب مُسکراہٹ کے لیے کُھل بھی جاتے ہیں۔شاید میں منٹو کے بارے میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ منٹوں نے جو لکھا مجھے بالکل حقیقی دُنیا سا محسوس ہوانیتی کو تانگے کا لائسنس نہ ملنے پر غصّہ آیا اور سلطانہ کی محرم کے لیے خُدابخش سے کالی شلوار کے لیے بچوں کی طرح ضدکرنابہت معصوم لگا۔ لیکن منٹو صاحب کی ٹریجڈی یہ ہے کہ اُسے سمجھنے کی کوشش سرے سے ہوئی نہیں یا دیدہ و دانستہ عوام کو اُن نظریات سے بھٹکایا گیااور فحش فحش کے نعرے لگا کر اصل مدعا کو دبا دیا گیا ۔۔۔شاید اسی لیے اُسے فحش نگار کہہ کر اُس سے گردن چُھڑا لی گئی۔ حالانکہ اگر ذہن میں بہت سارا تعصب بھی بھر لیا جائے، پھر بھی اُسے ایک زاویہءِ نظر کے طور پر تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ 
میں آج کی بات کر رہا ہوں 2019 کی ،جب موبائل فون پر تیز ترین انٹر نیٹ بھی موجود ہے اور لاکھوں کی تعدار میں ویب سائٹس بھی ۔۔۔میں اس جدیددور کی بات کر رہا ہوں جہاں نالج کے ایکسپلوژن/دھماکے کی ٹرمینالوجی چار دانگ ہے۔۔۔اس دور میں بھی اگر ایک ایم فل سکالر یہ کہے کہ ۔۔۔منٹو کو اس لیے نہیں پڑھا کیونکہ وہ ایسے ویسے ہیں۔۔۔ تومجھے سچ میں بہت مایوسی ہوتی ہے۔ کہ ہمارے پاس آج بھی،جب علم تک رسائی جیب میں موبائل فون کی صورت میں پڑی ہے، تحقیق کے بغیر فتوے صادر کرنے کی خو کتنی پکی ہے۔ ہماری پسند نا پسند کا معیار آج بھی کسی دوسرے کے نظریات ،تحریری یا تقریری ہوتے ہیں نہ کہ ہماری اپنی کاوش۔۔۔ ہماری رائے آزاد رائے کو ہمارا مسلک ،علاقہ ،برادری اورنسل کس قدر آسانی سے کچل دیتے ہیں، اور ہم کتنے متعصب ہوجاتے ہیں۔لیکن جب پوچھا جاتا ہے کہ ایسا ویساکا کیامطلب ہے اور کہاں پڑھا ؟ توکوئی قابِل ذکر توجیہہ نہیں ہوتی بلکہ اصلی ماخذ کا بھی پتہ نہیں ہوتا۔۔۔جس طرح ایک مصری عالم کے قتل کے بعد قاتل کا بیان تھا کہ میں نے اُس کے لکھے ہوئے کو پڑھا تک نہیں لیکن فتوی موجود تھا اس لیے یہ قدم اُٹھا لیا۔منٹو کے ایسے ویسے کی بھی یہی تاویل عام ہے۔ ۔ ایسا ہی ایک واقعہ فحش نگاری کے ایک مقدمے میں بھی پیش آیا،جب منٹو کے افسانے میں لفظ عاشق کو استغاثہ کے نانک چند ناز ایڈیٹر پربھات کی طرف سے فحش قرار دیا گیاتو منٹوکی حسِ ظرافت پھڑکی اور اسکا شائستہ مترادف پوچھا۔۔۔پھر خود ہی نعم البدل۔۔ یار۔۔ پیش کیا،تو محفل کشتِ زعفران بن گئی۔ 
اب آتے ہیں فحش کے بحث کی طرف۔۔منٹو نے اس الزام کا خود جواب ،مجموعے ٹھنڈا گوشت کے دیباچے میں بہ عنوان زحمتِ مہر درخشاں بہ حوالہءِ افسانہ ۔۔کھول دو۔۔ اور ۔۔۔ ٹھنڈا گوشت ۔۔۔اور مجموعہ لذتِ سنگ کے دیباچے میں بحوالہءِ افسانہ۔۔۔بو۔۔۔ اور مضمون۔۔۔ادب جدید۔۔۔دیا ہے۔عابد علی عابد صاحب نے ٹھنڈا گوشت کو کورٹ میں ادب پارہ کہااور ادب کبھی فحش نہیں ہوتا۔ادب تنقیدِ حیات ہے۔جیسے الفاظ استعمال کیے۔۔۔خیر ایک عام فہم بات ہے کہ الفاظ اور فقرے اگر تحریر سے الگ کیے جائیں تو اُس کے مطالب اور مفہوم پر گہرا اثر پڑتا ہے، اور ہر کوئی اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ اگر یہی اصول مان لیا جائے تو ایسے قابلِ تعزیر فقرے تو بہت سی مقدس کتابوں میں بھی ڈھونڈلیے جاتے ہیں چہ جائیکہ ادب۔۔۔ ادب اور زندگی تو براہ راست منسلک ہیں اس لیے کانٹے کو پھول کہنا منافقت اور ادب سے غداری ہے۔۔۔ اس میں اچھے بُرے کی بات نہیں ،کانٹا کانٹا ہے اور پھول پھول الگ الگ فطرت اور الگ الگ کام۔منٹو صاحب کے افسانوں کے اگر فقروں کو الگ کر لیا جائے تو آپ کوئی بھی لیبل لگا سکتے ہیں لیکن کسی فن پارے کو دیکھنے کے لیے اُس کا مجموعی تاثر لینا چاہیے افسانہ ٹھنڈا گوشت کو لیجئے اس کہانی کا مجموعی تاثر شہوت انگیز باالکل بھی نہیں کیونکہ ایشر سنگھ نے ایک ظلم کیا تھا جس کے نتیجے میں وہ ذہنی نامردی کا شکار ہوگیا اور اپنے انجام کو بھی پہنچ گیا۔ کیونکہ انسان کے اندر ضمیر نام کی چیز بھی رہتی ہے، ایشر سنگھ اور کلونت کور کا رشتہ منٹو صاحب نے افسانے میں واضح نہیں کیا لیکن کلونت کور کی جلن اس حد کی تھی کہ ایشر سنگھ پر خنجر کا وار کردیا،دونوں نے عام زبان استعمال کی ،اور روزمرہ کی گالیاں بھی دیں ،کیونکہ وہ دونوں گنوار تھے پی ایچ ڈی سکالرز نہیں۔ یہ سچ ہے کہ منٹو صاحب کے پاس معاشرے کی تصویر کھینچنے کے لیے سیلفی یا بیوٹیفیکیشن کیمرہ نہیں تھا اور وہ چیچک زدہ چہرے پر ریگمال پھیر کر اُسے ملائم دکھانے کے قائل نہ تھے،درحقیقت یہی چیز تو اُسے منٹو بناتی ہے۔اُس نے خود ہی کہا تھاکہ ۔۔۔ میں معاشرے کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔۔۔ اب اگر یہ سوال پیداہو کہ پھر فحش کیا ہے؟ تو اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ اگر لکھنے والے کی نیت کسی تخلیق سے تلذزاور اکساہٹ پیدا کرنے کی ہو تو فحش ہے ورنہ معلومات اور سبق دینے کی نیت سے کوئی واقعہ فحش نہیں ہوسکتا۔۔۔ اس کی سادہ سی مثال اتنی سی ہے کہ کوئی بھی زوالوجی کی کتاب اُٹھا کے دیکھ لیں،یا مسائلِ بہشتی زیوراز مولانا اشر ف علی تھانوی پڑھ لیں جہاں اشاروں کنایوں نہیں بلکہ کھلم کھلا بیانات موجود ہیں۔۔۔ اور موخر الذکر کا حوالہ تو عصمت چغتائی صاحبہ نے عدالت میں بھی دیا تھا،افسانہ لحاف کے دفاع کے سلسلے میں۔۔۔
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہم بطورِ معاشرہ کیا چھپانا چاہتے تھے جسے منٹو نے بیچ چوراہے لٹکا دیا؟۔۔۔ ہاں منٹو نے وہی سب کچھ بتایا جسے ہم کارپٹ کے نیچے ڈال کر سب اچھا کے نعرے لگا رہے تھے،اور منٹو نے ان کھوکھلے نعروں کا بھرم توڑ دیا۔ یہی کچھ ساحر لدھیانوی بھی کہاکہ: ۔۔۔ثناء خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں۔۔۔۔لیکن ہم بُرائی کو بُرائی نہیں سمجھتے بلکہ اُس کے ظاہر ہونے کو بُرا سمجھتے ہیں ۔۔۔منٹو نے اپنا دور دیکھا ، لیکن معاشرہ آج بھی ایسے ہزاروں واقعات سے بھرا پڑا ہے جس میں مقدش رشتوں کو پامال کیا جاتا ہے، زینب جیسے ہزاروں معصوم بچے ہوس کا شکار ہوکر مار دیے جاتے ہیں۔۔۔ اور گھریلو ملازمین کوتشدد سے قتل کر کے گندی نالیوں میں بہایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد ایسے کیس تواتر سے رپورٹ ہورہے ہیں۔ لیکن ہم نے ریشم کے کیڑوں کی طرح اپنے گرد کوکون بنائے ہیں خود ساختہ پاکیزگی کے، احساس جرم میں لتھڑے رہنے کے باوجود دکھاوے کی پارسائی کے، کیونکہ ،لوگ کیا کہیں گے کی لٹکتی تلوار ہمیں کاٹ ڈالے گی۔۔۔ مگرمنٹو ان سب سے بے نیاز تھا بے باک۔۔اس لیے۔۔۔ لوگ کیا کہیں گے۔۔۔ کی تلوار توڑ ڈالی،اور خودساختہ پارسائی کا کوکون پھاڑ دیا ،اسی لیے فحش نگار قرار دیے گئے اور مقدمے بھگتے۔ اور عدالتوں میںیہی صفائیاں پیش کر تے رہ گئے کہ وہ تخلیقیت سے لبریز ہیں، جنسی جذبات کے اشتعال سے اُسے کیا لینا دینا۔ ۔۔لیکن ہمیں اسلام کے قلعے میں منٹو کھٹک رہا تھااور کھٹکتا رہے گا کیونکہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کی عادت ہمارے ہاں عقیدہ بن چکا ہے۔۔۔ عدالتوں نے فحاشی کے الزام سے بری کر دیا لیکن سوال آج بھی وہی ہے کیا وہ فحش نگار تھے؟ کیونکہ ہم عدالت سے بھی اپنی مرضی کا فیصلہ چاہتے ہیں۔۔۔ ٹھیک اُسی عقیدے کے مطابق جو ماں باپ سے سُنا ،دیکھا اور سیکھاہے ۔۔ اور اُس خودساختہ سچ سے ایک انچ ہٹنے کو تیار نہیں۔ اسی لیے تو منٹو کے نام سے بننے والی فلم کو نمائش کی اجازت ہی نہ مل سکی۔۔کیوں؟۔۔۔ اس کیوں کے پیچھے بہت کچھ ہے؟وہ اس پاک سر زمین میں دفن ہوسکتا ہے لیکن اُس کی فلم سینما میں نہیں چل سکتی۔۔۔کیوں؟۔۔۔منٹوکو اجازت اس لیے نہیں ملتی کیونکہ وہ اللہ دتا جیسے مردوں کے بارے میں سب کو کھلم کھلا بتاتا ہے جنھیں اپنی بھوک کے آگے کوئی پاک رشتہ دکھائی نہیں دیتا(اللہ دتا)۔بابو کندن لال کے چہرے سے نقاب کھینچتا ہے،کیونکہ اُس کی سالی سمتری کی سسکیاں اسے بے چین کرتی ہیں(جاؤ حنیف جاؤ)۔ سکینہ کی بے بسی جو ہندوستان سے اپنی عزت بچا کر اپنوں میں پہنچ گئی، لیکن اپنوں کے ہاتھوں عزت کی پونجی لُٹا دی(کھول دو) ، ایسا کُھلا سچ ہم کیسے ہضم کرتے کیونکہ ہمیں تو یہی درس ملتا ہے کہ عیسائی، سکھ اور ہندو عورتوں کی جبری بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔۔۔۔ کالی شلوار کی سلطانہ تو رزق کے لیے دربدر پھر رہی تھی، خدا بخش جیسے مرد کے آسرے بیٹھی تھی، جو محنت سے جی چُرا کر پیر فقیروں کی منتیں کرتا رہا ۔۔۔اس افسانے میں تو منٹو نے فحاشی کا در اتنی سی بات کہہ کربند کر دیا، کہ جب شنکر نے سلطانہ سے اُس کے کام کے متعلق استفسار کیا ۔۔تو سلطانہ کا جواب۔۔جھک مارتی ہوں۔۔تھا(کالی شلوار)،مومن پندرہ سالہ ملازم کن ذہنی کیفیات سے گزرتا ہے، کن واقعات سے دوچار ہوتا ہے، جب وہ جوانی کی سرحدوں میں قدم رکھتا ہے، اور جب اُسے کھلے عام زنانے میں پھرنے کی اجازت ہو(بلاؤز)،مسعود جیسا سکول جانے والا بچہ دُنیا کو کس نظر سے دیکھتا ہے ،اس کے احساسات کیا ہیں، اور جب اسکا والد دن کے وقت کنڈی لگا کربچوں کے جاگتے ہوئے اُس کی امی سے سر دبوانے کا بہانہ کرتا ہے تو اُس بچے کے ذہن میں کیسی سرسراہٹیں ہوتی ہیں۔ (دھواں)، رندھیر کو گھاٹن لڑکی کے میلے اور بدبودار جسم میں جو گناہ کی لذت ملی وہ اپنی خوبصورت اور دولت مند بیوی کے قرب میں نصیب کیوں نہیں ہوئی(بو)،منٹو نے نذیرجیسے مردوں کے بارے میں بھی کھلم کھلا لکھا جو اپنی بیوی میں کبھی بھی سکون نہیں پاتے۔ کیونکہ وہی شارداجس میں اُسے کریم دلال کے ڈھیرے پر دنیا جہان کا سرور ملتا تھاجب گھر آئی تو اُسے وہ التفات نہ رہا(شاردا)،ہتک کی سوگندی اس لیے منٹو کو پسند تھی کیونکہ اُس کی انا جسم فروشی کے باوجود بھی زندہ تھی(ہتک) ۔۔۔منٹو نے ڈھائی سو کے لگ بھک کہانیاں لکھیں، جن میں سے متنازعہ کہانیاں بہت معمولی مقدار میں ہیں،کیونکہ منٹو نے ماہی گیر، تماشا، ٹوبہ ٹیک سنگھ،دیوانہ شاعر ،طاقت کا امتحان،انقلاب پسند، جی آیا صاحب، مزدوری ،چوری اور جھوٹی کہانی جیسے افسانے بھی لکھے،بابو گوپی ناتھ ، ممی اور ممد بھائی جیسے کردار معاشرے سے چُن چُن کر کاغذ پر امر کردیے اور لائسنس کی نیتی جیسے المیے بھی بیان کیے، جس پر شوہر ابو کوچوان کے مرنے کے بعد حلال روزی کے تمام دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور چار و ناچار جسم فروشی پر مجبور کردی جاتی ہے۔۔۔ منٹوجب کہتا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جو عورت کسی سے محبت کرے وہ بدکردار ہو۔۔۔۔ تو معاشرہ کیوں برداشت نہیں کرسکتا؟ جب منٹو غریب کے منہ سے بلواتا ہے کہ زندگی کتوں والی ملی اور حساب انسانوں والا دینا پڑے گا تو کیوں معاشرے کو فحش اور بے دین لگتا ہے؟
ایک لکھاری نے لکھا کہ منٹو کو ہر طوائف میں اچھائی اور ہر مولوی میں بُرائی نظر آتی ہے۔ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے،لیکن طوائف کی گندگی کے متعلق تو سب یک زبان ہیں منٹو اسی لیے منٹو ہے کہ اُس نے ظاہر سے آگے سوچا ،وہ وجہ تلاش کی جس کے باعث طوائف اور جسم فروش معاشرے کے لیے گالی بنی۔۔۔ منٹو کو جانکی کا بُرا فعل نظر آیا لیکن اُس کی بے بسی بھی نظر آئی ، اور اُس میں آیا اور عورت کا خلوص بھی دیکھا۔۔۔اسی لیے منٹو طوائف سے نفرت نہیں کرتا ،اسی لیے منٹو کے لیے وہ غلاظت کا ڈھیر نہیں ۔۔۔ حالانکہ اس میں سفید پوش ہی منہ ماری کرتے ہیں ۔۔۔ منٹو کے لیے وہ انسان ہے،جیتا جاگتا سانس لیتا اچھائی بُرائی محسوس کرنے والا انسان۔ورنہ جانکی کو کیا پڑی تھی کہ بیماری کے باوجود عزیز کی آیا بنی رہے اور اُس کے لیے دھویں میں پھونکیں مار مار کر پانی گرم کرتی رہے۔
لیکن پھربھی اگر کسی کے جذبات منٹو کے افسانے پڑھتے ہوئے مشتعل ہوتے ہیں تو اُسے لٹریچر کی نہیں کسی ماہرِنفسیات کی ضرورت ہے،کیونکہ ایسے لوگ درختوں پر پرندے دیکھ کر بھی مشتعل ہوسکتے ہیں اور آئے روز کی خبروں اور سوشل میڈیا سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ تو چند ماہ سے لیکر چند سال کے معصوم بچوں کو دیکھ کربھی مشتعل ہورہے ہیں اور اپنے افعال کے بعد اپنے اشتعال دلانے والے /والی کو قتل بھی کردیتے ہیں(استغفراللہ) یقیناََ ان سب نے منٹو کے افسانے نہیں پڑھے ہوں گے،اُن کے جذبات میں اشتعال کسی افسانے نے پیدا نہیں کیا ہوگا ۔اُن کے دماغوں میں کجی ہے اور اُن کے سافٹ وئیر کرپٹ ہیں۔۔ہر ذی شعور کوجس کے سافٹ وئیر میں کوئی خرابی نہ ہو، سلطانہ ،نیتی،سوگندی،جانکی ، سمتری، صغرٰی اور کتاب کا خلاصہ نامی کہانی کے کردار بملا کی بے بسی پر رونا ضرور آتاہوگا۔۔۔کیونکہ ان کرداروں میں بے بسی کے سوا کچھ بھی تو نظر نہیں آتا۔۔۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ منٹو نے ان موضوعات کو کیوں چُنا؟۔۔۔ اس کا جواب بھی اتنا ہی ہے کہ اُس نے کردار اپنے ارد گرد سے لیے وہ فلمی دنیا سے وابستہ رہا ، مشاہدہ کیا اور لکھا۔وہ کوئی رومانوی داستان گو نہیں تھا ،جنہیں ماورائی دُنیائیں ستاتی ہوں بلکہ ایک سرجن تھا جو چُن چُن کر ناسوروں کی نشاندہی کرتا ،کیونکہ صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے ان سےآگاہی اور ان کا علاج ضروری تھا۔
منٹو کیا کہنا چاہتاتھا ۔۔۔وہ سچ کہنا چاہتا تھا صرف سچ جو مصلحت آمیز نہ۔۔۔بس یہی کہ منافقت اُسے نہیں آتی ۔۔۔اور وہ کھلے گناہ کو منافقت اور ریا بھری نیکی پر ترجیع دیتا تھا۔ اُسے دو رُخے لوگ پسند نہ تھے۔افسانہ خورشٹ میں منٹو اور اُس کی بیوی صفیہ نے پارسی ڈاکٹر کی بیوی سے کراہت کا اظہار کیا ہے،جواپنی ڈیڑہ سالہ بچی کو چھوڑ کر ڈاکٹر کاپڑیا کے سکھ دوست کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔ ۔۔وہ کھلے عام کہتا ہے کہ پاکستان آزاد ہوا ہندوستان آزاد ہوگیا لیکن انسان دونوں ملکوں میں غلام تھا ،مذہبی جنونیت کا ،تعصب کا،حیوانیت اور بربریت کا۔۔۔ وہ اس پردے کو خطرناک کہتا ہے جو درپردہ نہ کیاجائے۔۔۔وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اگر معاشرہ کوٹھوں پر جانے والے بے غیرت اور شہوانیت بھرے لوگ پیدا کر سکتا ہے، تو اس معاشرے سے رنڈی پیدا کرنے پر حیرانگی کیوں ہوتی ہے، یہ تو سیدھا سادھا طلب اور رسد کا قانون ہے۔۔۔ اگر یہ باتیں غلط ہیں تو منٹوواقعی فحش نگار بھی تھا اور زبان دراز بھی۔۔۔اور پابندی کے لائق بھی!۔۔
منٹو جو کہنا چاہتا تھا اُس کا ابلاغ ہوا؟۔۔۔۔بے شک کیونکہ میں لکی مروت میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں ۔۔۔ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ پابندیوں سے سچ کی آواز نہیں دب سکتی۔۔
وسیم خان عابدؔ 
فروری 2019
جملہ حقوق بحقِ مصنف محفوظ ہیں اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا قانوناََ جرم ہے۔

ایک شعر

اُسےبُھلا نے کی کوشش میں خود کو بھول گیا
مِرا عدو بھی مری قبر سے ملول گیا

غزل: ہمارے ہاتھ سے کھینچا سپر گِرا ڈالا

تمہارے ساتھ جو گزرا وہ ایک، اک لمحہ
تراش کر دلِ گلدان میں سجا ڈالا
برنگِ بادہ و ساغر رہیں گے ساتھ صنم
یہ کیا کہ دل کا دیا صبح دم بجھا ڈالا
اُسے خبر تھی عدو ساتھ اب نہ چھوڑیں گے
ہمارے ہاتھ سے کھینچا سپر گِرا ڈالا
ہمارے ساتھ ملائک رہیں گے روتے ہوئے
یہ سچ سمجھ کے غمِ یار کو بُھلا ڈالا
تمہارے زانو پہ جو سر پڑا تھا تیرے بعد
فصیلِ شہر کی چوکٹ پہ ہی سجا ڈالا

وسیم خان عابدؔ

مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فِعْلن
جملہ حقوق بحقِ شاعر محفوظ ہیں حوالے کے بغیر کاپی پیسٹ کی اجازت نہیں

Saturday, 2 February 2019

میں جس کو روز بُھلانے کی سعی کرتا ہوں

وہ ساتھ تھے تو نظارے سبھی سہانے لگے
فضا مہکنے لگی غنچے چہچہانے لگے
کہیں پہ تتلیاں اُس کے طواف میں گم تھیں
کہیں پہ سروسمن کورنش بجانے لگے
وہ اپنا ہاتھ مرے ہاتھ میں تھما کر جو
بہشت کی سبھی رعنائیاں بُھلانے لگے
کبھی جو مولوی صاحب بیانِ حور کریں
قسم خُدا کی ترا ساتھ یاد آنے لگے
زمانے والے تُجھے لے اُڑے مرے ہمدم
برنگِ قیس مُجھے لوگ آزمانے لگے
میں جس کو روز بُھلانے کی سعی کرتا ہوں
اُسی کی یاد میں اس عمر کے خزانے لگے
ابھی تو آئے ہو بیٹھے ہو ذرا بات کرو
یہ کس کا فون ہے؟ یہ کس کے پاس جانے لگے؟
لگا دیا ہے دلِ ناتواں کو ہستی میں
فریب خوردہ نظر اب کہاں ٹھکانے لگے
سُنا کے چل پڑا عابدؔہر اِک غزل اپنی
وہ خود پسند اپنے شعر گنگنانے لگے

وسیم خان عابدؔ
مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن
حوالے کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا قانوناََ جرم ہے۔جملہ حقوق بحقِ شاعر محفوظ ہیں

Friday, 1 February 2019

کیسے صیاد ہو خُدا جانے

ہائے! بدنام کرکے چھوڑ دیا
دل نے کیاکام کرکے چھوڑ دیا
دولتِ حُسن رب نے دے کے اُسے
مُجھ کو ناکام کرکے چھوڑ دیا
تُجھ سے ملنے کو جی مچلتا ہے
کیسا الہام کرکے چھوڑ دیا
کیسے صیاد ہو خُدا جانے
پھر تہہِ دام کرکے چھوڑ دیا
کچھ بہانہ تو ہو جُدائی کا
کیوں مُجھے رام کرکے چھوڑدیا؟
جس نے رکھا ہے تجھ سے ربط صنم
اُس کو گمنام کرکے چھوڑ دیا
خاص اِک شخص تھا ترا عابدؔ
تو نے اب عام کرکے چھوڑ دیا

وسیم خان عابدؔ
خفیف مسدس مخبون محذوف
فاعلاتن مفاعلن فَعِلن

جملہ حقوق بحقِ شاعر محفوظ ہیں کاپی پیسٹ کی اجازت نہیں

Thursday, 24 January 2019

افسانہ: مانی

میں نے کانپتے ہاتھوں اور بوجھل دل کے ساتھ موبائل فون میں ٹیکسٹ لکھااور بھیجنے کے لیے اوکے کا بٹن دبانا چاہا۔۔مگر دل میں خلش پیدا ہوئی اور شش و پنج کی سی کیفیت نے گھیر لیا۔ لکھائی مٹانے کے لیے انگوٹھا خود بخود ڈیلیٹ کی طرف اُٹھا۔۔۔۔لیکن دل نے دماغ کو شہہ دی ۔۔۔بھیج دو میسیج۔۔۔اب تو سب کچھ ختم ہو چکا ہے !۔۔۔جسم دماغ کا ساتھ دینے سے قاصر تھا۔۔۔۔کیونکہ برسوں میں جو عمارت کھڑی ہوئی تھی وہ لمحوں میں گر رہی تھی۔۔۔۔
جب چھٹیوں کے بعد یونیورسٹی کی کلاسیں شروع ہوئیں،تو میں کئی دنوں تک آلکسیا بنا رہا۔ تنہائی میں بے کا ر پڑے رہنے اور بِلا وجہ چھت کو گھورنے کا بھوت سوار رہا۔جب کچھ آفاقہ ہوا تو نبیل کی ہاں میں ہاں ملائی ،اور ایک رف کاپی اُٹھا کر کلاس کی طرف روانہ ہوا۔مُنہ سے رات کے کھانے کی سڑی ہوئی بو آرہی تھی جبکہ بال ایک ہفتے کے میل کچیل سے سر کے ساتھ گوند کی مانند چپک گئے تھے۔ٹوتھ پیسٹ اور روزانہ کی صا ف صفائی کو میں زنانہ چونچلے سمجھتاہوں۔۔۔اور ان تکلفات کا جھنجھٹ نہیں پالتا۔۔ نبیل مُنہ اندھیرے اُٹھ کر عبادات اور پڑھائی میں مشغول ہو جاتا ،جبکہ میں کمرے میں دس بجے تک اونگھتا اور جمائیاں لیتارہتا ۔نبیل کی زندگی قاعدے قوانین کی پیروی اور عبادات کے لیے وقف تھی،جبکہ مجھے روٹین اور رولز سے سخت نفرت تھی۔ لیکن پھر بھی اچھے روم میٹ تھے ۔۔اُسے دیکھ کر کبھی کبھی اپنے آپ کو گنہگار سا محسوس کرتا، لیکن اللہ تعالیٰ سے کمبل کے اندر مُنہ چُھپاکرمکمل تنہائی میں اپنی کاہلی اور بے پرواہی کی معافی بھی مانگ لیتا۔۔۔ہاں کوئی لمبے چوڑے وعدے نہیں کرتا،کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میں ڈسپلن نہیں نبھا سکتا ۔۔۔ڈسپلن اور روٹین سے میرا دم گھٹنے لگتا ہے ۔۔۔ یہاں تک کہ سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔۔۔ جب کوئی عزیز رشتہ دار مرتا تو ہفتوں تک طبیعت میں رِقت موجود رہتی۔۔۔نمازیں پڑھتا،تسبیح پھراتا اور وظائف بھی شروع کر دیتا۔۔لیکن پھرتعلقات کی یہ گرمجوشی سرد مہری کا شکار ہوجاتی۔۔۔
یونیورسٹی کی یہ پہلی کلاس بھی عجیب تھی۔۔ نبیل میری وجہ سے آج پہلی بار کلاس سے لیٹ ہورہا تھا۔۔۔وہ تیز تیز قدموں سے کلاس کی طرف گامزن تھا کیونکہ میڈم عنبر کی کلاس شروع ہوچکی تھی ۔۔اور میڈم عنبر کے متعلق نبیل کو معلوم تھا کہ اتنی مُنہ پھٹ ہے کہ بندے کے کپڑے بیچ چوراہے میں اُتروا دیتی ہے۔۔۔البتہ اُس سے میرا واسطہ ابھی تک نہیں پڑا تھا کیونکہ میں کبھی کلاس میں گیا ہی نہیں تھا۔۔ نبیل کے CR(کلاس ری پریزینٹیٹیو)ہونے کا ایک ہی توفائدہ تھا کہ حاضری لگ جاتی تھی۔۔۔جب ہم کلاس میں داخل ہوئے تو ایک بہت بڑے مُنہ والی عورت نے چنگھاڑکرمُجھے روکا اور انگریزی اور اُردو مِلاکر کچھ باتیں کیں۔۔۔۔پہلے کلاس میں کھی کھی کی آوازیں اُٹھیں اور پھر لڑکے لڑکیاں کُھل کر ہنسنے لگے۔۔۔میں نے میڈم کی طرف دیکھا تو اُس کا چہرہ اتنا بڑا تھا کہ جسم اُس کے چہرے کا ضمیمہ لگ رہا تھا۔میرے کان لال ہورہے تھے خجالت کی وجہ سے زبان اٹک رہی تھی کیونکہ میں نے مرد و زن کی مشترکہ کلاس اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔۔۔اُس نے کچھ میلے کچیلے کا طعنہ مارا تھا۔۔۔اور طلباء ہنس رہے تھے ۔۔۔۔پہلی کلاس میں اتنی بے عزتی۔۔۔ میرا تو رواں رواں شرمندہ ہو ریا تھا۔۔۔اور جسم پر چیونٹیاں سی دوڑ رہی تھیں۔۔۔۔میڈم نے میری حالت بھانپ لی اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔نبیل کی طرف دیکھ کر کچھ نہیں کہا کیونکہ وہ میڈم کی گڈبُک میں تھا،اور میرے لیے ابھی تک کوئی کتاب مختص نہیں تھی۔جب میں دورویہ کرسیوں کے درمیاں گزرکر آخری قطار میں بیٹھنے کے لیے جا رہا تھا تو ایک لڑکی نے اپنی ہنسی بمشکل روکتے ہوئے ،ساتھ والی سے باآوازِ بلند کہا۔۔صاحب کو خوب میڈل ملے ہیں۔۔۔ اور پھر سے کھی کھی شروع ہوگئی۔۔۔
جب میڈم عنبر کلاس سے نکلی تو لڑکے لڑکیاں مُجھے مُڑ مُڑ کر دیکھنے اور ہنسنے لگے۔۔۔اور ساتھ میں کچھ مجنوں ۔۔مجنوں کا ورد بھی کرنے لگے۔۔۔ہم جب کلاس سے نکلے تو نبیل سے پوچھا۔۔۔یار۔۔یہ کلاس فیلوز کیا کہہ رہے تھے؟۔۔۔وہ مسکرایا ۔۔تم نے نہیں سُنا میڈم عنبر نے کیا کہاتھا؟ ۔۔۔میں نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔نہیں تو!۔۔۔ مجنوں کی میلی آتما یہ کلاس ہے جنگل نہیں۔۔۔لیلیٰ کا سوگ کسی ویرانے میں مناؤ۔۔۔۔یونیورسٹی میں نہیں۔۔۔۔اتنا سا تو کہا تھا!۔۔نبیل کہہ کر، ہنس پڑا۔۔۔۔اووو۔۔۔۔۔۔میں نے ایک لمبی سانس لی۔۔۔اچھا۔۔۔اپنا مُنہ نہیں دیکھا اُس۔۔۔۔ نے۔۔۔۔جیسے ۔۔۔۔اور خفت مٹانے کے لیے ایسی بہت سی باتیں۔۔
چند دنوں بعد وہ میڈل کا طنزکرنے والی تیز طرار لڑکی نبیل کے پاس حاضری لگوانے کے لیے آئی۔۔۔۔۔میں نے بے رُخی سے مُنہ دوسری طرف پھیر دیا لیکن اُس نے باتیں شروع کردیں۔۔۔اور میری بے اعتنائی کے باوجودنبیل کے ساتھ ساتھ مُجھ سے بھی فری ہونے لگی۔۔۔۔اس لڑکی میں کشش نام کی کوئی چیزنہ تھی ۔۔ انتہائی لاغر بدن،پچکے گال اور بڑی بڑی آنکھیں جو اس چہرے کے ساتھ زیادتی ہی تھی۔۔۔اُسے دیکھنے کے بعد یوں لگتا تھا جیسے اللہ میاں کو صرف آنکھیں ہی پیدا کرنا تھیں چہرہ اور لڑکی بطورِ تکلف چپکا دیے۔۔۔بال کھول لیتی تو قدرے بہتری آجاتی ،لیکن زنانہ لوازمات سے باالکل محروم تھی۔۔۔ کلاس میں کوئی لڑکا اُس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا۔۔لڑکیاں تو لڑکیاں لڑکے بھی اُس کا مذاق اُڑاتے ، اور یہی کچھ سہتے سہتے وہ مذاق پروف بن چکی تھی۔۔۔اسی لیے وہ بھی کسی سے لگی لپٹی نہیں کرتی،اور جو جی میں آتا کہہ دیتی۔۔مُجھے اُلجھے بالوں اور صفائی سے پرہیز کی بابت مجنوں کی آتما کہہ کر مخاطب کرتی۔۔ ۔اور میں چھیڑنے کے لیے ایکس ریز کہتا۔۔اس لڑکی کا جسم اور شکل تو اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی لیکن گھر والوں نے نام اتنا مشکل رکھا تھاکہ انگریزی کے ہجے آج بھی مشکل ہی سے کروں گا۔۔۔۔۔۔ منزہ اصفہانی لڑکے لڑکیوں کے ساتھ یکسان رویہ رکھتی ،یعنی بے باک۔۔۔اُسے مرد ذات کا کوئی ڈر نہیں تھا۔۔ وہ لڑکوں سے بات کرتے ہوئے خود کو ایلین تصور نہ کرتی۔۔۔نہ مرد اُسے درندے لگتے ،جو اُسے نوچ کر کھا جائیں گے۔۔۔نہ جسم کے بھوکے اور نہ ظالم بھیڑیے۔۔ بلکہ پورے اعتماد کے ساتھ ہر ایک سے بات کرلیتی۔۔۔شاید وہ مرد کی ہوس سے بے خبر تھی۔۔۔۔یا اپنی شکل و صورت نے اُسے بے باک بنا دیا تھا۔۔۔ وہ رکھ رکھاؤ کو بالائے طاق رکھتی اور باتوں باتوں میں اتنے قریب آجاتی کہ کپڑے تک مس ہونے لگتے ۔۔۔موڈ میں ہوتی تو کاندھے پر چپت بھی لگا لیتی۔۔۔سب کلاس فیلوز اُسے مانی کہتے۔۔۔۔ اور وہ خود بھی منزہ اصفہانی کی جگہ مانی سُن کر خوش ہوتی۔۔عام سا قاعدہ ہے کہ ؛عورت کتنی ہی بدصورت کیوں نہ ہولیکن اٹھارہ سے بچیس سال کی عمر کے دوراں ،اور ہنستے ہوئے تو بھلی لگتی ہے لیکن مانی کی شکل ہنستے ہوئے مزید ڈراؤنی ہوجاتی۔۔۔رنگ چمپئی تھا لیکن ہڈیاں گوشت سے محروم۔۔۔۔
سال گزرتا گیا اور مانی سے بے تکلفی بڑھتی گئی۔۔۔ہم کلاس روم ،کینٹین اور لان میں کہیں بھی ایک دوسرے کو دیکھ کر باتیں شروع کر دیتے۔۔۔ ان باتوں باتوں میں ہم ایک دوسرے کے قریب پھرنے لگے۔۔۔ مذاق مذاق میں اور ایک دوسرے کو تنگ کرتے ہوئے ہم ایک دوسرے کی باتوں کے عادی ہوگئے ۔۔۔مانی کھانے کے خلاف تھی اور میں کھانے پینے کا عاشق۔۔اُس کے مُنہ میں تین زبانیں تھیں اور میرے چار کان۔۔۔اس لیے ایک دوسرے کے لیے قابلِ برداشت تھے۔۔۔ایک دوسرے کی کمیاں پوری کر رہے تھے۔۔۔ میں بولنے سے زیادہ سننے کا عادی تھااور اُسے خاموشی سے نفرت۔۔۔جب کافی بے تکلفی ہوگئی تو فون نمبر ایکسچینج کر لیے اوردن کے ساتھ ساتھ رات کو بھی باتیں شروع ہوگئیں۔۔۔۔وہ انتہائی فضول سی باتیں کرتی، اپنی پسند نا پسند سے آگاہ کرتی اور اپنی زندگی کی داستانیں سُناتی۔۔ میں ہوں ہاں کرتا اور اُس کی باتوں کو سراہتا۔۔۔اُسے ایک قابلِ اعتماد سامع کی ضرورت تھی، جسے دل کھول کر سب سُنا سکے۔۔۔اور میں ایک اچھا سامع تھا۔۔۔میں کبھی کبھی اُس کی باتوں سے تنگ آکر ڈنڈی مار لیتا اور مختلف بہانوں سے فون بند رکھتا۔۔۔اوروہ اس غیر حاضری پر ناک بھوئیں چڑھا تی اور روٹھ جاتی ۔۔۔پھر میں طرح طرح کے جھوٹ بول کر اُسے منا لیتا۔۔۔ حالانکہ سچ مچ میں وہ بھی روٹھنا نہیں چاہتی تھی ۔۔میں اگنوربھی کردیتا،توخود ہی مان جاتی۔ لیکن میں ہر دفعہ اُسکا مان رکھتا۔۔ ۔
پھر نجانے کیوں اور کس وقت وہ مُجھے خوبصورت لگنے لگی پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔یہ اُنس تھا،ایک دوسرے پر اعتماد تھایا سچ میں پیار ،لیکن وہ کلاس کی سب لڑکیوں سے خوبصورت لگنے لگی۔۔۔ جب اُس سے بات نہ ہوتی تو طبیعت بوجھل سی رہتی ۔۔۔کوئی کمی سی محسوس ہوتی۔۔۔ایسا لگتا جیسے کوئی چیز گم ہوچکی ہو۔۔۔جیسے کچھ بھول گیا ہوں اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کیا بھولا ہوں۔۔۔پھر یونیورسٹی میں ہم ایک ساتھ دکھائی دینے لگے ۔۔۔اکھٹے بیٹھتے، اکھٹے کھاتے اور ایک ہی بوتل سے پانی پیتے۔۔۔وقت گزرتا گیا اور دوسال مکمل ہوگئے ۔۔۔ یونیورسٹی والوں نے ہمیں ماسٹر کی ایک ایک عدد ڈگری تھما کر چلتا کر دیا۔۔۔ ان دو سالوں میں ، میں نے مانی کے سوا کچھ نہیں پایا۔ اپنے امتحانات، میں نبیل کی وجہ سے پاس کرتا گیا، لیکن کبھی بھی اپنے مضمون کی سمجھ نہ آئی، نہ کوئی لیکچر پلے پڑا۔ ۔۔کیونکہ دماغ میں صُبح شام مانی اور اُسکی باتیں رہتیں۔۔۔مانی رٹے لگانے میں مجھ سے بہت بہتر تھی، اس لیے ہر ٹرم میں زیادہ نمبر لیتی،اور میرے سامنے اُس پر اتراتی رہتی۔
جب یونیورسٹی سے رُخصت ہوئے تو ملاقاتوں کا سلسلہ کچھ عرصے تک موقوف رہا،لیکن جلد ہی ہم نے باہمی مشاورت سے اس کا حل ڈھونڈ نکالا۔مانی مہینے میں دو تین مرتبہ کسی نہ کسی بہانے سے گھر سے نکلتی اور ہم ریسٹ ہاؤس کا کوئی کمرہ چوبیس گھنٹوں کے لیے بُک کرکے اُس میں دن کے دس بارہ گھنٹے گزارتے۔۔۔میرے لیپ ٹاپ پر فلمیں دیکھتے گپ شپ لگاتے اور مانی کی لو سٹوریاں سُنتے۔۔ مانی کو بیس پچیس کے لگ بھک محبتیں لا حق ہوچکی تھیں۔جن میں سے دس تو مُجھ سے ملنے کے بعد ہوئی تھیں۔مجھے معلوم تھا کہ کوئی بھی لڑکا اُسے گھاس نہیں ڈالتا لیکن اُس کی طبیعت چپکو تھی اور اپنی اس چپکن کو وہ محبت کا نام دیتی۔۔۔مُجھے اُس نے کبھی محبت کے قابل نہیں سمجھا، میں صرف اور صرف ایک سامع تھا جو اُس کی ہر کہانی نئے عزم سے سُنتا اور ضرورت کے وقت مشورہ بھی دیتا۔۔۔وہ ہر نئی محبت کے بعد اپنے عاشق کے ساتھ ایک گھر بسانے کی پلاننگ کرتی۔۔۔اپنے عاشق کے وفا کی قسمیں کھاتی۔۔۔۔ شادی کے بعد خوبصورت وادیوں کی سیرکی پلاننگ کرتی اور مجھے ہر ایک علاقے کے بارے میں بریف کرتی۔۔۔کبھی وہ سکردوکے دیوسائی کے میدانوں میں گھومنا چاہتی تو کبھی نیلم ویلی میں لیٹ کر آسمان کو گھورنا چاہتی۔۔۔اور کبھی جھیل سیف الملوک کی پریوں کے پروں پر ہاتھ پھیرنا چاہتی۔۔۔لیکن ان تمام جگہوں کا رومان اُس نے انٹر نیٹ کی تصاویر اور ادبی کہانیوں سے کشید کیا تھا۔۔۔پھر جلدہی اُس کی لوسٹوری کا دی اینڈ ہوجاتا ۔۔۔ اور اپنے زیزہ زیزہ خواب لیے کسی ریسٹ ہاؤس کے کمرے میں مُجھ سے لپٹ کر دیر تک روتی رہتی۔۔۔وہ دل سے روتی اور اسکا انگ انگ اُس کے رونے میں مدد کرتا۔۔۔ وہ بچوں کی طرح بلکتی، سسکیاں لیتی اور ٹشو پیپر کا ڈبہ ناک پونچھتے پونچھتے ختم کر دیتی جس سے ناک کی لوئیں دہکتا انگارا بن جاتیں،اور میں تسلیاں دیتے دیتے تھک جاتا۔۔۔۔ اگلی ملاقات میں مانی پھر وہی پُرانی مانی ہوتی جسے چند روز بعد پھر سے نئی محبت لاحق ہو تی۔۔۔۔
یو نیورسٹی کے بعد پانچ سال ہم نے ہنسی مذاق اور آئے روز کی محبتوں کی داستانوں میں گزارے۔ہم دونوں نے بی۔ایڈ اور ایم۔ایڈ کی ڈگریاں لیں۔میری بھی جاب لگ گئی اور مانی بھی اُستانی بن گئی۔ لیکن ملاقاتوں کا سلسلہ نہ ٹوٹا ۔۔۔کبھی ہم دونوں مشترکہ چُھٹی کرلیتے تو کبھی اتوار کی چُھٹی کا سہارا لیتے۔ ۔۔ہر نئی آنے والی فلم ان ریسٹ ہاؤس کے کمروں میں دیکھتے، ایک دوسرے پر ہنستے،چاکلیٹ کھاتے اور ایک دوسرے کے سر بہانے بہانے سے ٹریٹ تھوپتے ،کیونکہ اب دونوں تنخواہ دار تھے ،اور زندگی انجوائے کرتے۔۔۔وقت گزر تا گیا۔۔۔۔لیکن یہ اچانک مانی کو کیا ہوا؟ ۔۔۔ساری کایا ہی پلٹ دی۔۔
ایک مہینے سے مانی کے رابطے ختم تھے۔۔۔ میں نے رابطے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اُس کے سارے فون نمبرز بند تھے۔۔۔ اُس کے گھر جانے کی ہمت تو نہیں کی لیکن۔۔ اس کے نمبر پر کئی میسیج چھوڑے !، جسکا جواب ایک مہینے بعد ملا۔۔۔۔ایک لمبے میسیج کی صورت میں۔۔۔ مانی نے ایک عجیب سا سوال پوچھا تھا۔۔۔۔ہمارے رشتے کے بارے میں۔۔۔۔ ہمارے رشتے کا کیا نام ہے؟۔۔دُنیا کی نظروں میں ہمارے رشتے کا کیا نام ہے؟۔۔میں نے رپلائی میں دوست لکھنا چاہا۔۔۔۔لیکن پھر سوچنے لگا کہ ہمارے معاشرے میں دوست کا کونسا رشتہ ہے؟۔۔۔کیا مخالف جنس کے انسانوں کی دوستی دُنیا قبول کرتی ہے؟۔۔۔۔یقیناََ دُنیا رشتے کا نام مانگتی ہے شاید مانی سے بھی رشتے کا نام مانگا گیا ہو؟۔۔۔ مخالف جنس کی دوستی کو دُنیاعیاشی کی نظر سے دیکھتی ہے۔۔۔ہمارے ہاں داشتہ اور رکھیل کے القابات اور کردار موجود ہیں، لیکن دو مخالف جنس کے لوگ دوست نہیں ہوسکتے ۔۔۔ ہمارے اس رشتے کا بھی کوئی نام نہیں تھا۔۔خواہ یہ دس سال سے زیادہ قائم رہا۔۔۔کیونکہ مانی نہ میری بیوی تھی اور نہ لونڈی۔۔۔بلکہ ہم ایک دوسرے کیساتھ خوش دو آزاد انسان تھے۔۔ ہمارا رشتہ معاشرے کی سمجھ سے باہر تھا ۔۔۔۔ مانی لڑکی تھی اس لیے شاید اُسے معاشرے کو باور کرانے کی ضرورت تھی ۔۔۔۔رشتے کا نام بتانے کی ضرورت تھی۔۔۔ مانی نے اگلے میسیج میں لکھا۔۔ میں اپنی زندگی جینا چاہتی ہوں ، ایک گھر بسانا چاہتی ہوں۔۔ بچوں کا پیار چاہتی ہوں۔۔۔ تم میرے راستے کا روڑا ہو۔۔۔ تمہاری وجہ سے میری زندگی بے کار ہوگئی ہے۔۔۔میں ابھی اپنے سم کارڈ ضائع کررہی ہوں ۔۔۔۔آج کے بعد مجھ سے رابطے کی کو شش مت کرنا۔۔۔آج اُس کی باتوں کے آخر میں پلیز بھی تو نہیں تھا۔۔۔
شاید اُس کی باتیں سچ تھیں۔۔۔۔اُس کی زندگی کے دس سال ضائع ہوچکے تھے۔۔۔لیکن زندگی تو میری بھی اُس سے مختلف نہ تھی۔۔نہ بیوی تھی نہ بچے۔۔۔صر ف میں اور مانی ،دو ہی تو انسان تھے میری زندگی میں۔۔۔کیااپنے اس فیصلے سے وہ مجھے بچا رہی تھی؟ خود کو بچا رہی تھی؟۔۔۔یا انجانے میں دو خاص زندگیاں عام بنا رہی تھی؟۔۔ میں نے میسیج لکھ دیا تھا۔۔۔کیونکہ مجھے رشتہ درکار نہ تھا ۔۔۔۔۔ رشتہ نبھانا پڑتا ہے ۔۔سنبھالنا پڑتا ہے۔۔۔۔میں بے نام سے بندھنوں کا عاشق تھا۔۔۔جس میں کوئی دکھاوا نہ ہو ۔۔۔جس میں کوئی جبر نہ ہو۔۔۔جس میں کوئی چُھپی ہوی باتیں نہ ہو۔۔۔۔جسے نوکری کی طرح نبھانا نہ پڑے۔۔۔جو لگے بندھے اصولوں کے مطابق نہ ہو۔۔۔۔جس میں بے بسی نہ ہو۔۔۔جس میں شوہر بیوی کا دیوتا نہ ہو اورنہ بیوی داسی ۔۔بلکہ دوستی ہو۔۔۔برابری کی دوستی ۔۔۔کُھل کر سب کچھ بتانے کا رشتہ۔۔۔ جس میں جنون ہو۔۔ دیوانگی ہو۔۔۔ وارفتگی ہو۔۔نشہ ہو۔۔۔اور خودساختہ،جھوٹی پاکیزگی سے بڑھ کر بے باک سچائی ہو۔۔۔ میں یہ سب باتیں مانی کو سمجھانے کی پوزیشن میں نہیں تھا اور وہ بھی عمر کی اِس منزل پر تھی جہاں سر کے بالوں میں چاندی اُتر آتی ہے۔۔۔پھر عورت مستقبل کے بارے میں سوچتی ہے،بڑھاپے کا سہارا چاہتی ہے اولاد چاہتی ہے۔۔رشتوں کے نام چاہتی ہے۔۔عمر کے اس حصے میں بے باکی کو مامتا گھیر لیتی ہے ۔۔۔شاید ۔۔۔۔۔۔مانی کی مامتا جاگ چکی ہو۔۔۔۔ اب اس سمندر کے آگے بند باندھنا میرے بس کا کام نہیں تھا۔۔۔ میں نے کانپتی اُنگلیاں پھر سے اوکے بٹن کی طرف بڑھائیں اور ٹیکسٹ دوبارہ پڑھا۔۔۔۔آپ سم توڑنا چاہیں یا نہ چاہیں۔۔۔ میں اسے توڑ رہا ہوں۔۔آئندہ کوئی رابطہ نہیں رکھوں گا۔۔۔۔اور اوکے کرکے میسیج بھیج دیا۔۔۔فون سے سم کارڈ نکال کر چبا ڈالیں۔۔۔پتہ نہیں اُس نے پہلے سم کارڈ توڑے ہوں گے یا میں نے؟؟؟؟۔۔۔۔۔

وسیم خان عابدؔ 
18-11-2012
نوٹ: افسانہ کے سبھی کردار فرضی ہیں کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقی ہوگی
جملہ حقوق بحقِ مصنف محفوظ ہیں کاپی پیسٹ کرنا قانوناََ جرم ہے