Friday, 23 November 2018

غزل4............. حوالے کے بغیرکاپی پیسٹ کی اجازت نہیں

یار کہتا ہے کہ یہ بات نہیں ہوسکتی
وصل میں چپ کی مُلاقات نہیں ہوسکتی
دل میں کچھ درد تھا کچھ عشق تھا مجبوری بھی
ایسی باتوں میں عیاں بات نہیں ہوسکتی
تو نے مجھ سے تو وفا کی مرے ہمدم لیکن
صبح دم ،عشق کی کیا رات نہیں ہوسکتی؟
دل کے صحراؤں میں مُنہ زور ہوا چلتی ہے
ایسے ویرانوں میں برسات نہیں ہوسکتی
مجھ سے مِل کر ترا کھل کھل کے وہ ہنسنا جاناں
ہر کسی سے یہ مساوات نہیں ہوسکتی
بجھ سا جاتا ہے مرے دل کا دیا اب اکثر
کیا تصور میں بھی وہ ساتھ نہیں ہوسکتی؟
یوں تو عابدؔ بھی خطاکار نظر آتا ہے
کامل انساں کی مگر ذات نہیں ہوسکتی


وسیم خان عابدؔ
بحر:رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
وزن:فاعلاتن فاعلاتن فَعِلاتن فِعْلن

No comments:

Post a Comment