مارچ19, 2011کا دن تھا جب ہم دوست لاہور سٹیشن کے سامنے اپنے سامان کیساتھ پک اپ سے اترے۔ ہم تو اس جگہ گاڑی کھڑی کرنے کی ممانعت سے بے خبر تھے۔ لیکن ڈرائیور یہ جانتے ہوئے بھی قانون توڑ گیا۔اب کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سنتری صاحب ایک شدید مضطرب چہرہ لیکر دوڑتے ہوئے آرہے ہیں۔ہمیں بھی تشویش ہوئی کہ ٹریفک والا تو ہماری طرف آرہا ہے،اللہ خیر کرے۔۔اس نے آتے ہی گاڑی سے چابی نکالی اور ٹہلتے ہوئے روانہ ہوئے۔ ۔ہم دس بارہ دوست اُس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے اور منت سماجت کی لیکن وہ بضد تھے کہ قانون قانون ہے اور ایک پیڈجیب سے نکال کر کچھ لکھنے میں مصروف ہوگئے۔
میں سوچنے لگا کہ دیکھیں جناب آج بھی پاکستان میں قانون کے رکھوالے زندہ ہیں جو اثرورسوخ اور دباؤ سے بالاتر ہوکرقانون کی عملداری کیلئے کوشاں ہیں۔سنتری کے رویے سے تھوڑی تکلیف ہوئی لیکن اندر ہی اندر دل کو مطمئن بھی تھا کہ آج بھی اس کشتِ ویراں میں نمی باقی ہے۔ابھی بھی ایسے لوگ ہیں جوبات پر ڈٹ جاتے ہیں اور ثابت قدم رہتے ہیں۔پھر ایک سیکنڈکے اندر وہ سارے واقعات ذہن میں فلم کی طرح چلنے لگے ، جو اس ملک پر عذاب کی صورت میں نازل ہوئے تھے۔یعنی ریمنڈیوس کی رہائی ، وزیرستان میں جرگے پر ڈرون حملہ اور پاکستانی طاقت کے ٹرائیکا کاحملے کے ردِعمل میں احتجاج ۔ چند سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا ریمنڈ کی رہائی کے خلاف ریشم سے بھی نرم احتجاج اور اکثریتکی اس رہائی کے جواز میں من گھڑت افسانوی دلائل۔۔لیکن دل کو یقین تھا کہ ہو نہ ہو ابھی بھی چند ایسے محبِ وطن موجود ہیں جو ملک وملت کے لیے اپنا سب کچھ لُٹانے کے لیے تیار رہتے ہیں، خواہ وہ آٹے میں نمک کے برابر کیوں نہ ہوں لیکن چور اُچکوں اور دُنیا کے ٹھیکیداروں کا بلڈپریشر ہائی کرنے کیلئے کافی ہیں۔اور دل کو یہ خوشی تھی کہ یہ نمک کی مقدار میں موجود گروہ اِن ٹھیکیداروں کی فناکا ذریعہ بنے گا۔
میں اسی سوچ میں گم تھا، جبکہ باقی لڑکے پلیٹ فارم پر پہنچ گئے ۔۔ میں اور میر ا دوست، وکیل صاحب وہیں کھڑے تھے، اور پک اپ والا بھی آس پاس منڈلا رہا تھا۔۔ وکیل صاحب کو خداجانے کیا ترکیب سوجھی کیونکہ قانون اور قانون والوں کے مزاج سے یہ لوگ بخوبی آشناہوتے ہیں،وہ پھرتی سے سنتری کے پاس پہنچے اوراُس سے ہاتھ ملالیا۔ اُس کے اس مصافحہ کرنے کی دیر تھی،کہ میرا انقلابی خواب شیخ چلی کا محل ثابت ہوا۔۔۔اور وہ صاحب جس کی ایمانداری میں ، میں اقبالؒ کا مردِ مومن، چین کا ماوزے تنگ اور صلاح الدین ایوبی ڈھونڈ رہا تھااس کا ایمان وکیل صاحب نے صرف بیس روپے میں خرید لیا تھا۔ وہ چہرہ جو چند منٹ پہلے کاٹ کھانے والا تھا اب اس پر اپنائیت سی پیدا ہوگئی تھی،ہنسی خوشی سنتری نے مصافحے والا ہاتھ جیب میں رکھا اور چابی وکیل صاحب کو دے دی۔۔وکیل صاحب میرے پاس آکر کہنے لگے کہ یار۔۔ یہ پرچی وغیرہ سب ایک ڈھونگ ہے،یہ عوام کو ڈرانے دھمکانے کا ایک طریقہ ہے۔ اس نے قہقہہ لگایا اور کہاکہ یہ قانون والوں کی وارداتیں ہیں جو کاغذ اور قلم سے کی جاتی ہیں ڈاکو تو بیوقوف ہیں جو (اے ۔کے ۴۷)لیکر بدنامی کماتے ہیں اور ڈاکو کہلاتے ہیں۔اصل چوٹ تو قلم کی ہوتی ہے جو میرا ملک عشروں سے سہہ رہا ہے۔
وکیل صاحب کی باتوں نے د ل کو افسردہ کردیا،اور دیر تک میںیہی سوچتارہاکہ کیا ہمارا احتجاج صرف چند سکوں کیلئے ہوتاہے ۔۔۔کیا ہمارا غصہ صرف مصنوعی اور سامنے والے کی جیب ڈھیلی کرنے کے لیے ہوتا ہے۔۔۔ کیا ہم اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں خواہ بیس روپے میں کیوں نہ ہو۔۔۔۔کیا ہم غصہ بولی بڑھانے کے لیے دکھاتے ہیں۔۔۔۔ ضمیرنام کی کوئی چیز بھی ہوتی ہے یا ہم جیسے لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں نے افسانے گھڑے ہیں۔۔۔۔ کیا مجرم صرف سنتری ہے۔۔۔یا پورا نظام۔۔۔ جو بیس روپے میں بکا یا۔۔۔یا ہر ادارہ اور دفتر جس میں صرف قیمت مختلف ہوتی ہے ۔۔۔۔ صرف نرخ الگ الگ ہوتے ہیں۔۔۔۔ اور اس جیسے بہت سے دوسرے سوالات ،جوسُنارکا ہتھوڑابن کر مسلسل میرے ذہن پرپشاور تک ضربیں لگا تے رہے۔ لیکن آخر دل کو سمجھا ہی لیا کہ یہ۲۰۱۱ کا روشن خیال پاکستان ہے۔یہاں زمانے کے انداز بدلے ہیں ،یہاں ساز بھی نیا ہے اور راگ بھی بدلاہے۔۔۔
(حالات آج بھی وہیں کے وہیں ہیں صرف کیلنڈر میں ہندسے تبدیل ہورہے ہیں اور ایوان میں چہرے،لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے نئے مسائل تخلیق ہو رہے ہیں پُرانے مقاصد کے ساتھ۲۰۱۸)
وسیم خان عابدؔ
میں سوچنے لگا کہ دیکھیں جناب آج بھی پاکستان میں قانون کے رکھوالے زندہ ہیں جو اثرورسوخ اور دباؤ سے بالاتر ہوکرقانون کی عملداری کیلئے کوشاں ہیں۔سنتری کے رویے سے تھوڑی تکلیف ہوئی لیکن اندر ہی اندر دل کو مطمئن بھی تھا کہ آج بھی اس کشتِ ویراں میں نمی باقی ہے۔ابھی بھی ایسے لوگ ہیں جوبات پر ڈٹ جاتے ہیں اور ثابت قدم رہتے ہیں۔پھر ایک سیکنڈکے اندر وہ سارے واقعات ذہن میں فلم کی طرح چلنے لگے ، جو اس ملک پر عذاب کی صورت میں نازل ہوئے تھے۔یعنی ریمنڈیوس کی رہائی ، وزیرستان میں جرگے پر ڈرون حملہ اور پاکستانی طاقت کے ٹرائیکا کاحملے کے ردِعمل میں احتجاج ۔ چند سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا ریمنڈ کی رہائی کے خلاف ریشم سے بھی نرم احتجاج اور اکثریتکی اس رہائی کے جواز میں من گھڑت افسانوی دلائل۔۔لیکن دل کو یقین تھا کہ ہو نہ ہو ابھی بھی چند ایسے محبِ وطن موجود ہیں جو ملک وملت کے لیے اپنا سب کچھ لُٹانے کے لیے تیار رہتے ہیں، خواہ وہ آٹے میں نمک کے برابر کیوں نہ ہوں لیکن چور اُچکوں اور دُنیا کے ٹھیکیداروں کا بلڈپریشر ہائی کرنے کیلئے کافی ہیں۔اور دل کو یہ خوشی تھی کہ یہ نمک کی مقدار میں موجود گروہ اِن ٹھیکیداروں کی فناکا ذریعہ بنے گا۔
میں اسی سوچ میں گم تھا، جبکہ باقی لڑکے پلیٹ فارم پر پہنچ گئے ۔۔ میں اور میر ا دوست، وکیل صاحب وہیں کھڑے تھے، اور پک اپ والا بھی آس پاس منڈلا رہا تھا۔۔ وکیل صاحب کو خداجانے کیا ترکیب سوجھی کیونکہ قانون اور قانون والوں کے مزاج سے یہ لوگ بخوبی آشناہوتے ہیں،وہ پھرتی سے سنتری کے پاس پہنچے اوراُس سے ہاتھ ملالیا۔ اُس کے اس مصافحہ کرنے کی دیر تھی،کہ میرا انقلابی خواب شیخ چلی کا محل ثابت ہوا۔۔۔اور وہ صاحب جس کی ایمانداری میں ، میں اقبالؒ کا مردِ مومن، چین کا ماوزے تنگ اور صلاح الدین ایوبی ڈھونڈ رہا تھااس کا ایمان وکیل صاحب نے صرف بیس روپے میں خرید لیا تھا۔ وہ چہرہ جو چند منٹ پہلے کاٹ کھانے والا تھا اب اس پر اپنائیت سی پیدا ہوگئی تھی،ہنسی خوشی سنتری نے مصافحے والا ہاتھ جیب میں رکھا اور چابی وکیل صاحب کو دے دی۔۔وکیل صاحب میرے پاس آکر کہنے لگے کہ یار۔۔ یہ پرچی وغیرہ سب ایک ڈھونگ ہے،یہ عوام کو ڈرانے دھمکانے کا ایک طریقہ ہے۔ اس نے قہقہہ لگایا اور کہاکہ یہ قانون والوں کی وارداتیں ہیں جو کاغذ اور قلم سے کی جاتی ہیں ڈاکو تو بیوقوف ہیں جو (اے ۔کے ۴۷)لیکر بدنامی کماتے ہیں اور ڈاکو کہلاتے ہیں۔اصل چوٹ تو قلم کی ہوتی ہے جو میرا ملک عشروں سے سہہ رہا ہے۔
وکیل صاحب کی باتوں نے د ل کو افسردہ کردیا،اور دیر تک میںیہی سوچتارہاکہ کیا ہمارا احتجاج صرف چند سکوں کیلئے ہوتاہے ۔۔۔کیا ہمارا غصہ صرف مصنوعی اور سامنے والے کی جیب ڈھیلی کرنے کے لیے ہوتا ہے۔۔۔ کیا ہم اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں خواہ بیس روپے میں کیوں نہ ہو۔۔۔۔کیا ہم غصہ بولی بڑھانے کے لیے دکھاتے ہیں۔۔۔۔ ضمیرنام کی کوئی چیز بھی ہوتی ہے یا ہم جیسے لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں نے افسانے گھڑے ہیں۔۔۔۔ کیا مجرم صرف سنتری ہے۔۔۔یا پورا نظام۔۔۔ جو بیس روپے میں بکا یا۔۔۔یا ہر ادارہ اور دفتر جس میں صرف قیمت مختلف ہوتی ہے ۔۔۔۔ صرف نرخ الگ الگ ہوتے ہیں۔۔۔۔ اور اس جیسے بہت سے دوسرے سوالات ،جوسُنارکا ہتھوڑابن کر مسلسل میرے ذہن پرپشاور تک ضربیں لگا تے رہے۔ لیکن آخر دل کو سمجھا ہی لیا کہ یہ۲۰۱۱ کا روشن خیال پاکستان ہے۔یہاں زمانے کے انداز بدلے ہیں ،یہاں ساز بھی نیا ہے اور راگ بھی بدلاہے۔۔۔
(حالات آج بھی وہیں کے وہیں ہیں صرف کیلنڈر میں ہندسے تبدیل ہورہے ہیں اور ایوان میں چہرے،لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے نئے مسائل تخلیق ہو رہے ہیں پُرانے مقاصد کے ساتھ۲۰۱۸)
وسیم خان عابدؔ
No comments:
Post a Comment