Friday, 26 October 2018

کھٹا میٹھامضمون: ایم فِل کم تعلیمِ بالغاں ۔۔۔۔حصہّ اوّل

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہم مرورایام کے ہاتھوں ہارے ہوئے سیاستدان کی طرح بے کار پڑے تھے ، کہ اندھیرے میں ایک روشنی کی کرن نظر آئی۔۔اور وہ تھی علم کی کرن۔۔خیر وقت گزارنے کے لیے تعلیم سے زیادہ میٹھا اور ذائقے دارمشغلہ کوئی نہیں۔۔۔حالتِ واقع کچھ یوں ہے ۔کہ ایک فاصلاتی تعلیم والی یونیورسٹی کو کچھ ،ایم۔فل پرگرامز میں داخلے درکار تھے۔۔۔۔اس یونیورسٹی کے ،سی۔ٹی ، پی۔ٹی۔سی اور باقی چھوٹے پروگرامز اور اُن کے امتحانی ہال دیکھ کر کچھ شوخ و گستاخ احباب کہتے ہیں کہ اس یونیورسٹی کا موٹو  ہے ۔۔۔تعلیم سے فاصلہ ضروری ہے!۔۔۔ شاید وہ لوگ ڈسٹینس ایجوکیشن کا رواں ترجمہ ایسے ہی کرتے ہوں،کیونکہ انگریزوں اور انگریزی کو سمجھنا ہر ایک کےبس کا روگ نہیں۔!۔۔ پھر کیا تھا ڈگریوں سے گرد جھاڑی اوریونیورسٹی کی طرف روانہ کر دیں، وہ بھی کورئیر سروس کے ذریعے ۔۔۔ کیونکہ اپنے پاکستان پوسٹ کے ہاتھوں ساری زندگی ہماری جو درگت بنی ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔اکثر انٹرویو کے کال لیٹرز، انٹرویو کے پانچ دس دن بعد ہی ملے ہیں۔۔۔ایک دفعہ توڈاکیا  امتحانی رولنمبر پڑوسیوں کے پانچ سالہ لاڈلے کے ہاتھوںمیں تھماگیا جو میرے گھر تک آتےآتےآخری تین پرچے  چوس چکا تھا اور ہم کبھی اُس رولنمبر سلپ اور کبھی رولنمبر سلپ کو بطورِ چوسنی استعمال کرنے والےکا منہ تکتے رہ گئے۔۔۔لیکن خوفِ فسادِ خلق سے چُپ رہے کچھ نہ کہا۔۔!۔
پھر اس یونیورسٹی نے انتہائی مشکل ٹیسٹ لیے جس میں ایک جمِ غفیر نے شرکت کی مگرپاس چند مخصوص طلباء نے کیے۔۔ہم بھی اُردو اور ایجوکیشن میں غلطی یا غلط فہمی کی وجہ سے پاس قرار دیے گئے۔ ۔ہم نے اُردو پر ایجوکیشن کو ترجیح دی ۔۔۔اور اُردو کے ساتھ اپنے سگے رشتے داروں کاسا سلوک کیا۔۔۔یوسفی صاحب نےلکھا ہے کہ دشمنوں کے حسبِ عداوت تین درجے ہوتے ہیں ،دشمن ، جانی دشمن اور رشتہ دار۔۔اور ہم نے اُردو کورشتے دار سے بڑھ کر سگے رشتے دارکا درجہ دیایعنی اگنور کر دیا۔۔۔لیکن اس منعقد ہونے والے ٹیسٹ کے سٹینڈرڈ سے زیادہ اُس کا چیکنگ سٹینڈرڈمشکوک لگا ۔۔۔کیونکہ سینکڑوں ہزاروں خواہش مندطلباء میں سے ہمیں چُن لیاگیا۔۔۔ ٹیسٹ میں کیا تھا انگریزی فقروں کے درمیان فل سٹاپ ، کوما،اور سیمی کولن لگانے تھے ۔۔۔جو میرا ربّ بہتر جانتا ہے کہ اگر کسی کو لگانے کا الف ب بھی پتہ ہوں۔۔۔بس فقرہ پڑھتا اور جہاں سانس رُکنے لگتی سیمی کولن ڈالتا، جہاں تھوڑی زیادہ رُکتی کوما ،لگا دیتا اور ہوا پھیپھڑوں میں ختم ہونے لگتی تو فل سٹاپ لگا لیتا۔۔۔ ان ہی سانس کی مشقوں سے یونیورسٹی کا ٹیسٹ پاس ہوگیا۔۔۔۔اور انٹرویو کی کال موصول ہوئی۔
بیگم کے سامنے اللہ تعالیٰ نے ہماری لاج رکھ لی، ورنہ پھر نالائقی کے طعنے مہینوں سننے پڑتے۔۔۔۔انٹرویو والے دن ہم غلط گیٹ سے یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور پورے پینتالیس منٹ تک مختلف ڈیپارٹمنٹس میں خوار ہونے کے بعد اپنے اکیڈیمکس بلاک پہنچ گئے۔۔۔یہ عالیشان عمارت تھی سیلفی اور تصاویر کے لیے ، کیونکہ ہم جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں اتنی اونچی عمارت جھوٹ ہی ہوسکتی ہے۔۔۔ ہم نے بار ہا اپنی پشاوری واسکٹ کی جیب سے اپنا ٹچ موبائل نکالا جسے کچھ ذہین اور انگریزی دان اینڈرائیڈ فون بھی کہتے ہیں اور کسی کو تھمانے کے چکر میں تھا، کہ چند ایک تصاویر کھینچ لے۔۔ لیکن ہر ایک چہرے پر ڈونٹ ڈسٹرب کا بورڈ لگائے ادھر اُدھر پھر رہا تھا۔۔۔میرے اردگرد کافی رش تھا لیکن سب لوگ اکیلےہی لگ رہے تھے۔۔۔ ہمارے گاؤں میں تو کوئی مہمان نظر آجائے تو گاؤں والے باتیں پوچھ پوچھ کر پاگل کر دیتے ہیں، لیکن شہروں میں ہر ایک بندہ اپنے آپ سے ناراض اور منہ لٹکا کر روبوٹس کی طرح آس پاس سے انجان حرکت کرتا ہے۔۔۔ نہ کوئی مونس نہ غم خوار۔۔۔البتہ ہمارے پاس سیلفی کا آپشن موجودتھا لیکن اتنے قریب سے لی ہوئی دستی سیلفی میں ایک تو یہ قباحت ہے کہ صرف صاحبِ تصویرکے منہ کے سوا تصویر میں کچھ نہیں ہوتا اور جس لمبی چھڑی پر موبائل فون اٹکا کرلوگ منہ گول کرکے منظراور بیک گراؤنڈ قید کرتے ہیں وہ آج تک ہم نے خریدنے کی زحمت نہیں کی ۔۔  میں ویسے بھی سلفی کےسخت خلاف ہوں، شاید حسینوں کی اچھی آتی ہو لیکن ہماری سیلفی پر ہمیں ہر مرتبہ خود ہی شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔۔۔ اس دن مجھے سب سے زیادہ دُکھ اس عمارت کے ساتھ تصویر نہ لینے کا تھا۔۔۔ کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ اب یونیورسٹی والے اتنے بھی پاگل نہیں کہ غلطی سے ٹیسٹ میں بھی پاس کردیا اور اب انٹر ویو بھی کلیر کروادیں۔۔۔۔کیونکہ باپ دادا بلکہ سات پشتوں تک خاندان میں نہ کوئی پروفیسر رہا اور نہ ، وی۔سی۔۔۔
 انٹرویوکیوں اور کیسے پاس ہو تا۔۔؟۔۔ اور ہمیں تصویرکھینچنے کا پھر کہاں موقع ملتا؟۔۔۔ کیونکہ ہم انٹرویو والے روز اتنے نروس ہوتے ہیں ،جتنی متوقع مائیں لیبر روم جاتے ہوئے بھی نہیں ہوتیں ۔۔۔شعراء کو وحشت میں ہر اِک نقشہ اُلٹا نظر آتا ہےاور ہمیں انٹرویو میں! ۔۔۔ہاں مجنون اور لیلٰی کا فرق کرسکتےہیں،اگر لیلیٰ نے ہیوی میک اپ کیا ہو۔۔۔ انٹرویو والے دن ہمیں ایک ہجوم کی صورت میں ایک اعلٰی سجے سجائےاے سی لگے کمرے میں بٹھایا گیا  ۔۔۔جہاں خواتین و حضرات  چپڑچپڑانگریزی بول رہے تھے۔۔۔چند ایک خواتین تو امریکی اور برطانوی ایکسینٹ کے لیے مُنہ پولو کی ہول والی گولی کی طرح بنا کر الفاظ پھینک رہیں تھیں۔۔۔جن میں کثرت ،نو،یس،واؤ اور گریٹ الفاظ کی تھی۔۔۔مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ جب سامنے والا بھی اُردو سمجھ رہا ہے اور بولنے والا بھی بول سکتا ہے تو کمیونیکیشن کے لیے انگریزی الفاظ کی کیا ضرورت رہتی ہے؟۔۔۔ کیا پاکستان میں خود کو تعلیم یافتہ ظاہر کرنے کے لیے چند فقروں کے بعد انگریزی کے الفاظ کا  استعمال لازمی ہے۔۔۔؟ ورنہ سامنے والا بہت ہلکے میں بات کو لیتا ہے؟۔۔۔۔خیر کچھ حضرات نےاس کمرے میں اتنی ٹائیٹ پینٹ اور اتنی چھوٹی شرٹ پہنی تھیں کہ ،صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں والی سیچوئیشن بن گئی تھی،جبکہ چند ایک میری طرح شلوار قمیص میں تھے۔۔۔ پھر انٹر ویو شروع ہوا اورہم ہرانٹر ویو دیکر، واپس آنے والے پر پل پڑتے، اور پوچھے گئے سوالات کی بابت دریافت کرتے ۔ پھر جلدی جلدی اپنے استادِ محترم گوگل رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھتے۔سوالات کچھ یوں تھے۔۔۔
difference between syllabus and curriculum, formal, informal non formal, teacher and trainer,taxonomy etc 
خیر استادِ محترم حضرتِ گوگل نے تشفی کردی اور ہم علم سے بھر ے بیٹھ گئے۔۔۔۔لیکن جوں جوں رولنمبر نزدیک آتے گئے علم کا دریا پھر سےسوکھتا گیا ۔ اور بار بار اُستادِ محترم گوگل ؒ کو زحمت دینی پڑی ،حتٰی کہ ہمارا نام پکارا گیا۔۔۔کمرے کےاندر ڈرتے جھجھکتے داخل ہوئے تو پینل گزشتہ محترمہ پر تبصرہ کر رہا تھا کہ موصوفہ، ہو بہوبینظیر بھٹو مرحومہ کی کاربن کاپی لگ رہی تھی۔۔۔ اُس کی تصویربمعہ فارم کے پینل میں ایک دوسرے کو دکھائی جانے لگی۔۔اور مسکراہٹیں ایک دوسرے تک پاس ہونے لگیں۔ ہم تو کھڑے کھڑے ہی مُسکرادیے،کیونکہ ایک خیر خواہ نے بتایا تھا کہ انٹرویو میں ہلکی مسکراہٹ ہونٹوں پہ ہونا لازمی ہے، حالانکہ بینظربھٹو پارٹ ٹوکی تصویر اور فارم کی ہماری جانب بیک سائیڈ تھی، لیکن دیکھنے کا کافی اشتیاق ہوا،مگر بے سود۔ انٹرویو کےاس پینل میں ایک بڑی مس( عہدے کے لحاظ سے) ،تین عدد اُس سے چھوٹی مسیں اور ایک عدد پروفیسر صاحب ہمارے منتظر  تھے۔۔پروفیسر صاحب عمر میں سب سے بڑے لگے کیونکہ عورتوں کی عمر کے متعلق میری تمام پیشن گوئیاں رد کردی جاتی ہیں، خواہ اپنی طرف سے پانچ سال کم ہی بتا دوں کیونکہ عمر بھر زن شناسی سے محروم رہا۔۔۔۔۔خیر ایک خالی کرسی یا فرشی صوفہ (جس پر بیٹھنے کے بعد اپنا آپ بہت چھوٹا لگنے لگا) پر بیٹھنے کادو چشمی اشارہ بڑی مِس کی طرف سے کیا گیا۔۔ حالانکہ ہم شریف ہیں (جس میں حالات اور علاقے کا زیادہ عمل دخل ہے)، لیکن یک چشمی اور دو چشمی اشارے سمجھ لیتے ہیں ،اس لیےعین اپنے لیے مخصوص جگہ پر  بیٹھ گئے۔۔۔۔۔پروفیسر صاحب نے میرے تعلیمی اخراجات کی رسیدوں میں ہاتھ مارنے شروع کردے جسے بانٹنے والے ادارے ڈگریاں کہتے ہیں اور اُس پر نمبر بھی درج ہوتے ہیں۔۔۔یہ ڈگریاں جعلی بھی ملتی ہیں لیکن صرف مخصوص لوگوں کو۔۔۔۔اُسی پینل میں بیٹھی ایک میڈم نے (جو بعد میں مس ۔س۔)کے نام سے شناخت کی  گئی نے فوراََ انگریزی میں سوال داغا۔۔۔۔ریسرچ کی ہے؟(حالانکہ اُس وقت ہماری پوزیشن انگریزی تو چھوڑیں اپنی مادری پشتو میں بھی بات کرنے جوگے نہیں تھی)۔۔۔ہم نے جی!۔۔۔کا لفظ بمشکل منہ سے نہایت پتلی سُر میں نکلا، کیونکہ گلاسوکھ گیا تھا اورحلق میں کانٹے سے چُبھ رہے تھے۔۔۔۔کس ٹاپک پر ریسرچ کی ہے؟۔۔۔۔اب ہم کیا کہتے کہ میرے علاقے میں ریسرچ کی نہیں جاتی کروائی جاتی ہے۔۔۔دوتین ہزار خرچ کرو لکھا لکھایا مل جاتا ہے۔۔۔ہمیں تو ٹاپک بھی نہیں تھا پتہ ۔۔۔اس لیے پروفیسر صاحب کے ہاتھ سے معذرت کے ساتھ اپنی ریسرچ لی اور اُس کا ٹائیٹل پیج مس ۔س۔ کو پڑھ کر سُنایا۔۔۔۔۔دوسری میڈم ۔ت۔ نے سوال جڑدیا۔۔۔اس کی پاپولیشن کیا تھی۔۔۔ ہم ہکا بکاہی رہ گئے کیونکہ یہ نام پہلی مرتبہ ریسرچ کے ضمن میں  سُنا تھا،ورنہ پاپولیشن تو پاکستان کی آجکل کنٹرول سے باہر بتا رہے ہیں، اور قابل اذہان اسے تمام پریشانیوں کی جڑبھی سمجھتے ہیں ،لیکن خاندانی منصوبہ بندی والے خاندانی منصوبہ شکنی والوں کو نصیحت کے سوا اورکتنا روک سکتے ہیں۔۔میں صرف سوری ہی کہہ سکا جو انگریزی میں ہی کہاتھا(شاید)۔ پھرہنس مُکھ بڑی میڈم جسکی آنکھیں مسکراتی ہیں میڈم ۔م۔ نے، سوال پوچھا آپ کی لیمیٹیشن اور ڈی لیمیٹیشن کیا تھیں۔۔۔۔ ہم کوتو صرف اپنی لیمیٹیشن کا پتہ تھا ۔۔۔کہ اپنی حد میں رہنا چاہیے اور صنفِ نازک سے زیادہ شوخی نہیں کرنی چاہیے ۔۔۔۔لیکن یہ ڈی لیمیٹیشن کیا تھی اس بَلا کا نام بھی ان ہی کی مُنہ زبانی سُنا۔۔۔پھر مُسکراتی آنکھوں والی میڈم نے میڈیم بدلا اور اُردو میں اُتر آئی۔انگریزی میں تو ہم باالکل خشکی پر تھے۔۔یا یوں کہہ لیں کہ صحرائے تھر میں کھڑے تھے لیکن جب میڈم۔م۔ اُردو میں اُتری تو ہمیں بھی گھٹنے گھٹنے اُردو آنے لگی۔۔۔ اور پھر ہم بھی کُھل گئے۔۔۔۔آخر میں میری تعلیمی رسیدیں چیک کرنے کے بعد پرفیسر صاحب متوجہ ہوئے ۔۔۔۔آپ کی اس تھیسس کاپی پر نہ سپروائزر کے دستخط ہیں اور نہ ایگزامینرکے۔۔۔۔مجھے بھی حیرت ہوئی کہ کیوں نہیں ہیں۔۔۔لیکن آج ہی پتہ چلا تھا کہ کوئی ان پر دستخط بھی کرتاہے۔۔۔اور ہم نے اچھا اس انداز میں کہا کہ مُنہ ہی سوالیہ نشان بن گیا!۔۔۔اللہ بھلا کرے ہنستی آنکھوں والی میڈم کا کہ میری گردن اس پینل سے چُڑائی ۔۔۔۔اور باعزت رُخصت کر دیا ۔۔۔۔شاید۔۔۔میرے بعد بھی پینل ہنسا ہوگا ۔۔۔میری شکل پہ یا عقل پہ، لیکن میں رہا ہوگیا تھا انٹرویو سے اور ہاں انٹرویو دینے کے بعدمیرا کانفیڈینس لیول کئی ہفتوں تک ساتھویں آسمان پر رہتا ہے!۔۔۔اس لیے مسکراتے چہرےاور چھاتی چوڑی کرکے کمرے سے نکلا جس سے باہر والوں کو یہی تاثر گیا کہ کوئی تیر مار لیا ہے۔۔اس کوچے سے نکلنے لگا تو باقی طلباء نے گھیر لیا اور سوال داغنے لگے۔ ۔۔۔۔ میں نے صرف اتنا کہا سب آوٹ آف کورس تھا۔۔۔اورمسکراتا ہوا چلتا بنا۔
گھر میں بہت سے بہانے بنائے کہ سب کچھ آؤٹ آف کورس تھا ،شاید مجھے فیل کرنے کی یونیورسٹی سازش کر رہی تھی۔۔۔۔یونیورسٹی والے کسی اپنے چہیتے کو لیں گے۔۔۔۔ سفارش کا زمانہ ہے۔۔۔۔نظام ہی کرپٹ ہے۔۔۔ اور بہت سے ایسے بہانے جس کے بعد گھر والے یقین کر لیتے ہیں کہ ہمارے ارسطو کی اس ملک میں قدر نہیں ۔۔۔اگر امریکہ میں پیدا ہوتا تو جارچ واشنگٹن ہوتا۔۔یا چائنہ میں ماؤزے تنگ ۔۔۔سب گھر والوں نے باجماعت اس نظام کو کوسا اور بُرا بھلا کہا۔۔۔لیکن شومئی قسمت تین ہفتے بعد میسیج مِلا کہ آپ سلیکٹ ہوگئے ہیں ،جلد از جلد مطلوبہ رقم جمع کر دیں ورنہ ہم ویٹنگ لسٹ سے کو ئی قابل بندہ اُٹھا لیں گے۔۔۔۔یہ آخر بات جو درحقیقت دھمکی تھی سائلینٹ تھی جس طرح انگریزی چُھری میں ۔کے۔ سائلینٹ ہوتا ہے۔۔۔گھر والوں نے اس داخلے کو حق کی فتح اور سر بلندی قررار دیا، اور معاشرے میں انقلاب کی پہلی سیڑھی گردانا۔کسی نے پی ٹی آئی حکومت کے پلے باندھا( حالانکہ اُس وقت صرف کے پی کے میں اس پارٹی کی حکومت تھی،اور موجودہ وزیر اعظم صاحب کافی اچھی اچھی باتیں کرتا تھا) تو کسی نے اسے غیبی ہاتھ کا کرشمہ  کہا۔۔ماں جی نے اسے ہماری قابلیت پر دال سمجھااور والدِ محترم نے ہماری پرسنلٹی اور ذہانت سے انٹرویو پینل کی مرعوبیت کا نتیجہ۔۔۔لیکن میرا ذہن چکرا گیا تھا ۔۔۔کہ کیا کوئی ادارہ اتنا بھی لاپرواہ ہوسکتا ہے۔۔۔کہ بار بار غلطی کرکے بندے سلیکٹ کرے۔۔۔لیکن ،ہم چُپ رہے کچھ نہ کہا منظور تھا پردہ ترا۔۔۔۔۔۔ہم نے مطلوبہ رقم جلدی جلدی جمع کر دی اور چند دن بعد ورکشاپ کا بُلاوا آگیا۔۔۔۔
جب ہم رُخصت ہونے لگے ، تو اپنا خیال رکھنے کے علاوہ ، ہماری شریکِ حیات نے کچھ اس پیرائے اور غیر محسوس طریقے سے بوستانِ سعدی کھولی۔۔۔۔۔ کھانا وقت پر کھانا۔۔۔اپنی پڑھائی پر توجہ دینا۔۔ بڑے شہروں کے حالات خراب ہیں اور یونیورسٹیاں تو۔۔۔۔خیرکسی سے دوستی وستی مت کرنا۔۔۔۔صنف نازک سے حد تہذیب فاصلہ رکھنا۔۔۔۔ہر کسی سے فری ہونا اچھی بات نہیں۔۔۔۔ ہنسی مذاق گھر میں اچھا ہوتا ہے، اگر کلاس مخلوط ہے تو اللہ سے ڈرنا ۔۔۔۔اور پھر اپنے ایم اے اسلامیات کے زور سے شرعی سزاؤں اور اسلامی حدوداور تعزیرات، فقہ اور اصولِ فقہ سمیت بیان کرنے کے بعد ڈبڈبائی آنکھوں سے کہا۔۔۔۔۔میری باتوں کو میراشک نہ سمجھنا ۔۔۔مطلوب اللہ تعالٰی کے احکامات کی یاد دہانی تھی اور کچھ نہیں۔۔۔۔ اور ہم نے نہ چاہتے ہوئے بھی شریف رہنے کے وعدے کر کےاسلام آبا د کا رستہ لیا۔۔۔۔۔
اسلام آباد پہنچنے کے بعد ہاسٹل میں ایک عدد بیڈ کی بکنگ کرکے اپنے ایک دوست کے ساتھ اسلام آباد کی سیر اور اُس کے گھرڈنر کے لیے نکل گیا۔۔۔۔واپسی پر کچھ پُرانے اور اس چکی کے پسے ہوئے طلباء سے ملاقات ہوئی ،جو فیل در فیل تھے یا ورکشاپ مِس کرگئے تھے۔۔۔اور کل کے ورکشاپ کی کوارڈینیٹر محترمہ ۔ح۔ صاحبہ کی سخت گیری اور اصول پسندی کے شاکی تھے۔۔۔کوئی اسائمنٹ کی سخت چیکنگ کا رونا رو رہا تھا اور کوئی سخت اصول پسندی کا۔۔۔۔۔اور واقعی میرے ملک میں اصول پسندی سخت عیب سمجھی جاتی ہے۔۔۔ہمیں بھی گھبراہٹ ہونے لگی۔۔۔لیکن جب ظالم صنفِ نازک ہو تو ڈر آدھا رہ جاتا ہے۔۔۔ کیونکہ عورت جتنی بھی سخت گیر ہو، اُس کے سسٹم پروگرام میں ایک سافٹ وئیرترحم اور نرم دلی کا میرے ربّ نے رکھا ہوتا ہے۔۔۔۔ اور وہ جتنی بھی سخت گیری کی اداکاری کرلے پوری نہیں اُترتی۔۔۔کیونکہ اُسے خالقِ کائنات نے ماں بننے کا عظیم کام حوالہ کیا ہوتا ہے ، جس کے لیے رحم دلی بنیادی عنصر ہے۔۔۔
اگلے روز صبح ۹بجے کے لگ بھک اُسی عالیشان فوٹوجینک عمارت کی طرف روانہ ہوئے ۔۔۔پہلے روز  سب نئے ہوتے ہیں اور شاذ ہی کوئی ایک دوسرے کو پہچانتا ہے۔۔لیکن اس دن قسمت دوستوں کو کھینچ کھینچ کر ساتھ بٹھا دیتی ہے اور پھر دوستیاں چل نکلتی ہیں۔۔۔اس لیے ہمارے لیے ہر ایک اجنبی تھا ،علاقائی محبت سے بھی کام لیا جاسکتا تھا،لیکن میرے ضلع سے بلکہ آس پڑوس کے اضلاع سے بھی کوئی نہیں تھا۔ اس لیے خود پہ تکیہ کیا اور جا کے کلاس میں پُر اعتماد بیٹھ گیا ۔۔۔ایسے اوروں کو لگتا ہے ورنہ ہماری جو حالت ہوتی ہے الفاظ میں سمونے کے قابل نہیں،کیونکہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے کو دل کرتا ہے۔۔۔اپنے گھر سے نکلتے ہی ہم پہ سفر کے وہ حالات طاری ہو جاتے ہیں جو صرف بیاہی دوشیزاؤں کا حق ہے،یعنی جی متلانا، سر چکرانا اوربات بے بات نیند آنا اور پھر سفر کے اختتام کے بعد بھی یہی حالت چند روز برقرار رہتی ہے۔کلاس میں گیا تو سب خوش و خرم ایک دوسرے سے باتوں میں لگے ہوئے تھے، جیسے برسوں سے شناسائی ہو۔۔۔اور ایک ہم کہ کُھلتےکُھلتے دوتین سال لے لیتے ہیں ۔۔آج بھی آپ سے تم پر جانے کے لیے پانچ پانچ سال لیتاہوں ۔۔وہ بھی اگر دوسرے کی مرضی شامل ہو۔۔۔۔۔شریکِ حیات بھی ابھی تک آپ ہی ہیں ۔۔۔۔۔اور ازدواجی زندگی کو پانچ سال ہو گئے ۔۔۔۔اس سے اندازہ لگالیں۔۔۔کہ کس قدر نادان ہیں!۔۔۔۔خیر ایک چپڑاسی صاحب جو موجودہ حالات میں طلباء سے سر کا خطاب پارہے تھے اور اِترا رہے تھے ۔۔۔ہمارے لیے خضرِ راہ ثابت ہوئے کبھی ایک کمرے میں لیجاتے ہیں اور پنکھے اور اے۔سی، آن کردیتے ہیں پھر اُس کے پیچھے کوئی تُرش رو صاحب آجاتے ہیں ۔۔۔جس میں جوش ملیح آبادی کی انا اور جرنیلوں کا سا طنطنہ بھرا ہوا تھا،اُسے پنجابی میں کچھ سمجھاتے ہیں ہاتھ کے اشارے کرتے ہیں، اور ہم اُس کوچے سے بے آبرو ہوکر نکالے جاتے اور اس طرح کمرے تبدیل کرتے کرتے ہمارے خضرِراہ ہمیں ایک گرم خشک کمرے میں لے گئے جو تیسری منزل پر سورج کے عین زد میں تھا۔۔اور اگست کا مہینہ۔۔ یوں سمجھ لیں کہ پندرہ منٹ پہلے جو ہجوم مری میں تھا اب چولستان میں پھینک دیا گیا۔۔۔او ر دو رومال فی منٹ کے حساب سے پسینہ شروع ہوا۔۔حضرات کی پھر بھی خیر تھی خواتین بیچاریوں کے میک اپ میں بہتے پسینے نے پرنالے سے بنالیے تھے، اور رومال یا ٹیشوپیپر لگانے سے بھی احتزاز،لگائے توساری فئیر اینڈ لولی کریم رومال پہ منتقل ہوجائے، لیکن ہم اپنا ماتھا اپنے گیلے رومال سے بے دریغ رگڑرگڑ کر مزید گیلا کرتے رہے۔۔۔اس کلاس میں ہم حضرات کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی،اور بعد میں پتہ چلا کہ اہمیت بھی اتنی ہی ملی۔۔جس طرح بلڈپریشر والا نمک سے پرہیز کرتا ہے اسی طرح ہمیں سُننے سے بھی پرہیز کیا گیا ۔۔۔حالانکہ ایک بہن سے اُسکی پوری تُزکِ جہانگیری، اور بابری بمعہ ضمنی واقعات سُنی گئی،جس میں اُس کی ساس کی وفات سے پہلے، ساس کا اُس کے ساتھ سگی بیٹیو ں والا سلوک ، اُسکے بچوں  کے سونے اور جاگنے کے اوقات ،اُس کے گھر میں آنے والے مہمانوں کی تعداد معہ عاداتِ خورد و نوش، اُس کے کچن میں پڑے ہر ایک ڈبے کا جغرافیہ بمعہ ڈبے کی لائف سٹوری۔۔اس کی کلاس میں موجود تمام طلباء کی توتا کہانیاں۔۔حتٰی کہ اُس کے سونے جاگنے کے اوقات بھی ضمنی واقعات کی چاشنی میں سُنے گئے ۔۔۔جس نے ہماری ایم۔فل کی ڈگری کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچایا۔۔ہم جب بھی بولنے لگتے تو ہوں ہاں پر ٹرخا لیے جاتے۔۔اس بہن کی باتیں مولوی نظیرا حمدکی طرح وعظ سے بھری ہوتیں اور ہر ایک بات کے پیچھے ایک مورل (نتیجہ)ہوتا جس تک پہنچنے کے لیے آپ کو ایک لمبی کہانی سننی پڑتی۔۔۔یہ بہن حد درجہ دیندار ثابت ہو رہی تھی اور ہم گنہگار سے محسوس کرتے رہتے ۔۔
یہ کلاس چونکہ ،،تعلیم سب کے لیے ،، کے اصول پر اکھٹی ہوئی تھی اس لیے چندمائیں بھی ہم کلاس تھیں جس کا زندہ ثبوت دورانِ کلاس وہ بھاگتے دوڑتے ،روتے اور ضد کرتے بچے تھے جو ہمارے کلاس فیلوز ہی بن گئے تھے، اور یہ بچے بھی ہمیں کلاس فیلوز ہی سمجھتے تھے۔۔۔البتہ ایک محترمہ کے ساتھ اُس کا مجھ سے بھی زیادہ سدھایا ہوا شوہر تھاجو پورے آٹھ گھنٹے اپنے مشرکہ کرتوت کو کاندھے پر ڈالے کلاس کے سامنے کوریڈورمیں ٹہلاتا اور شفاف شیشے کے اس پارکلاس میں بیٹھی اسکی والدہ صاحبہ کابار بار دیدار کراتا۔۔۔۔ پھر ہماری کوارڈینیٹر صاحبہ کلاس میں پہنچ گئیں اور بڑی خوش اسلوبی سے رسمی تعارف کے بعد تین فون نمبر تختہ ءِ سفید پر لکھے( کیونکہ وائیٹ بورڈ کے لیے ہمارے ذہن میں یہی الفاظ آتے ہیں) ،جس سے ہمیں ہمہ وقت رابطہ کرنے اور مدد لینے کی ہدایات ملیں۔۔مطلب 1122ہی سمجھ لیں ۔۔ایک نمبر اپنااور دوباقی پروفیسر حضرات کے تھے جو اللہ کے فضل و کرم سے ہمیشہ بند یا مصروف ملے۔۔۔اور ہم نے ان سے کبھی استفادہ نہیں کیا۔۔۔کوارڈینیٹرمحترمہ۔ح۔ صاحبہ نے دل کی گہرائیوں سے ہماری قابلیت کی داد دی کیونکہ ہزاروں میں ہم وہ دُرِ نایاب قسم کے لوگ تھے جو جان گُسل قسم کی کھسوٹیوں سے گزر کر اس کلاس میں بیٹھے تھے۔۔۔پھر انسانیت اور امن پسندی کی باتیں ہوئیں ،لاحہءِ عمل سمجھایا گیا۔۔۔اور چائے کے ساتھ سموسوں کے لیے چھوڑدیاگیا۔۔۔ ہم نے کھڑے کھڑے یہ خورد و نوش کیا حالانکہ ایک دن پہلےہی ایک رپورٹ میں پڑھ چکے تھے، کہ کھڑے ہوکر کھانا کھانے سے اپینڈکس کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ پھر ہمیں اُس فی منٹ دو رومال والے سورج کے قریب ترین کمرے سے نکال کر ایک کانفرنس روم میں بٹھایا گیاجہاں قومی اسمبلی کی طرح ہر ایک کرسی کے سامنے ایک مائیک بھی لگا تھا۔۔۔۔لیکن بار بار یہ باور کرایا گیا۔۔ کہ یہ کمرہ آپ لوگوں کے لیے نہیں ہے میں نے بزورِ زبان کھلوایا ہے، ورنہ کہاں آپ اور کہاں یہ کانفرنس روم۔۔خیر اس آخری فقرےکا طنز بھی انگریزی  چھری کے ۔کے۔کی طرح سائلنٹ تھا۔۔۔لیکن نادان سمجھ جاتے ہیں۔۔۔۔پھر یہاں ایک لفظ پلیجرازم کا سوانگ رچایا گیا اور ہمیں اسی ڈنڈے سے ہر سیشن میں زد و کوب کرنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔۔۔ہر ایک کاغذ ہر ایک لفافے حتٰی کے سموسوں پر بھی یہ لکھا مِلا۔۔۔۔جس نے پلیجرازم کی اُس کی مت مار دیں گے۔۔۔اس لفظ کا اُردو مترادف شاید سُرقہ ہے۔۔یعنی الفاظ اور خیالات کا سُرقہ ۔۔۔اسے دوسرے کی زمین میں غزل کہنا بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔خیر یہ ایم فل ایجوکیشن کی کلاس تھی اور اس میں ادبی بے ادبی کی گنجائش بالکل نہیں ۔۔۔ایک دوست بخاری صاحب جو غلطی سے شاعر بھی واقع ہوئے ہیں ۔۔نے کئی مرتبہ ادبی بے ادبی کی کوشش کی مگر۔۔۔کسی باذوق نے حسبِ توفیق داد نہ دی۔۔۔۔پھر اس روزجو سیشن ہوئے اُس میں ہمیں پیراڈائم سمجھائے گئے۔۔۔جس میں کوئی پازیٹیو تھا،کوئی پروگریسیو۔۔۔کسی کے ہاں حقیقت آبجیکٹیوتھی کسی کے ہاں سبجیکٹیو۔۔۔۔۔کسی نے کہا تھا کہ سُرخ رنگ کچھ نہیں آپ جیسا دیکھتے ہیں وہی حقیقت ہے کسی نے کہا کہ نہیں ایک سُرخ رنگ پہلے سے موجود ہے آپ جو دیکھتے ہیں وہ آپ کی پر سیپشن ہے،حقیقت نہیں۔۔۔۔ہمیں کیا پڑی تھی سمجھنے کی ۔۔۔۔اور کونسا ہماری سمجھ میں آرہا تھا۔۔۔۔پروفیسروں سے سوال و جواب اس لیے نہیں کر رہے تھے کیونکہ انہوں نے اتنے گھمبیر چہرے بنائے تھے کہ ہم تو سانس بھی میرؔ کی طرح آہستہ لے رہے تھے کیونکہ آفاق کی اس شیشہ گری کا کام انتہائی نازک تھا۔۔۔۔۔۔اس کلاس میں چونکہ فیل شدگان( جس میں ایک محترمہ بھی شامل تھی جو بار بار فیل ہونے کے بعد اس مقام تک پہنچی تھیں کہ کوارڈینیٹر صاحبہ کی چھوٹی بہن بن گئی تھی۔۔اور مضمون پر پروفیسرانہ کمانڈ حاصل کر لیا تھا)بھی وافر مقدار میں موجودتھے۔۔ایک منحنی سی شکل اور انتہائی لاغر جسم، جسے بندہ افواہ ہی کہہ سکتا ہے والے بھائی صاحب ہر ایک ٹاپک پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالتے اور ہمیں اپنی کم علمی پر رہ رہ کر شرم آتی۔۔۔اساتذہ سارے ورکشاپ میں اسی سقراطِ ثانی کو مطمئن کرنے میں لگے رہے۔۔۔اور جب پریزنٹیشن جس کا اُردو مترادف مجھے معلوم نہیں۔۔ کی باری آئی تو تین تین طلباء کو ایک مشترکہ ٹاپک پر ٹرخایا گیا ۔۔۔حالانکہ اس کا وزن بھی مجھے زائد از برداشت لگا۔۔۔۔میرے حصے میں منحنی صاحب اور ایک گم سُم ،گم سُم سی دوشیزہ آئی یا میں اُن کے حصے میں آیا۔۔۔لیکن سب ایک دوسرے سے بڑھ کر آلسی اور کام سے جی چُرانے والے تھے۔۔۔۔سُقراطِ ثانی پر کچھ تکیہ تھا جو پریزینٹیشن کے دن گھاؤ تکیہ ثابت ہوا۔۔۔وہ محترمہ اور میں تو لیپ ٹاپ بھی گھر ہی بھول آئے تھے لیکن اس سُقراطِ ثانی نے باغیچے میں ہمیں اپنے اردگرد بٹھا کر نیٹ سے ایک پاورپوائنٹ فائل ڈاؤن لوڈ کی اور ہمیں اپنے علم کے دریا میں غوطے دینے لگے ۔۔۔اور ہم دونوں اس قدر قابل بندے پر رشک کرتے شام کے وقت کمروں میں چلے گئے۔ لیکن جب اگلے دن پریزینٹیشن کی باری آئی ۔۔۔ تو الامان الحفیظ ۔ح۔صاحبہ نے ہماری عزت میں وہ کشیدہ کاری اور وہ پھول پتیاں لگائیں کہ ہم اُس سُقراطِ ثانی کا منہ دیکھتے رہ گئے۔۔ مکس میتھڈریسرچ۔۔کو پتہ نہیں ہمارے سقراط صاحب نے کیا بنا دیا تھا،کہ میڈم نے دوسرے ہی روزمُرمت ضروری سمجھی۔ علم کے اس تکون میں موجود محترمہ بھی میری طرح خاموش ہی رہی ۔۔۔کیونکہ ہمارے پلے تو کچھ نہیں پڑ رہا تھا۔۔۔ ڈانٹ بھی نہیں۔۔ 
خیراب ہم اختصار کی خاطر اس پہلے سمسٹر کی ورکشاپ کے بیس دنوں کی جھلکیوں پر اکتفا کرتے ہیں تفصیلات پھر دور تلک چلے جائیں گی۔ہمارے اکثر سیشن پینڈولیم کی طرح گزرے۔۔ایک پروفیسر الٹرا ماڈرن خیالات،مسلسل ایک گھنٹے تک ہمارے اذہان میں ٹھونس کر جاتی تو دوسری اسلامی کلچر کے احیاء اور مسلمانوں کی عظمت کی کہانیوں کا ناسٹلجیاہمیں انجیکٹ کر دیتی۔۔۔اور ہماری غالبؔ مر حوم کی سی حالت ہو جاتی یعنی : کعبہ میرے پیچھے تو کلیسا میرے آگے۔۔۔اس لیے گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار ہی ،گھر لے گئے۔۔۔اور سب نظریات اُدھر ہی چھوڑ دیے۔
۔ح۔ صاحبہ نے تو پورا ایک سیشن صرف اس پر لیا کہ امریکہ میں موٹر سائیکل والے کو سڑک پر وہی حقوق حاصل ہیں جو فراری (ایک گاڑی) والے کو۔۔۔۔ہمارے ملک میں موٹر سائیکل والے کو وہ حقوق کیوں نہیں ملتے؟ اب اسے کون سمجھائے کہ حقوق کی بحث کافی طویل ہےکس کس کو دیں گے حقوق؟۔۔وہ اس بات کی بھی شاکی تھی کہ جب میں گاڑی ڈرائیو کرتی ہوں تو پچھلی گاڑی والا ہارن کیوں بجاتا ہے(حالانکہ کنواری ہے تا دمِ تحریر)۔۔۔۔محلے والے گلیوں میں قربانی کیوں کرتے ہیں۔۔۔ امریکہ میں لوگ کتابیں پڑتے ہیں ہمارے ہاں کیوں نہیں ۔۔۔حالانکہ ۔ح۔ صاحبہ کو پتہ بھی تھا کہ امریکیوں کے تو دو ہی شوق ہیں ۔۔۔جس میں دوسرا موٹی کتاب ہے ۔۔۔پہلا نہیں بتا سکتا لیکن اتنی عرض کر سکتا ہوں کہ اُس کے ساتھ پتلی کا شرط لگا دیتے ہیں۔۔۔ ہمارے ہاں بھی تقریباََ یہی شوق ہیں البتہ ترتیب اُلٹ جاتی ہے۔۔۔۔خیر ہمیں جو علم منتقل ہوا وہ امریکہ کے متعلق زیادہ اور علم کے متعلق کم تھا ۔۔۔ حالانکہ ہماری دس پشتوں تک شجرے میں موجود بزرگ اپنی میونسپلٹی کے حدود سے بھی نہیں نکلے چہ جائیکہ امریکہ۔۔۔۔اسی طرح ایک اور لیکچرر جس پر محاورتََا نہیں حقیقتاََ غصّہ سوار رہتا تھا، میڈم ۔س۔ صاحبہ تھیں، جس نے مجھے انٹر ویو میں بھی کافی کھینچا تھا۔۔۔ اتنی روکھائی سے سوال کا جواب دیتی کہ اگلا سوال حلق میں ہی اپنی قبر کھود دیتا۔۔۔۔اللہ کا شکر ہے امریکہ نہیں گئی تھی اس لیے مثالیں لوکل ہی دیتی تھیں۔۔جس میں اپنے سائینوپسز پندرہ مرتبہ مسترد ہونے کا واقعہ سرِ فہرست ہوتا۔۔اور کئی مرتبہ سُنایا ۔۔۔ہر دفعہ نئے عزم کے ساتھ۔۔۔ اور کہتی اگر میں ہار مان جاتی تو آج پی ۔ایچ۔ ڈی کی ڈگری نہ ہوتی اور آپ علم کے خزانے اور لال وجواہرسے محروم رہ جاتے۔۔۔انھیں جیتا جاگتا کنگ بروس کہہ لیں تو عجب نہ ہوگا۔۔۔۔کیونکہ اُس نے بھی مکڑی سے سبق لیا تھاجو بار بار گرتی اور چڑھتی ۔۔۔ لیکن ہنستی آنکھوں والی میڈم ۔م۔ صاحبہ کے کیا کہنے ۔۔۔ چہرے پر جتنا بھی غصّہ سجا لیں آنکھیں ہنستی ہوئی ملیں گی۔۔۔شریر اور ذہانت سے بھرپور آنکھیں۔۔۔ڈانٹتے ہوئے بھی آنکھیں ہنستی رہتی ہیں۔۔۔کیونکہ ہمیں دوسرے سمسٹر میں اُس سے ڈانٹ کھانے اور اُس کی ڈانٹ سُننے کا بہ نفسِ نفیس تجربہ ہے۔۔۔اُس کے شوہر بہت خوش قسمت ہیں کیونکہ اُس کی ڈانٹ خونخوار نہیں ہوتی ۔۔مس۔س۔ کی طرح۔۔! لیکن پروفیسری کا عہدہ ہی ایسا ہے کہ بندہ دائمی بخار کا سا منہ نہ بنائے تو سامنے والے پروفیسری مانتے ہی نہیں۔۔لیکن سچ میں کچھ لوگوں پر غصہ باالکل بھی نہیں جچھتا، میڈم ۔م۔ بھی اُن ہی میں سے ایک ہیں۔۔میڈم۔م۔ کچھ کورسز کی کواردینیٹررہی جس کے اکثر سیشن خالی ہی جاتے۔۔۔۔لیکن ہم طلباء ایک دوسرے سے فری ہونا سیکھ لیتے۔۔۔۔ایک پروفیسر صاحب جو حد سے زیادہ ڈیجیٹل ثابت ہوئے تھے(ڈیجیٹل سے مراد حسابی کتابی ہے) ،مذاق کا رسپانس بھی حسابی،کتابی انداز میں دیتے۔۔ اکثر حد سے زیادہ سیریس رہتے، اس پر ہمیشہ کُڑتے رہتے کہ قوم حد سے زیادہ مذاحیہ ہوچکی ہے، اب انھیں کون سمجھاتا کہ جہاں اظہار کے پیمانے تنگ کردیے جائیں وہاں لوگ مذاق او جُگت بازی کا سہارا لیتے ہیں یا شعر کا۔۔۔ ایک امریکہ سے پی ایچ ڈی یافتہ پروفیسر صاحب نے جب کلاس میں ڈانس کلاسز کے حق میں کچھ جملے کہے، تو ایک مجدد الف ثانی قسم کے باریش طالب علم نے اکبر کے لادینی خرافات کے خلاف علمِ بغاوت بھری کلاس میں بلند کر دیا۔۔اور ایک دوسرے پر احادیث کے وار کیے گئے۔۔ ہم جیسے عامی علماء کے دمیان چُپ سادھے بیٹھے رہے۔۔ اور پھر دو گھنٹے اسی نوک جونک میں گزر گئے۔۔۔آخر میں فیصلہ اس بات پرہوا ۔۔ کہ آپ کلاسوں میں ناچیں لیکن غیر مسلموں کی نقالی نہ کریں ۔۔۔یعنی کترینہ کیف اور انوشکا شرما والے سٹیپس سے احتزاز برتیں۔۔کیونکہ باریش طالب علم نے اپنے دلائل کو وزنی بنانے کے لیتے۔۔غیر مسلموں کی پیروی نہ کرو والی حدیث معہ عربی متن سُنائی تھی۔۔خیر وہ پروفیسر صاحب دوسرے سمسٹر میں کسی اور یونیورسٹی چلے گئے تھے۔۔۔وہ بھی کے پی کے ،کے رہنے والے تھے۔
ہمیں چونکہ چہرے اور نام مشکل سے یار رہتے ہیں ۔۔۔اس لیے اکثر طلباء کو بہن بھائی کے الفاظ سے پکار کر کام چلاتے رہے ۔۔۔تین چار بولنے والی خواتین طلباء کو(جنھیں ان گنہگار آنکھوں نے کلاس میں خاموش نہیں دیکھا تھا)تین ہفتے مسلسل جنجوعہ کہہ کر پکارتا رہا، یا گفتگو میں لاتا رہا۔۔ وہ تو ایک کرم فرما نے عقل دلائی کہ یہ چاروں محلِ وقوع کے لحاظ سے الگ الگ خواتین ہیں۔۔صرف بولنے کی خُو مشترک ہے ، ہم تو چلو بھر پانی میں ہی ڈوب گئے اور اپنے مشاہدے پر تین نقطے وہیں کھڑے کھڑے بھیج دیے۔۔۔ہم پشتون اس کلاس میں چھ سات کی تعداد میں تھے ۔۔۔اور ہم پشتونوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ہمارا اُردو تلفظ بہت ہی گیا گزرا اور دور سے قابلِ شناخت ہوتا ہے، اس لیے اُردو تلفظ بھی پہلے سمسٹر میں زیرِ بحث اور زیرِ عتاب رہا(بعدمیں کلاس والے عادی ہوگئے ہم تبدیل نہ ہوئے)۔۔۔۔ہم میں اتنی سی تبدیلی آگئی تھی کہ پینٹ شرٹ(رہائشِ لاہور کے بعد) پھر سے پہننی شروع کر دی تھی۔۔۔جبکہ باقی سچے پشتونوں نے اس مغربی لباس کو کسرِ شان سمجھا۔۔۔۔
ایک محترمہ نے ان ورکشاپوں میں مجھے رضاکارانہ طور پر ایس پی ایس ایس سکھانا شروع کر دیا تھا (ڈیٹا سافٹ وئیر)۔۔۔لیکن اپنے لیپ ٹاپ(جو گھر سے منگوا لیا تھا) میں اُس کا دیا ہوا سافٹ وئیر انسٹال کرنے اور اُس محترمہ سے چند روز سیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ میرے بس کا روگ نہیں۔۔غالبؔ ،اقبالؔ ، فیضؔ ،فرازؔ ، ابنِ انشاؔ ، مفتی،ایلف شفق،رابی سنکربال،ملٹن،منٹو،بابا اشفاق اور بانو آپا کے الفاظ کے نقشے دماغ کے نہاں خانوں پر نقش کرنے والے کا ذہن ،نامینل ، آرڈینل ، انٹرول اور ریشو، ڈیٹا کیسے سمجھ سکتا ہے۔۔۔ہاشم ندیم کے، بچپن کا دسمبر،عبداللہ،پری زاد،خدا اور محبت،اور صلیبِ محبت کو دل میں جگہ دینے والاکہاں سے چارٹ اور گراف بنا کر ہندسوں کو شکلوں ،گرافوں اور بارچارٹ میں تبدیل کرتا پھرے ۔پھر اُس محترمہ کوایک روزمؤدبانہ سمجھایا کہ بہن اپنا قیمتی علم اور وقت مجھ پر ضائع نہ کرو، اسے کسی اچھے کام میں یوٹیلائز کر لو تو فائدے میں رہو گی۔۔۔۔ سمجھدار تھی ۔۔۔ سمجھ گئی۔۔۔
ہمارے اس سمسٹر کا آخری کورس کمپیوٹر کا تھا ۔۔۔جو پہلا ہونا چاہیے تھا کیونکہ ایسے ایسے طلباء بھی موجود تھی جو صرف ایک اُنگلی سے ٹائپنگ سیکھ رہے تھے۔۔۔۔اور کمپیوٹر بھی  ایم فل میں آنے کے بعد، کیونکہ پہلے سے کچھ نہیں جانتے تھے اور ہاسٹل کے کمروں میں ساری رات اپنے لیپ ٹاپ کے ،۔کی۔بورڈ ۔، کو شہادت کی اُنگلی سے چھیڑتے رہتے تھے۔۔۔۔۔میرے کمرے میں روح اللہ بھائی اور بخاری صاحب تھے (اِن دونوں کے متعلق یہ بات بالکل بھی نہیں کہہ رہا)۔۔۔خیر ایسے تمام طلباء جو۔ کی۔بورڈ ۔سے چھیڑچھاڑمیں مصروف ہوتے یہ سب اسائمنٹ کے نام پرہورہا تھا۔۔۔ جس کی آخری تاریخ کو طلباء کانپتی ہوئی نظروں اور سوچ کے ساتھ دیکھتے تھے۔۔۔۔ البتہ ہم طلباء نے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا تھا،تاکہ ایک دوسرے کے پروگریس سے باخبر رہ سکیں،لیکن جس کو بھی ایک دوسرے سے کام پڑتا اِنباکس یعنی پرسنل ہو جاتے (وٹس ایپ پہ)۔۔اس گروپ کے سب طلباء مشترکہ ایڈمن تھے، اورگروپ کلاس کی مشترکہ ملکیت تھی، لیکن بعد میں بنانے والے بھائی نے اس گروپ کے جملہ حقوق اپنے حق میں محفوظ کرکے گروپ کو اپنی سرپرستی میں لے لیا (اس تحریر کی اشاعت کے بعد پھر سے مشرکہ ملکیت کے حقوق مل گئے)۔۔۔۔شاید باقیوں میں پولیٹیکل اور انٹلیکچول سکلزکی کمی نظر آئی ہوگی۔۔۔۔۔۔کیونکہ اس دُنیا کا ایک لگا بندھا اصول ہے کہ ہر بندے کو اپنی عقل اور سوجھ بوجھ ساری دُنیا سے زیادہ اور دولت کم نظر آتی ہے اس لیے صرف مؤخر الذکر میں ہی اضافہ کرتا رہتا ہے۔۔۔یا کرنا چاہتا۔۔۔۔۔جبکہ ہمارا حساب اُلٹاہے۔۔۔۔ خیر کمپیوٹر کی کلاس کے لیے اس جمِ غفیر کو چھوٹے چھوٹے پارٹس میں تبدیل کر دیاگیا۔ کمپیوٹر کے کورس کے لیے ہم صرف سترہ ہی رہ گئے۔۔ باقیوں کو بھی اُن کی فیکلٹی وائز تقسیم کر دیا گیا،ڈسٹینس والے،ایلیمنٹری والے ،پلاننگ والے اور ہم سیکنڈری والے۔۔۔۔۔ یہ کورس باالکل ہندی فلم کے طرز پرپانچ روز چلا۔۔ مطلب پہلے سین میں دو بھائی کسی میلے میں گم ہو جاتے ہیں اور آخری سین میں مِل جاتے ہیں۔۔۔ہمارے اُستاد بھی پہلے دن ہم سے ملے ۔۔۔۔اور پھر آخری دن ۔۔۔۔۔باقی دنوں میں ایک دُبلا پتلا سا اُستاد یا کمپیوٹر لیب کا انچارج ہم سترہ سے ڈونگل چوری کی تفتیش کرتا رہا۔۔۔۔ ہماری سادگی دیکھے یونیورسٹی جانے تک واٹس ایپ اور ڈونگل کے بارے میں ہمارا علم صفر ہی تھا ۔۔۔۔یونیورسٹی ہی میں ایک دوست نے واٹس ایپ انسٹال کرایا اور اس کا استعمال سکھایا۔۔۔۔اور ڈونگل اُس بغیر تار کے یو ایس بی ڈیوائس کو کہتے ہیں جو تا ر کے جھنجھٹ سے ایکسیسریز کو نجات دلاتی ہے(کسی نے بعد میں بتایا)۔۔۔۔۔حالانکہ دیکھی کبھی نہیں کیونکہ ہمارے آنے سے پہلے لیب میں کوئی اپنی ہاتھ کی صفائی دکھا گیا تھا۔۔۔۔۔غالبؔ نے بھی شاید ایسے ہی موقع پر کہا تھا کہ ۔۔۔پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق۔۔ان تفتیشوں کا جب کچھ نتیجہ بر آمد نہ ہوا،اور آخری دن آگیا تو ہم نے اُستاد صاحب کو اپنے پانچ روزہ علم کا ٹیسٹ دیا۔۔۔ اور اللہ کی مدد اور پرانے علم کے زور پر سُرخرو ہوئے۔۔۔۔۔ خیر آخری روز ہم نے تصاویر لیں اور ایک دوسرے کو مسکراتے چہروں کے ساتھ الوداع کہا۔۔۔۔۔۔
انسان آتے ہیں ملتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ،اس دُنیا میں ثبات صرف اللہ رب العزت کی ذات کو حاصل ہے ،ہم اداکاراپنا رول ادا کرتے ہیں اور نئی جگہ منتقل ہوجاتے ہیں۔۔ ہم لوگوں نے ایک دوسرے کو کیسا پایا یہ بھی سبجیکٹیو میٹر ہے ۔۔۔۔یعنی ہر ایک نے اپنی عینک سے چیزوں کو دیکھا ۔۔۔۔کسی کو اچھا لگا، کسی کو بہت اچھا اور کسی کو نارمل اور روا روی کا سا۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن مجھے چند ایسے دوست ملے جو اگلے دو سمسٹرز میں محفل اور دُنیا ثابت ہوئے ہم جھگڑتے بھی رہتے روٹھتے بھی رہتے اور پھر بچوں کی طرح مان بھی جاتے۔۔سعادت حسن منٹو نے  لکھا ہے کہ میں نے بازار جاتے ہوئے دو کُتوں کو گوشت کے ٹکرے کے لیے لڑتے دیکھا اور واپسی پر اُنھیں آپس میں اٹکیلیاں کرتے دیکھا تو محلے کے وہ دو بھائی یاد آئے جوپانچ سالوں سے کسی معمولی جھگڑے کی وجہ سے ایک دوسرے سے ناراض تھے۔۔ بخاری صاحب اکثر روح اللہ اور مجھ سے روٹھ جاتے تھے۔۔اور پھر روٹھے روٹھے ہمیں سدھارنے کے لیے نصیحتیں کرتے(سدھانے کا مطلب اُس کے سانچے کے مطابق خود کوڈھالنا)۔۔یہ روٹھنا شاید اُسکی تنبیہہ تھی یا سچ  لیکن ،ہمارے حق میں یہ تنبیہ الغافلین ہی ثابت ہوئی ۔۔۔۔کیونکہ اثر ہی نہیں لیا۔۔۔۔۔
خیر اس بحث کو دوسرے حصّے کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ابھی اللہ حافظ۔۔۔۔۔
مضمون میں اپنے لیے میں کی جگہ صیغہءِ جمع (ہم) استعمال کرنے کی معذرت،کیونکہ میں سے مجھے انانیت کی بو آتی ہے

وسیم خان عابدؔ
اکتوبر 2018 

Sunday, 21 October 2018

کالم: رد ،اور اضطرار

ہم پہلے تو یہ واضح کردیں کہ نہ ہم کوئی مولوی ہیں اور نہ اُنکے مخالف ۔کیونکہ "مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں "۔ اور وہ بھی صرف اسی لیے کہ" فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں"۔مگر آج اپنے ایک پُرانے نوشتہ پر نظر پڑی تو دل بے اختیار لکھنے پر مائل ہوا۔ 2010میں ایک ملعون نے کچھ کارٹون وغیرہ حضورﷺ کی شان میں گستاخی کی غرض سے شائع کیے تھے۔ جس کا مسلمانوں نے کافی سختی سے نوٹس لیا تھا ۔اور آج دُنیا میں ہماری جو حالت اور حیثیت ہے اُس کے حساب سے ہم مسلمان صرف نوٹس ہی لے سکتے ہیں کچھ کر نہیں سکتے۔دُنیا کی تاریخ اُٹھا کر دیکھیں قوموں پر عروج و زوال آتے رہتے ہیں۔لیکن
آج میری غرض اُس ایک واقعہ کے بیان سے ہے جو شکست خوردہ معاشرے کے نفسیات کی عکاسی کرتا ہے۔ہمارے ایک مولوی صاحب اللہ اُسے سد ا سُکھی رکھے! ،نے اپنے جمعہ کے خطبے میں ایک لمبی تقریر صرف ٹیلی نار سِم کی ردمیں کردی ۔ اور موصوف نے لوگوں سے بھری مسجد میں ہاتھ اُٹھوا کر قسم لی کہ آئندہ ٹیلی نار کی سروس استعمال نہیں کریں گے۔اُنکا جذبہءِ ایمان اپنی جگہ مگر مسجد میں قسم کھانے والے آج بھی ٹیلی نار سے استفادہ کر رہے ہیں۔ مُجھے بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ دُنیا کا سب سے آسان کا م کسی چیز کا رد کرنا ہے اور مشکل ترین کام کسی قوم کی اصلاح ہے۔ رد کے لئے صرف ایک" نہیں" کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔اور کچھ نہیں۔۔۔ لیکن اگر ہم کھلے دل سے سوچیں کہ رد کے ساتھ ساتھ ایک متبادل کی بھی ضرورت پڑتی ہے اور یہ اکیسویں صدی ہے اس میں آپ انسانوں کو غاروں کی طرف واپس لے جانے کی جتنی بھی کوشش کریں بے کار ہوگی ۔اس لئے آئے روز رد ہوتے رہتے ہیں کفر کے فتوے لگتے ہیں اور اسے ایک دل لگی سمجھا جاتا ہے۔ میرا دل کافی مچل رہا تھا کہ مولوی صاحب سے بھر ی مسجد میں سوال کروں ،کہ مولوی صاحب اگر ردپر آئیں تو ہم سب سر سے پیر تک اسی رد کی زد میں آتے ہیں ۔ ناروے اور ٹیلی نار پہ کیا موقوف۔ کفرتو مسلمانوں کے لئے واحدملت ہے ۔ پھر رد کریں اُس کپڑے کا جسے سنت سمجھ کر آپ پگڑی باندھتے ہیں ، اُس جوتے کا جسے "جاگر"کہہ کر ٹھلتے ہیں،اُس تسبیح کا جسے تبرک سمجھ کر دن رات پھراتے ہیں ۔اُس جائے نماز کا جس پر پانچ وقت کھڑے ہوکر سجدہ کرتے ہیں۔اور جو کپڑا آپ نے بغیر کالر کے سلواکر پہنا ہے اُس کپڑے کے لئے مشینیں کہاں سے منگوائی گئیں؟ ۔ اور کیا موبی لنگ اور زونگ کی کمپنیاں حسن بصری ؒ صاحب چلاتے ہیں۔۔۔۔اگر رد کرنا ہے تو سارے نظام کا کریں پھر بینکوں کے سودی نظام کا بھی رد کریں۔۔۔ اگر رد کرنا ہے تو زرعی ٹریکٹروں کا بھی رد کریں۔اگر رد کرنا ہے تو اُن تنخواہوں کا رد کریں ،جس کے جی پی فنڈ زمیں ہر سال سود در سود رقم جمع ہوتی ہے۔ اس رزق کا بھی رد کریں جو آپ کی پرواز میں کوتاہی لارہاہے(یعنی ان ہی حرام کھانے والوں کے گھروں سے آتا ہے)۔اور ہر ایک رد کے ساتھ ایک ایک متبادل بھی مہیا کریں ،کوئی اسلامی سِم بنائیں ، جس سے ہم مسلمان آپس میں بات کر سکیں۔ کوئی اسلامی موبائل فون بنائیں تاکہ ہم ۔۔نوکیا۔۔ اور سامسنگ، والوں کے در پر نہ جائیں۔
حالت تو ہماری یہ ہے کہ اگر ان ہی قابِلِ رد لوگوں نے ٹائلٹ پیپر نہ بنایا ہوتا تو کراچی اور لاہور میں مٹی کا ڈھیلا ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہماری عقل ٹھکانے آجاتی۔ہمیں معلوم ہے کہ ہم ایک ایسے سسٹم میں جکڑے ہوئے ہیں جو تعفن زدہ ہے۔ ہم ایک غلیظ اور تاریک کوٹھڑی میں کھڑے ہیں جس میں ہم آہستہ آہستہ دہنس رہے ہیں اگر کوئی ایک پیر نکالنے کی کوشش کرے تو دوسرا گھٹنے تک دہنس جاتا ہے۔ہم خود بھی اس سودی اور سرمایہ دارانہ سسٹم سے نکلنا چاہتے ہیں ۔لیکن کوئی اللہ کا بندہ کوئی مُلااُٹھے اور ایک نیا سسٹم دے ۔کتابوں میں نہیں زمین پر۔۔پچھلے تین سو سالوں سے میرے علم کے مطابق کسی بھی مُلا نے رد کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں کیا۔ہماری حیثیت اُس فوج کی طرح ہے جو اندھی ہوگئی ہو اور اُسکی سمت بھی گم ہوگئی۔ ہم فلسفہ اور منطق کو آج تک رٹ رہے ہیں۔کیونکہ کسی زمانے میں مسلمانوں نے غیر مسلموں کو جوابات دینے کے لئے یہ علم اپنایا تھا۔آج ہم اُسی مورچے پر فائر کررہے ہیں لیکن ہمارے دُشمن ایک اور مورچے میں گُھس گئے ہیں۔وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے مورچے میں بیٹھ گئے ہیں اور اُسی کا سہارا لیکر ہمارے گھروں میں گھس آئے ہیں۔ مسجد حرام تک موبائل پہنچا دیا ۔ افغانستان اور عرا ق کی حکومتوں کو حرف غلط کی طرح بیک جنبشِ قلم مٹا دیا ۔ اور ہم سینکڑوں بچوں کو منطق اور فلسفہ رٹوا رہے ہیں۔۔سمجھا نہیں رہے۔۔کہ شاید کوئی اعترض کرے تو ہم جواب دیں گے۔ اب کافر زبان سے اعتراض نہیں کرتے ، اب وہ دُنیا کے سامنے ہمیں حقیر اور ذلیل ثابت کر رہے ہیں ، باتوں سے نہیں عمل سے۔۔۔اور کوئی مولوی مجھے یہ بتا دے کہ جتنے بچے ان سینکڑوں سالوں میں منظق اور فلسفے نے تیار کیے اُن میں سے کتنے فیصد نے غیر مسلموں سے ملاقات کی اور اُن کو اپنی منطق سے قائل کیا۔۔۔۔ 
لیکن مرتا کیا نہ کرتا، ہم بھی اپنی باتیں اپنے دل میں لیکر اپنے گھر لوٹ آئے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ ہم مسلمان اختلافِ رائے پر گردن اُڑا دیتے ہیں۔ اگرعامی(ہم جیسے لوگ) بات کتنی بھی سچی کریں، لیکن سُنی مولوی صاحب کی جائے گی ۔ کیونکہ وہ اعلٰی ہیں اور ہم ادنٰی عوام۔۔ہم پہ جنبش لب کی وجہ سے کفر کے فتوے لگتے اور زندیق ثابت ہوجاتے۔کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر ڈاکٹر قدیر صاحب اور ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے منطق پڑھا ہوتا تو کیا کرتے۔۔۔آپ سے بھی یہ ایک سوال ہے۔ ۔۔میری تو یہ رائے ہے ،کہ وہ بھی آٹھ دس ہزار کی ماہوار تنخواہ لیکر ابھی تک رد ہی میں مشغول ہوتے۔۔۔یا جنازے میں بٹنے والے بتاشے اور نوٹوں کو کن اکھیوں سے دیکھتے۔۔۔مرحوم کے ورثاء کی جیب تاڑتے۔۔۔۔
خُدا نہ کرے کہ ہم مولوی صاحب کے بد خواہ ہیں لیکن سچ تو یہی ہے کہ نہ مولوی صاحب نے اور نہ اُس کے مکتب سے نکلنے والوں نے کوئی کمیونیکیشن سسٹم دیا نہ جیٹ بنائے، اور نہ ریڈار۔۔ کیا حضورﷺ ایسے مسلمان چاہتے تھے۔۔۔۔یا وہ مسلمان جو جہانگیر ہو، جو اللہ کا خلیفہ ہو ۔جو داہنے ہاتھ سے فیصلہ کرنے والا ہو،اور جسکا فلسفہ ہر ملکِ ملکِ مااست ہو۔۔۔ وہ غیور ہوں اور کسی کے ٹکڑوں پر پلنے والے نہ ہوں۔۔اگر کوئی ایسا سسٹم مولانا صاحب کی دسترس میں ہو تو ہم آج ہی سے اپنی سم اور موبائل توڑ کر اسلامی کمیونیکیشن اپنا لیں گے۔۔ اور اگر جواب وہی صبر، تساہل ،سرجھکا کر جینا ، اور امام مہدیؒ کا انتظار ہے تو ہم اُس وقت تک اضطرار کے قائل ہیں اور سب غیر مسلموں کی اشیاء بلا امتیاز اضطراری کیفیت میں استعمال کرتے رہیں گے۔۔۔۔
وسیم خان عابد
updated in 2018
written in August 2012

کالم: سیاہ۔ سی ، ڈائری۔۔۔

آجکل اخبارات و رسائل میں سیاسی ڈائریاں تو آئے روز دیکھنے کو ملتی ہیں مگر ہم نے سوچا کہ پیٹرن تھوڑا تبدیل کرتے ہیں اور ایک سیاہ۔ سی ۔ڈائری تحریر کرتے ہیں, حالانکہ کسی کو بینائی میں اضافہ کرنامقصود نہیں۔۔ حضرتِ اقبالؒ کے نام سے کون واقف نہیں۔۔ ، وہ تو جمہوریت کو بھیڑ بکریوں کاگنناکہتے اور نہ تولنے کا شکوہ کرتے۔۔۔ مگر اُنکا یہشکوہ پارٹی ٹکٹ دیتے وقت دور کردیا جاتا ہے ،کیونکہ ٹکٹ دیتے وقت عیاری اور مکاری کے ناپ تول کے لیے بڑے بڑے ترازو نصب کیے جاتے ہیں اور ٹکٹ کے ہر امید وار کے کالے کرتوت اُس میں تولے جاتے ہیں کہ فلاں نے ملک کا کتنا پیسہ لوٹا ،اب وہ کتنا پارٹی فنڈ دے سکتا ہے،کتنے ہنگامے کروائے کتنے کیسوں میں مطلوب ہے وغیرہ وغیرہ اور جسکا پلڑا بھاری ہو اُسے ٹکٹ عنا یت ہوجاتا ہے۔ایک بات اور جو آپ نے بھی نوٹ کی ہوگی کہ ہر وزیر مشیر حکومت میں ساڑھے چار سال سوئے ہوئے ضمیر کے ساتھ عیش کرتا ہے،مگر آخری پانچ مہینو ں میں اُسکا ضمیر جاگ جاتا ہے اور وہ انقلابی بننے کی کوشش کرتے ہوئے استعفی دے دیتا ہے ۔یہ سیاست کا گورکھ دھندا ہے ۔۔۔اور ان کی آنکھیں اتنے سخت پتھر کی بنی ہوتی ہے کہ جس حکومت کے ساتھ ساڑھے چار سال وزارتوں کے مزے اُڑاتے ہیں آخری دنوں میں زندیق ہو جاتی ہے۔۔۔اس مرتبہ تو چند دن پہلے ہی اتحادیوں نے راہیں جُدا کیں۔۔اب آتے ہیں آزادی کی طرف کیونکہ جمہوریت کا سب سے بڑا نعرہ ہی آزادی ہے اور سرمایہ داری نظام کی اس لونڈی کے پہلو میں اس سے بڑی ،اور پُر اثر چیز اور کوئی نہیں۔۔
آزادی کتنی ہوتی ہے دل تھام کے سُنیے۔۔۔۔
*وزیر یا نمائندہ صاحب نے علاقے کے تمام ترقیاتی فنڈز دورِ حکومت کے آخری چند مہینوں کے لئے مختص کیے ہوتے ہیں ،اور پھر ایک ایک ٹیوب ویل کے عوض پورے کے پورے گاؤں خریدے جاتے ہیں۔ یہ بات شاید شہروں میں رہنے والوں کی سمجھ میں نہ آئے مگر دیہاتوں میں رہنے والے اس سے بخوبی واقف ہیں۔
*کہیں پر یہ نمائندے قتل اور دوسرے سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کے مقدمات ختم کرنے کے وعدے کرکے بھی ووٹ اینٹھتے ہیں۔
*بڑے بڑے محکمے جیسے سوئی گیس اور واپڈا کو یہ نمائندے الیکشن کیمپین میں بطورِ ٹول استعمال کرتے ہیں(میرے علاقے میں آج بھی سوئی گیس کے نئے کنیکشنزالیکشن کے منتظر ہیں،کہ الیکشن آئے اور کوئی نمائندہ صاحب ہم پہ احسان جتاکر اپنا بنیادی حق عنایت کرے)۔۔۔واپڈا کے ٹرانسفارمر گھر کے دروازوں پہ ڈلیور کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔(اگر یہ لوگوں کا حق تھا تو پانچ سال کیوں روکے رکھا اور اگر حق نہیں تھا تو کیو ں اب دروازوں میں پڑے ہیں)
* الیکشن میں ملازمتیں ریوڑھیوں کی طرح بٹتی ہیں ۔ یعنی پچاس ووٹ ہیں، سو ہیں یا دوسو ، تو اتنی ملازمتیں آپ کے خاندان کے لئے مختص ہوگئیں۔(آپ خود اردگرد دیکھ لیں اللہ نے آنکھیں دی ہوئی ہیں اب میں ایک ایک سکول اور ہسپتال کا نام کیوں گنواؤں،جس میں خوانین اور سیاستدانوں کے پٹو بیٹھے ہیں)۔
*دین کو کرسیوں کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔(جس پہ مزید تبصرہ نہیں کرناچاہتا،کیونکہ گستاخی کا لیبل لگتے دیر نہیں لگتی،اور عوام دین کی سربلندی کے لیے گردن اُڑا دیتے ہیں)
*دیہاتوں کے لیول پر مشران خریدے جاتے ہیں ، اور ہر ایک کا اپنا مقررہ نرخ ہوتا ہے۔۔ یہ مشران مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے بھیڑ بکریوں کو پولنگ سٹیشنوں تک لاتے ہیں۔۔جو پانچ سال تک اُس کے ڈھیرے کے چکر کاٹتے ہیں۔۔۔۔۔
*ان ہی دنوں میں ۔۔۔ نعرہ ءِ حُبِ وطن مالِ تجارت کی طرح۔(بکتاہے) اور ، جنسِ ارزاں کی طرح دینِ خُدا کی باتیں ۔۔۔ کی جاتی ہیں۔
*پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی عوام کو ان نمائندوں کے تلوے چاٹنے پر مجبور کرتے ہیں ۔۔۔کیونکہ ہر تھانے کا ایس ۔ایچ ۔او ، خان جی ہوتا ہے اور خان خوانین کے فون سے ہی نرم پڑتاہے۔۔۔

اگر اب بھی جمہوریت سے آزادی کی توقع ہے ۔ تو آپ کی خام خیالی ہی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ یقین نہ آئے تو الیکشن میں کسی بھی پولنگ سٹیشن جاکر دیکھ لیں کہ جعلی ووٹ کیسے کاسٹ ہوتے ہیں، پولنگ سٹیشنوں کے باہر نوٹوں سے بھرے ہوئے تھیلوں کا کیا کام ہے۔علاقائی تعصب کی کالی پٹی کس طرح آنکھوں پر بندھوائی جاتی ہے۔۔ نوکریوں کے وعدے ، ٹھیکوں کے جھانسے، ہزاروں قسم کے پرمٹ، اور گریڈوں میں ترقیاں یہ سب آزادی کے نام پر پھندے ہیں۔۔۔مگر ایک بات اور بھی ہے کہ میرے ملک میں تو خالص چیزاب کوئی بھی نہیں۔ ۔مزدوروں کی بات کرنے والے بھی مِل مالکان بن گئے۔ اور انقلاب کی بات کرنے والے چند وزارتوں کے بھوکے نکلے۔چند لوگوں سے انقلاب کی توقع تھی مگر وہ بھی اس گھن چکر میں پھنس چکے ہیں اور خوانین اور وڈیروں کو ہی پارٹی ٹکٹوں سے نوازا جارہا ہے،جو پشت در پشت سیاسی اجارہ دار اور ٹھیکیدار ہیں۔ یا کم از کم کالے دھن والے تو ضرور ہیں۔۔ اگرچہ دُنیا کا دستور بن گیا ہے کہ جمہوریت کے خلاف بولنے والے کو سرمایہ داری نظام چین سے بیٹھنے نہیں دیتا ، لیکن جمہوریت اگر صاف شفاف ہو تو سو بسم اللہ مگرپانی کے نام پر تیزاب کون پیتا ہے۔۔۔

وسیم خان عابدؔ
updated in 2018

Saturday, 20 October 2018

(Dog collars)کالم: پٹے

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک دُبلا پتلا جنگلی کتا شہر کی طرف نکل آیا اور ایک نہایت پَلے ہوئے کتے سے ملاقات ہوئی ۔ پالتو کتے نے اپنی عیاشیوں کی داستان سنائی جس نے جنگلی کتے کے دل میں بھی پالتو بننے کی خواہش پیدا کی ۔لیکن پھر اچانک اُسکی نظر پالتو کتے کی گردن میں پڑے ہوئے پٹے پر پڑی اور پالتوبنے پر کمزوری اور بھوک کو تر جیح دی۔۔۔ خیر یہ تو ایک حکایت تھی اور سینکڑوں مرتبہ دھرائی ہوئی،مگر یہ چھوٹی سی حکایت زندگی کا ایک عظیم فلسفہ پیش کرتی ہے۔کہ پُرتکلف زندگی سے آزادی ہزار درجہ بہتر ہے مگر ہم نے یہ حکایت سینکڑوں مرتبہ سننے کے باوجود ایک مرتبہ بھی غور نہیں کیا،اور اُن پٹوں پر کبھی نظر نہیں ڈالی جو ہماری گردنوں میں کَس کر باندھے گئے ہیں۔
امریکہ کے پٹے کا طعنہ تو ہر حکومت کو دیا جاتا ہے۔۔اور جن لوگوں نے الیکشن سے پہلے یہ پٹہ پہننے سے انکار کیا تھا ،اب اضطراری طور پر پہن رہے ہیں۔۔ خیر یہ تو جملہءِ معترضہ تھا ۔مگر میں آج اُن چھوٹے چھوٹے پٹوں کی بات کروں گا جو گلی ، محلے ،ضلع اور صوبے کی سطح پر ہماری گردنوں میں ڈالے جاتے ہیں۔اور یہی ایک قسم کی ریہرسل ہے جو ہمیں امریکہ بہادر کے بڑے پٹے کے لیے تیار کرتی ہے۔ارسطو نے کہا تھا۔۔مجھے سقراط پیارا ہے مگر سچائی اُس سے کہیں زیادہ پیاری ہے۔۔ 
اوریہی وہ اخلاقی معراج ہے جس کے بعد قوم نہ جھکتی ہے اور نہ بکتی ہے۔کیونکہ سچائی سے محبت کرنے والا نہ اکابر پرست ہوتا ہے،نہ مقابر پرست ہوتا ہے،نہ زرپرست،نہ پارٹی پرست اور نہ مخصوص ادارہ پرست،بلکہ ایک آزاد خود دار اور بہادر انسان ہوتا ہے۔وہ سچ کہتا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہے۔
جب معاشرے کاگرس روٹ لیول سے جائزہ لیتے ہیں تو عوام کی گردنوں میں برادری ، خان خوانین،جاگیر داروں اور پارٹیوں کے پٹے چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں،پٹے سب کے سب ایک جیسے ہوتے ہیں اور سُرخ یا سبز کی وجہ سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔ہم نے کبھی بھی آزاد قوم پیدا کرنے کی شعوری کوشش نہیں کی،اور جھکڑے ہوئے احساسِ کمتری کے شکار مریضوں میں اضافہ کرتے رہے ۔آج اگر مخالف پارٹی کوئی بہت اچھا اور اعلٰی کام بھی کرلے لیکن جس کے گلے میں پٹہ ہو وہ مکھی کی طرح سب اچھا میں زخم ڈھونڈ کر وہیں بیٹھنے کی کوشش کرے گا، کیونکہ اصل مسئلہ مخالفین کے کام میں نہیں بلکہ اُس پٹے کا ہوتا ہے جو گردن میں پڑا ہوا ہے۔۔ اسی طرح جب ایک چھوٹی سی بچی دُنیا میں سراہی جاتی ہے تو ہمارے پٹوں میں پڑی ہوئی رسی پتہ نہیں کہاں سے ہلائی جاتی ہے اور ہم اُس بیچاری کے خلاف غوغائے رستخیز شروع کردیتے ہیں۔ کیوں؟ ۔۔ کیونکہ جس گلے میں پٹہ پڑا ہو وہ کبھی بھی اپنے دل کی اور ضمیر کی نہیں سُنے گا بلکہ پٹہ ڈالنے والے کی ایما ء پر بولے گا خواہ دانشور ہو ،صحافی ہو یا کوئی اور۔۔ !میرا مسئلہ ملالہ کی وکالت نہیں بلکہ میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے کسی کی تھپکی پر شور مچانا اشرف المخلوقات کا کام تو نہیں، تھپکی پر تو شور صرف پٹے والے ہی کر سکتے ہیں۔علاقائی لیول پر آئیں تو خان خوانین کے پٹوں والے نہایت پُرتکلف زندگی گزار رہے ہیں ،ہر محکمے میں پٹے والے بیٹھے ہیں ، ہر بڑی کرسی والے کے گلے میں کسی کا پٹہ پڑا ہے اور جب رسی کھینچی جاتی ہے تو پٹے والا ری ایکٹ کرتا ہے۔ پٹے والے کی سیدھی سادی پہچان اتنی سے ہے کہ گردن میں سریہ ہوگا مگر ریڑھ کی ہڈی نہیں ہوگی۔۔اپنے اردگرد ،دیکھ کر تجزیہ کر لیں۔۔
کہیں پڑھا تھا کہ ہجوم میں عقل نہیں ہوتی بلکہ جذبات ہوتے ہیں ، سیاسی ورکروں سے جب ملتے ہیں تو بات ایک کے بھی پلے نہیں پڑتی مگر اپنے چمکتے ہوئے پٹے کی وجہ سے پھدکتے پھرتے ہیں ۔اکثریت کے پاس اپنے فعل کا کوئی جواب ہی نہیں ہوتا ،کچھ خدااور رسولﷺ کے کاندھے پر اپنی مقاصد اور مفادات کی بندوق رکھتے ہیں،اور کچھ کا قبلہ واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان گردش کرتا رہتاہے۔۔۔
ہمارا کوئی بھی مسئلہ اتنا بڑا نہیں جتنا پٹے کا مسئلہ ہے۔نہ معاشی ،نہ سیاسی اور نہ دفاعی آج ہم پیچھے ہیں تو صرف اور صر ف اپنی اخلاقی تنزلی کی وجہ سے اور میری اخلاقیات دینداروں کی طرح صرف جنسیت کا طواف نہیں کرتی بلکہ رشوت، اقرباء پروری، میرٹ کا قتل، ظالم کی مدد ،مظلوم کامضحکہ ،مفاد پرستی،بے جا عقیدت،عدل وانصاف کا مذاق اُڑانااور مفاد پرستی جیسی سب برائیوں کا سدِباب چاہتی ہے۔ ۔ہم میں کوئی بھی پاکستانی نہیں کیونکہ ہم یا رائٹسٹ ہیں یا لیفٹیسٹ، یاپارٹی لور ز،یا وردی لورز،لیکن پاکستان لور کوئی بھی تو نہیں ۔ہم میں سے ہر ایک اپنے پٹے کی چمک کے لیے لڑ رہا ہے اور سچائی کہیں دور اندھیروں میں گم ہو چکی ہے ۔۔موجودہ 2018کو دیکھ لیں۔۔اتنی بھونڈی اور فضول باتوں کی سوشل میڈیا پہ وکالت ہو رہی ہے کہ الامان الحفیظ ۔۔۔ ہر پارٹی اور چند ایک اداروں نے کچھ پالتو سوشل میڈیا کے لیے ہائر کیے ہیں اور وہ ہر بات کا دفاع کر رہے ہیں۔۔۔ اتنا عظیم پروپیگنڈہ ہو رہا ہے کہ سادہ دل لوگوں کو دایاں بایاں سجھائی نہیں دے رہا اب ایسے ماحول میں ترقی کیسے ہو۔۔۔ کیوں دُنیا میں نام روشن ہو۔۔۔کیوں امن و سکون قائم ہو۔۔۔۔ایک اور مذاق جوآجکل اکثر دیکھنے کو مل رہا ہے کہ نوازشریف کے کسی غلط کام پر تنقید کر لیں۔۔تو آپ کو پی۔ٹی۔آئی والا سمجھ لیا جاتا ہے، پی۔ٹی۔آئی کے متعلق بات کریں تو ،ن لیگی،محروم قوموں کے حق یا آئین کی پاسداری کی بات کریں تو فوج کا دشمن اورارضِ پاک کا غدار۔۔لیکن ان سب کے لیے اتنی سی عرض سے کہ کوئی آزاد بھی تو ہوسکتا ہے، پٹے کے بغیر۔۔۔۔۔ اگر دیس کی بھلائی مقصود ہے تو سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اپنے اپنے پٹے اُتار پھینکیں،سچ کا ساتھ دیں ،تنقید اپنے ضمیر کے مطابق کریں کسی پٹے کے زیرِ اثر نہیں۔۔ اور پھر کسی حکمران سے شکوہ کریں۔۔ ۔ورنہ بیٹھے رہیں اپنے اپنے پٹوں کو چمکانے۔۔۔۔۔۔اور لٹتا دیکھیں اپنی قوم کی عزت و غیرت۔۔۔
وسیم خان عابدؔ 
(updated in: 2018)

ڈائری: خدا کے ہاتھ میں ہے آب و دانہ کون کہتا ہے

اُن دنوں میری ڈیوٹی برانچ لائن کے ایک سٹیشن پر تھی۔ جب ایک صُبح ریل گاڑی سے اٹھارہ کے قریب مسافر اُترے جومسافروں سے زیادہ مداری لگ رہے تھے۔ کالے سے اُترے ہوئے چہرے اور بڑے بڑے بیگ لئے پلیٹ فارم کا طواف کرنے لگے۔ اُن کی بے چینی دیکھ کر میں نے ایک ملازم کو بھیجا کہ جاکر اِن مسافروں کی تکلیف معلوم کرو۔ گرمی کا موسم ہے اور یہ دو گھڑے سٹیشن کا پانی صرف آدھے گھنٹے میں پی چکے ہیں ، اور اگر طواف کی یہی حالت رہی توبعید نہیں کہ یہاں بھی صحرائے تھر کے حالات پیدا ہوجائیں۔ وہ ملازم اُن سے ملنے کے بعد دوڑا دوڑا آیا۔۔ صاحب جی! ۔۔ یہ توگانے بجانے والے ہیں اور سامنے والے گاؤں میں پروگرام کے لئے آئے ہیں۔ ان کا گلوکار ان کے پیچھے اپنی کار میں آرہا ہے ۔ لیکن ایکسٹرا کو بذریعہ ریل بھیجنا ہی مناسب سمجھاکیونکہ یہ سفر سستا پڑتا ہے۔ اور میں نے بھی سوچا کہ واقعی آجکل تو ریل کی حالت ایکسٹرا بھیجنے کی ہی رہ گئی ہے۔ ہم نے دفتر سے باہر نکل کر اُن سے بات کی۔۔۔ بات کرنے میں بھی اپنا ہی فائدہ سوچا ۔۔ کیونکہ کیا پتہ آج گرد سے اٹے یہ چہرے کل چھوٹی سکرین یا بڑی سکرین کی عظیم ہستیاں بن جائیں۔ اور سلیبرٹی بن کر لوگوں کو ایک جھلک دکھلانے کیلئے تڑپائیں اور قوم قطاروں میں کھڑی ہوکر ان کے انتظار میں اپنا وقت خراب کرے یا چہرے ان کے قریب لیجا کر موبائل کے سامنے والے کیمرے سے تصاویر کھینچیں جنھیں سیلفی کہا جاتا ہے۔۔۔ کیونکہ سب بڑے چہرے اسی برادری سے آئے ہیں اور پھر ایوان اور بندوق والوں کو اپنا گرویدہ بنا کر سکرینوں پر راج کیا۔۔۔ ۔ اہلِ ثروت و اقتدار ان ہی کے قدموں پر جھکتے ہیں۔ہم تو ایک معمولی سر کاری ملازم ہیں ہماری اوقات کیا کہ ان سے بات نہ کریں۔۔۔۔
اُن کی تعداد اٹھارہ تھی لیکن سولہ مردوں کے علاوہ ان میں دو سولہ سترہ سال کی عمروں کے نیم مردقسم کے انسان بھی تھے۔ یہ لڑکے داڑھی مونچھ سے بے نیاز تھے، اُنکی زلفیں شانوں کو چُھو رہی تھیں اوروہ مٹک مٹک کر چل رہے تھے۔۔۔ بات بات پر اپناہاتھ بالوں میں پھیر کر اپنی انگشتِ شہادت سے رخساروں کو چُھوتے ۔ کمر اور شانے ایک طرف جھکا کر نچھلا دھڑ دوسری طرف جھکاتے اور زنانہ آواز میں مختصر کلام کرتے۔۔ باقیوں میں سے ایک کا منہ تو حد سے زیادہ بڑا تھااور جب بات کرنے کیلئے اسے کھولتا تو سرکاری ذبح خانے کی یاد تازہ ہوجاتی۔انھوں نے بطورِ یادگار اپنے منہ سے پان کے کچھ دستخط پلیٹ فارم پر کیے جو تا دمِ تحریر زند و جاوید ہیں۔۔۔۔ وہ غیر ارادی طور پر باتوں کے درمیان منہ ایک طرف کرکے مُنی۔۔۔۔۔ مُنی ۔۔۔۔۔۔۔ کی صدائیں نکالتااور درمیان میں آ۔۔۔۔سا۔۔ ۔۔رے۔۔۔۔ی۔۔ کی آوازیں نکالتا۔۔۔ ہم ادھر اُدھر دیکھنے لگے یہ ہماری کم فہمی تھی کہ ہم سمجھے کہ شاید کوئی صنفِ نازک بھی اُن کی شریک سفر ہے۔لیکن جب اُن کے منہ سے بد۔۔۔نام ۔۔۔۔ کا لفظ چند قسطوں میں نکلاتو عقدہ کھل گیا کہ مُنی تو ہمارے پڑوسیوں کی بدنام ہے اور اُنھوں نے اسکی اطلاع اپنی قوم کو ایک گانے کے ذریعے دی ہے۔خیر اُنکی کونسی مذہبی ممانعت ہے وہ تو شیلا کی جوانی، رضیہ کے پھنسے اور مختلف بائیوں کی بے شرمی والی خبریں گا کر دیتے ہیں اورانکی قوم خوش ہوکر فخر کرتی ہے۔۔۔۔ ہم تو غیرت مند اسلامی ملک کے باشندے ہیں ہماری مُنی جوکچھ کرے اُنھیں ہم بدنام ہونے نہیں دیتے ۔۔۔ ورنہ لائن بنا کر بِلو کے گھر جانا کونسے مسلمانوں کے کام ہیں۔۔۔ حال ہی میں ہماری ایک مُنی پڑوسیوں کے گھر گئی تھی اور وہاں غلطی سے کسی مرد کا مساج کر دیا حالانکہ اُس بیچاری کو بلکل پتہ نہیں تھا کہ یہ لمبے بالوں والا مر د ہے۔ ۔۔اور پھر ایک مولوی صاحب کے زیر عتاب آگئی اس لئے ہلکی پھلکی بدنامی ہوئی لیکن مُنی جتنی نہیں تھی۔۔ ۔ ورنہ کون ہے جو اسلامی ملک کی مُنیوں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے ہم تو عزت کیلئے اُن کے ساتھ بیگم یا شاہدہ کے سابقے یا لاحقے بھی لگاتے ہیں۔ اور پھر یہاں قانون اور آئین کی حدیں آج بھی موجود ہیں اور تھانیدار کی حدیں آج بھی لامتناہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُن کے ساتھ ایک پڑھی لکھی صورت والابندہ بھی تھا جس نے قریب آکر مُنی کے گیت پر منہ سے ڈھول بجانا شروع کیا۔۔ میں نے جب اُسکی شکل وصورت کو دیکھا تو بہت دکھ ہو کہ کاش یہ ہمارے علاقے میں ہوتا تو پرفیسر وں میں شمار ہوتا۔ہمیں بھی ہمارے علاقے والے ہماری تعلیم سے زیادہ عزت دیتے ہیں ۔کیونکہ ہمارے علاقے میں تعلیم استری کپڑوں اور کنگھی شدہ بالوں پر قیاس کی جاتی ہے ۔ ورنہ ہمارے ایک دوست تو شکل سے ہی جاہل لگتے ہیں اور وہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اپنی شکل کی لاج رکھتے ہیں ۔۔وہ صاحبان اپنی تال سے فارغ ہوکر ہماری طرف داد طلب نظروں سے دیکھتے اور ہم سبحان اللہ کہہ کر اُنکو داد دیتے۔
اُنھوں نے کہا کہ ہم ایک گروہ کی شکل میں پروگرام کیلئے جاتے ہیں۔ ان میں سے فلاں بندہ کھانا پکاتا ہے ، فلاں ڈفلی بجاتا ہے، فلان بانسری والا ہے۔فلان فلان ویل اکھٹی کرتے ہیں جو سب سے زیادہ تعداد میں تھے اور فلان ہوائی باجہ بجاتا ہے جس کو ایک ہاتھ سے بجایا اور ایک ہاتھ سے پنکھا ہلا کر ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔۔۔بڑے منہ والا ڈرم بجانے والا تھا اور دو نازنین جیبیں ڈھیلی کرنے کے ہتھیار تھے۔ انھوں نے ہمیں بھی پروگرام دیکھنے کی دعوت دی جس کو ہم نے بہ سر و چشم قبول کیا۔ملازم سے ایک گھڑا مزید پانی پلانے کا کہا جس کی تعمیل فورََا ہوئی۔ وہ کچھ دیر وہاں بیٹھے رہے اور پھر ایک گاڑی اُنھیں اپنی منزل مقصود کی طرف لے گئی۔۔۔
رات کے کھانے کے بعد میں نے اپنے ساتھی سے اجازت چاہی اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اجازت دے گیا۔ہم جب مطلوبہ مقام پر پہنچے تو لوگوں کا ایک جمِ غفیر تھا، اور شاید کھوے سے کھوا بھی چھل رہا تھا۔ چند منٹ بعد بسم اللہ سے اس پروگرام کا آغاز ہوا کیونکہ ہم مسلمان ہیں، اور شراب بھی داہنے ہاتھ سے پینے کے عادی ہیں ۔ ہمیں شراب کے لئے تاویل مِل جاتی ہے ، کبھی اسے انگور کا جوس کہہ لیتے ہیں اور کبھی پھلوں کا رس، لیکن پینا پلانا دائیں سے بائیں ہاتھ کی طرف ہوجائے تو سیدھا ۔۔۔نارُُحامیہ۔۔ اور اگر مخالف پارٹی کا بندہ کر ے تو مردود، گمراہ اور بعض اوقات واجب القتل تک بات پہنچ جاتی ہے۔۔ ڈھول کی تاپ پر بسم اللہ سُنی تو ایک عجیب سی کراہت محسوس ہوئی لیکن ہم کوئی واعظ تو تھے نہیں کہ سٹیج پر جاکر نصیحت کرتے اور آئے بھی کنجروں کی دعوت پر تھے اس لیے چُپ ہی رہے۔۔لوگ کنجر کہتے ہیں میں تو فنکار ہی کہتا اور مانتا ہوں۔۔۔ 
بڑے گلوکار صاحب سفید شلوارپر سُرخ رنگ کی قمیص پہنے دس پندرہ زنجیروں والی لاکٹ گلے میں ڈالے اپنے سینے سے نکلے ہوئے پیٹ کیساتھ ہوائی باجے کے پہلو میں تشریف فرما تھے ۔ لمبے لمبے بال ، اور اُس پہ سیاہ رنگت سُرخ رنگ کی قمیص کو چار چاند لگا رہے تھے۔ ۔اس نے باجے پر اُنگلیاں پھریں اور آ۔۔او ۔۔۔ کا شور شروع کر دیا لیکن ڈھولک کی تھاپ اور بانسری کی آواز اُسکا شور قابلِ قبول بنا رہی تھی۔۔۔ پھر نبی پاکﷺ کی شان میں اسی ڈھولک کی تھاپ پہ کچھ پنجابی میں سنایا اور پھر دم مست قلندر مست مست ہوگیا۔۔۔ وہ دو نو عمر نوجوان الہڑ مٹھیار نیاں بنی ہوئی تھیں لڑکیوں کے زرق برق کپڑے، سولہ سنگہار اور اُس پہ عورتوں کے دل کَش لوازمات یا دِل کُش بھی کہہ سکتے ہیں بڑے سلیقے سے سجائے گئے تھے۔۔ خان صاحب تو ویسے ہی اس باب میں بدنام ہیں، ورنہ حمام میں سب ہی ننگے ہوتے ہیں یا ننگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان شوخ حسیناؤں نے ایسا میک اپ کیا تھا کہ ہم نے کئی اداکاراؤں کو چھٹی دے دی۔ ۔۔سارے دل اِن حسیناؤں پہ مائل تھے۔۔۔ اور چند ایک فریفتہ۔۔۔اُن کے پیروں میں گھنگرؤں کے بڑے بڑے پٹے تھے جو تان کے ساتھ چھن چھن کر رہے تھے۔ دم مست قلندر پہ ان حسیناؤں نے وہ رقص کیا کہ قلند کی کیا مجال ہم جیسا خشک مزاج بھی مست ہونے لگا۔۔ پیچھے چند بوتلیں بھی نظر آئیں اور حسیناؤں نے دو تین کش چرس کے بھی لئے۔۔۔ بوتلوں پر ہم کوئی فتوی لگانے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ ہمیں کونسی پہچان ہے ایسی چیزو ں کی ۔ اور دوسری وجہ ہماری قدرتی شرافت ہے جو تنگ دستی نے فراہم کی ہے اس لئے بوتلوں کی پہچان نہ ہوسکی۔ ۔۔۔کُلو۔۔۔ تو ہم نے نہیں دیکھا لیکن۔۔۔ وشربو۔۔۔ ساری رات چلتا رہا اور چرس کو بھی اسی میں شامل کیا جائے۔ ایک ایک بندہ اُٹھتا ہے اور پانچ روپے کی گڈی پھینکنا شروع کرتا ہے گانا ختم ہوتا ہے لیکن نوٹ ابھی تک باقی ہوتے ہیں ۔لیکن اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ بڑے نوٹ پھینکنے والے نہیں تھے ۔۔ وہ بھی بدرجہ اتم موجود تھے۔
کون کہتا ہے کہ پاکستان میں غربت ہے ۔ پاکستان میں غربت بلکل نہیں یہ مصنوعی غربت ہے جو چند سانپوں نے پیدا کی ہے۔ یہ سانپ اُس خزانے پر بیٹھے ہیں جو قوم کی امانت ہے اور جن سے قوم اپنا حصہ پیروں میں گنھنگرو باندھ کر اور بے غیرت بن کر نکال رہی ہے۔۔ ۔ اُٹھ کر اپنا حصہ چھینتی نہیں۔۔۔ یہ ناگ عوام کو اُنکا حق بے عزت کیے بغیر کبھی نہیں دیتے۔ پیروں میں گھنگرو نہ بھی ہوں پھر بھی دفتروں میں جُھک کر اور اہل ثروت کے ہاں اپنی عزت گروی رکھ کر بھی یہ حق لیا جاتا ہے ۔ لیکن دونوں کام ایک سے ہیں صرف ظاہر کا فرق ہے۔۔۔ خیر دم مست قلندر کے بعد دما دم مست قلندر ہوا اور حسینائیں وہ ناجیں کہ ریما اور انجمن کا سکہ ذہن سے اُتر گیا۔اپنے جسم کا ایک ایک انگ ہلایا ۔ وہ حصے بھی ہلائے جو یا تو پبلک ٹرانسپورٹ یا آپریشن تھیٹر میں ہلائے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہمارے ایک عزیز بھی بغیر ہاتھ لگائے اپنا کان ہلا لیتے ہیں ۔۔ تو ایک دوست نے پھبتی کسی کہ یہ کام تو سارے گدھے کرتے ہیں اس میں حیران ہونے کی کونسی بات ہے۔۔۔۔۔
رقص کا ہمیں کوئی خاص ذوق نہیں اور نہ ٹھمکے کی سمجھ ہے کیونکہ یہ تو الیکشن جیت کر ایوان میں جانے والوں یا سرمایہ داروں کے مقدر میں ہوتے ہیں، پھر بھی لوگوں کی زبانی سُن رہے تھے کہ ایک حسینہ بڑے جاندار ٹھمکے لگا رہی تھی۔لیکن جسم ہلانے کی داد ہم جیسے بدذوق نے بھی دی۔یہی ہلنا جھلناشاید ٹھمکے ہوں۔۔۔۔ حسینائیں تھک کر بیٹھ جاتیں کچھ پی لیتیں اور پھر سے پسینے سے شرابور بدن ہلانا شروع کرتیں۔ گلوکا ر ایک مخصوص سا اشارہ اُنھیں کرتااور وہ تماشائیوں اور خاص کر کرسیوں پر بیٹھے ہوئے امیروں سے نین مٹکا شروع کرتیں۔ وہ اُمراء دل کھول کر داددیتے اور اُنکے ادھے منٹ کے قرب کے لئے اپنی دولت اُڑا دیتے۔۔ ہمارے ایک دوست کو اللہ سلامت رکھے دووقت کے کھانے پینے کو بھی اسراف میں شمار کرتے ہیں اور ایک حدیث کا حوالہ دیکر عام لوگوں کو شیطان کا دوست ثابت کرتے ہیں ۔ اچھا ہوا کہ وہ اس محفل میں نہیں تھے ورنہ اس فضول خرچی پر کفر کا فتوی ضرور دیتے۔۔۔۔ پیسے پھینکنے والے کو شاید کوئی لذت ملتی ہو یا اس طرح وہ اپنی انا کی تسکین کرتے ہوں، کہ یہ حسینائیں اُن کے پہلو میں کھڑی ہیں اُن کے ساتھ ہاتھ ملارہی ہیں ۔۔۔اور وہ اپنے آپ کو باقی حاضرین سے ممتاز سمجھ رہا ہو۔۔۔ ایک سفید داڑھی والے باباجی ڈھول کے پاس سے صُبح تک نہیں ہلے۔ حسیناؤں کو آنکھوں کے ساتھ ساتھ مُنہ سے بھی دیکھ رہے تھے کیونکہ آنکھوں کے ساتھ ساتھ منہ بھی صُبح تک کُھلا تھا۔۔۔ ایسے باباجی تو ساری زندگی ایسے مولوی کی تلاش میں ہوتے ہیں جو اُنھیں لیٹ کر نماز پڑھنے کی اجازت دے۔۔ لیکن یہاں اُسکا منہ اور ایکسرے جیسی آنکھیں ان حسیناؤں کے طواف میں سارے میدان کا چکر کاٹ کر بھی تھکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔۔۔ ایک اور بندہ گھر سے سفید لٹھے کے سوٹ پہن کر آیا تھا اور باجے کے قریب ہی بیٹھا تھا جب پیسنے سے شرابور یہ حسینائیں آکر اُسکے پاس بیٹھتیں تو اُن سے دوچار باتیں کرتا اور باقی وقت مجمع کو فاتحانہ نظروں سے دیکھتا ، کہ دیکھو اِ ن حسیناؤں کا قرب صرف مجھے ملا ہے اور اُن کی بے تکلفی صرف میرے ساتھ ہے۔ ویسے کچھ لوگوں کو حُسن سے کچھ سروکار نہیں ہوتا لیکن لوگوں کی نظروں میں آنے کے لیے ایسی اوچھی حرکتیں کرتے ہیں، اور اسے اپنی عزت سمجھتے ہیں ورنہ معاشرہ اُن کے کردار پر تھوکتا رہتا ہے۔اور مجھ جیسے لوگ تو اُس پر زیادہ تھوکتے ہیں کیونکہ حسرت بھی کسی چیز کا نام ہے۔۔۔۔
ہم بھی ناکردہ گناہوں اور حسرت کی داد مانگنے والے ہیں، کیونکہ غالبؔ نے بھی کردہ گناہوں کی سزا پر یہی شکوہ کیا تھا۔ہم نے کبھی منہ سے قرب نہیں مانگاجس طرح سیاسی مولانا صاحب منہ سے بڑی کرسی نہیں مانگتے۔۔ ارادے اور اشارے پر کوئی حد ہو تو ہم اور مولانا صاحب دونوں مناظرے کیلئے تیار ہیں۔ ۔۔ ہم جیسے گئے تھے ویسے ہی آگئے ۔۔ یعنی ویل نہیں دی۔۔ سننے کا گناہ اس لئے نہیں لائے کہ پنجابی ہمارے پلے کہاں پڑتی ہے۔۔۔ اور ہم گئے بھی عبرت حاصل کرنے کیلئے تھے جس طرح دینی مدارس کے طالب علم ہندوستانی فلمیں دیکھتے ہیں۔۔ ۔ہم نے بھی دل کی بھڑاس نکالی اور رات چار بجے تک جسے یار لوگ صبح کہتے ہیں پروگرام کو خونخوار نظروں سے دیکھا۔مجال ہے کہ کسی نے خلافِ شرح کام کو سراہا ہو اور ساتھ والے ساتھی کو بھی تبلیغ کرتے رہے۔ لیکن لاؤڈسپیکر کی آواز سے ہماری تبلیغ ہمارے منہ میں رہ گئی۔
ہم نے اپنے ملازمین کے چہروں پر اکتاہٹ دیکھی اور وہاں سے جانے کا قصد کیا۔ جاتے جاتے ایک نظر پھر سے اُن جسموں پر ڈالی جو پسینے سے شرابورناچنے میں مصروف تھے۔ لیکن اس دفعہ وہ مجھے کسی دیہاڑی دار مزدور کی طرح محسوس ہوئے ۔ اُس مزدور کی طرح جو صُبح سے شام تک اینٹیں اُٹھاتاہے یا کسی مِل میں کام کرکے اپنا پسینہ بہاتا ہے ۔اوراُنکے مالکان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کروڑوں کماتے ہیں ، لیکن اُسے دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ ان مزدوروں کی لچکتی کمر اور تھرکتا جسم مزدوری سے زیادہ کچھ نہ تھے۔۔۔ ذہن میں ہزاروں سوالات کروٹیں لے رہے تھے، دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھاکہ اے مولا!! میرے اس دیس میں بندہ مزدور کی اوقات اتنی دگرگوں کیوں ہیں۔ کیوں ایک بندہ صبح سے شام تک دھکے کھا کر اپنی قابلیت کے باوجود اپنی پیٹ کی آگ نہیں بجھا سکتا اور نااہل کرسیوں پر بیٹھ کر کیوں اربوں کھربوں کماتے ہیں ۔۔۔ سارے لوگ جو گھر سے ہشاش بشاش آئے تھے، اب کرسیوں پر تھکن کی وجہ سے لیٹ گئے تھے اور یہ ناچنے والے اپنے گرد آلود ہ پاؤں ، مُردہ ضمیر، بُجھی آنکھوں اور مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ پسینے سے شرابور جسم ہلا ہلا کر اپنا رزق کمارہے تھے۔۔۔۔ کسی سر پھرے کا شعر بار بار ذہن کے پر دوں سے نکل کر زبان تک آنا چاہتا تھا اور ہم اپنے عقیدے کے باعث بار بار روک رہے تھے۔لیکن۔۔
یہاں تو آدمی کا آدمی محتاح ہے یارب
خدا کے ہاتھ میں ہے آب و دانہ کون کہتا ہے
نے شعور اور لاشعور کے درمیان حائل پُرانی اور مذہبی دیوار کو گرا کرخوب ٹھٹھا کیا۔۔۔۔۔
wasim Khan Abid
Written in November,2013

Friday, 19 October 2018

کھٹا میٹھا: میرا امتحانی ہال

جب سے سکول جانے کے لئے بستہ اُٹھایا ہے اُسی دن سے امتخانات میرے اعصاب پر ایسے سوار ہوئے ہیں جیسے مشرقی ادیبوں کے ذہنوں اور فنونِ لطیفہ پر عورت۔۔۔بچپن میں امتحانات سے اتنے خوفزدہ رہتے تھے کہ امتخانات کا نام سُن کر غش کھانے لگتے اور پھر ڈرتے ،کتراتے اور جھجکتے ہوئے میڈم صاحبہ کے سوالات کے جوابات دیتے لیکن پتہ نہیں کیوں پاس ہوجاتے۔۔۔پھر پانچویں جماعت میں پہنچے تو بورڈ کے امتحانات کا شوشہ سُنااور خُدا گواہ ہے کہ بلیک بورڈ کے سوا اُس وقت ہمارا ذہن کسی اور بورڈکو تسلیم کرنے کے قابل نہ تھا۔ والدین نے چونکہ پرائیویٹ سکول میں پڑھانے کا تکلف کیا تھا اسی وجہ سے سکول کے پرنسپل صاحب عصر کے وقت پانچویں جماعت کے طلباء کو سکول میں بلاتے اور ایک ایک عدد ہاتھ سے لکھا پرچہ تھماتے، کہ" ہم نے گیس کیا ہے کل پرچے میں یہی آئے گا" اور پھر پرچے میں ایک لفظ بھی اُس گیس پر چے سے باہر نہ ہوتا ، اور ہم اُس گیس پر آج تک سوچ رہے ہیں۔۔۔کہ یا اللہ ایک بندہ اتنا مکمل اندازہ کیسے لگا لیتا ہے۔۔۔ پھر میٹرک کے امتحانات میں جس ہال سے پالا پڑا اُس کا معزز سٹاف ہمارے پڑوس کے ایک استاد کی بیٹھک میں مرغن غذائیں اُڑاتا اور ہال میں اُس کے لاڈلے کے لیے خود باہر جاکر تعویز لاتا۔پھر ایف۔اے، بی ۔اے اور ایم ۔اے کے ہالوں کا سامناہوا، اور کہیں بھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھی سوائے چہروں کے۔۔۔ایک ایسے ہال سے بھی واسطہ رہا جہاں کے پرنسپل صاحب نے ڈیوٹی کے سٹاف کو خریدنے کے لئے ہم سے بزورِ بازو ہزاروں روپے اکھٹے کیے۔۔اگرچہ اپنی شخصیت کی جھجھک اور خوف کی وجہ سے ہم ایک لفظ بھی کسی کاغذ کے پرزے سے نہ لکھ سکے، مگر اسے میری شرافت اور دیانت نہ سمجھا جائے بلکہ میری بزدلی پر قیاس کیاجائے۔۔۔
پچھلے سال ایک دوست کے بہکاوے میں آکرسرکاری نوکری ہونے کے باوجود ایم اے اُردو کرنے کا فیصلہ کیا ،اور پرائیویٹ کینڈیڈیٹ کے طور پر امتحانات میں حصہ لیا۔ ہال میں ان گنہکار آنکھوں نے وہ کچھ دیکھا کہ انسان صرف تصور ہی کر سکتا ہے۔۔ 
جب پہلا پرچہ شروع ہونے جارہا تھا تو ہم اپنے دوست کے ساتھ اپنی روش کے مطابق پانچ منٹ لیٹ پہنچے، اور لیٹ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم صبح صبح اپنے رٹے کو تازہ کرنے کی کوشش کررہے تھے، یا شاید فوٹو میموری کے ذریعے کورس کی تصاویرآنکھوں سے کھینچ رہے تھے، مگر ہر امتحان میںیہی معمول ہے اور لیٹ ہونے کا ریکارڈ ابھی تک نہیں ٹوٹاحتی کہ پی۔ایم۔ایس اورسی۔ایس۔ایس، میں بھی اپنی روش پر قائم رہے۔۔ خیر سٹاف والے ہم سے بھی سست ثابت ہوئے اور ابھی تک جامہ تلاشی میں مصروف تھے۔ایک کچڑی داڑھی والے حضرت صاحب جس کے چہرے پر مصنوعی رُعب نے ڈیرے ڈالے تھے اور چہرہ ءِ انور سے نور کے قطرے ٹپک رہے تھے لڑکوں کی جامہ تلاشی کچھ اس انداز سے لے رہے تھے جیسے مقابلہءِ حسن میں ماڈل لڑکیوں کے کَس کر ناپ لیے جاتے ہیں۔ پھر لڑکوں کی شلواریں جھاڑی گئیں، کیونکہ ہم پشتون تو ڈھیلی ڈھالی شلوار پہنتے ہیں جس میں اتنی تہیں اور کپڑا لگتا ہے کہ پچاس یورپی خواتین کے سمر سوٹ ایک شلوار سے سِل جائیں۔اسی لئے تو سائیکل یا موٹر سائیکل چلاتے ہوئے نئی شلواروں کے پائنچے گھٹنوں تک پھاڑ لیتے ہیں اور پرانے کے پہلے سے پھٹے ہوتے ہیں۔اب کیا دیکھتے ہیں کہ قمیص کی جیبوں ، آزاربند کے نیفوں اور جرابوں سے تعویذ اور پرچیاں برآمد ہورہی ہیں،اچھی بھلی صورت اور سُنت موکدہ پر پورا اترنے والے لڑکوں کے آزاربند بھی پرچیوں سے بھرے نکلے۔۔۔جب میرے دوست کی باری آئی تو بارُعب چیکر نے اُس کے بدن کا چپہ چپہ چھان مارا مگر کوئی پرزہ نہ نکلا ، شاید وہ بھی میری طرح بزدل تھا اور پھر یہی کچھ میرے ساتھ ہوا۔۔۔
ایک تو اللہ بھلا کرے یونیورسٹی کے کنٹرولر صاحبان کا کہ سارے امتخانات گرمیوں میں رکھ لیتے ہیں اور ہال بھی اتنے حبس زدہ ہوتے ہیں کہ دو لیٹر فی گھنٹے کے حساب سے پسینہ آتا ہے،اور جوابی پرچہ جات پر گیلی کہنیوں، ہتھیلیوں اور ٹپکے ہوئے پسینے کے قطروں کے متعدد نشانات بطورِ تصدیق ثبت ہوتے ہیں کہ امتحان واقعی مسلمانوں کا امتحان تھا ۔۔ کیونکہ مولوی صاحب بھی جب آخری امتحان کی بات کرتے ہیں تو سورج کو سوا نیزے پر لاکر سخت گرم ماحول بناتے ہیں اورقرائن سے ہمیں گنہگار ثابت کرکے خوب وعظ کرلیتے ہیں۔۔ ہم جوں ہی ہال میں بیٹھنے لگے تو ایک باریش اُستاد صاحب اُٹھے اور انگریزی میں تقریر شروع کردی، پھر کیا تھا کسی کے پلے کچھ نہ پڑ ا کیونکہ وہ انگریزی اپنی مادری پشتو لہجے میں بول رہے تھے اور جو انگریزی اُس نے بولی اگر برطانیہ والے سُن لیں تو اپنی زبان سے مکر جائیں۔۔ لیکن ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کے ساتھ یہ مسئلہ کیوں ہے کہ ہر پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ شخص اچھی انگریزی بولے گا۔۔اور خود کو قابل ثابت کرنے کے لئے انگریزی میں بولنا کوئی شرط ہے؟ ۔۔یہ بھی دُنیا کے ہزاروں زبانوں کی طرح ایک زبان ہے اور اگر بندے کے پاس بولنے کے لائق کچھ ہو ، اور بولنے اور بکنے میں فرق سمجھتا ہو تو اپنی زبان میں اعتماد کے ساتھ بول کر داد بٹور سکتا ہے۔ اور ایسی انگریزی سے کیا فائدہ جو جگ ہنسائی کا سبب بنے۔۔ خیر اسکی تقریر ختم ہوئی جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ نقل کسی بھی صورت اچھی نہیں(جو ہم نے سمجھاخدا جانے وہ کیا کہہ گیاتھا)۔
یہ مخلوط قسم کا امتحان تھا، مگر طلباء کے جنس کے لحاظ سے نہیں بلکہ مضامین کے لحاظ سے، کیونکہ اُردو والے طلباء بھی تھے، انگریزی ،اسلامیات والے بھی اور لاء کے سٹوڈینٹس بھی! ۔بہت سے فارغ تحصیل مولوی صاحبان بھی تھے،کیونکہ دینی مدارس کے سرٹیفیکیٹ کے ساتھ ،اگر پرائیویٹ ایم اے اسلامیات کی سند لگ جائے تو سکول کے قاری کی پوسٹ پکی سمجھو۔۔۔ میرے آگے پیچھے جو احباب بیٹھے تھے سارے امتحان میںآرام سے نہ بیٹھے،کبھی آگے والے پر جھکے ہیں تو کبھی پیچھے والے سے گفت و شنید کے چکر میں ہیں، مگر میں نے اُنھیں لکھتے ہوئے نہ دیکھا۔۔۔بہت سے چاپلوس مزاج لڑکے بھی موجود تھے جو ڈیوٹی والوں سے جان پہچان بنانے کے چکر میں بھانڈوں کی طرح ہنستے اور ڈیوٹی پر موجود سٹاف کو رجھانے کی کوشش کرتے۔ میرے دائیں جانب ایک صوفی صاحب بڑی سی شرعی پگڑی باندھے بیٹھے تھے،اور پگڑی اتنی نیچے ہو چکی تھی کہ کانوں کی لوئیں بمشکل نظر آرہی تھیں۔بلکل شریف اور منہ پرخبردار۔۔ڈسٹرب نہ کریں، کا بورڈ لگائے لکھنے میں مصروف تھے، مجھے بھی رشک ہو رہا تھا کہ آجکل کے دور میں بھی میرا ملک ایسے قابل اور ذہین لوگ رکھتا ہے جس پر فخر کرنے کو جی چاہتا ہے۔ میں تو اپنی طرف سے کچھ الاپ شلاپ لکھ رہا تھا لیکن میرا دوست انگلیاں چٹخانے اور پانی پینے میں مصروف رہا۔انگلش والے میکبیتھ اور ہیملٹ میں الجھے تھے تولاء والے اسلامی فقہ کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے تھے ،جبکہ ہم اُردو والے غالب ؔ کے صریرِ خامہ کے تازیانے سہہ رہے تھے جو نوائے سروش کے بغیر حل کرنا ناممکن تھے۔ہم تو پرائیویٹ سٹوڈینٹ تھے مگر ریگو لر کی حواس باختگیاں بھی قابلِ دید تھیں۔
ہال کا سٹاف تو ایک گھنٹہ اسلامی اصولوں پر کاربند رہا مگر پھر یکایک کایا پلٹ ہوئی، اور وہ پر پُرزے نکلے کہ الامان الحفیظ!۔۔ میں جب پرائیویٹ سکول میں پڑھ رہا تھا ،اُس زمانے کے ہمارے ایک استاد "ج"صاحب بھی میرے اس امتحان کے ایگزام فیلو تھے اور مجھ سے ایک میٹر بائیں جانب بیٹھے تھے۔"ج" صاحب اُردو کے امتحانات میں کئی معرکوں کے شکست خوردہ تھے ۔۔اُنھوں نے اپنی تشریف ایک عدد اُردو گائیڈ پہ رکھی تھی جس کے نیچے متفرق پرچیوں کا ایک گھونسلاسا بنا ہوا تھا۔۔ "ج" صاحب کو جب ہال کے بے حال ہونے کا ادراک ہوا توتشریف کے نیچے سے ایک ایک پر چی نکالنے لگے ،اور اسے سکھانے کے لیے ایک دو پھونکیں مارتے اور پھر اسکی تہیں کھول کر سوالیہ پر چے پر نظر ڈالتے اور سر نفی میں ہلا کر سامنے والے کی کرسی کے نیچے پھینک دیتے۔۔ میرے سامنے سٹیج پر ردی پرزوں کی دو بوریاں بھر گئیں اور یہ سب وہ تعویذ تھے جس کی جوابی پر چے میں ضرورت نہ تھے۔۔ البتہ کام کی چیز یں چھان کر الگ کردی گئیں جس کے لیے اکثر لڑکے واش روم کے دو دو یا تین تین چکر بھی لگا آئے۔۔
آخری گھنٹے میں شرعی پگڑی والے صوفی صاحب اُٹھائے گئے، اور اُس کی پگڑی سے ایک عدد بلیوٹوتھ (موبائل فون کے ساتھ بغیر تار کے کنیکٹ ہونے والا آلہ)برآمد کیا گیا اور یوں صوفی صاحب کی شرافت اور چُپ کا راز افشاں ہوا۔یہ سب کچھ اُن لوگوں کے منہ پر بھی تمانچہ تھا جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا دین دار طبقہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے نا واقف ہے۔۔ خیر صوفی صاحب سے چھینا گیا پرچہ دس منٹ کے بعد اُسے واپس کر دیا گیا مگر اُس کے علم کا دریا سوکھ چکا تھا اس لیے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر چلتے بنے۔۔۔۔
پرائیویٹ کالجوں کے تحت ہونے والے امتحانات جس میں ایم ایڈ،بی ایڈاور ایس ڈی پی وغیرہ شامل ہیں کا تذکرہ نہ کرناتعلیم پر ظلم کے مترادف ہے۔ایسا ہی ایک ہا ل جو جنس کے لحاظ سے مخلوط تھا، میں۔۔بوٹی بچہ۔۔۔ نقل کرنے کی ایک کامیاب تیکنیک تھی۔اکثر شادی شدہ طالبات کے شوہر نامدارامتحانی ہال کے باہر ایک ایک عدد بچے کے ساتھ موجود ہوتے۔اور جب پرچہ شروع ہوجاتا تو بچہ ماں کی جدائی میں بلکنے لگتااورپھر والد صاحب اسے چپراسی کے ذریعے ماں تک پہنچاتے اور سو روپے کا ایک نوٹ چپراسی کو بھی عنایت کرتے ۔ بچہ ماں کے سینے کے ساتھ لگ کر خوش ہو جاتا اور ماں بچے کے نیکر سے تعویذ بر آمد کرکے سرشار ہوتی۔۔
ایک دفعہ ہمارے گھر کے سامنے ہائی سکول میں نقل کی ترسیل پر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی، اور طالبات کی مائیں ایک دوسرے کے سروں سے دو دو گھچے بالوں کے نوچنے پر مجبور ہوئی جنہیں سرپھری ہوا لٹ سمجھ کر گئی دنوں تک سکول میں ادھر اُدھر اُڑاتی رہی۔وجہءِ نزاع صرف اتنی سی تھی کہ امتحانی ہال کے دروازے پر موجود سپاہی ۔۔۔جس نے دھوپ سے بچنے یا کسی دوسری تکلیف کی وجہ کالی عینک بھی لگائی تھی۔۔۔ سے میری بیٹی کی پرچی اپنی بیٹی کو دلوادی۔۔ اور پھر ایک دوسرے کے کردار میں جتنی بھی کشیدہ کاری کی گئی کالی عینک والا سپاہی اُس کا مرکزی کردار تھا۔، اور وہ بیچارہ بھی اتنی عورتوں کے بیچ اپنی مردانگی کی سرِ عام تعریف سن کر کھسیانا سا ہوگیا۔۔۔ اسی طرح کے امتحانات میں ایک استانی نے جو ایمانداری کا مظاہر ہ کیا تو اُسے ہال کے بیچوں بیچ بیدسے پیٹا گیا۔۔اوراُس با اثر طالبہ کا کچھ بھی نہ بگڑا۔۔۔
لیکن دُنیا میں صرف برائی نہیں پنپتی ، بلکہ ایک مثبت قوت بھی موجود رہتی ہے البتہ وقتی طور پر کمزور ہوتی ہے ،لیکن جب حالات پلٹا کھائیں تو ایک دم سامنے آتی ہے اوردُنیا کا نظام متاثر کرتی ہے ۔ ہمارے پڑوس کے ایک بزرگ استاد صاحب کو اللہ سلامت رکھے ساری زندگی ایمانداری پر قائم رہے۔میں نے اپنی پوری زندگی میں اپنے ضلع کی حد تک ایک یہی ایماندار شخص دیکھا ہے جسے سخت القابات سے بھی نوازا گیا ، دھمکیاں بھی ملیں اور تبادلے بھی ہوئے مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ کئی حرام خور اور موٹے پیٹ والے اُسے طنزیہ وایہ بھٹنڈا ۔۔۔۔*یعنی ریگولر کسی ادارے سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ پرائیویٹ پڑھتے رہے۔۔۔کہتے تھے اور آج بھی میں نے ان ٹکے ٹکے کے لئے بکنے والوں کے منہ سے وایہ بھٹنڈا کا طعنہ سُنا۔مگر بیسیوںیونیورسٹیاں سالوں کی محنت کے بعد بھی استاد صاحب جیساایک و ایہ بھٹنڈا پیدا نہ کرسکیں۔۔۔۔اللہ استاد صاحب کی عمر دراز کرے اور فلاحِ اُخروی عطا کرے(اب ریٹائرڈ اور کافی ضعیف ہیں) اگر اس جیسے چند لوگ معاشرے میں اور آگئے تو کوئی کسی حق دار کا حق نہیں چھینے گا۔ نہ تعلیم کی بولیاں لگیں کی اور نہ پرچے تبدیل ہوں گے۔۔ نہ پرائیویٹ سکول نمبر ون کی دوڑ میں ہال خریدیں گے اور نہ بورڈ میں اثر و رسوخ والے پرچے تبدیل کریں گے۔لیکن گزارش بس اتنی سی ہے کہ خدارا امتحانات کا سسٹم درست کرلو کیونکہ آج جو چند شوریدہ سر کتاب سے رشتہ جوڑنے والے اور راتوں کوپڑھنے والے آٹے میں بقدرِ نمک باقی ہیں اگر یہی روش رہی تو کل شاید یہ بھی نہ رہیں۔۔۔۔ اساتذہ سے بھی درخواست ہے کہ اپنی حق حلال کی روزی پر قناعت کریں ۔۔۔۔ مرغن کھایا یا دال کچھ فرق نہیں پڑتا سب کا انجام ایک ہی ہے لیکن حلال کے لقمے سے جو خودی اور غیرت پیدا ہوتی ہے اور بڑائی کا جو احساس انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے اُسے موت بھی نہیں مٹا سکتی اور اسی کے بارے میں اقبالؒ فرماگئے ہیں کہ:
ہو اگر خود نگر و خود گر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
وسیم خان عابدؔ 
written in 2013

کھٹا میٹھا مضمون: علم کے کوزے

ہم جس محکمے سے تنخواہ لے رہے ہیں وہاں کرنے کو اب کوئی خاص کام نہیں رہا ،کیونکہ تیل اور مشینری کی کمیابی کے باعث اکثر سیکشن سنسان پڑے ہیں۔اسی لیے کام کرنے ،کا لفظ جان بوجھ کے استعمال نہیں کیا۔ کام نہ ہونے کی صورت میں ملازمین کے پاس صرف تبصرے باقی رہ جاتے ہیں جو اکثر زبانی کلامی ہوتے ہیں مگر کچھ نادان قلم کا جھنجھٹ بھی پال لیتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ جس مخکمے میں کام نہ ہو وہاں کے ملازمین علم کے دریا نہ سہی علم کے کوزے ضرور ہوتے ہیں البتہ خود کو وہ دریا ہی سمجھتے ہیں۔۔۔
ایک دفعہ ایک سفید ریش ملازم سے ملاقات ہوئی تو میرے ہاتھ میں پروین صاحبہ کی " انکار" تھی،جس کے آخری صفحے پر وہ سندوری پیراہن میں بہ نفسِ نفیس موجود تھیں۔۔۔بزرگ ملازم نے بے چینی سے دوتین دفعہ ادھر اُدھر دیکھا اورآخر کار مجھ سے مخاطب ہوکر کہا، بیٹا،یہ کیا فضول سی کتاب اُٹھائے پھرتے ہو کوئی ڈھنگ کی کتاب پڑھا کرو۔۔۔اور ادب سے اچھا۔۔۔ کہنے کے بجائے میرے مُنہ سے جیسے۔۔ کا لفظ نکل گیا۔۔۔حالانکہ ہم اپنے بڑوں کا بہت ادب کرتے ہیں اور اُن کے سامنے اُف تک نہیں کرتے ،خواہ ہمیں ہزار دفعہ معلوم ہو کہ اُس کی بڑائی صرف عمر کی وجہ سے ہے جس میں اُسکا کا کوئی ذاتی کریڈت بالکل نہیں۔۔۔ لیکن اب انجانے میں ۔۔جیسے۔۔ کا لفظ منہ سے نکل چکا تھااُنھوں نے تیور چڑھائے اور عالمانہ شان سے گویا ہوئے جیسے۔۔ فضائلِ اعمال۔۔۔ اور پھر ہماری طرف داد طلب نظروں سے دیکھنے لگے۔۔ ہم نے عرض کیا، جناب وہ تو ہم پڑھ چکے ہیں۔۔دو تین دن میں ختم ہوگئی تھی ۔۔۔۔ وہ پھر گویا ہوئے دوبارہ پڑھو۔۔۔سہ بارہ پڑھو اور پڑھتے رہو ۔۔۔تو ہم نے معذرت خواہانہ لہجے میں عرض کیا، پھر قرآنِ مجید ٹھیک نہیں۔۔۔۔اُس نے خونخوار نظروں سے مجھے دیکھا اور آج تک سلام دُعا بند رکھی ہے۔۔۔۔
ہم نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اپنے محکمے کے کسی سینئرکے سامنے زبان نہیں کھولیں گے ،اور جب ہمارے ایک آفیسر نے لندن کی ہسٹری سناتے ہوئے لندن کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرکے پنجابی کی ایک مخربِ اخلاق گالی اخذ کی۔ تم ہم بالکل چُپ رہے۔۔اور کچھ نہ کہا۔۔۔۔
یہاں پر ہر بندے کی اپنی ایک فلاسفی ہے، جس پر وہ خود ہی حرفِ آخر اور عقلِ کل ہوتا ہے۔ایسے ایسے لوگ سسٹم کو درست کرنے کی بات کرتے ہیں جس کو ان گنہگار آنکھوں نے سو اور پچاس کے نوٹ کئی بار لیتے ہوئے دیکھا ہے۔ سلطان ٹیپو ، عمر مختار اور صلاح الدین ایوبی کے قصے وہ لوگ سناتے ہیں جواندھیرے میں اکیلے گھر نہیں جاسکتے۔۔۔اورمیں نے تو اپنے سینئرزکو یہا ں تک کہتے سُنا ہے کہ ہمارے وقتوں کا میٹرک اور آج کا ایم اے برابر ہے۔۔۔ جب ایسے ہی ایک موقع پر ہم نے ۔۔کیوں۔۔۔کہا، تو حضرت فرمانے لگے کہ ہمارے وقتوں میں لوگ لالٹین جلا کر پڑھتے تھے۔۔۔ تو ہم نے کہا اس میں میٹرک ایم اے کے برابر کیسے ہوا ۔۔۔یہ تو سیدھا سادھا توانائی کا بحران ہے، اور آج بھی ہم یو۔پی۔ایس۔اور بیٹریاں لگا کر پڑھتے ہیں۔۔ یہ تو حکومت کی نالائقی کا مسئلہ ہے تعلیم کے فرق کا تو بالکل نہیں۔۔۔تو فرمانے لگے کہ ہمارا ایک دوست رات کو اپنے سر کے بال چھت سے لٹکی ہوئی رسی سے باندھ لیتا اورنیندکے جھٹکے کھا کرکتاب کو دیکھتا۔۔ کر سکتے ہوتم اتنی محنت ۔۔۔۔ تو ہم نے موء دب ہو کر عرض کیا ۔۔۔۔ جناب نیند کے جھٹکے کھا کر کیا خاک کسی کی سمجھ میں کچھ آئے گا، اللہ نے دن کی روشنی پیدا کی ہے اُس میں بندہ اپنی رہی سہی کثر پوری کر سکتا ہے اور رات تو نیند کے لیے ہی ہے۔۔ رات کو پڑھ کے نیچر کو کیوں ڈسٹرب کریں۔۔۔اور ویسے آپکا یہ چھت سے لٹکا دوست دن کو کیا کرتا تھا ۔۔تو فرمانے لگے بڑا زندہ دل انسان تھا سارا دن کھیتوں میں جواء کھیلتا تھا۔۔۔(اور شاید یہی وجہ ہو میٹرک اور ایم اے کے برابری کی)
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اپنا علم ہر بندے کو مکمل کیوں نظر آتا ہے۔۔۔۔ہر بندہ یہ کیوں سوچتا ہے کہ جو بندہ آگے سے جواب نہیں دے رہا وہ بیوقوف ہے اور بات کو نہیں سمجھتا۔۔۔۔ وہ یہ کیوں نہیں سوچتا کہ اُس کی چُپ مروت کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے اور میری چال جانتے ہوئے بھی وہ صرف وضعداری میں نبھا رہاہے۔۔۔۔لیکن میرے محکمے میں چُپ بیوقوفی اور بزدلی سمجھی جاتی ہے۔۔۔۔۔
ایک دفعہ ایک قریب ال پینشن بزرگ نے فرمایا ۔تم لوگ کام کی عظمت کو کیا جانو۔۔۔ کام تو ہمارے زمانے میں ہوتے تھے۔۔۔جب ایک ایک ڈیوٹی میں دس دس ٹرینیں گزرتی تھیں۔۔۔ہم نے کہا جنابِ والا آپ کی بات بجا ہے، لیکن آپ بھی کرسی پر بیٹھ کر ڈیوٹی پوری کرتے اور ہم بھی یہی کر رہے ہیں ، ٹرینیں چلانا حکومت اور افسرانِ بالا کا کام ہے،اور اگر سوچنے والے نہیں سوچتے تو ہم جیسے ادنی ملازم کا کیا قصور ہے۔۔۔لیکن پاکستان کے سوچنے والے کمانے سے فارغ ہوں تو کوئی مثبت بات سوچے۔۔۔۔ فرمانے لگے کہ تم سرکاری کام میں ٹانگ اڑانے کے شوقین لگتے ہو۔۔۔۔ تو ہم نے موء دبانہ عرض کیا،سر ہم تو اتنے شریف ہیں کہ ہماری تنخواہ چاہے بینک سے ہو یا کیش سے ہم اُف تک نہیں کرتے۔۔۔۔ لیکن جہاں دال کالی ہو تو تنخواہ بینک سے لینے پر غوغائے رستخیز اُٹھنا شروع ہوجاتا ہے۔۔۔۔دیکھیں ہمارے رجسٹر تو ہر کوئی چیک کرنے آتا ہے اور ہم با ادب اور با ملاحظہ کھڑے ہوجاتے ہیں حالانکہ ذہن میں فیضؔ صاحب کا شعر بار بار گونجتا ہے کہ:
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
مگر کبھی بھی زبان پر نہیں آتا۔۔۔اب اس سے زیادہ تابعداری سرکار اور افسر ان کی کیا ہوسکتی ہے۔۔اُس نے کہا لڑکے تم کافی بدتمیز ہو کوئی افسروں کے بارے میں بُرا سوچتا ہے۔۔۔ تو ہم نے کہاکہ جناب ہماری کیا اوقات کہ افسروں کے بارے میں لب کشائی کریں ہم تو اُن کلرکوں (جو افسران کے خاص اور پالتوہوتے ہیں) یا اُن فوجی سپاہیوں کی بات کرتے ہیں جو میٹریکولیٹ ہونے کے باوجو بھی ہماری ویجیلینس پر مامور کیے جاتے ہیں، اور وہ پھر خدا بن بیٹھتے ہیں ۔۔ ۔۔کیونکہ افسر میں معاملہ فہمی کی کچھ خو تو ہوتی ہے لیکن یہ احساسِ کمتری کے مارے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔یا پھر کمانے کی نئی راہیں تلاش کرتے ہیں۔۔۔اپنے پشاور ڈویژن کو دیکھ لیں، افسر تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن اسے چلانے اور تبادلے کرنے والے شہنشاہ کو کوئی ہٹا کر دکھا دے تو مانوں۔۔۔کہنے لگے، لڑکے نوکری کرنی ہے یا گھر جانا ہے۔۔۔۔ میں نے جھٹ کہہ دیا، جناب نوکری بھی لگی رہے اور گھر کے چکر بھی لگتے رہیں ۔۔۔تو فرمایا پھر چُپ سادھ لو اور ہم نے اُنگلی ہونٹوں پر رکھ لی۔۔۔۔۔ 
ایک اور بات جو میں شدت سے محسوس کر رہا ہوں وہ سرکاری(دفتری) شعراء کی تعداد ہے۔سرکاری شعراء اس لیے کہا کیونکہ وہ سرکاری ٹائم یعنی ڈیوٹی آورزمیں شعر لکھتے ہیں ،یا جن پر نزول دفتروں میں ہوتا ہے۔۔۔۔۔کیونکہ دماغ خالی ہوتا ہے۔۔ میرے محکمے میں دفتری شعراء کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔کچھ میں تو شاعری کے جراثیم پیدائشی تھے اور کچھ زنانہ ڈبوں میں کوٹنے سے شاعر بنے ہیں۔۔۔۔کیونکہ کچھ لوگ مجروح ہو کر ہی فیض پاتے ہیں۔۔۔۔اگرچہ بابا اشفاق احمد صاحب کا ڈائریکٹ اور میرا جی کا اِن ڈائریکٹ تعلق اس محکمے سے رہا ہے ،لیکن اب تو یہاں ہر زبان لہجے اور اخلاق کے شعراء ملتے ہیں۔۔ استاد صاحب سے سُنا تھا کہ بڑا شاعر صدی میں ایک پیدا ہوتا ہے جیسے میرؔ ،غالبؔ اور اقبالؒ ۔۔۔۔اور اچھے شاعر سینکڑوں ہوسکتے ہیں،لیکن اس ڈیپارٹمنٹ میں مجھے صرف بڑے شاعر ملے ہیں(عمر کے لحاظ سے) کوئی اچھا شاعر نہیں ملا۔۔۔۔۔
ایک دفعہ لاہور سے آتے ہوئے اپنے محکمے کے ایک شکست خوردہ شاعر سے ملاقات ہوئی ، جو ادبی محفلوں تک پہنچ گیا تھا لیکن کسی نے گھاس نہ ڈالی۔۔۔رسمی سی گفتگو کے بعد میں نے بڑے شعراء کے چند اشعار سُنائے،تو حضرت دیر تک اُن اشعار کو چباتے رہے ،منہ کو مختلف اندازمیں موڑتے ،مروڑتے اور گھماتے رہے، بالاخر ایک دو اشعار ہضم کرکے کچھ طبع زاد اُگل دے۔۔۔ جس پر ہم نے ازراہِ مروت داد دی۔۔ اُسکی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک آئے اور سیریس ہی ہوگئے ۔۔۔پُرانے کے ساتھ ساتھ اپنا کنوارا کلام بھی سُنا دیا۔۔جو بلکل ان ٹچ تھا۔۔لیکن اُس کے اشعار سُن کر اُس کے ادبی محفلوں سے دھتکارے جانے کا سبب سمجھ میں آگیا۔۔۔۔۔ خیر میں نے اپنے اشعار اس لیے نہ سنائے کہ ہم جب تک اپنا شعر نہ سنادیں ،سامنے والے اچھا ہی سمجھتے ہیں۔۔۔ اور چند ایک کو چھوڑ کر باقی شعراء کی بھی یہی حالت ہے۔۔۔
ایک دفعہ ایک سٹیشن کی کینٹین سے آہ و فغاں بلند ہو رہی تھی، ہم نے کسی جھگڑے پر قیاس کر لیا اور فوراََ وہاں پہنچے،لیکن کیا دیکھتے ہیں وہاں ایک گرما گرم مشاعرہ شروع ہے، یہ دوشعراء کی باطلِ ناخواستہ ملاقات ہوئی تھی جس نے مشاعرے کی شکل اختیار کرلی تھی۔ ایک شاعر اُس انجن کا ڈرائیور تھا جس کے لیے سٹیشن پر تیل موجود نہیں تھا اور دوسرا اُس ٹرین کا گارڈ تھا جس کی بوگیوں کے پہیے جام ہوچکے تھے اور اُنکے نیچے سے ہتھوڑے کی ٹک ٹُک کی آوازیں آرہی تھیں۔۔گارڈ غزل پہ غزل عنایت کررہا تھا اور ڈرائیور ریل کے افلاس پہ نظمیں پھینک رہا تھا۔۔۔۔نظمیں آزاد تھیں اور بحر سے خارج۔۔۔گارڈ صاحب کی غزلیں بھی آزاد تھیں ،لیکن اخلاق سے خارج۔۔۔نزدیکی پارسل روم سے چار بکرے دل کھول کر داد دے رہے تھے۔۔۔۔کیونکہ یہ شور اُن کے پلے ہی پڑ رہا تھا۔۔۔
ریلوں کے لیے موت ہے جمہوری حکومت
ورکشاپِ مرمت بھی نگل لیتے ہیں آلات
خیر اگر بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئی تو کوئی بات نہیں، میں گزشتہ تین سالوں سے ملازم ہوں جب میری سمجھ میں نہیں آئی تو چند الفاظ سے آپ کی سمجھ میں کیسے آسکتی ہے! لیکن اگر پھر بھی سمجھنے کا خبط سوار ہوتو آئیں۔۔۔۔ اور پشاور سے کراچی تک ہمارے محکمے کے رحم و کر م پر خود کو چھوڑ دیں۔۔۔۔۔ چودہ طبق روشن ہوجائیں گے ۔۔ ۔انشاء اللہ۔۔
وسیم خان عابدؔ 
written in October,2012

Wednesday, 17 October 2018

افسانہ: شاملات .....مشترکہ پراپرٹی

جب ہوش سنبھالا تو سب سے پہلی بات جو میرے حافظے پرنقش ہوئی وہ میری ماں کی گالی تھی،" ابے۔ ک۔ن۔۔۔ سارا دن کھیلتی رہتی ہے،بھائی کو اُٹھا کر باہر لے جا رو رہا ہے، مجھے گھر کے کام کاج کرنے ہیں"۔ اور یہی میری ابتدائی زندگی تھی جس کی واپسی کی نہ میں تمنائی ہوں ،اور نہ مجھے اپنے بچپن پر فخر ہے۔۔کیونکہ نہ میرے پاس کاغذ کی کشتی تھی اور نہ افلاس کے باعث بارش کے پانی پر توجہ دے سکی۔۔افلاس کے ساتھ ساتھ میرا خاندان بھی میرے لئے وبالِ جان تھا،کیونکہ پشتون معاشرے میں ہماری وہی حیثیت ہے جو کبھی برِصغیر میں ہندوستانیوں اور افریقہ میں کالوں کی تھی۔۔ہمارا آبائی پیشہ ہاتھ کا ہنر ہے جسے کاریگری بھی کہتے ہیں۔اور یہ ہنر ہمارے لئے معاشرے میں ایک گندی گالی سے زیادہ اذیت ناک ہے۔۔ میرے ابو ادریس احمدسارا دن لوگوں کے بال کاٹتے اور شام کو ماں کی باتیں اور غربت کے تانے سنتے۔۔۔اور جب یہ جِھک جِھک مار کٹائی پر منتج ہوتی توہم رات کا کھانا آنسوؤں ، بددُعاؤں اور سسکتی ہوئی گالیوں کی جھرمٹ میں کھاتے۔۔۔ ہمارے علاقے میں ناموں کے ساتھ خان کے لاحقے لگتے ہیں ،لیکن میرے ابو اس عزت کے لئے ہمیشہ تڑپتے رہے۔۔میری بڑی بہنیں محلے کے سکول میں گئیں، لیکن دو تین کلاسوں کے بعد گھر بیٹھ گئیں، مگر مجھ میں ایک جنون تھا جو مجھے کتاب سے الگ ہونے نہیں دیتا۔اور پھر میں اپنے خاندان کی واحد فرد بنی جس نے کالج جاکر تعلیم حاصل کی۔۔ عورتوں کا مذکور ہی کیا ہمارے خاندان کے کسی مرد نے آج تک کالج کا منہ تک نہیں دیکھا ۔۔۔ ابو نے میرے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے دن رات ایک کئے۔۔ اورساتھ ساتھ خاندان والوں کے طعنے بھی سہتے رہے۔
ہمارے خاندانوں کی ایک اور بھی خصوصیت ہے کہ ہر ممیرا، چچیرا، اور دور دراز کا رشتہ داربِلا عذرایک دوسرے کے گھر میں داخل ہوجاتا ہے ،اور کبھی کبھی دنوں بلکہ ہفتوں تک وہیں رہتا ہے ۔ابو کے رشتے داروں کو امی کاٹ کھانے والی نظروں سے دیکھتی ، لیکن میکے والے سر آنکھوں پر بٹھائے جاتے۔۔ میرا ماموں زاد سلیم بھی اکثر ہمارے گھر آتا اور بے تکلف اپنے گھر کی طرح رہتا۔۔۔ اُس نے مجھے رجھانے کی کافی کوشش کی اورپہلے پہل میں نے بھی بچنے کی سعی لا حاصل جاری رکھی ، مگر جب جوانیوں کو تنہائیاں میسر آئیں ، تو پارسائیوں کے بستر لدھ جاتے ہیں۔ اور یہ محبت کی پاکیزگی بھی میری سمجھ سے بالا تر ہے ۔۔۔ ہاں کتابوں میں کچھ سچے اور پاک عشق کی کہانیاں سنیں لیکن وہ عشق کتنا پاک تھا یہ میں نے نہیں دیکھا ۔۔ مگر جس عشق کو میں نے دیکھا وہ صرف انسانی خواہشات کی تکمیل تھی ۔۔ یا اُسے ضروریاتِ زندگی قسم کا عشق بھی کہہ سکتے ہیں۔۔مطلب پیاس لگی پانی پیا۔۔ بھوک لگی کھانا کھایا اور ۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔، میری اور سلیم کی محبت بھی کچھ اسی قسم کی تھی، اور پھرمیرے کچھ اخراجات وہ بھی پورے کرلیتا، تو میں بھی اُس کے کام آرہی تھی۔۔۔ 
میری ماں بھی اندھی بہری نہ تھی اور وہ یہ سب کچھ سمجھ رہی تھی ، لیکن جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھیں۔ ۔۔کیونکہ اُسے اور مجھے چند سکوں کی ضرورت تھی اور سلیم کو میری۔۔۔ نہ مجھ پر گھر میں روک ٹھوک تھی اور نہ کوئی مجھے باز رکھنے کی کوشش کرتا۔۔۔اس لیے میں نے اپنے اردگرد پھیلے ہوئے ماحول میں جو کچھ کیا بالکل درست کیا۔۔ آمدنی کے مسدود ذرائع، خاندانی پستی ، بڑھتے ہوئے اخراجات اور خاندان کے مرد و زن کا آزادانہ اختلاط، ان ہی افعال کی ترغیب دے رہے تھے۔۔۔۔ مگر میں کیا کرتی کیونکہ مجھے پیدائش سے پہلے یہ آپشن نہیں ملا تھا کہ ایک نائی کے گھر، گندے ماحول میں پیدا ہونا ہے یا پھر ایک پشتون کے گھر میں پیدا ہوگر معزز بننا ہے۔۔۔مجھے جس برتن میں ڈالا گیا تھا پگھلے ہوئے موم کی طرح میں نے بھی اُسی برتن کی شکل اختیار کرلی۔۔۔۔
بات سلیم تک رہتی تو بھی درست تھی لیکن ، جب کھلے شہد کا پتہ چیونٹیوں کو چلتاہے ، تو اُس کی طرف کھچے چلے آنا عین فطرت ہے۔۔ سلیم سے آنکھ بچا کر اکبر، جاوید، مجید اور حبیب نے بھی ہمارے گھر کا طواف شروع کر دیا۔۔ بس اسی آس پر کہ اُنگلی دو اُنگلی شہد شاید قسمت میں لکھا ہو۔۔۔ دلاور چچا جو ہمارا دور دراز کا رشتہ دار تھا ، لیکن اتنا دور۔۔۔ کہ رشتہ تک یا د نہیں، اُس نے بھی امی سے آنکھ بچا کر مجھے گھورنا اور ہونٹوں پر گندی مسکراہٹ لاناشروع کردی۔۔دلاور چچا کو میں نے بچپن سے امی کے ساتھ راز و نیاز کی باتیں کر تے دیکھا تھا ۔۔ لیکن اب اُس کی نظروں کی تپش میرے بدن کو بھی جھلسا رہی تھی۔۔۔۔۔ میں نے بھی حتی الوسع ہر ایک کو اُسکے اوقات کے مطابق لفٹ کرائی۔۔۔ کیونکہ یک نہ شد دو شد ۔۔ اور دونہ شد چار شد۔۔۔۔ کیا فرق پڑتاہے۔ اور سچ پوچھیں تو یہ درمیان میں معلق لو گ مجھے زہر لگتے ہیں۔۔ یا تو انسان پارسا ہو یا نہ ہو۔۔ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والا فلسفہ میری پہنچ سے بالکل باہر ہے۔۔۔یہ قدرت کا قانون ہے کہ یا روشنی ہو گی یا تاریکی ۔۔اور تیسری توجیع بس ریا ہی ہوسکتی ہے۔۔۔
ؓ میں بی۔اے ۔تک گھنٹہ پیکیج کے ثمرات سے آگاہ ہو چکی تھی، اور پھر دوستیاں فاصلے توڑ کر حدوں سے نکلنے لگیں۔ کالج کی لڑکیاں میرے خاندان اور میرے کر دار سے آگاہ تھیں اس لئے میری قربت سے ہچکچاتیں اور میری دوستی سے گریز کرتیں۔۔کبھی کبھی کوئی شوخ اپنے خاندانی جاہ وجلال کے خمار میں طعنہ بھی مار دیتی جو مجھے سخت نا گوار گزر تا لیکن حقیقت سے کون منہ پھیرے گا ۔۔ اس لئے دل کو سمجھا لیتی۔۔۔ بی۔اے۔ کے امتحانات کے بعد میں گھر بیٹھی تھی کہ فرزانہ کی وساطت سے مجھے معلوم ہوا کہ کسی غیر سرکاری تنظیم نے کوئی پراجیکٹ شروع کیا ہے۔۔ جس کے لئے میں خود کو موزوں گر دانتی تھی۔۔۔ میں نے کاغذات جمع کرائے ، اور اُنھوں نے مجھے سلیکٹ کیا۔۔ اس پراجیکٹ سے ہاتھ میں کچھ پیسے بھی آئے اور ساتھ ساتھ ماسڑ ڈگری بھی حاصل کی ،مجھے تجربہ ملا اور گھر کے چولہے کو کچھ ایندھن۔۔۔ اور پھر دو ڈھائی سال بعد یہ پراجیکٹ بھی ختم ہوگیا۔۔لیکن مجھے این۔جی۔اوز۔ سیکٹر میں متعار ف کر ا دگیا۔۔۔ جب بیمہ پالیسی والوں کو سٹاف کی ضرورت محسوس ہوئی،تو مجھے بھی پرانے تجربے کی بنا پر ملازمت مِل گئی۔۔۔
اصل بات تو یہ تھی کہ اُنھیں ضرورت بھی مجھ جیسی لڑکیوں کی تھی، جو پالیسیاں بیچ سکیں۔۔مالدار حضرات سے میرا تعارف ہونے لگا اور میں اپنوں کے چنگل سے نکل کر غیروں کی جھرمٹ میں چلی گئی۔۔مُجھے اپنے موبائل پر کال آتے اور میں بُرا ماننے کے بجائے کال کرنے والے کے کاروبار اور اُس کی بچت کے بارے میں سوالات کرتی ۔۔۔ پھر میں پالیسیاں بیچتی اور جسم کے بھوکوں کو گھر کے دروازے پر گوشت مِلتا۔۔ نہ دنیا کا ڈر نہ قانون کی فکر میں اپنے کلائنٹ کے پاس جاتی اور ادارہ چار پیسے کماتا۔۔۔ سچ کہیں تو ایسے دفتر ہم جیسی لڑکیوں کی وجہ سے ہی چلتے ہیں ہم اپنے لئے بھی کماتی ہیں اور اپنے افسرانِ بالا کے لئے بھی روزی روٹی کا موٗجب بنتی ہیں۔۔
میرا گھر میری وجہ سے ترقی کرنے لگا گھر کی کچی دیواریں پکی ہوگئیں۔۔کمروں میں نئے پنکھے آگئے ، گھر میں کلر ٹی وی اور ریفریجریٹر بھی آگئے ، تو زندگی مزے میں کٹنے لگی ۔۔۔ سلیم اب میرے لئے عضوئے معطل بن چکا تھا اس لئے اُسے چلتا کیا ۔۔ باقی رشتے داروں کو بھی جوتے کی نوک پر رکھا جانے لگا۔۔ ۔۔کیونکہ دولت مندکے پیر خواہ کتنے بھی میلے اور ٹیڑھے ہوں ، دھونے کے لئے ہر ایک مچلتا ہے۔۔۔۔ چھوٹے بہن بھائی اچھے سکولوں میں جانے لگے اور اچھا پہننے لگے۔۔۔ میری کمائی میری تنخواہ سے کئی گنا زیادہ تھی اور میں گھر کی منظورِ نظر۔۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عورت جب کمانے پر آتی ہے تو مردوں سے کئی گُنا زیادہ کماتی ہے ۔۔۔اور یہ عزت ہوتی کیا چیز ہے جو چلی جائے۔۔۔۔شاید اُنکی جاتی ہو جن کے پاس پہلے سے موجو ہو۔۔۔میرے پاس تو نہیں تھی۔۔۔ جس کے پلے پیدائش سے محرومی اور بے عزتی لکھ دی گئی ہو اُسے عزت گنوانے کا کیا قلق۔۔۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ لاکھوں لڑکیاں جو چاردیواری کے اندر عزت گنواتی ہے وہ شریف زادیاں ہی رہتی ہیں مگر جس کی عزت چاردیواریوں سے باہر جانے لگے تو بدنام ، بے عزت اور گَشتی جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔۔۔۔ اس دُنیا میں بُرائی بُری نہیں بلکہ اُنکا ظاہر ہوجانابُرا ہے۔۔۔اور چُھپاناتو میں نے سیکھا ہی نہیں تھا اس لئے میں بُری بن گئی۔۔۔جس پر مجھے فخر ہے۔۔۔۔۔
آج کئی سرمایہ دار ، سندیافتہ اور تعلیم یافتہ میرے کلائنٹ ہیں ۔ اور میں اپنی قسمت سے خوش ہوں۔۔۔ کیونکہ نہ مجھے اپنے کئے پر کوئی ندامت ہے اور نہ شرمندگی۔۔مگر کبھی کبھی جب تنہائی میں لیٹ کر سوچتی ہوں کہ، کیا دولت مند بننے کے لئے سب کو اتنے کھٹن اور احساسات خشک کرنے والے راستے سے پا پیادہ گزرنا پڑتا ہے، تو بڑے بڑے نام اور لمبی لمبی تقریریں کرنے والی عورتیں بھی مجھے باالکل اپنے جیسی بے بس نظر آتی ہیں۔۔۔ مجھے وہاں بھی بل چڑھے تیوروں اور خود ساختہ ذہانتوں کے درمیان پائمال عزتیں سسکتی ہوئی ملتی ہیں ۔۔۔اُس ہر عورت کے اندر مجھے شازیہ ادریس نظر آتی ہے۔۔ جو اس سفر کی پہلی سیڑھی پر کھڑی یہ سوچ رہی ہے کہ مردوں کی اجارہ داری والے اس معاشرے میں اُوپر اُٹھنے کے لئے مزید کتنی قربانیاں، اور چڑھاوے درکار ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیم خان عابدؔ
(A true story written in 2010)

افسانہ: جانو بات تو کرو۔۔۔ نا۔۔۔۔۔

کمرے کا دروازہ خفیف سی چرچراہٹ سے کھلا اور خراما خراما قدموں کی چھاپ قریب آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ دروازے کی طرف پیٹھ پھیرے،اور سر گھٹنوں پر رکھے ایک گھٹڑی کی طرح سمٹ کر بیٹھی تھی۔اُس کے کاندھے سے اُنگلیاں مَس ہوئیں اور ایک بھاری بھر کم آواز اُس کی سماعتوں سے ٹکرائی ۔۔ جانو بات تو کرو۔۔۔۔۔۔نا۔۔۔
رفعت گھر میں سب سے چھوٹی اور دوبھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔اس لئے گھر کا سارا لاڈ پیا ر اُسکے حصے میں آیا تھا۔اُسکے والدجعفر خان ایک نامی گرامی بینک میں کیشئیر تھے، اور نوکری کے سلسلے میں مختلف شہروں کی ہوا کھائی تھی ۔ جعفر خان نے نوکری کے دوران اپنی فیملی کو اپنے پاس رکھا اور بچوں کی اچھی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔۔اُسکا گھرانہ ایک خوشحال گھرانہ تھا اور پیسے کی کوئی کمی نہ تھی۔رفعت نے مختلف سکولوں میں تعلیم حاصل کی لیکن ابو کی ریٹائرمنت کے بعد اپنے علاقے کے سکول میں پڑھ رہی تھی۔وقت پر لگا کر اُڑنے لگا اور رفعت جوانی کی منزلیں طے کرتی ہوئی کالج میں جا پہنچی۔سکول میں اُس کی صرف ایک ہی قابلِ اعتماد سہیلی تھی ۔۔۔ راحیلہ۔۔۔ ۔ راحیلہ اور رفعت دوقالب ایک جان والی مثال پر پورا اُتر تیں اور سکول سے کالج تک کا سفر اکھٹے طے کیا۔اُن دونوں کی قابلیت پورے سکول میں مشہور تھی اور دونوں نے فرسٹ ائیر پری میڈیکل میں داخلہ لیا، تو لڑکیا ں اُنکی قابلیت پر رشک کرنے لگیں۔ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرنا رفعت کا خواب تھا اور راحیلہ بھی رفعت سے الگ کوئی دوسر ا خواب دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔بس ایک خواب تھا اور پورا کرنے کی جستجو دونوں کو تھی۔رفعت کے دونوں بھائی جو عمر میں اُس سے کافی بڑے تھے، اُسی بینک میں بڑی پوسٹوں پر لگ گئے ۔بھائیوں نے اپنے گھر نہیں بسائے اس لئے وہ رفعت کے ناز نخرے اُٹھانے کے لئے ہمہ وقت حاضر رہتے۔۔ رفعت ابھی کالج میں تھی لیکن شموخالہ اور ظہرہ پھوپھی نے اُس میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔لیکن دونوں کو ایک ہی جواب ملا تھا" ابھی وہ پڑھ رہی ہے" 
آجکل جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اِس علاقے میں بھی موبائل ٹیکنالوجی پہنچ چکی ہے۔۔ اب تو چائنا والوں کی مہر بانی سے موبائل سیٹ ہر ایرے غیرے کے ہاتھ میں پہنچ گیاہے۔راحیلہ نے بھی ایک عدد موبائل فون لیا تھا، جس سے رفعت اور وہ یا تو کلاس میں تصویریں کھینچتیں، یا ہیند فری کا ایک ائیر پیس راحیلہ کے کان میں اور دوسرا رفعت کے کان میں ہوتا اور وہ فارغ اوقات میں گانے سُنتیں۔میڈ م اور استانیاں آئے روزنصیحتیں کرتیں ، اور موبائل فون کی قباحتیں بیان کرتیں، لیکن اُنکے پرسوں میں بھی یہ فون موجود رہتا ۔ اور وہ نصیحت ہی کیا کہ دوسرے کو نصیحت اور خود میاں ٖفصیحت۔
رفعت نے ایک دن افضال بھائی کو چائے پیش کرتے ہوئے کہا! بھیا آپ تو جانتے ہیں کہ علاقے کے حالات دن بدن خراب ہورہے ہیں اور آئے روز لڑکیوں کے سکول بموں سے اُڑائے جاتے ہیں، اس لئے گھر والوں سے رابطہ نہ ہونا باعثِ پریشانی ہے۔مجھے بھی ایک موبائل فون لیکر دے دیں۔۔۔ اصل میں بات رقم کی نہیں تھی، کیونکہ رفعت کا پرس ہر وقت سو اورپانچ سوکے نوٹوں سے بھرا رہتا تھااور وہ اکثر اپنے پلے سے سہیلیوں کو کھلایا پلایا کرتی تھی۔ کبھی کبھی اُن کی داخلہ فیس بھی اپنے پلے سے دیتی۔۔لیکن ساری بات علاقے کے رسم و رواج کی تھی، خواہ اُسکے ابو نے بڑے شہروں میں زندگی گزاری تھی لیکن اپنے علاقے کے رسوم کا اب بھی اتنا ہی پاس تھا جتنا کسی دیہاتی کو ہوتا ہے۔یہ الگ بات کہ موبائل ، ڈش انٹینا،ڈی وی ڈی اور کمپیوٹر ہر گھر تک پہنچ گئے ہیں،لیکن آج بھی پشتون گھرانے ان کا استعمال عورتوں کے لئے ممنوع سمجھتے ہیں۔۔۔ رفعت نے بھی بھائی کے سامنے اتنی لمبی تمہید صرف اجازت حاصل کرنے کے لئے باندھی تھی۔۔کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر وہ امی سے کہے تو جواب نہیں میں ہوگا اور بھائی سے بات کرنے سے بھی منع کردے گی۔بھائی نے کہا بات تو ٹھیک ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔! اور اس لیکن کے پیچھے پشتون روایات کی موجودہ دور سے گہری کشمکش چھپی تھی ۔۔۔
رفعت نے دوبارہ اصرار نہیں کیا۔ لیکن ایک ہفتے بعد افضا ل بھائی نے دفتر سے آتے ہوئے رفعت کے ہاتھ پر ایک ڈبہ رکھا، جو یقیناََ موبائل فون کا تھا۔۔ موبائل فون کو دیکھ کر رفعت خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔۔ اُس نے جلدی جلدی ڈبہ کھولا ،انسٹرکشن بُک پڑھی اور چارجنگ کے لئے سیٹ رکھ دیا۔۔ ابو اور جمال بھائی کے آنے کے بعدموبائل کو پر کھا گیا اور قیمت پوچھی گئی ، جو افضال نے پندرہ ہزار بتائی۔ جمال نے افضال کو منع کیا کہ اپنی سم رفعت کو نہ دیں کیونکہ یہ نمبر تمہارے دوستوں کے پاس بھی ہے، اور اگر وہ بھول کر بھی کال کریں تو بُرا لگے گا۔سب نے اس تجویز کو منظور کیااور رفعت کے لئے نئی سم خرید ی گئی۔ رفعت جب موبائل فون سکول لے گئی تو سب سہیلیوں نے نیک رائے ظاہر کی اور لڑکیوں نے دن کا زیادہ تر حصہ سیٹ پرکھنے میں گزارا۔۔ رفعت اپنی خیر خیریت گھر والوں کو بتاتی اور کبھی کبھی سکول میں کوئی فنگشن ہوتا تو امی سے اجازت نامہ بھی اسی فون کے ذریعے طلب کرتی۔موبائل فون واقعی کار آمد ثابت ہورہا تھا۔ ۔۔دن گزرتے گئے، اور فرسٹ ائیر کا رزلٹ نکلا جس میں رفعت اور راحیلہ کی نمایا ں پو زیشن تھی۔ پھر سیکنڈ ائیر کی کلاسیں شروع ہوئیں اور سہیلیوں کی محفل پھر سے جمنے لگی۔۔ اُ س کا موبائل نمبر زیادہ تر کلاس فیلوز کے پاس تھا اور وہ اُنھیں فون بھی کرتی تھی۔ 
ایک رات جب وہ اپنی پڑھائی میں مگن تھی،تو چند میسیج اُس کی موبائل سکرین پر نمودار ہوئے ۔۔۔ پڑھائی کے بعد جب اُس نے موبائل کی سکرین پر میسیج کھولے تو یہ ایک نا مانوس نمبر تھاجس نے انتہائی اعلٰی قسم کے اشعار بھیجے تھے۔ اُسے بھی شعر و شاعری سے شغف تھا اور یہ بات اُس کی سہیلیوں کو بھی معلوم تھی ۔ رفعت نے ان اشعار کو سہیلیوں کا تحفہ سمجھا اور اپنی بیاض میں یہ اشعار نوٹ کیے۔اگلی رات پھر سے اُسی نامانوس نمبر سے شعر آیا:
محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا 
اُسے اپنے بدن میں جُھر جُھری محسوس ہوئی اور پھر سے اپنی بیاض کھولی۔اُس دن کے بعد میسجز کا ایک تانتا بندھ گیا جس میں ادب ، فنونِ لطیفہ اور حال احوال کے میسجز ہوتے ،اُس نے کئی بار۔۔۔ کون ہو۔۔۔ لکھ کر جواب مانگا لیکن دوسری طرف سے اسے قابلِ اعتناء نہ سمجھا گیا۔ رفعت نے اپنی سہیلیوں سے بھی کئی مرتبہ دریافت کیا کہ یہ شرارت کس کی ہے لیکن وہ انجان بنی رہتیں۔۔پھر ایک رات اُنھیں اُسی نمبر سے کال آئی، اُنھوں نے کال ریسیو کی لیکن خاموش رہی ۔۔ ۔۔ دوسری طر ف سے ایک مسحور کُن اور مردانہ وجاہت سے بھری ہوئی آواز اُبھری۔۔۔جانو۔۔۔جانو۔۔۔بات تو کرو۔۔۔۔نا۔۔۔
علاقے میں پشتو اور پنجابی دونوں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن اکثریت پشتو بولنے والوں کی ہے ، مگر دوسری طرف سے اپنی تعلیم یافتہ ہونے کی دھاگ بٹھائی جارہی تھی۔رفعت نے فون بند کر دیا لیکن دوسرے لمحے فون کی سکرین پر ایک میسیج نمودار ہوا۔۔۔۔۔کیا ہور جانو آواز پسند نہیں آئی۔۔۔۔۔ اور اسکے بعد رجھانے کے لئے مختلف قسم کے میسجز آنے لگے۔۔ چند دن یہ سلسلہ چلتا رہا،اور پھر ایک دن رفعت کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا اور کافی غصے سے پوچھا ! کیوں کیا بات ہے ۔۔۔کیوں تنگ کرتے ہو۔۔۔۔۔ دوسری طرف سے معصومیت بھر ا جواب آیا۔۔۔اپنی جان کو کون تنگ کر سکتا ہے۔۔۔۔میں تو آپ کی آواز سننے کو لیے ہی جی رہا ہوں ورنہ کب کا مرچکا ہوتا۔۔۔جب سے آپ کو دیکھا ہے نیندیں اُڑگئیں ہیں۔۔۔ کہاں دیکھا ہے ۔۔۔رفعت کی رَگِ تجسس پھڑک اُٹھی۔۔۔۔اسی دُنیا میں اور اب ہر چیز میں آپ ہی نظر آتی ہو۔۔۔۔۔خیر رفعت کو ایک سرور سا محسوس ہوتا۔۔۔۔۔دوسری طرف سے آواز اُبھری۔۔۔ مجھے جو سزا دینا چاہو میں حاضر ہوں اور پھر اپنا نام پتہ بتا دیا ۔۔۔ اُس کی صاف گوئی نے رفعت کو قائل کر دیا ۔۔۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شر م ، جھجک اور پریشانی کی حدیں ختم ہوئیں اور راز و نیاز کی باتیں شروع ہوئیں۔۔ رازداری بھی ابتدائے عشق کی شرطِ اول ہے لیکن ابتدائے عشق میں ایک رازدان کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے، جن سے ساری باتیں شیئر کی جاتی ہیں اور آخر میں ایک معصومانہ فرمائش بھی کی جاتی ہے کہ کسی سے کہنا مت!۔۔۔۔۔
رفعت کے پاس تو راحیلہ پہلے سے موجود تھی۔ اور پھر کالج کے فارغ اوقات میں رفعت اور راحیلہ سر جوڑ کر رفعت کے من موجی سے باتیں کرنے لگیں۔۔۔ توجہ کا مرکز بدل گیا اورتعلیم کی جگہ عشق نے پکڑ لی ، پھر یہ آتش تو وہ آتش ہے کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے۔۔ ۔ باتیں کبھی کالج کی گیلری میں بیٹھ کر ہوتیں، کبھی نظریں بچاکر واش رومز کی راہ لی جاتی اور کبھی خالی کلاسیں تنہائی فراہم کرتیں۔۔ رفعت کا من موجی بھی بلا کا شاطر تھا، پیار کے جال میں پھنسا کرلڑکی کو اپنے پیچھے لگا لیا۔۔۔۔ اُسے یہ معلوم تھا کہ وہ رفعت کی زندگی مقصد بن چکاہے۔۔۔۔
آہستہ آہستہ من موجی کے سارے اخراجات رفعت کے ذمے پڑنے لگے، جس سے وہ بظاہر انکار کرتا لیکن پھر کہتا کہ تمہارا دل چاہتا ہے، تو میں نہ، نہیں کرسکتا۔۔۔ وہ رفعت کی تعریفیں کرتا، اور یہ سچ ہے کہ کسی کی تعریف کرنا، اُسے ایک ایسا نشہ دینا ہے جس کے خمار سے وہ تمام عمر نہیں نکل سکتا۔۔۔۔رفعت کو بھی یہ نشہ ملتا رہا اور وہ اس نشے کی اتنی عادی بن گئی کہ جس دن ناغہ ہوتا وہ بے چینی محسوس کرتی۔۔ رفعت کی تصویر بھی من موجی تک پہنچ گئی تھی۔۔۔سامان ادھر اُدھر لے جانے کا کام راحیلہ بخوبی انجام دے رہی تھی۔۔ اور جب رفعت کے سونے کی انگوٹھیاں اور جھمکے گم ہوئے تو ماں کو بھی شک پڑا لیکن بیٹی پر یکدم وار نہ کرسکی اور پھر رفعت نے زندگی بھر ایسی حرکت بھی نہیں کی تھی اس لیے ماں نے منہ پر کہنے سے گریز کیا ۔ لیکن راحیلہ سے چوری چپکے بات کردی، جس سے سب اچھا کی رپورٹ پا کر تھوڑی سی مطمئن ہوگئی۔راحیلہ اپنی سہیلی سے بھلائی کر رہی تھی یا بُرائی ، یہ الگ بات ہے،لیکن وہ دوستی نبھارہی تھی۔
اُس دن سکول میں مینا بازار کی تقریب تھی جب رفعت اپنے من موجی سے ملاقات کرنے گئی ،راحیلہ اُس کی رہنمائی کرتی رہی۔۔ ۔ اور پھر یہ ایک گھنٹے کی ملاقات رفعت کی زندگی کا حاصل ٹھہرا۔۔ یہ عورت کی فطرت ہے،کہ دل پر دی جانے والی پہلی دستک ہی دل سے سُنی جاتی ہے۔۔ باقی تو کُنڈی کھڑکانا ہو تا ہے اور کچھ نہیں۔۔۔۔
اسی جوش وہ خروش کی بھٹی میں رفعت بھی دہک رہی تھی ، نہ ماں سے بات کرنے کا حوصلہ اور نہ اپنے من موجی کو چھوڑنے کی ہمت۔۔اُنھیں اپناملن ناممکن نظر آرہا تھا، کیونکہ اُس کے من موجی کی ذات پات اور حیثیت اسکے برتن مانجھنے کی بھی نہ تھی۔۔۔ من موجی بھی بات خفیہ رکھنے پر اصرار کر رہا تھا۔
کبھی کبھی روٹھنا منانا بھی ہوتا، جو پیار کو شہہ دیتا تھا۔۔۔لیکن اُسے منانے کے لئے جب من موجی اپنی مدھور آواز میں کہتا کہ ! جانو۔۔۔۔اب بس بھی کرو۔۔ناراضگی چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔جانو ۔۔بات تو کرو ۔۔۔نا۔۔میں تمہارے سارے شکوے دور کردوں گا، تو اُسکا غصہ رفو چکر ہوجاتا۔۔۔ رفعت کو گویا ان الفاظ سے پیار ہوگیا تھا، او ر وہ اکثر راحیلہ سے کہتی کہ دیکھو کتنے نشیلے انداز میں کہتا ہے ۔۔۔ جانو بات تو کر و ۔نا۔۔ مجھے اِن الفاظ سے بھی اُس کی طرح عشق ہے ۔
ایف ایس سی کے سالانہ امتحانات شروع ہوگئے تھے اور ایک دن جب پر چہ ختم ہونے کے بعد رفعت واپس گھر نہ آئی، تو ماں نے فون کرنے کی کوشش کی لیکن فون بند تھا۔۔۔ راحیلہ کا فون ملایا گیا۔لیکن اُسکا بھی یہی حال تھا۔ رات دونوں گھروں نے گرم پرات پر کھڑے ہوکر گزاری، اور جب لڑکی گھر سے باہر رات گزار لے تو اپنے پرائے سب تھو تھو کرنے لگتے ہیں۔۔۔ ان دونوں گھروں کے ساتھ بھی یہی ہوا اور برادری میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔۔ لیکن لوگوں کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آرہی تھی کہ دونوں لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ کیسے بھاگ گئیں۔۔۔ ۔۔ ہزاروں منہ تھے اور ہزاروں باتیں ہوئیں۔۔ لیکن دونوں کا کچھ پتہ نہ چلا۔ ۔۔ کہیں سے افواہ آتی کہ تاوان کے لئے اغواہ کیا گیاہے۔ ۔۔ کہیں سے افواہ اُڑتی کہ نہیں رفعت کے پاس جو سونا تھا اُس کے لئے قتل کیا ہے دونوں کو۔۔۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس تھا۔۔۔ اُس کے من موجی نے اُسے خفیہ ملاقات کے لئے بلایا تھا ، اور دونوں کو نشہ آور مشروب دے کراُن کی عزت پر ہاتھ صاف کیے تھے۔۔۔
رفعت کا تو پورا پورا قصور تھا لیکن راحیلہ دوستی کے بھینت چڑھ گئی ۔۔جب رفعت نے آنکھ کھولی تو لال پیلے پردوں سے سجے ہوئے ایک کمرے میں پڑی تھی اور اُسکے سرہانے ایک ادھیڑ عمر عورت منہ میں پان رکھے اپنی خون آلودہ زبان سے نوکروں کو ہدایات دے رہی تھی۔۔ رفعت کو ہوش میں آنے کے بعد اپنی حالت کا احساس ہوا اور اُس کی ساری خوشیاں آنسو اور چیخیں بن کر اُس کے جسم سے نکل گئیں۔۔ وہ کچھ ہفتوں میں اُس ماحول کی عادی ہوگئی، لیکن راحیلہ کی یاد برابر ستاتی رہی۔۔اور وہ سوچتی رہی کہ یہ عشق تھا یا ایک شکاری چڑیا پھنسا کر بازار میں بیچنے کے لئے جال بچھا رہا تھا۔۔ آج اُسکی اونچی بولی لگی تھی۔۔ اور "رکھو " نائیکہ اُسکے واری جارہی تھی۔ ۔۔
کاندھے سے مس ہوتی ہوئی انگلیوں نے اُس کے سیب جیسے گالوں کو چھوا، اور اسکا رُخ اپنی طرف پھیر کر کہا ! واہ! کیا روپ دیا ہے اوپر والے نے اور یہ معصومیت ۔۔ تن من لٹھانے کو جی چاہتاہے۔۔لیکن۔۔ لیکن۔۔۔۔۔ یہ آنکھیں ۔۔۔۔یہ آنکھیں اتنی اداس کیوں ہیں؟۔۔۔۔۔۔اور یہ چُپ!۔۔۔بولوجانو؟ ۔۔۔۔۔۔۔بات تو کرو۔۔ نا۔۔۔۔!
لہجہ اور آواز دونوں غیر مانوس تھے۔۔۔۔ لیکن آج یہ الفاظ رفعت کا کلیجہ چھلنی کر رہے تھے۔۔۔اور ۔۔وہ چاہتی تھی کہ اپنے ساتھ ساتھ ان الفا ظ کو بھی دُنیا سے مِٹادے تاکہ کوئی اور رفعت ان الفاظ کی بھینت نہ چڑھے ہو۔
وسیم خان عابدؔ 

Written in May,2012