ابھی کل کی بات ہے کہ نارمل انسانوں کی طرح زندگی گزار رہے تھے، اچھا کھاتے اچھا پیتے اور سوجاتے (خیر ابھی بھی پورے ایب نارمل نہیں ہوئے) ، نہ قوم کا غم نہ انقلاب کی فکر بس عام سی زندگی تھی ،اور عام سی خواہشیں۔ ۔ ۔ سکول ، کالج کے دور تک قلم کاغذ کا جھنجھٹ نہیں پالا، البتہ کالج میں ایک مرتبہ قلم کو زحمت دی تھی ، لیکن وہ کالج کے رسالے میں میری نیچرل کاہلی کی وجہ سے نہ چھپ سکا۔ورنہ ہمارے کالج والے تو دیوار پر لکھا حکیم کا اشتہار بھی چھاپ لیتے تھے، چھان بین کی زحمت کون گوارہ کرتا۔کالج کے اس رسالے میں سب سے اچھی چیز تصویر ہوتی جو لڑکے ٹیڑھے میڑھے منہ بنا کر نیلے بیک گراؤنڈ کے ساتھ کچھواتے، اور اپنی تصویر پر پورا سال اِتراتے۔۔ پھر کسی نے کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیا،بندے کا نام تو یاد نہیں لیکن اگر کہیں مل جائے تو ۔۔۔۔۔
اب کیا تھا کتابیں پڑھتے پڑھتے اسلام کی طرف رجحان ہوا ، رجحان کیا تھا پورا ایم۔اے کرلیا، اور یوں اسلامی کتابیں پڑھتے پڑھتے لفظوں نے ایک ترتیب شروع کردی جسے میں نے شاعری سمجھا اور اُسے اسلامی رنگ میں رنگ دیا۔۔۔ پھر تعلیم ، فلسفہ ، مارکس ، الجہاد فی اسلام اور پتہ نہیں کیا کچھ کہاں کہاں سے پڑھا۔۔یاد نہیں۔۔۔ اب یہ بھی سچ ہے کہ ہم کوئی خوابیدہ شاعر تو ہیں نہیں ، جنہیں سوتے میں الہام ہوجاتے ہیں اور ہم شعر تخلیق کرلیتے ہیں، اور پھر قوم کو وہ اشعار سُناکر ساری قو م کو سُلا دیتے ہیں۔ ہم تو موسموں کے ساتھ بدلنے والے شاعر ہیں ، انقلاب کی باتیں سوچتے ہیں ، بُرائی دیکھ کر اُنھیں بُرا کہتے ہیں، خواہ کوئی سنے یا نہ سنے اور ہر موسم کا اثر دل پر محسوس کرتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں ہم ذہنی اختراع کو شاعری کا نام دیتے ہیں۔
اصل میں شعر لکھنا کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں ، اگر دیکھیں تو ہر ایرا غیرا شعر لکھ رہاہے۔اور ہم نے تو شہنشاہ اور ڈکٹیٹر قسم کے شاعر بھی دیکھے ہیں، اور آجکل وافر مقداربھی ان ہی کی ہے۔ یعنی باپ شاعر تو بیٹا شاعر ، چچا شاعر تو بھتیجا شاعر، باب مُصنف تو بیٹا یا بیٹی بھی لگے کتاب لکھنے اور باپ کی اپروچ سے بن گئے مصنف ، شاعر اور کالم نگار۔۔۔ ۔ اجارہ داری صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ ہر اُس میدان میں موجود ہے جس میں کچھ طاقت اور شہرت ملنے کا امکان ہو۔۔۔۔ اور قلم کا اجارہ تو سب سے خطر ناک ہے کیونکہ جسم کی غلامی سے کبھی تو نجات مل سکتی ہے مگر ذہنی غلامی سے نجات نہ ممکن ہے۔ ویسے ہی چند منچھلے ایک بیچاری پارٹی کو غیر جمہوری پن اور اجاراداری کا طعنہ دیتے ہیں ورنہ وہ بیچارہ خاندان تو اب پَسِ دیوار چلا گیا ہے، اور نوشتہ دیوار سب کو نظر آرہا ہے۔ لیکن اپنی تو قسمت ہی پھوٹی ہے کہ نہ باپ نے کچھ کہا اور نہ دادا نے ، مطلب ادبی میدان سے ہے ویسے تو ہمیں بہت بُرا بھلا کہا۔۔۔
ہم جیسے مبتدی کو کیا پتہ تھا کہ شعر کہنے والے بھی جذبہءِ رقابت سے سرشار ہوتے ہیں، اور دوسروں کی اصلاح تو دور کی بات ، اُنکی حوصلہ شکنی پر اُتر آتے ہیں، تاکہ میدان اور کاغذات میں اُنکا ہی نام رہے۔اور وہ اپناوہ مقام بھی خطر ے میں سمجھتے ہیں جو اُن کی نظر میں بتا تیری رضا والا ہوتا ہے ، جو اکثر اُن کی غلط فہمی کا نتیجہ ہوتا ہے۔لیکن ہم جیسے بے ضرر شاعر سے اربابِ ذوق کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔۔ خیر ہم نے اپنا کلام اپنے چند دوستوں کے سر تھوپنا شروع کیااور اُن بیچاروں کو ازراہِ مروت سننا ہی پڑا۔ میرے اکثر دوست بھی میری طرح بدذوق ہی تھے ، لیکن ایک صاحب کا مطالعہ اور تذکیر و تانیث سے واقفیت کافی تھی۔ مگر تذکیر و تانیث سے کوئی غلط فہم کوئی اور مطلب کشید نہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ وہ کافی سے زیادہ اسلامی ہیں اور اسی نام کی پارٹی کے رُکن بھی ہیں۔
اب ہم تو ٹھہرے پٹھان جو مذکر موٗنث کا فرق ویسے بھی بہت کم کرتے ہیں اور الفاظ میں تو باریکی اور بھی زیادہ ہوتی ہے اس لئے میرا مصلح دوست کبھی مذکر کو مونث بنالیتا اور کبھی مونث کو مذکر۔ بحور اور عروض کا جھنجھٹ اچھے وقتوں میں کون پالتا ہے، اس لئے ہم دونوں نے اس پہلو سے کنی کترائی اور مسودہ لکھ کر کسی شاعر کے پلے ڈالنے کی تہہیہ کرلیا۔
اپنے کلام کو دوسروں کے سامنے پڑھتے ہوئے کبھی کبھی شرم بھی آتی کیونکہ سب شاعر پہلے سے ویسے۔۔۔ نہیں ہوتے ، یہ تو باقی خربوزے اُن پر پیلا رنگ ڈال دیتے ہیں۔ لیکن تنہائی میں اپنا کلام غالبؔ اور سوداؔ کو شرمانے والا لگتا ، اور ہے بھی شاعروں کو شرمانے والا۔۔۔۔۔ کچھ دوست بھی ازراہِ ہمدردی داد دے دیتے، اور اکثر اُن کے چہروں کی اکتاہٹ مجھے بیاض بند کرنے پر مجبور کرتی۔۔ اور ایسا ہی ایک منحوس دن تھا جب دل نے لکھے کو چھاپنے کا مشورہ دیا ، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے کہ چین کا ایک لمحہ بھی حرام ہو اگر کسی نے پایا ہو۔ لکھتے لکھتے جب منظومات کی تعداد سو تک پہنچ گئی( میں اسے منظومات کہتاہو ں آپ جو چاہیں کہیں) ، توکتاب چھاپنے کے عملی اقدامات کی طرف توجہ کی۔ پہلا مسودہ فوٹوسٹیٹ کرایا اوراپنے علاقے کے مشہور شعراء میں تقسیم کرنے کا قصد کیا ، اب ہمارے علاقے میں تو مشہور شعراء دو ہی ہیں ، ایک میرا استاد اور دوسرا جو میرا استاد بنے سے زبان کے فرق سے محروم رہ گیا۔باقی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر پشاور میں بھی ایک اخبار کے ایڈیٹر صاحب سے ملاقات کی ، تو اُنھوں نے کالم لکھنے کا مشورہ دیا ، جنھیں وہ بعد میں کڑوا سچ کہہ کر رد کرتا رہا۔ اور ہر کالم پڑھنے کے بعد مجھے میری نوکر ی ختم ہونے سے ڈراتااور مقدس گائیوں پر لکھنے سے روکتا۔۔۔ہم بھی چی گویرا نہیں تھے ڈرانے سے ڈر گئے اور گستاخی کا ارادہ ترک کر دیا۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے ایک لوکل اخبار کو بھی دو تین نظمیں بھیجی تھیں، لیکن اللہ کا کرنا یوں ہو ا کہ اخبار اُسے چھاپنے سے پہلے ہی بند ہوگیا۔۔ ۔ اللہ اور صحافی معاف کرے، کہ آج کل تو صحافت اور اخبار اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے بطورِ اہتھیار استعمال ہوتے ہیں اور بہت سے کاروباری حضرات اسی میں اپنے کاروبار کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے ان گنہگار آنکھوں نے بہت سے صحافیوں کو گورنر ہاؤس اور وزیر اعلی ہاؤس کے چکر کاٹئے دیکھا ہے ۔ گھنٹیاں بجاتے ہوئے انگلیاں اکڑوں کرتے دیکھا ، اور پھر جن کو تیکھا ساجواب ملا ، تو اگلے دن کے اخبارات میں وہ وزیر صاحب اُس روٹھے صحافی کی وجہ سے چھڈی بنیان میں ہوتا۔ خیر اربابِ اختیار تو اکثر بولتے منہ موتیوں سے بھر دیتے ہیں ،اور پھر اُنکی روح گھٹ گھٹ کر مرتی ہے۔کیونکہ ناک تو پہلے سے کٹوائی ہوتی ہے۔ اور منہ میں موتی آجاتے ہیں جو سانس لینے کا واحد راستہ ہوتا ہے۔
ہم نے اخبار بند ہونے کا ماتم کیا ،لیکن اللہ کا کرنا تھا کہ ایک دوسرا لوکل اخبار شروع ہوگیا جس نے میرا چار سطری منظوم چھاپ دیا، جو اخبار کی تعریف میں تھا۔ اور اسے کوئی خوشامد سے تشبیح نہ دے کیونکہ ضرورت کے وقت ۔۔۔۔۔ کو بھی ۔۔۔۔۔ بنانا پڑتا ہے۔لیکن جلد وہ جگہ جو بڑے اخباروں میں طہٰؔ خان اور انورؔ مسعود صاحب جیسے لوگ گھیرتے ہیں،مجھ سے ایک مشہور شاعر نے اپنے نام کے زور پر چھینی ورنہ میری نظر میں میرا کلام اُن سے ہزار درجہ بہتر تھا۔ زور میری نظر پر ہے۔۔۔۔ اور یوں عوام سے میرا چار سطری رابطہ بھی منقطع ہوگیا۔
کلام کے چَھپ جانے کے بعد ہم خود کو اخباری سمجھنے لگے لیکن جلد اپنی اوقات پر آگئے اور دوستوں سے براہ راست کلام ہونے لگا۔ ہم نے جلد ملازمت کے سلسلے میں اپنے بے قدر ضلع کو خیرباد کہا، اور بڑے شہروں کی خاک چھاننی شروع کی۔۔۔۔۔
بڑے شہروں میں علم فٹ پاتھ تک بہہ کر آگیا ہے۔ ورنہ داتا دربار اور اردو بازار کے فٹ پاتھ گواہ ہیں، اور پنجاب یونیورسٹی کے فٹ پاتھ تو ہمہ وقت علم اور حسن سے بھرے رہتے ہیں۔ اور جہاں علم اور حسن ہو تو سارے بَل عشق ہی نکالتا ہے، اس لئے اکثر لاہوریوں کے بَل نکلے ہوتے ہیں۔ ۔۔ میرا یقین نہ ہو تو بڑے بوڑھوں سے پوچھ لیں ۔ کوئی نہ بتائے تو اقبال ؒ تو سب کو بتاتے ہیں۔۔۔۔۔
علم کی وہ فراوانی کہ ساغرؔ صدیقی صاحب سڑک کے کنارے پڑے ہیں، ساتھ میں مجید امجد صاحب ہیں۔ ناصر ؔ کاظمی صاحب بھی اُدھر ہی ملتے ہیں۔ غالبؔ تو نمازِ مترجم قسم کی سی جلد میں جلوہ افروز تھے۔ فیض صاحب ، قتیل شفائی اور حبیب جالبؔ صاحب وہاں سے عنقا تھے۔ انقلابی لوگ ہیں پڑے ہوں گے کسی جیل یا ٹارچر سیل میں۔۔۔۔ ناصر ؔ وساغرؔ کے اوپر پروین شاکر صاحبہ تھیں، ساتھ میں نوشیؔ گیلانی صاحبہ بھی تھیں۔ ادھر اُدھر شکیبؔ ، محسنؔ ،اور زیدیؔ صاحب جیسے لوگ تھے۔ ۔ ادا جعفری جیسے ۔۔ کہیں کچھ ررکھ کے بھول گئی تھی ۔۔ اس لئے موجود نہ تھی باقی رہیں ثمینہ راجہ اور عنبریں صلاح الدین وہ بھی اپنے جلوے دکھانے کے چکر میں تھیں۔ عنبرین اورثمینہ سے تو اپنی جان پہچان نہیں ، لیکن اپنی غیرت کی وجہ سے نوشی صاحبہ اور پروین شاکر صاحبہ کو مردوں کے جُھرمٹ میں اکیلا چھوڑنے کو دل نہیں چاہا۔ اس لئے ان دونوں کو اُٹھا کر اپنے ساتھ لے گیااور فٹ پاتھ والے کو منہ مانگے دام دیکر اپنی دریا دلی دکھائی اور مہینے کے باقی دن اپنے پیارے ملک کی طرح قرض پر بسر کیے۔۔۔۔ یہ دونوں محترمائیں میری روحانی استانیاں ثابت ہوئیں اور پروین کی تو ۔خوشبو۔ محسوس کرنے کے بعد اُسکا ۔انکار۔ بھی دل سے اچھا لگا۔ ہم جیسے مائل بہ کرم ، استانیوں سے بہت جلد سیکھتے ہیں اورمیں نے بھی اپنی استانیوں سے بہت کچھ سیکھا اور خود کو پختہ شاعر سمجھنے لگا۔ خیر غلط فہمی تو کسی کو بھی ہوسکتی ہے۔ اور اس کے بعد اپنے مسودے کی فوٹوسٹیٹ جگہ جگہ تقسیم کیں۔
اللہ رکھے میرے استاد صاحب کو جس نے میری منظومات پر توجہ دی، مگر باقیوں نے شاگردی کے مسئلے کو قابلِ اعتناء نہیں سمجھا۔ اور ایک شاعر صاحب نے تو حد ہی کردی ۔۔۔ جب مسودے کے متعلق دریافت کیا تو جواب سے ایسا لگا جیسے صُبح کا الاؤ میرے کلام سے روشن کرتے ہیں۔۔ خیر کلام تو جاندار تھا اس لئے آگ لگا رہا تھا اگر گیلا ہوتا تو کب جلتا یا جلاتا۔اللہ اس شاعر صاحب کو زندگی دے جس نے مجھے اپنے کلام کی تپش سے آگاہ کیا۔ اورمجھے مزاجِ شاعری میں پختہ تر کر دیا۔ اور اللہ رکھے اس شاعری کے خبط کو۔۔۔ کہ ایسے ایسے لوگوں کے در کھٹکھٹائے ، کہ شعر پڑھا واہ! واہ ! کی اور بعد میں جاتے ہوئے سوال کیا کہ وسیم خان تو آپ ہیں اور یہ عابدؔ کون ہے کیا یہ بھی کتاب میں مدد گار ہے ۔ اور ہم اپنا سا منہ لیکر رہ گئے۔ اور سوچتے رہے کہ اللہ نے کیسے کیسے لوگوں کو عزت دے دی ، خواہ مخواہ۔۔۔زور خواہ مخوا پر ہے عزت پر نہیں۔۔۔ خیر یہ تو اللہ کے کام ہیں ، کہ قانون کا وزیر وہ بنا جسے قانون سے دلچسپی نہیں، ریل کا وزیر وہ بنا جسے ریل سے دلچسپی نہیں، صدراور وزیرِاعظم وہ بنے جسے پاکستان سے دلچسپی نہیں۔۔ اللہ نے تو دستاریں بھی اُن لوگوں کو دیں ہیں جن کے سر نہیں اور پھر سر کی جگہ سیاست کیلئے ایک دوسرے کی دستار کاٹتے ہیں۔ اللہ نے تو جاہلوں کو ڈگریاں دیں ہیں اور بیوقوفوں کو کرسیاں۔۔۔۔ آپ کسی کی طرف بھی دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ اسی ادھیڑ بُن میں ایک ایسے شاعر سے بھی ملاقات ہوئی جس نے عروضی اصلاح کی جگہ میری نظریاتی اصلاح چاہی اور ہم بھی مُنہ میں زباں رکھنے کے باوجود خاموش رہے کیونکہ ہم اُن کے پیچھے گئے تھے وہ ہمارے پیچھے نہیں آیا تھا۔۔۔۔
پھر پشاور میں بھی ایسے افراد سے ملاقات ہوئی جو خود کو ادیب سمجھتے تھے لیکن لوگوں کی رائے اس کے خلاف تھی۔ عروضی اصلاح کے لئے در بہ در پھر نے کے بعد ایک ادبی انجمن میں جاپہنچے ، لیکن عروضی اصلاح نہ ملنی تھی اور نہ ملی۔عروضی اصلاح کے ساتھ ساتھ کسی مشہور شخصیں کا دیباچہ ملنے کیلئے بھی گلیوں کی خاک چھانی لیکن وہاں بھی قسمت نے ساتھ نہ دیا۔ ایک دوست کے والد صاحب کے توسط سے ایک صاحب سے رابطہ کیا لیکن دیباچہ لکھنے سے پہلے ہی قضائے الہی سے چَل بسے۔۔۔ پھر ایک صحافی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ابھی جوان ، خوبصورت اور صنفِ نازک ہیں اس لیے اپنے دیباچے کیلئے اُن کی جان خطرے میں ڈالنے سے اجتناب کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی تو میں اور میرے استاد صاحب رہ گئے اس لئے استاد صاحب کے دیباچے پر اکتفا کیا، اور خود پیش لفظ لکھ دیا۔
اب ہم نے اسے چھاپنے کی سعی شروع کردی ، کوئی بھی پبلیشر رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ کیونکہ اُنھیں معلوم تھا کہ چھاپنے اور پڑھنے والے دونوں کام شاید اسی شاعر کو کر نا پڑیں۔ ہم نے بھی گئی گزری اخلاقیات سے کام نہیں لیا ورنہ کتا ب کی کامیابی کیلئے سرورق پر دو ہونٹ ، دو نرم و گراز شانے اور ایک عدد چھیتڑے کی ضرورت ہوتی ہے جو جسم کو چُھپانے سے زیادہ اُسے دکھانے کا کام کرے۔ اورپھر نوجوان چسکے لے لیکر اُسے خریدنے آتے اور ہزار کاپیاں تو دنوں میں بِک جاتیں۔۔۔ لیکن ہم نے انسانیت سے کام لینے کا فیصلہ کیا اور اُسی پرانی ڈگر پہ چلنے کا فیصلہ کیا جس پر شاعر چلتے آئے تھے۔ یعنی سرورق میں وہی خزاں رسیدہ ڈالی ، چند زرد پتے اور ایک عدد تصویر جو شاعر کی ہوتی ہے ۔اور کتا ب کے آخری صفحہ پر دی جاتی ہے۔ یہ تصویر عام طور پر تلاش گم شدہ کے تصاویر کے مشابہہ ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ شاعر نے کھینچی نہیں بلکہ اُن سے بزور کھچوائی گئی ہے ۔ اور بعض شعراء کی تصاویر تو اتنی ڈراؤنی ہوتی ہے کہ بچہ جس کمرے میں دیکھ لے اُسے آسیب زدہ سمجھتا ہے۔ نوشی گیلانی صاحبہ میرے تصویر والے کلام سے مبرا ہیں۔
ہم نے اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کا حساب لگایا جو کتاب کے خرچ سے کچھ کم نکلی، اب ہم غالب ؔ تو تھے نہیں کہ قرض کی پی لیتے اور نادہندہ بن کر اپنی عاقبت خراب کرتے ،کچھ کام سیاستدانوں کے ہوتے ہیں اور اُنہی کے ساتھ اچھے لگتے ہیں مثلاََ عاقب خراب کرنا ، قرض لینا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی لیے کتاب کی چھپائی موء خر ہے اور جو کلام الاؤ روشن کرنے کا کام کرے اُسے جون ، جولائی میں چھاپ کرلوگوں کو سن سٹروک کرانے کا کیا فائدہ ۔۔۔ عروضی غلطیاں میرے اُستاد صاحب کے قلم سے رفوہوگئیں (ایسا میں اور میرا استاد سوچتے ہیں) لیکن جتنا سفر میں نے اس کتاب کیلئے کیااور جتنی مصیبتوں سے واسطہ پڑا اگر اتنا وقت عشق کو دیتے تو مجنوں و فرہاد میرے آگے تیل بیچتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس انقلاب کی خاطر شاعری شروع کی تھی وہ تو تیونس اور مصر میں آگیا ، پر اسے لانے والے شاعر نہیں تھے۔ بلکہ سوشل میڈیا کے کچھ گروپ تھے ۔۔۔اور یہ تو عام فہم بات ہے کہ شاعر کہاں سے انقلاب لاتے ، وہ تو گھر کا سودا بھی گلی کے بچے کو پانچ روپے دیکر منگواتے ہیں۔ پر لوگوں نے ویسے ہی داستانیں گھڑ لی ہیں کہ فلان شاعر نے یہ کیا وہ کیا۔۔۔۔۔ وہ بیچارے تو اپنی زندگی میں چار لوگوں کے درمیان بیٹھنے جوگے نہیں ہوتے، پیتے ہیں پلاتے ہیں یا فٹ پاتھ پر اپنا کلام چھوڑ کر کوچ کرجاتے ہیں۔۔ اُن بیچاروں کو مجلسِ شوری یا اسمبلیوں میں کہاں جگہ ملتی ہے۔ یہ تو بعد والے آکر اُنھیں تعظیم کے گاڑھے شیرے میں ڈبو ڈبو کر گلاب جامن بنا دیتے ہیں اور یہی حال دامات،کرامات اور مدظلہ قسم کے لاحقوں والے بزرگوں کا بھی ہے۔ لیکن ہمیں کیا ہم تو کتاب چھاپیں گے اور۔۔۔۔۔ساقی سے کہا ہے *کہ ابھی تمہارے زانوں پہ سر رکھ کر سوتے ہیں، جب انقلاب آئے تو مجھے بھی جگا دینا ۔۔۔۔
اب کیا تھا کتابیں پڑھتے پڑھتے اسلام کی طرف رجحان ہوا ، رجحان کیا تھا پورا ایم۔اے کرلیا، اور یوں اسلامی کتابیں پڑھتے پڑھتے لفظوں نے ایک ترتیب شروع کردی جسے میں نے شاعری سمجھا اور اُسے اسلامی رنگ میں رنگ دیا۔۔۔ پھر تعلیم ، فلسفہ ، مارکس ، الجہاد فی اسلام اور پتہ نہیں کیا کچھ کہاں کہاں سے پڑھا۔۔یاد نہیں۔۔۔ اب یہ بھی سچ ہے کہ ہم کوئی خوابیدہ شاعر تو ہیں نہیں ، جنہیں سوتے میں الہام ہوجاتے ہیں اور ہم شعر تخلیق کرلیتے ہیں، اور پھر قوم کو وہ اشعار سُناکر ساری قو م کو سُلا دیتے ہیں۔ ہم تو موسموں کے ساتھ بدلنے والے شاعر ہیں ، انقلاب کی باتیں سوچتے ہیں ، بُرائی دیکھ کر اُنھیں بُرا کہتے ہیں، خواہ کوئی سنے یا نہ سنے اور ہر موسم کا اثر دل پر محسوس کرتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں ہم ذہنی اختراع کو شاعری کا نام دیتے ہیں۔
اصل میں شعر لکھنا کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں ، اگر دیکھیں تو ہر ایرا غیرا شعر لکھ رہاہے۔اور ہم نے تو شہنشاہ اور ڈکٹیٹر قسم کے شاعر بھی دیکھے ہیں، اور آجکل وافر مقداربھی ان ہی کی ہے۔ یعنی باپ شاعر تو بیٹا شاعر ، چچا شاعر تو بھتیجا شاعر، باب مُصنف تو بیٹا یا بیٹی بھی لگے کتاب لکھنے اور باپ کی اپروچ سے بن گئے مصنف ، شاعر اور کالم نگار۔۔۔ ۔ اجارہ داری صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ ہر اُس میدان میں موجود ہے جس میں کچھ طاقت اور شہرت ملنے کا امکان ہو۔۔۔۔ اور قلم کا اجارہ تو سب سے خطر ناک ہے کیونکہ جسم کی غلامی سے کبھی تو نجات مل سکتی ہے مگر ذہنی غلامی سے نجات نہ ممکن ہے۔ ویسے ہی چند منچھلے ایک بیچاری پارٹی کو غیر جمہوری پن اور اجاراداری کا طعنہ دیتے ہیں ورنہ وہ بیچارہ خاندان تو اب پَسِ دیوار چلا گیا ہے، اور نوشتہ دیوار سب کو نظر آرہا ہے۔ لیکن اپنی تو قسمت ہی پھوٹی ہے کہ نہ باپ نے کچھ کہا اور نہ دادا نے ، مطلب ادبی میدان سے ہے ویسے تو ہمیں بہت بُرا بھلا کہا۔۔۔
ہم جیسے مبتدی کو کیا پتہ تھا کہ شعر کہنے والے بھی جذبہءِ رقابت سے سرشار ہوتے ہیں، اور دوسروں کی اصلاح تو دور کی بات ، اُنکی حوصلہ شکنی پر اُتر آتے ہیں، تاکہ میدان اور کاغذات میں اُنکا ہی نام رہے۔اور وہ اپناوہ مقام بھی خطر ے میں سمجھتے ہیں جو اُن کی نظر میں بتا تیری رضا والا ہوتا ہے ، جو اکثر اُن کی غلط فہمی کا نتیجہ ہوتا ہے۔لیکن ہم جیسے بے ضرر شاعر سے اربابِ ذوق کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔۔ خیر ہم نے اپنا کلام اپنے چند دوستوں کے سر تھوپنا شروع کیااور اُن بیچاروں کو ازراہِ مروت سننا ہی پڑا۔ میرے اکثر دوست بھی میری طرح بدذوق ہی تھے ، لیکن ایک صاحب کا مطالعہ اور تذکیر و تانیث سے واقفیت کافی تھی۔ مگر تذکیر و تانیث سے کوئی غلط فہم کوئی اور مطلب کشید نہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ وہ کافی سے زیادہ اسلامی ہیں اور اسی نام کی پارٹی کے رُکن بھی ہیں۔
اب ہم تو ٹھہرے پٹھان جو مذکر موٗنث کا فرق ویسے بھی بہت کم کرتے ہیں اور الفاظ میں تو باریکی اور بھی زیادہ ہوتی ہے اس لئے میرا مصلح دوست کبھی مذکر کو مونث بنالیتا اور کبھی مونث کو مذکر۔ بحور اور عروض کا جھنجھٹ اچھے وقتوں میں کون پالتا ہے، اس لئے ہم دونوں نے اس پہلو سے کنی کترائی اور مسودہ لکھ کر کسی شاعر کے پلے ڈالنے کی تہہیہ کرلیا۔
اپنے کلام کو دوسروں کے سامنے پڑھتے ہوئے کبھی کبھی شرم بھی آتی کیونکہ سب شاعر پہلے سے ویسے۔۔۔ نہیں ہوتے ، یہ تو باقی خربوزے اُن پر پیلا رنگ ڈال دیتے ہیں۔ لیکن تنہائی میں اپنا کلام غالبؔ اور سوداؔ کو شرمانے والا لگتا ، اور ہے بھی شاعروں کو شرمانے والا۔۔۔۔۔ کچھ دوست بھی ازراہِ ہمدردی داد دے دیتے، اور اکثر اُن کے چہروں کی اکتاہٹ مجھے بیاض بند کرنے پر مجبور کرتی۔۔ اور ایسا ہی ایک منحوس دن تھا جب دل نے لکھے کو چھاپنے کا مشورہ دیا ، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے کہ چین کا ایک لمحہ بھی حرام ہو اگر کسی نے پایا ہو۔ لکھتے لکھتے جب منظومات کی تعداد سو تک پہنچ گئی( میں اسے منظومات کہتاہو ں آپ جو چاہیں کہیں) ، توکتاب چھاپنے کے عملی اقدامات کی طرف توجہ کی۔ پہلا مسودہ فوٹوسٹیٹ کرایا اوراپنے علاقے کے مشہور شعراء میں تقسیم کرنے کا قصد کیا ، اب ہمارے علاقے میں تو مشہور شعراء دو ہی ہیں ، ایک میرا استاد اور دوسرا جو میرا استاد بنے سے زبان کے فرق سے محروم رہ گیا۔باقی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر پشاور میں بھی ایک اخبار کے ایڈیٹر صاحب سے ملاقات کی ، تو اُنھوں نے کالم لکھنے کا مشورہ دیا ، جنھیں وہ بعد میں کڑوا سچ کہہ کر رد کرتا رہا۔ اور ہر کالم پڑھنے کے بعد مجھے میری نوکر ی ختم ہونے سے ڈراتااور مقدس گائیوں پر لکھنے سے روکتا۔۔۔ہم بھی چی گویرا نہیں تھے ڈرانے سے ڈر گئے اور گستاخی کا ارادہ ترک کر دیا۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے ایک لوکل اخبار کو بھی دو تین نظمیں بھیجی تھیں، لیکن اللہ کا کرنا یوں ہو ا کہ اخبار اُسے چھاپنے سے پہلے ہی بند ہوگیا۔۔ ۔ اللہ اور صحافی معاف کرے، کہ آج کل تو صحافت اور اخبار اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے بطورِ اہتھیار استعمال ہوتے ہیں اور بہت سے کاروباری حضرات اسی میں اپنے کاروبار کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے ان گنہگار آنکھوں نے بہت سے صحافیوں کو گورنر ہاؤس اور وزیر اعلی ہاؤس کے چکر کاٹئے دیکھا ہے ۔ گھنٹیاں بجاتے ہوئے انگلیاں اکڑوں کرتے دیکھا ، اور پھر جن کو تیکھا ساجواب ملا ، تو اگلے دن کے اخبارات میں وہ وزیر صاحب اُس روٹھے صحافی کی وجہ سے چھڈی بنیان میں ہوتا۔ خیر اربابِ اختیار تو اکثر بولتے منہ موتیوں سے بھر دیتے ہیں ،اور پھر اُنکی روح گھٹ گھٹ کر مرتی ہے۔کیونکہ ناک تو پہلے سے کٹوائی ہوتی ہے۔ اور منہ میں موتی آجاتے ہیں جو سانس لینے کا واحد راستہ ہوتا ہے۔
ہم نے اخبار بند ہونے کا ماتم کیا ،لیکن اللہ کا کرنا تھا کہ ایک دوسرا لوکل اخبار شروع ہوگیا جس نے میرا چار سطری منظوم چھاپ دیا، جو اخبار کی تعریف میں تھا۔ اور اسے کوئی خوشامد سے تشبیح نہ دے کیونکہ ضرورت کے وقت ۔۔۔۔۔ کو بھی ۔۔۔۔۔ بنانا پڑتا ہے۔لیکن جلد وہ جگہ جو بڑے اخباروں میں طہٰؔ خان اور انورؔ مسعود صاحب جیسے لوگ گھیرتے ہیں،مجھ سے ایک مشہور شاعر نے اپنے نام کے زور پر چھینی ورنہ میری نظر میں میرا کلام اُن سے ہزار درجہ بہتر تھا۔ زور میری نظر پر ہے۔۔۔۔ اور یوں عوام سے میرا چار سطری رابطہ بھی منقطع ہوگیا۔
کلام کے چَھپ جانے کے بعد ہم خود کو اخباری سمجھنے لگے لیکن جلد اپنی اوقات پر آگئے اور دوستوں سے براہ راست کلام ہونے لگا۔ ہم نے جلد ملازمت کے سلسلے میں اپنے بے قدر ضلع کو خیرباد کہا، اور بڑے شہروں کی خاک چھاننی شروع کی۔۔۔۔۔
بڑے شہروں میں علم فٹ پاتھ تک بہہ کر آگیا ہے۔ ورنہ داتا دربار اور اردو بازار کے فٹ پاتھ گواہ ہیں، اور پنجاب یونیورسٹی کے فٹ پاتھ تو ہمہ وقت علم اور حسن سے بھرے رہتے ہیں۔ اور جہاں علم اور حسن ہو تو سارے بَل عشق ہی نکالتا ہے، اس لئے اکثر لاہوریوں کے بَل نکلے ہوتے ہیں۔ ۔۔ میرا یقین نہ ہو تو بڑے بوڑھوں سے پوچھ لیں ۔ کوئی نہ بتائے تو اقبال ؒ تو سب کو بتاتے ہیں۔۔۔۔۔
علم کی وہ فراوانی کہ ساغرؔ صدیقی صاحب سڑک کے کنارے پڑے ہیں، ساتھ میں مجید امجد صاحب ہیں۔ ناصر ؔ کاظمی صاحب بھی اُدھر ہی ملتے ہیں۔ غالبؔ تو نمازِ مترجم قسم کی سی جلد میں جلوہ افروز تھے۔ فیض صاحب ، قتیل شفائی اور حبیب جالبؔ صاحب وہاں سے عنقا تھے۔ انقلابی لوگ ہیں پڑے ہوں گے کسی جیل یا ٹارچر سیل میں۔۔۔۔ ناصر ؔ وساغرؔ کے اوپر پروین شاکر صاحبہ تھیں، ساتھ میں نوشیؔ گیلانی صاحبہ بھی تھیں۔ ادھر اُدھر شکیبؔ ، محسنؔ ،اور زیدیؔ صاحب جیسے لوگ تھے۔ ۔ ادا جعفری جیسے ۔۔ کہیں کچھ ررکھ کے بھول گئی تھی ۔۔ اس لئے موجود نہ تھی باقی رہیں ثمینہ راجہ اور عنبریں صلاح الدین وہ بھی اپنے جلوے دکھانے کے چکر میں تھیں۔ عنبرین اورثمینہ سے تو اپنی جان پہچان نہیں ، لیکن اپنی غیرت کی وجہ سے نوشی صاحبہ اور پروین شاکر صاحبہ کو مردوں کے جُھرمٹ میں اکیلا چھوڑنے کو دل نہیں چاہا۔ اس لئے ان دونوں کو اُٹھا کر اپنے ساتھ لے گیااور فٹ پاتھ والے کو منہ مانگے دام دیکر اپنی دریا دلی دکھائی اور مہینے کے باقی دن اپنے پیارے ملک کی طرح قرض پر بسر کیے۔۔۔۔ یہ دونوں محترمائیں میری روحانی استانیاں ثابت ہوئیں اور پروین کی تو ۔خوشبو۔ محسوس کرنے کے بعد اُسکا ۔انکار۔ بھی دل سے اچھا لگا۔ ہم جیسے مائل بہ کرم ، استانیوں سے بہت جلد سیکھتے ہیں اورمیں نے بھی اپنی استانیوں سے بہت کچھ سیکھا اور خود کو پختہ شاعر سمجھنے لگا۔ خیر غلط فہمی تو کسی کو بھی ہوسکتی ہے۔ اور اس کے بعد اپنے مسودے کی فوٹوسٹیٹ جگہ جگہ تقسیم کیں۔
اللہ رکھے میرے استاد صاحب کو جس نے میری منظومات پر توجہ دی، مگر باقیوں نے شاگردی کے مسئلے کو قابلِ اعتناء نہیں سمجھا۔ اور ایک شاعر صاحب نے تو حد ہی کردی ۔۔۔ جب مسودے کے متعلق دریافت کیا تو جواب سے ایسا لگا جیسے صُبح کا الاؤ میرے کلام سے روشن کرتے ہیں۔۔ خیر کلام تو جاندار تھا اس لئے آگ لگا رہا تھا اگر گیلا ہوتا تو کب جلتا یا جلاتا۔اللہ اس شاعر صاحب کو زندگی دے جس نے مجھے اپنے کلام کی تپش سے آگاہ کیا۔ اورمجھے مزاجِ شاعری میں پختہ تر کر دیا۔ اور اللہ رکھے اس شاعری کے خبط کو۔۔۔ کہ ایسے ایسے لوگوں کے در کھٹکھٹائے ، کہ شعر پڑھا واہ! واہ ! کی اور بعد میں جاتے ہوئے سوال کیا کہ وسیم خان تو آپ ہیں اور یہ عابدؔ کون ہے کیا یہ بھی کتاب میں مدد گار ہے ۔ اور ہم اپنا سا منہ لیکر رہ گئے۔ اور سوچتے رہے کہ اللہ نے کیسے کیسے لوگوں کو عزت دے دی ، خواہ مخواہ۔۔۔زور خواہ مخوا پر ہے عزت پر نہیں۔۔۔ خیر یہ تو اللہ کے کام ہیں ، کہ قانون کا وزیر وہ بنا جسے قانون سے دلچسپی نہیں، ریل کا وزیر وہ بنا جسے ریل سے دلچسپی نہیں، صدراور وزیرِاعظم وہ بنے جسے پاکستان سے دلچسپی نہیں۔۔ اللہ نے تو دستاریں بھی اُن لوگوں کو دیں ہیں جن کے سر نہیں اور پھر سر کی جگہ سیاست کیلئے ایک دوسرے کی دستار کاٹتے ہیں۔ اللہ نے تو جاہلوں کو ڈگریاں دیں ہیں اور بیوقوفوں کو کرسیاں۔۔۔۔ آپ کسی کی طرف بھی دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ اسی ادھیڑ بُن میں ایک ایسے شاعر سے بھی ملاقات ہوئی جس نے عروضی اصلاح کی جگہ میری نظریاتی اصلاح چاہی اور ہم بھی مُنہ میں زباں رکھنے کے باوجود خاموش رہے کیونکہ ہم اُن کے پیچھے گئے تھے وہ ہمارے پیچھے نہیں آیا تھا۔۔۔۔
پھر پشاور میں بھی ایسے افراد سے ملاقات ہوئی جو خود کو ادیب سمجھتے تھے لیکن لوگوں کی رائے اس کے خلاف تھی۔ عروضی اصلاح کے لئے در بہ در پھر نے کے بعد ایک ادبی انجمن میں جاپہنچے ، لیکن عروضی اصلاح نہ ملنی تھی اور نہ ملی۔عروضی اصلاح کے ساتھ ساتھ کسی مشہور شخصیں کا دیباچہ ملنے کیلئے بھی گلیوں کی خاک چھانی لیکن وہاں بھی قسمت نے ساتھ نہ دیا۔ ایک دوست کے والد صاحب کے توسط سے ایک صاحب سے رابطہ کیا لیکن دیباچہ لکھنے سے پہلے ہی قضائے الہی سے چَل بسے۔۔۔ پھر ایک صحافی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ابھی جوان ، خوبصورت اور صنفِ نازک ہیں اس لیے اپنے دیباچے کیلئے اُن کی جان خطرے میں ڈالنے سے اجتناب کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی تو میں اور میرے استاد صاحب رہ گئے اس لئے استاد صاحب کے دیباچے پر اکتفا کیا، اور خود پیش لفظ لکھ دیا۔
اب ہم نے اسے چھاپنے کی سعی شروع کردی ، کوئی بھی پبلیشر رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ کیونکہ اُنھیں معلوم تھا کہ چھاپنے اور پڑھنے والے دونوں کام شاید اسی شاعر کو کر نا پڑیں۔ ہم نے بھی گئی گزری اخلاقیات سے کام نہیں لیا ورنہ کتا ب کی کامیابی کیلئے سرورق پر دو ہونٹ ، دو نرم و گراز شانے اور ایک عدد چھیتڑے کی ضرورت ہوتی ہے جو جسم کو چُھپانے سے زیادہ اُسے دکھانے کا کام کرے۔ اورپھر نوجوان چسکے لے لیکر اُسے خریدنے آتے اور ہزار کاپیاں تو دنوں میں بِک جاتیں۔۔۔ لیکن ہم نے انسانیت سے کام لینے کا فیصلہ کیا اور اُسی پرانی ڈگر پہ چلنے کا فیصلہ کیا جس پر شاعر چلتے آئے تھے۔ یعنی سرورق میں وہی خزاں رسیدہ ڈالی ، چند زرد پتے اور ایک عدد تصویر جو شاعر کی ہوتی ہے ۔اور کتا ب کے آخری صفحہ پر دی جاتی ہے۔ یہ تصویر عام طور پر تلاش گم شدہ کے تصاویر کے مشابہہ ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ شاعر نے کھینچی نہیں بلکہ اُن سے بزور کھچوائی گئی ہے ۔ اور بعض شعراء کی تصاویر تو اتنی ڈراؤنی ہوتی ہے کہ بچہ جس کمرے میں دیکھ لے اُسے آسیب زدہ سمجھتا ہے۔ نوشی گیلانی صاحبہ میرے تصویر والے کلام سے مبرا ہیں۔
ہم نے اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کا حساب لگایا جو کتاب کے خرچ سے کچھ کم نکلی، اب ہم غالب ؔ تو تھے نہیں کہ قرض کی پی لیتے اور نادہندہ بن کر اپنی عاقبت خراب کرتے ،کچھ کام سیاستدانوں کے ہوتے ہیں اور اُنہی کے ساتھ اچھے لگتے ہیں مثلاََ عاقب خراب کرنا ، قرض لینا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی لیے کتاب کی چھپائی موء خر ہے اور جو کلام الاؤ روشن کرنے کا کام کرے اُسے جون ، جولائی میں چھاپ کرلوگوں کو سن سٹروک کرانے کا کیا فائدہ ۔۔۔ عروضی غلطیاں میرے اُستاد صاحب کے قلم سے رفوہوگئیں (ایسا میں اور میرا استاد سوچتے ہیں) لیکن جتنا سفر میں نے اس کتاب کیلئے کیااور جتنی مصیبتوں سے واسطہ پڑا اگر اتنا وقت عشق کو دیتے تو مجنوں و فرہاد میرے آگے تیل بیچتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس انقلاب کی خاطر شاعری شروع کی تھی وہ تو تیونس اور مصر میں آگیا ، پر اسے لانے والے شاعر نہیں تھے۔ بلکہ سوشل میڈیا کے کچھ گروپ تھے ۔۔۔اور یہ تو عام فہم بات ہے کہ شاعر کہاں سے انقلاب لاتے ، وہ تو گھر کا سودا بھی گلی کے بچے کو پانچ روپے دیکر منگواتے ہیں۔ پر لوگوں نے ویسے ہی داستانیں گھڑ لی ہیں کہ فلان شاعر نے یہ کیا وہ کیا۔۔۔۔۔ وہ بیچارے تو اپنی زندگی میں چار لوگوں کے درمیان بیٹھنے جوگے نہیں ہوتے، پیتے ہیں پلاتے ہیں یا فٹ پاتھ پر اپنا کلام چھوڑ کر کوچ کرجاتے ہیں۔۔ اُن بیچاروں کو مجلسِ شوری یا اسمبلیوں میں کہاں جگہ ملتی ہے۔ یہ تو بعد والے آکر اُنھیں تعظیم کے گاڑھے شیرے میں ڈبو ڈبو کر گلاب جامن بنا دیتے ہیں اور یہی حال دامات،کرامات اور مدظلہ قسم کے لاحقوں والے بزرگوں کا بھی ہے۔ لیکن ہمیں کیا ہم تو کتاب چھاپیں گے اور۔۔۔۔۔ساقی سے کہا ہے *کہ ابھی تمہارے زانوں پہ سر رکھ کر سوتے ہیں، جب انقلاب آئے تو مجھے بھی جگا دینا ۔۔۔۔
وسیم خان عابدؔ
written in 2010
No comments:
Post a Comment