Wednesday, 17 October 2018

کھٹا میٹھامضمون: پھرسے سودخوروں کے چنگل میں

مئی2011 میں جب ڈیپارٹمنٹ نے تنخواہ کا چیک تھمایااور ہم رقم کی جگہ وہ رنگین کاغذ ہاتھ میں تھام کر کیشئر کا منہ تکنے لگے تو جناب نے حکم دیا کہ اب تمہیں کسی بینک کے ذریعے ہی تنخواہ ملے گی، ورنہ پھرتے رہو یوں ہی۔ ۔۔۔۔ایک اکاؤنت تو ہم نے پہلے ہی سے کھلوایا تھا لیکن اُس وقت تک سود خوری کے بارے میں وعیدوں کا اتنا علم نہیں تھا اور علم ہونے کے بعد ہم نے اُس اکاؤنٹ کو جان بوجھ کے اگنور کر دیاتھا ، اور چور، ڈاکوؤں کیلئے تر نوالہ بن کر سفر کرنے لگے، لیکن اب نئی مصیبت گلے پڑگئی۔ اور حکومت ہمیں سود خوروں کا ہمنوا بنانے پر تُل گئی۔
ہم نے 4 مئی کو یہ چیک وصول کیا اور اٹھارہ مئی تک مفتی صاحبان کے فتوؤں پر غور کرتے رہے۔ کہیں تو بینک کے سائے میں بیٹھنے کی ممانعت جیسی سختی تھی لیکن کہیں کہیں اضطراری لین دین کی اجازت تھی ۔ کہیں سے تو کئی کئی زناؤں سے سخت گناہ ہے۔۔۔۔کی آوازیں سُنی۔۔۔۔ لیکن سنگساری کی حد کے بغیراور حد نہ ہو تو ہم مسلمان کہاں حد میں رہتے ہیں۔اس لیے میں نے اضطراری مولانا صاحب کی تقلید مناسب سمجھی کیونکہ مرتا کیانہ کرتا۔۔ پھر پشارو کے ایک دوست کے دلاسے پر بینک جانے کا قصد کیا اورایک دوسرے ہم پیشہ بھی اس سفر کا حصہ بنے ۔ ہم تینوں اکاؤنٹ کھولنے کے لئے چل پڑے۔مئی کی گرمی سے دماغ کھولتے پانی کی طرح اُبل رہا تھا، اور یہ دونوں بینک اکاؤنٹ کے لئے شرائط گنوا رہے تھے۔۔ ہم نے جل کر کہا کہ ہم رشتہ لینے تو نہیں جارہے کہ اتنے فوٹو سٹیٹ کرائیں اگر کھولنا ہوا تو کھول دیں گے ورنہ ان سود خوروں کے منہ کون لگتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھائی ، قانون ہر ایک کے لئے ہے اور یہ بینک کا قانون ہے کہ وہ اکاؤنت کھولنے والے کی چھان بین کرے ۔ خُدا نہ کرے کوئی دہشت گرد ۔۔۔ اکاؤنٹ کھول دے اور دُنیا کے ٹھیکیدار کو پتہ چل جائے تو بینک کا تو ستیہ ناس ہوگیا نا۔۔ ۔کیونکہ بڑے بڑے ملک ٹھیکیدار کی ایک وضو کی مار ہیں اور یہ تو صرف بینک ہے۔۔
ہم نے بھی ہٹ دھرمی چھوڑ دی ااور فوٹوسٹیٹ مشینوں کا طواف شروع کردیا ۔ یہاں سے کاغذات مکمل کرکے دوست کی گاڑی میں بینک چلے گئے۔۔ گارڈنے گاڑی والا سمجھ کر بغیر چیکنگ کے اند جانے دے دیا، اگر پیدل ہوتے تو پتہ نہیں کتنی بار تلاشی دینی پڑتی۔اندر جاکر ٹھنڈے پانی کے کولر پر دھاوا بول دیا اور جب حالت کچھ سنبھلی تومینیجر کی تلاش میں ادھر اُدھر دیکھنے لگے۔ اچانک ایک تلخ صورت اور تُرش رو صاحب پر نظر پڑی اور اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ اس سے پہلے ہم نے بینک میں کچھ کھلبلی دیکھی لیکن ہم ڈاکو یا لٹیرے نہیں تھے اس لئے ہمارے شریف ثابت ہونے کی وجہ سے وہاں چین کی بانسری بجنے لگی۔
تلخ صورت صاحب ہمیں ایک سفید مونچھ صاحب کے پاس لے گئے جو اتفاق سے مینیجر تھے اور ہمارے آنے کا مدعا سنایا۔ اُنھوں نے کاروباری مسکراہٹ چہرے پر سجالی۔ منہ تو ہم نے مونچھوں کی کثرت کے باعث نہیں دیکھا لیکن ماتھے کی شکنوں اور رُخساروں کی حرکت کی وجہ سے ہم نے مسکراہٹ فرض کرلی۔انھوں نے دراز سے ایک فاعل نکالی اور اُٹھ کر چلا گیا۔ میرے پشارو کے دوست نے مجھے کہنی ماری اور ایک خالی کرسی کی طرف اشارہ کیا کہ : وہاں مس۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹھتی ہیں ، میں نے جو ایک ہفتہ پہلے اکاؤنت کھولا ہے وہ انھوں نے کھلوایا ہے۔یار بینک میں لڑکیوں سے اکاؤنٹ کھلوانے کا اپنا مزہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مسلسل بول رہے تھے اور ہم اپنی قسمت کو رو رہے تھے۔ کہ یہاں بھی کس منحوس دن آگئے سب کے سب مرد بیٹھے ہیں اور مرد بھی وہ جن کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھی نہیں بلکہ فرض کی جاتی ہے۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی!۔۔۔ کہ جب وہ نرم سے لہجے میں جب سَر کہتی ہے اور اُنگلی رکھ کر سائن کرواتی ہے تو بندہ اپنی پھانسی کے آرڈر بھی سائن کرجاتا ہے۔انگلی رکھنے سے مطلب کاغذ کا مطلوبہ مقام ہے نہ کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھرہم چارلی ولسن صاحب کے فلسفے کو داد دیے بغیر نہ رہ سکے جس نے دفتر کو جنت بنانے کے لئے اس صنف کی بھرتی پر زور دیا ۔۔۔ اور سچ ہے کہ جنت انہی ستر حوروں کی وجہ سے تو جنت ہے۔۔۔ورنہ اِک چمن دوچار ندیاں۔۔۔۔۔۔اور کیا۔۔
ہمیں اپنی قسمت کا بخوبی علم تھا کیونکہ ہم ضلع۔۔۔۔ سے آئے ہیں اور وہاں تو ندیدے قسم کے مرد عورتوں کی جوتیاں اور ٹخنے دیکھ کر ہی اپنی صحت اور ایمان دونوں خراب کر دیتے ہیں۔ اور کبھی شٹل کاک برقعے سے ہاتھ یا اُنگلی نظر آجائے یا بادِ مخالف چلے تو یاروں کی محفل میں برسوں تک یہ واقعہ چٹخارے لے لیکر سُنایا جاتا ہے۔ کہ یار وہ پچھلی سے پچھلی گرمیوں میں جب دوپہر کو تیز ہوا شروع ہوئی اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، دل میں خیال آیا کہ جھٹ سے ایک فتوی صادر کردوں کہ ایک تو سودی نظام اور پھر یہ نرم و نازک تباہی کاسامان، اس کے خلاف لڑنا عظیم جہاد ہے وغیرہ۔۔۔ کیونکہ آجکل کھانے سے محروم رہ جانے والے کھانے کے حرام ہونے کے فتوے صادر کرتے ہیں اور ہم بھی محرومِ دیدار تھے۔ لیکن پھر ہوش کے ناخن لیے اور سوچا کہ آج نہ سہی کل سہی سامنا تو ہوگا اور پھر اپنے فتوے پر رجوع کرنا ہم جیسے لوگوں کا کام نہیں وہ تو بڑے بڑے علماء ہی کر سکتے ہیں۔۔۔جن کی غلطی بھی اجتہادی بن جاتی ہے اور ہماری لغزش بھی بدنیتی۔۔۔ ۔ ہم اپنی شومئی قسمت پر روتے رہے اور خالی کرسی کی طرف بار بار دیکھتے رہے۔ اتنے میں سفید مونچھ صاحب تشریف لے آئے اور ایک کتاب جتنا ضخیم فارم کھولا اور لگے سوالات پوچھنے۔ اُنھوں نے پہلا سوال جَھڑ ا۔۔
آپکی والدہ کانام۔۔۔۔۔ ہم نے ادھر اُدھر دیکھا اور ساتھ میں بیٹھے ہوئے دوستوں کا بھی تجسس جاگ اُٹھااور میرا منہ تکنے لگے۔ ہم نے کہا کہ بھائی! ہم پشتون ہیں مردوں کی طرح بات کرتے ہیں اور مان بہن کو بیچ میں نہیں لاتے، لڑائی کے وقت ایک دوسرے کی ایک کرتے ہیں یا ایک کرنے پر لڑائی کرتے ہیں لیکن کبھی بھی پُر امن رہ کر اُسکا نام نہیں بتاتے۔۔ موبائل سم والے کو بھی ماں کا نام نہ بتا کر کئی سمیں بند کروائی ہیں یہ تو ایک اکاؤنٹ کی بات ہے ۔ اگر بینک میں دوشیزہ ہوتی تو بھی ہم بتا دیتے لیکن آپ جیسے مچھڑ سے تو نام کا بھی پردہ فرضِ عین ہے۔ اُنھوں نے تسلی دی کہ یہ ضروری ہے اور آپ کا اکاؤنٹ ماں کے نام سے ہی محفوظ ہوگا۔ ہم نے فورََا کہا کہ، یہ بینک ہے یا قیامت ۔۔۔۔کہ ماں کے نام سے محفوظ کر رہے ہو۔۔ ۔ خیر دوست کی تسلی اور سفید مونچھ کے اصرار پر رازداری سے کہا۔۔۔۔۔۔ اور اُنھوں نے لکھ لیا۔۔ ہم نے گردن جُھکا لی اور سفید مونچھ نے دوسرا سوال جھڑ دیا۔جناب ! آپ کا وارث آپکے بعد کون ہوگا، مرنا بھی انسان پر فرض ہے ۔ ہم نے اُسکے چہرے کو دیکھا اور دل چاہا کہ ایک دو مُکے رسید کرکے چلتا بنوں۔۔۔اور ساتھ میں وہ کچھ ایسی سنادوں کہ بچپن کی یاد تازہ ہوجائے۔۔ وہ بھی ڈھیٹ تھا اس لئے باز نہ آیا اور دوبارہ سوال کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کیا کہتے کہ وارث تو تخت وتاج کے ہوتے ہیں ہماری کونسی جاگیر ہے، ہمارا ڈیپارٹمنٹ تو ہمیں تنخواہ کی جگہ زکوات دیتا ہے اور تنخواہ صرف تن کی خیر خواہ لگتی ہے ۔ یعنی کھانے پینے جوگے۔۔۔ اور مہینے کے آخری دنوں میں پاکستان اور میری حالت ایک جیسی ہوتی ہے۔۔۔۔*مطلب قرض پر گزر بسر سے ہے۔ پھر اگر ہزار پانچ سو بچ بھی جائیں تو اُن کے لئے اتنی جلدی کہاں سے وارث پیدا کریں۔ کون شادی کے خرچے اُٹھائے، کون بچے کی پیدائش پر لڈو بانٹے۔ آس پاس کی بوڑھیوں اور باتونی رشتہ داروں کا منہ بند کرنے کے لئے کون ہزاروں روپے کے سُوٹ خریدے۔۔ اے سفید مونچھ! تُجھے کیا معلوم کہ محلے داری اور رشتہ داری کے جھنجھٹ گاؤں میں کیا ہوتے ہیں۔ تم تو اکیلے فلیٹ کے باسی ہو ۔ اپنی خوشی اپنا غم آپ منانے کے عادی ہو۔ لیکن گاؤں میں تو خوشی غم شاملات میں شمار ہوتے ہیں۔۔۔۔ شادی کی کیا بات گاؤں والوں کے نخرے تو فوتگی میں بھی برداشت سے باہر ہوتے ہیں ۔۔کھانے پینے سے اپنی غفلت کی بنا پر محروم رہ جانے والے اچھے بھلے مُردہ کو جہنم رسیدہ اور زرد روکہتے نہیں تھکتے۔۔ اور پیٹ بوچا اچھی طرح کروائی جائے تو فوتگی کے مہینوں بعد بھی اُنکی تعریفیں کرتے ہیں ۔اور اُن کے جنت رسیدہ ہونے کی خبریں محلے کی جھوٹی بوڑھیوں کو خوابوں کے ذریعے موصول ہوتی رہتی ہیں۔۔۔ ائے سفید مونچھ! تجھے کیا معلوم کہ شادی میں اچھی بھلی دلہن کو بھی روٹھی رشتہ دارنیاں چوسا آم، کل موئی، ہاتھی پیر اور نہ جانے کیاکیا کہہ کے یاد کرتی ہیں ، اور سیرت کی مین میخ کی رام کتھاالگ سے جگہ جگہ سُنائی جاتی ہے۔ ۔۔ ان حالات میں ہم کدھر سے تمہارے چند سکوں کے اکاؤنٹ کے لئے وارث لائیں کونکہ ۔ ہزار ہا شجرِ کانٹا دار راہ میں ہیں 
انھوں نے ساتھ میں موت کا ذکر بھی کیا تھا اور ہماری آنکھوں کے سامنے مرنے کے بعد کیا ہوگا ، موت کا منظر،اور عذاب قبر قسم کی کتابوں کے تراشے پھر نے لگے۔ ان کے واقعات ذہن میں کھلبلی پیدا کرنے لگے جو سب کے سب نا معلوم مقام پرپیش آنے والے ، کسی دوست نے کہا ،یا ایک بندے نے خواب دیکھا والے حوالہ جات کے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم کوئی عالمِ آٹھ درجی نہیں ہیں کہ اُن کہ چھان بین کریں۔ ہم تو عامی ہیں اور شیخ سعدی ؒ کی طرح دروغِ مصلحت آمیز کے بھی قائل ہیں، اس لئے بسم اللہ سے شروع ہونے والی ہر کتاب اور دامات وبرکات ، رحمتہ اللہ علہم اور مدظلہ کے ضمیموں والے مصنفوں کے لکھے کو حرف بہ حرف اسلام سمجھتے ہیں۔ اسی لئے مجھ پہ فورََ اسلام کا غلبہ ہوااور ابھی اُٹھنے ہی والا تھا کہ دوست نے کاندھے پہ ہاتھ رکھا کہ تنخواہ نہیں لے گا تو مہینہ کیسے گزارے گا۔ کعبہ میرے پیچھے تو کلیسا میرے آگے والے حالات میں، نہ ہم آگے گئے نہ پیچھے مُڑے سیدھے ہاتھ مُڑ کر مینیجر کی ہاں میں ہاں ملائی۔ انھوں نے سمجھا یا کہ جناب! تخت و تاج کی وراثت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک بندے کا نام دے دیں تاکہ آپ کی غیر موجودگی میں بینک سے رابطہ میں رہے اور اللہ نہ کرے آپ کے بعد آپ کی کمائی کا حقدار ٹھہرے ۔۔۔ ہم نے کہا! کہ اایسا پہلے کہتے ہم تو ویسے ہی وارث پیدا کرنے کی پلاننگ کرہے تھے حالانکہ حکومت تو پلاننگ وارثوں کے روک تھام کی کرتی ہے۔ ۔ اور پی ٹی وی پر چابیوں کی تعریف کر کر کے آنے والی روحوں کو پریشان کرتی ہے۔۔ہم نے سیدھے سیدھے باپ کا نام لکھ دیا، اتنی عمر اُنکی کمائی کھائی ہے، اگر ہمارے بعد دو تین ہزار اُنھیں مل بھی جائے تو کونسی قیامت آجائے گی۔ اور ہم اکاؤنٹ میں کچھ چھوڑتے کہاں ہیں کہ وارث بیچارے کوبعد میں خوار ہونا پڑے۔۔۔
اسی دوران ایک سفید پوش سود خورہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ پکڑ کر گردش کرنے لگا، لیکن اتنا یقین تھا کہ یہ گردش میرے اکاؤنٹ کھولنے کی خوشی میں نہیں تھی کیونکہ وہ تو مینیجر اور میرے آپس کی بات تھی۔ پھر مینیجرنے ضخیم فارم میرے سامنے رکھا اور مجھ سے دس پندرہ سائن کرنے کو کہا ۔ لیکن اللہ کی قدرت کہ سب کے سب دستخط اپنی مثال آپ تھے، یعنی ایک دوسرے کے مشابہہ نہ تھے*پتہ نہیں یہ لوگ اپنے سارے دستخط ایک جیسے کیسے کر لیتے ہیں* اور سفید مونچھ صاحب نے ان پر غور کیے بغیر ہی مجھے مبارکباد دی۔۔۔ لیکن اُنھیں کیا اصل مسئلہ تو مجھے ہوتا ہے جب میں رقم نکالتا ہوں ۔ پچھلے اکاؤنٹ سے رقم نکلوانے میں جو دقتیں سامنے آئیں اللہ ہر مسلمان کو اُس سے بچائے۔ چیک پر دستخط دیکھنے کے بعد مینیجر صاحب اپنے پرانے کاغذات میں منہ ماری کرتے اور ایک کاغذ نکال لیتے جن پرمیری کھینچی ہوئی چند آڑھی ترچھی لکیریں ہوتیں اور مجھے حکم دیتے کہ ایسی ہی لکیریں کھینچو۔ ہم لکیر کے فقیر تو تھے نہیں اس لئے ویسی لکیر کھینچنا ہمارے بس میں نہ ہوتا اور معاملہ شناختی کارڈ کی فوٹوسٹیٹ سے حل ہوتا۔ اب ہماری خوش خطی کا یہ عالم ہے کہ لکھائی نہ دوبارہ ہمیں سمجھ آتی ہے اور نہ شاید ممتحن کو اس لئے اندازے سے پاس کرتے ہیں کہ اتنا کچھ لکھا ہے درست ہی لکھا ہوگا۔ لیکن بینک والے حساس ثابت ہوئے اور لکیر کے فقیر واقع ہوئے۔
دوست نے پھر کہنی ماری کہ رابطہ نمبر تو لے لو تاکہ معلومات حاصل کرسکو۔ لیکن ہم نے جواب دیا کہ مردوں کے نمبر تو پہلے ہی سے موبائل میں اعتدال سے زیادہ ہیں، آپ نے تو پری پیکر سے نمبر لیا تھا ، خواہ اُس نے بینک کا دیا ہو لیکن بندہ یاروں میں تو جھوٹا نہیں ہوتااور بتا سکتا ہے کہ ایک محترمہ نے نمبر دیا ہے، اس سفید مونچھ سے نمبر لیکر مجھے کونسے کرنسی کے بھاؤ پوچھنے ہیں۔۔۔ نہیں لیتا نمبر اس سے !۔۔۔ اور پھر قائد کی طرح اپنے فیصلے پر ڈٹا رہا۔ خیر کسی نے فیصلے سے ہٹنے پر زور نہیں دیا ورنہ ہمیں کونسے ملک آزاد کرنے تھے۔
اب ہم نے سفید مونچھ سے اجازت چاہی اور گرم جوشی سے ہاتھ ملایاکیونکہ اب ہم بھی اُنکی صف میں کھڑے تھے، یعنی سودی کاروبار کے ہمایتی۔ اور ہمارے پاس اضطرار کا جواز بھی کافی قوی تھا۔جس طرح مُلاؤں کے پاس سیاست میں مداخلت کا جواز ہوتا ہے۔اور بعض تو جمہویت کی ابتدا بھی اسلام سے کرتے ہیں لیکن اتنی عقل نہیں ہوتی کہ وہ تولنے کی جمہوریت تھی اور یہ گننے کی ہے لیکن جیسا بھی تھا ہم ایک عدداکاؤنٹ کے مالک بن گئے ہیں۔ اور نکل پڑے سودی عمارت سے۔۔۔ غاصب نگری میں رہنے کیلئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیم خان عابدؔ 
written in 2011

1 comment:

  1. 😂 🤣 😂
    جو فرمایا ہے بجا فرمایا آپ نے اور تحریر زبردست ہے پڑھ کر لگتا ہے ایسی تحریر بغیر سودی ادارے یعنی بینک کی نوکری کئے لکھنا نہیں ممکن کم از کم

    ReplyDelete