ہم جس محکمے سے تنخواہ لے رہے ہیں وہاں کرنے کو اب کوئی خاص کام نہیں رہا ،کیونکہ تیل اور مشینری کی کمیابی کے باعث اکثر سیکشن سنسان پڑے ہیں۔اسی لیے کام کرنے ،کا لفظ جان بوجھ کے استعمال نہیں کیا۔ کام نہ ہونے کی صورت میں ملازمین کے پاس صرف تبصرے باقی رہ جاتے ہیں جو اکثر زبانی کلامی ہوتے ہیں مگر کچھ نادان قلم کا جھنجھٹ بھی پال لیتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ جس مخکمے میں کام نہ ہو وہاں کے ملازمین علم کے دریا نہ سہی علم کے کوزے ضرور ہوتے ہیں البتہ خود کو وہ دریا ہی سمجھتے ہیں۔۔۔
ایک دفعہ ایک سفید ریش ملازم سے ملاقات ہوئی تو میرے ہاتھ میں پروین صاحبہ کی " انکار" تھی،جس کے آخری صفحے پر وہ سندوری پیراہن میں بہ نفسِ نفیس موجود تھیں۔۔۔بزرگ ملازم نے بے چینی سے دوتین دفعہ ادھر اُدھر دیکھا اورآخر کار مجھ سے مخاطب ہوکر کہا، بیٹا،یہ کیا فضول سی کتاب اُٹھائے پھرتے ہو کوئی ڈھنگ کی کتاب پڑھا کرو۔۔۔اور ادب سے اچھا۔۔۔ کہنے کے بجائے میرے مُنہ سے جیسے۔۔ کا لفظ نکل گیا۔۔۔حالانکہ ہم اپنے بڑوں کا بہت ادب کرتے ہیں اور اُن کے سامنے اُف تک نہیں کرتے ،خواہ ہمیں ہزار دفعہ معلوم ہو کہ اُس کی بڑائی صرف عمر کی وجہ سے ہے جس میں اُسکا کا کوئی ذاتی کریڈت بالکل نہیں۔۔۔ لیکن اب انجانے میں ۔۔جیسے۔۔ کا لفظ منہ سے نکل چکا تھااُنھوں نے تیور چڑھائے اور عالمانہ شان سے گویا ہوئے جیسے۔۔ فضائلِ اعمال۔۔۔ اور پھر ہماری طرف داد طلب نظروں سے دیکھنے لگے۔۔ ہم نے عرض کیا، جناب وہ تو ہم پڑھ چکے ہیں۔۔دو تین دن میں ختم ہوگئی تھی ۔۔۔۔ وہ پھر گویا ہوئے دوبارہ پڑھو۔۔۔سہ بارہ پڑھو اور پڑھتے رہو ۔۔۔تو ہم نے معذرت خواہانہ لہجے میں عرض کیا، پھر قرآنِ مجید ٹھیک نہیں۔۔۔۔اُس نے خونخوار نظروں سے مجھے دیکھا اور آج تک سلام دُعا بند رکھی ہے۔۔۔۔
ہم نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اپنے محکمے کے کسی سینئرکے سامنے زبان نہیں کھولیں گے ،اور جب ہمارے ایک آفیسر نے لندن کی ہسٹری سناتے ہوئے لندن کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرکے پنجابی کی ایک مخربِ اخلاق گالی اخذ کی۔ تم ہم بالکل چُپ رہے۔۔اور کچھ نہ کہا۔۔۔۔
یہاں پر ہر بندے کی اپنی ایک فلاسفی ہے، جس پر وہ خود ہی حرفِ آخر اور عقلِ کل ہوتا ہے۔ایسے ایسے لوگ سسٹم کو درست کرنے کی بات کرتے ہیں جس کو ان گنہگار آنکھوں نے سو اور پچاس کے نوٹ کئی بار لیتے ہوئے دیکھا ہے۔ سلطان ٹیپو ، عمر مختار اور صلاح الدین ایوبی کے قصے وہ لوگ سناتے ہیں جواندھیرے میں اکیلے گھر نہیں جاسکتے۔۔۔اورمیں نے تو اپنے سینئرزکو یہا ں تک کہتے سُنا ہے کہ ہمارے وقتوں کا میٹرک اور آج کا ایم اے برابر ہے۔۔۔ جب ایسے ہی ایک موقع پر ہم نے ۔۔کیوں۔۔۔کہا، تو حضرت فرمانے لگے کہ ہمارے وقتوں میں لوگ لالٹین جلا کر پڑھتے تھے۔۔۔ تو ہم نے کہا اس میں میٹرک ایم اے کے برابر کیسے ہوا ۔۔۔یہ تو سیدھا سادھا توانائی کا بحران ہے، اور آج بھی ہم یو۔پی۔ایس۔اور بیٹریاں لگا کر پڑھتے ہیں۔۔ یہ تو حکومت کی نالائقی کا مسئلہ ہے تعلیم کے فرق کا تو بالکل نہیں۔۔۔تو فرمانے لگے کہ ہمارا ایک دوست رات کو اپنے سر کے بال چھت سے لٹکی ہوئی رسی سے باندھ لیتا اورنیندکے جھٹکے کھا کرکتاب کو دیکھتا۔۔ کر سکتے ہوتم اتنی محنت ۔۔۔۔ تو ہم نے موء دب ہو کر عرض کیا ۔۔۔۔ جناب نیند کے جھٹکے کھا کر کیا خاک کسی کی سمجھ میں کچھ آئے گا، اللہ نے دن کی روشنی پیدا کی ہے اُس میں بندہ اپنی رہی سہی کثر پوری کر سکتا ہے اور رات تو نیند کے لیے ہی ہے۔۔ رات کو پڑھ کے نیچر کو کیوں ڈسٹرب کریں۔۔۔اور ویسے آپکا یہ چھت سے لٹکا دوست دن کو کیا کرتا تھا ۔۔تو فرمانے لگے بڑا زندہ دل انسان تھا سارا دن کھیتوں میں جواء کھیلتا تھا۔۔۔(اور شاید یہی وجہ ہو میٹرک اور ایم اے کے برابری کی)
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اپنا علم ہر بندے کو مکمل کیوں نظر آتا ہے۔۔۔۔ہر بندہ یہ کیوں سوچتا ہے کہ جو بندہ آگے سے جواب نہیں دے رہا وہ بیوقوف ہے اور بات کو نہیں سمجھتا۔۔۔۔ وہ یہ کیوں نہیں سوچتا کہ اُس کی چُپ مروت کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے اور میری چال جانتے ہوئے بھی وہ صرف وضعداری میں نبھا رہاہے۔۔۔۔لیکن میرے محکمے میں چُپ بیوقوفی اور بزدلی سمجھی جاتی ہے۔۔۔۔۔
ایک دفعہ ایک قریب ال پینشن بزرگ نے فرمایا ۔تم لوگ کام کی عظمت کو کیا جانو۔۔۔ کام تو ہمارے زمانے میں ہوتے تھے۔۔۔جب ایک ایک ڈیوٹی میں دس دس ٹرینیں گزرتی تھیں۔۔۔ہم نے کہا جنابِ والا آپ کی بات بجا ہے، لیکن آپ بھی کرسی پر بیٹھ کر ڈیوٹی پوری کرتے اور ہم بھی یہی کر رہے ہیں ، ٹرینیں چلانا حکومت اور افسرانِ بالا کا کام ہے،اور اگر سوچنے والے نہیں سوچتے تو ہم جیسے ادنی ملازم کا کیا قصور ہے۔۔۔لیکن پاکستان کے سوچنے والے کمانے سے فارغ ہوں تو کوئی مثبت بات سوچے۔۔۔۔ فرمانے لگے کہ تم سرکاری کام میں ٹانگ اڑانے کے شوقین لگتے ہو۔۔۔۔ تو ہم نے موء دبانہ عرض کیا،سر ہم تو اتنے شریف ہیں کہ ہماری تنخواہ چاہے بینک سے ہو یا کیش سے ہم اُف تک نہیں کرتے۔۔۔۔ لیکن جہاں دال کالی ہو تو تنخواہ بینک سے لینے پر غوغائے رستخیز اُٹھنا شروع ہوجاتا ہے۔۔۔۔دیکھیں ہمارے رجسٹر تو ہر کوئی چیک کرنے آتا ہے اور ہم با ادب اور با ملاحظہ کھڑے ہوجاتے ہیں حالانکہ ذہن میں فیضؔ صاحب کا شعر بار بار گونجتا ہے کہ:
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
مگر کبھی بھی زبان پر نہیں آتا۔۔۔اب اس سے زیادہ تابعداری سرکار اور افسر ان کی کیا ہوسکتی ہے۔۔اُس نے کہا لڑکے تم کافی بدتمیز ہو کوئی افسروں کے بارے میں بُرا سوچتا ہے۔۔۔ تو ہم نے کہاکہ جناب ہماری کیا اوقات کہ افسروں کے بارے میں لب کشائی کریں ہم تو اُن کلرکوں (جو افسران کے خاص اور پالتوہوتے ہیں) یا اُن فوجی سپاہیوں کی بات کرتے ہیں جو میٹریکولیٹ ہونے کے باوجو بھی ہماری ویجیلینس پر مامور کیے جاتے ہیں، اور وہ پھر خدا بن بیٹھتے ہیں ۔۔ ۔۔کیونکہ افسر میں معاملہ فہمی کی کچھ خو تو ہوتی ہے لیکن یہ احساسِ کمتری کے مارے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔یا پھر کمانے کی نئی راہیں تلاش کرتے ہیں۔۔۔اپنے پشاور ڈویژن کو دیکھ لیں، افسر تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن اسے چلانے اور تبادلے کرنے والے شہنشاہ کو کوئی ہٹا کر دکھا دے تو مانوں۔۔۔کہنے لگے، لڑکے نوکری کرنی ہے یا گھر جانا ہے۔۔۔۔ میں نے جھٹ کہہ دیا، جناب نوکری بھی لگی رہے اور گھر کے چکر بھی لگتے رہیں ۔۔۔تو فرمایا پھر چُپ سادھ لو اور ہم نے اُنگلی ہونٹوں پر رکھ لی۔۔۔۔۔
ایک اور بات جو میں شدت سے محسوس کر رہا ہوں وہ سرکاری(دفتری) شعراء کی تعداد ہے۔سرکاری شعراء اس لیے کہا کیونکہ وہ سرکاری ٹائم یعنی ڈیوٹی آورزمیں شعر لکھتے ہیں ،یا جن پر نزول دفتروں میں ہوتا ہے۔۔۔۔۔کیونکہ دماغ خالی ہوتا ہے۔۔ میرے محکمے میں دفتری شعراء کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔کچھ میں تو شاعری کے جراثیم پیدائشی تھے اور کچھ زنانہ ڈبوں میں کوٹنے سے شاعر بنے ہیں۔۔۔۔کیونکہ کچھ لوگ مجروح ہو کر ہی فیض پاتے ہیں۔۔۔۔اگرچہ بابا اشفاق احمد صاحب کا ڈائریکٹ اور میرا جی کا اِن ڈائریکٹ تعلق اس محکمے سے رہا ہے ،لیکن اب تو یہاں ہر زبان لہجے اور اخلاق کے شعراء ملتے ہیں۔۔ استاد صاحب سے سُنا تھا کہ بڑا شاعر صدی میں ایک پیدا ہوتا ہے جیسے میرؔ ،غالبؔ اور اقبالؒ ۔۔۔۔اور اچھے شاعر سینکڑوں ہوسکتے ہیں،لیکن اس ڈیپارٹمنٹ میں مجھے صرف بڑے شاعر ملے ہیں(عمر کے لحاظ سے) کوئی اچھا شاعر نہیں ملا۔۔۔۔۔
ایک دفعہ لاہور سے آتے ہوئے اپنے محکمے کے ایک شکست خوردہ شاعر سے ملاقات ہوئی ، جو ادبی محفلوں تک پہنچ گیا تھا لیکن کسی نے گھاس نہ ڈالی۔۔۔رسمی سی گفتگو کے بعد میں نے بڑے شعراء کے چند اشعار سُنائے،تو حضرت دیر تک اُن اشعار کو چباتے رہے ،منہ کو مختلف اندازمیں موڑتے ،مروڑتے اور گھماتے رہے، بالاخر ایک دو اشعار ہضم کرکے کچھ طبع زاد اُگل دے۔۔۔ جس پر ہم نے ازراہِ مروت داد دی۔۔ اُسکی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک آئے اور سیریس ہی ہوگئے ۔۔۔پُرانے کے ساتھ ساتھ اپنا کنوارا کلام بھی سُنا دیا۔۔جو بلکل ان ٹچ تھا۔۔لیکن اُس کے اشعار سُن کر اُس کے ادبی محفلوں سے دھتکارے جانے کا سبب سمجھ میں آگیا۔۔۔۔۔ خیر میں نے اپنے اشعار اس لیے نہ سنائے کہ ہم جب تک اپنا شعر نہ سنادیں ،سامنے والے اچھا ہی سمجھتے ہیں۔۔۔ اور چند ایک کو چھوڑ کر باقی شعراء کی بھی یہی حالت ہے۔۔۔
ایک دفعہ ایک سٹیشن کی کینٹین سے آہ و فغاں بلند ہو رہی تھی، ہم نے کسی جھگڑے پر قیاس کر لیا اور فوراََ وہاں پہنچے،لیکن کیا دیکھتے ہیں وہاں ایک گرما گرم مشاعرہ شروع ہے، یہ دوشعراء کی باطلِ ناخواستہ ملاقات ہوئی تھی جس نے مشاعرے کی شکل اختیار کرلی تھی۔ ایک شاعر اُس انجن کا ڈرائیور تھا جس کے لیے سٹیشن پر تیل موجود نہیں تھا اور دوسرا اُس ٹرین کا گارڈ تھا جس کی بوگیوں کے پہیے جام ہوچکے تھے اور اُنکے نیچے سے ہتھوڑے کی ٹک ٹُک کی آوازیں آرہی تھیں۔۔گارڈ غزل پہ غزل عنایت کررہا تھا اور ڈرائیور ریل کے افلاس پہ نظمیں پھینک رہا تھا۔۔۔۔نظمیں آزاد تھیں اور بحر سے خارج۔۔۔گارڈ صاحب کی غزلیں بھی آزاد تھیں ،لیکن اخلاق سے خارج۔۔۔نزدیکی پارسل روم سے چار بکرے دل کھول کر داد دے رہے تھے۔۔۔۔کیونکہ یہ شور اُن کے پلے ہی پڑ رہا تھا۔۔۔
ریلوں کے لیے موت ہے جمہوری حکومت
ورکشاپِ مرمت بھی نگل لیتے ہیں آلات
خیر اگر بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئی تو کوئی بات نہیں، میں گزشتہ تین سالوں سے ملازم ہوں جب میری سمجھ میں نہیں آئی تو چند الفاظ سے آپ کی سمجھ میں کیسے آسکتی ہے! لیکن اگر پھر بھی سمجھنے کا خبط سوار ہوتو آئیں۔۔۔۔ اور پشاور سے کراچی تک ہمارے محکمے کے رحم و کر م پر خود کو چھوڑ دیں۔۔۔۔۔ چودہ طبق روشن ہوجائیں گے ۔۔ ۔انشاء اللہ۔۔
وسیم خان عابدؔ
ایک دفعہ ایک سفید ریش ملازم سے ملاقات ہوئی تو میرے ہاتھ میں پروین صاحبہ کی " انکار" تھی،جس کے آخری صفحے پر وہ سندوری پیراہن میں بہ نفسِ نفیس موجود تھیں۔۔۔بزرگ ملازم نے بے چینی سے دوتین دفعہ ادھر اُدھر دیکھا اورآخر کار مجھ سے مخاطب ہوکر کہا، بیٹا،یہ کیا فضول سی کتاب اُٹھائے پھرتے ہو کوئی ڈھنگ کی کتاب پڑھا کرو۔۔۔اور ادب سے اچھا۔۔۔ کہنے کے بجائے میرے مُنہ سے جیسے۔۔ کا لفظ نکل گیا۔۔۔حالانکہ ہم اپنے بڑوں کا بہت ادب کرتے ہیں اور اُن کے سامنے اُف تک نہیں کرتے ،خواہ ہمیں ہزار دفعہ معلوم ہو کہ اُس کی بڑائی صرف عمر کی وجہ سے ہے جس میں اُسکا کا کوئی ذاتی کریڈت بالکل نہیں۔۔۔ لیکن اب انجانے میں ۔۔جیسے۔۔ کا لفظ منہ سے نکل چکا تھااُنھوں نے تیور چڑھائے اور عالمانہ شان سے گویا ہوئے جیسے۔۔ فضائلِ اعمال۔۔۔ اور پھر ہماری طرف داد طلب نظروں سے دیکھنے لگے۔۔ ہم نے عرض کیا، جناب وہ تو ہم پڑھ چکے ہیں۔۔دو تین دن میں ختم ہوگئی تھی ۔۔۔۔ وہ پھر گویا ہوئے دوبارہ پڑھو۔۔۔سہ بارہ پڑھو اور پڑھتے رہو ۔۔۔تو ہم نے معذرت خواہانہ لہجے میں عرض کیا، پھر قرآنِ مجید ٹھیک نہیں۔۔۔۔اُس نے خونخوار نظروں سے مجھے دیکھا اور آج تک سلام دُعا بند رکھی ہے۔۔۔۔
ہم نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اپنے محکمے کے کسی سینئرکے سامنے زبان نہیں کھولیں گے ،اور جب ہمارے ایک آفیسر نے لندن کی ہسٹری سناتے ہوئے لندن کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرکے پنجابی کی ایک مخربِ اخلاق گالی اخذ کی۔ تم ہم بالکل چُپ رہے۔۔اور کچھ نہ کہا۔۔۔۔
یہاں پر ہر بندے کی اپنی ایک فلاسفی ہے، جس پر وہ خود ہی حرفِ آخر اور عقلِ کل ہوتا ہے۔ایسے ایسے لوگ سسٹم کو درست کرنے کی بات کرتے ہیں جس کو ان گنہگار آنکھوں نے سو اور پچاس کے نوٹ کئی بار لیتے ہوئے دیکھا ہے۔ سلطان ٹیپو ، عمر مختار اور صلاح الدین ایوبی کے قصے وہ لوگ سناتے ہیں جواندھیرے میں اکیلے گھر نہیں جاسکتے۔۔۔اورمیں نے تو اپنے سینئرزکو یہا ں تک کہتے سُنا ہے کہ ہمارے وقتوں کا میٹرک اور آج کا ایم اے برابر ہے۔۔۔ جب ایسے ہی ایک موقع پر ہم نے ۔۔کیوں۔۔۔کہا، تو حضرت فرمانے لگے کہ ہمارے وقتوں میں لوگ لالٹین جلا کر پڑھتے تھے۔۔۔ تو ہم نے کہا اس میں میٹرک ایم اے کے برابر کیسے ہوا ۔۔۔یہ تو سیدھا سادھا توانائی کا بحران ہے، اور آج بھی ہم یو۔پی۔ایس۔اور بیٹریاں لگا کر پڑھتے ہیں۔۔ یہ تو حکومت کی نالائقی کا مسئلہ ہے تعلیم کے فرق کا تو بالکل نہیں۔۔۔تو فرمانے لگے کہ ہمارا ایک دوست رات کو اپنے سر کے بال چھت سے لٹکی ہوئی رسی سے باندھ لیتا اورنیندکے جھٹکے کھا کرکتاب کو دیکھتا۔۔ کر سکتے ہوتم اتنی محنت ۔۔۔۔ تو ہم نے موء دب ہو کر عرض کیا ۔۔۔۔ جناب نیند کے جھٹکے کھا کر کیا خاک کسی کی سمجھ میں کچھ آئے گا، اللہ نے دن کی روشنی پیدا کی ہے اُس میں بندہ اپنی رہی سہی کثر پوری کر سکتا ہے اور رات تو نیند کے لیے ہی ہے۔۔ رات کو پڑھ کے نیچر کو کیوں ڈسٹرب کریں۔۔۔اور ویسے آپکا یہ چھت سے لٹکا دوست دن کو کیا کرتا تھا ۔۔تو فرمانے لگے بڑا زندہ دل انسان تھا سارا دن کھیتوں میں جواء کھیلتا تھا۔۔۔(اور شاید یہی وجہ ہو میٹرک اور ایم اے کے برابری کی)
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اپنا علم ہر بندے کو مکمل کیوں نظر آتا ہے۔۔۔۔ہر بندہ یہ کیوں سوچتا ہے کہ جو بندہ آگے سے جواب نہیں دے رہا وہ بیوقوف ہے اور بات کو نہیں سمجھتا۔۔۔۔ وہ یہ کیوں نہیں سوچتا کہ اُس کی چُپ مروت کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے اور میری چال جانتے ہوئے بھی وہ صرف وضعداری میں نبھا رہاہے۔۔۔۔لیکن میرے محکمے میں چُپ بیوقوفی اور بزدلی سمجھی جاتی ہے۔۔۔۔۔
ایک دفعہ ایک قریب ال پینشن بزرگ نے فرمایا ۔تم لوگ کام کی عظمت کو کیا جانو۔۔۔ کام تو ہمارے زمانے میں ہوتے تھے۔۔۔جب ایک ایک ڈیوٹی میں دس دس ٹرینیں گزرتی تھیں۔۔۔ہم نے کہا جنابِ والا آپ کی بات بجا ہے، لیکن آپ بھی کرسی پر بیٹھ کر ڈیوٹی پوری کرتے اور ہم بھی یہی کر رہے ہیں ، ٹرینیں چلانا حکومت اور افسرانِ بالا کا کام ہے،اور اگر سوچنے والے نہیں سوچتے تو ہم جیسے ادنی ملازم کا کیا قصور ہے۔۔۔لیکن پاکستان کے سوچنے والے کمانے سے فارغ ہوں تو کوئی مثبت بات سوچے۔۔۔۔ فرمانے لگے کہ تم سرکاری کام میں ٹانگ اڑانے کے شوقین لگتے ہو۔۔۔۔ تو ہم نے موء دبانہ عرض کیا،سر ہم تو اتنے شریف ہیں کہ ہماری تنخواہ چاہے بینک سے ہو یا کیش سے ہم اُف تک نہیں کرتے۔۔۔۔ لیکن جہاں دال کالی ہو تو تنخواہ بینک سے لینے پر غوغائے رستخیز اُٹھنا شروع ہوجاتا ہے۔۔۔۔دیکھیں ہمارے رجسٹر تو ہر کوئی چیک کرنے آتا ہے اور ہم با ادب اور با ملاحظہ کھڑے ہوجاتے ہیں حالانکہ ذہن میں فیضؔ صاحب کا شعر بار بار گونجتا ہے کہ:
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
مگر کبھی بھی زبان پر نہیں آتا۔۔۔اب اس سے زیادہ تابعداری سرکار اور افسر ان کی کیا ہوسکتی ہے۔۔اُس نے کہا لڑکے تم کافی بدتمیز ہو کوئی افسروں کے بارے میں بُرا سوچتا ہے۔۔۔ تو ہم نے کہاکہ جناب ہماری کیا اوقات کہ افسروں کے بارے میں لب کشائی کریں ہم تو اُن کلرکوں (جو افسران کے خاص اور پالتوہوتے ہیں) یا اُن فوجی سپاہیوں کی بات کرتے ہیں جو میٹریکولیٹ ہونے کے باوجو بھی ہماری ویجیلینس پر مامور کیے جاتے ہیں، اور وہ پھر خدا بن بیٹھتے ہیں ۔۔ ۔۔کیونکہ افسر میں معاملہ فہمی کی کچھ خو تو ہوتی ہے لیکن یہ احساسِ کمتری کے مارے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔یا پھر کمانے کی نئی راہیں تلاش کرتے ہیں۔۔۔اپنے پشاور ڈویژن کو دیکھ لیں، افسر تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن اسے چلانے اور تبادلے کرنے والے شہنشاہ کو کوئی ہٹا کر دکھا دے تو مانوں۔۔۔کہنے لگے، لڑکے نوکری کرنی ہے یا گھر جانا ہے۔۔۔۔ میں نے جھٹ کہہ دیا، جناب نوکری بھی لگی رہے اور گھر کے چکر بھی لگتے رہیں ۔۔۔تو فرمایا پھر چُپ سادھ لو اور ہم نے اُنگلی ہونٹوں پر رکھ لی۔۔۔۔۔
ایک اور بات جو میں شدت سے محسوس کر رہا ہوں وہ سرکاری(دفتری) شعراء کی تعداد ہے۔سرکاری شعراء اس لیے کہا کیونکہ وہ سرکاری ٹائم یعنی ڈیوٹی آورزمیں شعر لکھتے ہیں ،یا جن پر نزول دفتروں میں ہوتا ہے۔۔۔۔۔کیونکہ دماغ خالی ہوتا ہے۔۔ میرے محکمے میں دفتری شعراء کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔کچھ میں تو شاعری کے جراثیم پیدائشی تھے اور کچھ زنانہ ڈبوں میں کوٹنے سے شاعر بنے ہیں۔۔۔۔کیونکہ کچھ لوگ مجروح ہو کر ہی فیض پاتے ہیں۔۔۔۔اگرچہ بابا اشفاق احمد صاحب کا ڈائریکٹ اور میرا جی کا اِن ڈائریکٹ تعلق اس محکمے سے رہا ہے ،لیکن اب تو یہاں ہر زبان لہجے اور اخلاق کے شعراء ملتے ہیں۔۔ استاد صاحب سے سُنا تھا کہ بڑا شاعر صدی میں ایک پیدا ہوتا ہے جیسے میرؔ ،غالبؔ اور اقبالؒ ۔۔۔۔اور اچھے شاعر سینکڑوں ہوسکتے ہیں،لیکن اس ڈیپارٹمنٹ میں مجھے صرف بڑے شاعر ملے ہیں(عمر کے لحاظ سے) کوئی اچھا شاعر نہیں ملا۔۔۔۔۔
ایک دفعہ لاہور سے آتے ہوئے اپنے محکمے کے ایک شکست خوردہ شاعر سے ملاقات ہوئی ، جو ادبی محفلوں تک پہنچ گیا تھا لیکن کسی نے گھاس نہ ڈالی۔۔۔رسمی سی گفتگو کے بعد میں نے بڑے شعراء کے چند اشعار سُنائے،تو حضرت دیر تک اُن اشعار کو چباتے رہے ،منہ کو مختلف اندازمیں موڑتے ،مروڑتے اور گھماتے رہے، بالاخر ایک دو اشعار ہضم کرکے کچھ طبع زاد اُگل دے۔۔۔ جس پر ہم نے ازراہِ مروت داد دی۔۔ اُسکی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک آئے اور سیریس ہی ہوگئے ۔۔۔پُرانے کے ساتھ ساتھ اپنا کنوارا کلام بھی سُنا دیا۔۔جو بلکل ان ٹچ تھا۔۔لیکن اُس کے اشعار سُن کر اُس کے ادبی محفلوں سے دھتکارے جانے کا سبب سمجھ میں آگیا۔۔۔۔۔ خیر میں نے اپنے اشعار اس لیے نہ سنائے کہ ہم جب تک اپنا شعر نہ سنادیں ،سامنے والے اچھا ہی سمجھتے ہیں۔۔۔ اور چند ایک کو چھوڑ کر باقی شعراء کی بھی یہی حالت ہے۔۔۔
ایک دفعہ ایک سٹیشن کی کینٹین سے آہ و فغاں بلند ہو رہی تھی، ہم نے کسی جھگڑے پر قیاس کر لیا اور فوراََ وہاں پہنچے،لیکن کیا دیکھتے ہیں وہاں ایک گرما گرم مشاعرہ شروع ہے، یہ دوشعراء کی باطلِ ناخواستہ ملاقات ہوئی تھی جس نے مشاعرے کی شکل اختیار کرلی تھی۔ ایک شاعر اُس انجن کا ڈرائیور تھا جس کے لیے سٹیشن پر تیل موجود نہیں تھا اور دوسرا اُس ٹرین کا گارڈ تھا جس کی بوگیوں کے پہیے جام ہوچکے تھے اور اُنکے نیچے سے ہتھوڑے کی ٹک ٹُک کی آوازیں آرہی تھیں۔۔گارڈ غزل پہ غزل عنایت کررہا تھا اور ڈرائیور ریل کے افلاس پہ نظمیں پھینک رہا تھا۔۔۔۔نظمیں آزاد تھیں اور بحر سے خارج۔۔۔گارڈ صاحب کی غزلیں بھی آزاد تھیں ،لیکن اخلاق سے خارج۔۔۔نزدیکی پارسل روم سے چار بکرے دل کھول کر داد دے رہے تھے۔۔۔۔کیونکہ یہ شور اُن کے پلے ہی پڑ رہا تھا۔۔۔
ریلوں کے لیے موت ہے جمہوری حکومت
ورکشاپِ مرمت بھی نگل لیتے ہیں آلات
خیر اگر بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئی تو کوئی بات نہیں، میں گزشتہ تین سالوں سے ملازم ہوں جب میری سمجھ میں نہیں آئی تو چند الفاظ سے آپ کی سمجھ میں کیسے آسکتی ہے! لیکن اگر پھر بھی سمجھنے کا خبط سوار ہوتو آئیں۔۔۔۔ اور پشاور سے کراچی تک ہمارے محکمے کے رحم و کر م پر خود کو چھوڑ دیں۔۔۔۔۔ چودہ طبق روشن ہوجائیں گے ۔۔ ۔انشاء اللہ۔۔
وسیم خان عابدؔ
written in October,2012
No comments:
Post a Comment