Tuesday, 16 October 2018

کھٹا میٹھامضمون: روداد ایک مشاعرے کی

علی الصبح مجھے میرے کرم فرما ’ن‘ صاحب کا ایک الیکٹرانک دعوت نامہ ملا جو ایک بڑے اور نامور صحافی کے انتقالِ پُر ملال کے سلسلے میں منعقد کی جانے والی ایک تقریب کا تھا ۔ اور اس شامِ ملال کے بعد ایک مشاعرہ بھی ہونا تھا۔ اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں اور شاعر کو ایک مشاعرہ ۔ میں شکم کی آگ بجھانے کیلئے برانچ لائن کے ایک ریلوے سٹیشن پر ڈیوٹی دے رہا تھا۔ میں نے اپنے ساتھی سے استدعا کی اور اُنھوں نے میری جگہ ڈیوٹی کی حامی بھرلی۔ پھر ایک جوڑا کپڑوں کااور اپنا کلام اپنے چھوٹے سے بیگ میں رکھا اور ایک کتاب بھی ہاتھ میں لی تاکہ یارِ سفر ثابت ہو جائے۔ اللہ تعالی شاعر کی صحبت سے ہر بھلے انسان کو محفوظ رکھے، کیونکہ اُنکے کاندھے اور دماغ کا بوجھ ہر وقت دوسروں کو اُٹھانا پڑتا ہے اور ایک ایسا ہی دوست مجھے بھی ملا جس نے از راہِ تعظیم میرا بیگ اُٹھایا۔ کراچی سے پشاور جانے والی خوشحال خان ایکسپریس میں بیٹھے توپریشان بالوں اور میلے کپڑوں کے ساتھ پشاور میں اُترے۔ پشاور میں ہم نے اپنے آپ کو گرد کی دوتین تہوں کے نیچے ڈھونڈ لیا۔ پانچ بجے مشاعرہ ہونا تھا اور ہم جیسے مبتدی پر تو وقت کی پابندی پاکستان جیسے ملک میں بھی فرض تھی ۔ کیونکہ مبتدی کا انتظار کو ئی نہیں کرتا۔انتظار تو مقدس گائیوں کا کیا جاتا ہے اور ہم تو مقدس کے حدود سے باہر تھے ہی گائے بھی نہیں تھے، اس لئے وقت پر روانہ ہوئے۔ لوکل بسوں کے دھکے کھاتے ہوئے اپنے منزلِ مقصود پر پہنچ گئے۔ لیکن درست منزل تلاش کرنے میں اُتنی تکلیف اُٹھا ئی جتنی پاکستانی قوم اپنے منزل کی تلاش میں اُٹھا رہی ہے۔ ہم نے گرمی ہونے کے باوجود معزز نظر آنے کیلئے ایک عددواسکٹ پہنی تھی لیکن اصل میں مقصد اُس کی دو لمبی بغلی جیبیں تھیں جس کو ہم نے اپنے غیر مطبوعہ کلام سے بھر دیا تھا(جواللہ کے فضل سے ابھی تک سارے کا سارازیرہ میٹر یعنی غیرمطبوعہ ہے)۔ اب ہم سینہ پھلاکر اور ہاتھ پھیلا کر ہال میں داخل ہوئے تو چار معززین پر نگاہ پڑی ۔ خیر نئے بندے کو ہر ایک معزز نظر آتا ہے اور نوکری کے پہلے دنو ں میں ، میں نے کئی بار اپنے ادنی ملازم کے ’سر‘ کہا ہے اس لئے یہ چار افراد بھی مجھے جانے مانے شاعر لگے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اُن میں سے ایک صرف بڑاہے ، دوسرا شاعر ہے ، تیسرا ہماری طرح خود کو شاعر کہلوانے میں بضد ہے اور چوتھا میری آمد کے بعد باطل کی طرح مٹ گیا، اور کچھ معلوم نہ ہوا کہ کیا تھا اور کیا ہوگیا۔ اُس معقول سے شخص (شاعر)نے مجھے اپنا کارڈ چند جملوں کے بعد تھمادیااور میں نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلیا۔ اب ہم ہال میں بیٹھے آنے والے معززین کا انتظار کررہے ہیں ۔ وہ معقول سا بندہ بول رہا ہے اور ہم سن رہے ہیں ۔ وہ صاحب اپنے نظریے یعنی اپنے علاقے اور کلچر سے محبت کا کچھ درس دے رہے تھے لیکن درس ہمیں کب یاد رہتے ہیں ۔ اگر یاد رہتے تو کیریئر اتنے سیکنڈ ڈویژنوں سے بھرا نہ ہوتا۔
ایک گھنٹہ انتظار کے بعد ہم نے معززین کو آتے ہوئے دیکھا ۔ اور طرفہ تماشہ تو یہ کہ مہمان ہمیں میزبان سمجھ رہے تھے کیونکہ انتظار کی وجہ سے ہمارا چہرہ اُس عمارت سے مانوس سا ہوگیاتھا۔ اب پشاور کے بڑے بڑے شعراء ، ادیب، دانشور ،اور کالم نویس ایک ہی چھت کے نیچے فرش پر ایک دائرے کی شکل میں بیٹھ گئے۔ یہاں پر ٹی وی سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی تھے میڈیکل کے ڈاکٹر بھی اور مولوی بھی تھے۔ خیر اسلامی ملک ہے اس لئے جس محفل میں مولوی نہ ہو وہ حرام سمجھی جاتی ہے اور جس میں ہو وہ دوسروں پر حرام ہو جاتی ہے۔ پھر ایک بزرگ آکے محفل میں بیٹھ گئے جو اختتام تک جھومتے رہے ، بغیر تال کے۔
اب اس پرُملال مجلس کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ۔ تلاوت اور نعت مولوی صاحب کے ذمہ تھی، جو اُنکا اجارہ بھی ہے۔ اور پھر محترم میزبان کے باری آئی جس نے کاغذ کی گہرائی سے مرحوم کو وہ خراجِ تحسین پیش کیا کہ سب عش عش کر اُٹھے۔ اُنھوں نے مرحوم سے اپنا رشتہ بھی ظاہر کیا جس پر سب کو رشک آیا۔اور ہم کو بھی کہ کاش ہمارا کوئی رشتہ دار بھی اتنا بڑا ادیب ہوتا اور مرجاتا تو ہم بھی ایک بڑی محفل سجالیتے اور اپنا سارا کلام لوگوں تک پہنچا کر اپنا فرض ادا کرتے۔لیکن ہمارے خاندان کا کیا کوئی دسویں سے زیادہ پڑھا لکھا ہے نہیں ایک ہیں لیکن علامہ اقبال یونیورسٹی کے ۔ جسے اپنے نام کے علاوہ اوروں کے نام لکھنے میں شرم آتی ہے۔ 
اور مرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ دادا 95 برس کے ہوگئے ہیں لیکن ابھی بھی بضد ہیں کہ دستی چھڑی گھر میں لاکر میری جوانی کا مذاق نہ اُڑائیں ۔
میزبان صاحب کے ساتھ ایک اور صاحب تشریف فرما تھے جس کے آگے پیچھے اختر لگے ہوئے تھے ۔یہ صاحب اس پروگرام کو کنڈکٹ کر رہے تھے ۔ انھوں نے مرحوم کی شان میں ایک بل جو نکالا تو عیدالفطر کی شاپنگ بل سے کچھ لمبا تھااور ہر اک تہہ میں ہزاروں داستانیں تھیں ۔ پھر خدا خدا کرکے دو اختروں کے بیچ والا خاموش ہوگیا ۔ اختروں اور ایک شعر کے علاوہ ہمارے پلے کچھ نہ پڑا۔ 
اب مہمانوں کی باری تھی اور تمام محفلوں کا یہ اصول ہے کہ ہلکے فنکار پہلے نمٹائے جاتے ہیں اور بڑا نام آخر میں رکھا جاتا ہے تاکہ لوگ امیدِ خوب پر سب کچھ برداشت کرلیں۔ باری مولانا کی تھی اور اُن کے پہلو میں ایک اور باریش بندے مولویوں کی سی صورت بنا کر بیٹھے تھے اور انکا منہ خودبخود ہنسنے کی کوشش کررہا تھا۔ یعنی ہونٹ آزاد تھے اور خود بخود ادھر اُدھر جاتے تھے۔مولوی صاحب کے چہرے پہ ایک جلال اور ہیبت تھی اور وہ بہت افسردہ تھے ۔ شاید جدید زمانے کے رنجیدہ ہوں ، یا جنت کی طلب میں یہ حالت بنالی ہو ۔ کیونکہ ہر ایک بندہ تو جالندھری صاحب نہیں ہوتا جو جنت کو چند حوریں ،اک چمن اور دوندیاں سمجھے ہم جیسے بھی بہت سے ہیں جو ایک حور کیلئے بھی سب کچھ کرسکتے ہیں خواہ جہنم میں ملے پھر بھی ٹھیک ہے کیونکہ بڑے بوڑھوں سے سنا ہے کہ بیوی نیک ہو تو جہنم کو بھی جنت بنا سکتی ہے اور حور سے نیک اور کون ہوگی اس لیے جہنم کا رسک لے رہے ہیں۔ اب مولوی صاحب نے اپنی شاعری قراء ت میں شروع کی اور ہم موء دب سے ہوگئے اور ہم جس چیز کے لئے موء دب ہو جاتے ہیں اسے کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ورنہ کئی تبلیغی بیانات ادب سے سنے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی کے سمجھ میں آئے ہوں۔ ایک صاحب میرے سامنے سفید برف کے سے بال لیکر اور کلین شیو بنا کر وجد میں آنے کی ناکام کوشش کررہے تھے ۔ کبھی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر چوم لیتے کبھی منہ ہاتھوں میں لیکر ایک سسکی سی لیتے اور کبھی مجمع کو دیکھ کر واہ! کہہ دیتے ۔ ایک صاحب اور بھی تھے جسے سب ڈاکٹر ، ڈاکٹر کہہ رہے تھے۔ وہ تو اتنے دیالو تھے کہ کوئی کھانس لیتا تو وہ داد دیے بغیر نہ رہتے اور بے اختیار سبحان اللہ۔۔، کیاخوب ہے۔۔ ۔ واہ! واہ! اور مکرر کے الفاظ ادا کرتے۔ کبھی کبھی تو ان گناہگار آنکھوں نے اُنھیں اپنے مقام سے داد دینے کے موقع پر ایک فٹ تک اٹھتے دیکھا۔ مولوی صاحب نے کلام پڑھا اور کاغذ تہہ کرکے ذکر میں مصروف ہوگیا ۔ اب با اختیار ہونٹوں والے شاعر کی باری تھی ۔ انھوں نے اپنے کلام کی فوٹوکاپیاں بھی جیب میں رکھی تھیں اور کچھ پڑھ کہ وہ کاپی جلدی سے اخبار والے کے حوالے کر دی ۔ آجکل تو دور ہی میڈیا کا ہے غریب کی مدد تب کی جاتی ہے جب میڈیا ہو ۔ احتجاج تب کیا جاتا ہے جب میڈیا ہو۔ ہم نے تو آٹھ لوگوں کے جلوس بھی دیکھے ہیں اور کیمرے والے اُنھیں لائن میں کھڑا کرکے صبح خبر چھاپ دیتے ہیں کہ ایک جمعِ غفیر اپنے حقوق کی تلاش میں اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہے ۔ پشاور پریس کلب کے سامنے تو وہ احتجاج بھی دیکھے کہ اگر کوئی کہہ دے کہ آج صحافی کلب میں نہیں ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ چلو کل آجائیں گے۔ اب بااختیار ہونٹ بھی اخباری بننا چاہتا تھا تو کوئی غلط نہیں کررہا تھا۔
اب شعراء نے مغرب کی باجماعت نماز ادا کی اور امام مولوی صاحب ہی ٹھہرے ۔ ہمارا تو حلیہ ہی امامت کے خلاف ہے اس لئے اپنے محلے میں آج تک اذان نہیں دی کہ کوئی من چلا کہہ نہ دے کہ اسکا تو منہ آذاان کے خلاف ہے ۔ ہم ان کی اذان پہ نماز کیوں ادا کریں ۔ نماز کے بعد شعراء اپنے مقامات پر پہنچ گئے اور اپنی اوقات پر آگئے ، یعنی کلام شروع کیا۔
اس ساری محفل میں ایک ٹیوب لائٹ بھی ہنسنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھا اور مزے کی بات یہ کہ سوئچ آن ہو یا آف یہ اپنی حسرت پوری کرنے کی کوشش میں لگا ہی رہتا ۔ وہ تو بھلا ہو واپڈا اور حکومت کاکہ شعراء کو اس ذہنی اذیت سے نجات دلائی اور بزم تاریک کردی ۔ اب ایک دستی ٹارچ آئی اور حقیقت میں شمعِ محفل ٹھہری، کیونکہ اس شمع کے بغیر کوئی بھی مرحوم کو کاغذ کی گہرائی سے عقیدت پیش نہ کرسکا۔ میرے بائیں پہلو میں جو قبر رسیدہ بزرگ بیٹھے تھے وہ مسلسل صوفے کے ساتھ کھیل رہے تھے اور ٹک ٹک کی آواز پیدا کر رہے تھے۔ اُن کی انگلیوں میں تین انگوٹھیاں فی انگلی کے حساب سے سجی ہوئی تھی اور شور پیدا کرنے میں وہ ہر انگوٹھی کو حصہ دار بنا رہے تھے۔ میرے دائیں پہلو میں تو ایک نامور اخبار کے کالم نویس بیٹھے تھے لیکن اُس کے ساتھ جو بندے تھے وہ کافی دلچسپی کے حامل تھے ۔ وہ عمر کے اُس حصے میں تھے کہ حکومت گھر بھیجنے کا بندوبست کرتی ہے۔ لیکن بال کافی رنگین تھے داڑھی بھی رکھی تھی لیکن شاذ قسم کی مگر مونچھوں کا جواب نہیں تھا۔۔۔ مونچھوں کا وقت دس بج کر دس منٹ پر رہتا لیکن جب وہ حضرت مصرع کہنے کے لیے منہ کھولتے تو مونچھیں آٹھ بج کر بیس منٹ پر آجاتی آپ چار بج کر چالیس منٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔۔ اور وہ تقریر کے درمیان ہی ہاتھ اُٹھا کر پھر سے اُنھیں پرانی ڈگر پہ لے آتے۔ وہ عرض بھی حکم کی طرح کر رہے تھے ہم نے جب تھوڑی سی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ پولیس کے اعلی افسر ہیں ۔ اس ادراک کے بعد ہم نے اُن کے عروض کو بھی حکوم سمجھااور داد کے وہ پھول نچھاور کیے کہ صاحب خوش ہوگئے۔میرے اس فعل کو خوشامد نہ سمجھاجائے کیونکہ مرتا کیانہ کرتا ۔ پولیس والوں سے تو ہمیشہ شرفاء ڈرتے ہیں اور ہم میں بھی گناہ کا حوصلہ نہیں اس لئے شرفاء میں شمار ہوتے ہیں۔ اس لئے ادنی سے سپاہی کو بھی سپاہی صاحب کہتے ہیں۔ اب میری باری تھی مجھے کہا گیا کہ آپ اس آنجہانی صاحب کے بارے میں کچھ فرمائیں۔ ہم نے ادھر ادھر دیکھا اور بڑے موء دبانہ لہجے میں کہا کہ جناب ہم تو ایسے علاقے میں ڈیوٹی دے رہے ہیں جہاں دنیا نے ترقی نہیں کی ۔ نیٹ وغیرہ کی تو بات ہی عجب ہے وہاں بات اور روٹی بھی ہفتو ں پرانی ملتی ہے۔ اس حالت میں اقبال اور غالب کے چکر سے باہر ہمارا علم ختم ہو جاتاہے اور ہاں مریم گیلانی ، جاوید چوہدری اورعنایت اللہ فیضی صاحب کے بارے میں بھی کچھ لب کشائی ہو سکتی ہے لیکن وہ تو ابھی بقیدِ حیات ہیں۔ اس صحافی سے لاعلمی پرہم گناہگار سے بیٹھے تھے اور دل میں قسمت کو کوس رہے تھے کہ کاش اپنا جاننے والا صحافی مرتا تو کافی جے جے کا ر ہو جاتی ۔خیر کچھ اشعار پڑھے جس پر حاضرین نے رواداری کے تحت داد عنایت کی۔
آخر میں معزز صدر صاحب نے اپنے چار صفحی خیالات سے نوزا جس میں خیا ۔۔ کم تھے۔۔ اور لاتیں زیادہ۔ 
محفل برخاست ہوئی اور لوگ بے تکلف ہوئے وہ رکھ رکھاؤ کے جُبے پھینکے گئے اصل مال برآمد ہو اور ادبی محفل بے ادب ہوئی ، اب ہر کوئی بول رہا تھا اور کوئی بھی سننے والا نہیں تھا۔ کھانے کے بعد شعراء ایک دوسرے کے گلے پڑے اور رخصت چاہی۔ اب مشکل مرحلہ جوتا تلاش مرحلہ تھا ہم جو ہال سے باہر نکلے تو جوتوں کا ایک انبوہ تھا اور ہمارے پیر کو بار بار غلط جگہ گھسنے کے شرمندگی ہوئی کیونکہ اندھیرے میں تو جوتے کی پہچان پیر کرتا ہے نہ کہ آنکھ جس طرح جمہوریت میں امام کا انتخاب ووٹ کرتاہے نہ کہ عقل۔ اللہ رکھے ہمارے پیر کو جس نے ہر دکان میں مجھے شرمندہ کرایا ہے۔ دکاندار دس بارہ ڈبے جوتوں کے دکھا کر کہہ دیتا ہے کہ ناپ کی بنوالو تو اچھا ہوگا ، یہ دکانداروں کے بس کا روگ نہیں۔اب مسجد میں تو مسلمان کسی کی بھی جوتی لے جائیں تو اللہ کا گھرسمجھ کے لے جاتے ہیں۔اور مسلمان تو اللہ کے چہیتے ہیں کہ جو چاہیں کریں چہیتے کو تو کوئی کچھ نہیں کہتا ، لیکن یہ تو ہال تھا اور سیدھا چوری کا پرچہ ہوتا۔ اس لیے دس منٹ میں پیر نے متعلقہ پیراہن تلاش کر لیا جو ایک کونے میں شرمندہ پڑا تھا جس طرح بزرگ بچوں سے دور پڑے رہتے ہیں ۔ گلی میں نکلے تو پھر گلے ملنے کی رسم ہوئی اور آخر کار اپنے اور دوسروں کے کئی گھنٹے ضائع کرنے کے بعدمعززین گھروں کی طرف روانہ ہوئے۔ 
وسیم خان عابدؔ 
written in 2011

No comments:

Post a Comment