کئی سال پہلے صوبائی پبلک سروس کمیشن کا ایک فارم غلطی سے بھرا تھا، اور یہ قطعی امید نہ تھی کہ ہم لیکچرار قسم کی کوئی چیز بن جائیں گے، یا تعلیم کے زیور سے نئی نسل کو آراستہ کریں گے۔ بلکہ ایک تجربہ حاصل کرنا تھا ،کہ یہ لیکچرار کیسے بنتے ہیں اور وہ کیا مراحل ہیں جن سے گزر کر بندہ استاد بن جاتا ہے ، ورنہ استاد کے لفظ کے پیچھے جو فلسفہ پڑا ہے اس تک پہنچنا بھی دل گُردے کا کام ہے۔۔ اللہ تعالٰی کی مرضی کہ ایم ۔ایم۔اے کے دورِ حکومت میں بھیجے ہوئے فارم پر ٹیسٹ کے لئے سُرخ جھنڈوں نے بُلایا۔۔ سیاست بھی عجیب بے مرُوت حسینہ ہے کبھی ایک سے غمزے اور کبھی دوسرے سے عشوے ۔۔۔خیر ہمیں بھی بلاوا موصول ہوا اور ہم نے بھی ٹیسٹ دینے کی ٹھان لی۔
ٹیسٹ کے دن صبح سویرے اُٹھے اور نماز و تلاوت کے بعد وہی دعائیں مانگیں جو اکثر طلباء مطلب نکالنے کے لئے امتحانات کے دنوں میں مانگتے ہیں، اور کئی دفعہ یہ دعائیں قبول بھی ہوجاتی ہیں۔ ہمارے ساتھ خود ایک واقعہ دعاؤں کے زود اثر ہونے کا ہوا ہے۔ ایک یونیورسٹی جو گھر بیٹھے آرام دہ تعلیم دینے کے پروگرام پر عمل کرتی ہے۔ہمارے پیپر نہ دینے کے باوجود بھی ڈی۔ایم۔ سی میں تین پیپر پاس ہونے کی خوش خبری ملی۔ اب اس سے زیادہ مستجابی تو صرف غُلو ہی ہوسکتی ہے۔ ہم توراسخ العقیدہ اسلامی بندے ہیں اور دُعاؤں پر یقین رکھنے والے ۔۔،اسی لئے تو محنت کیے بغیر ترقی کرنا چاہتے ہیں، انگلی زخمی کیے بغیر بہادر اور غازی بننا چاہتے ہیں،ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر دُنیاپر حکمرانی اور ساتھ میں صنعتی ترقی بھی چاہتے ہیں۔روزانہ نہ سہی جمعہ کے جمعہ اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں، اور میرے ہم خیال بھائیوں سے یہ دیس بھرا پڑا ہے اس لئے تو یہ حالت ہے۔۔ ۔ دُعاؤں کے ساتھ ساتھ ہم کفر کو بددُعائیں دینا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ کے جہاز خراب ہوکر گرجائیں ، بحری بیڑے خود بخود تباہ ہوجائیں، امریکہ بددُعاؤں سے اُجڑ جائے ، نیٹو میں بددُعاؤں کی وجہ سے انتشار پھیل جائے اور یہ آپس میں دست و گریبان ہوجائیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔ بددُعائیں ہمارے ایک جاننے والے مولوی صاحب کے ایمان کا حصہ ہیں ، وہ دُنیا کی حکمرانی اور ستاروں پر کمند ڈالنے کی خواہشیں دعاؤں سے پوری کرنا چاہتے ہیں۔وہ دُنیا کی امامت پانچ وقت صرف اپنا مُنہ دھو کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ منطق سے بی۔ باون کا علاج کرنا چاہتے ہیں اور فلسفہ سے بلیک واٹر کی بیخ کُنی۔۔۔۔۔خیر " دل کے خوش رکھنے کو غالب ؔ یہ خیال اچھاہے"
ہم نے دُعا کی اور پختونخوا پبلک سروس کمیشن کی طرف روانہ ہوئے۔ جوکاغذات جمع کرنے کے وقت سرحد پبلک سروس کمیشن تھا۔۔۔ پشاور کینٹ کا علاقہ جہاں قدم قدم پر فوجی جوان اور پولیس والے شریف اور نہتے لوگوں سے تفتیش کرتے ہیں (زور شریف اور نہتوں پر ہے)،اور باقیوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تو شریف بھی تھے اور نہتے بھی کیونکہ ایک قلم کا ہتھیار پاس تھا ، اور سیانے کہتے ہیں کہ اس کی ضرب تلوار سے کاری ہوتی ہے، ہم نے تلوار کی ضرب دیکھی نہیں لیکن قلم کی ضرب واقعی سخت ہوتی ہے۔ اللہ غریقِ رحمت کرے ہمارے ایک استاد صاحب کو جو روزانہ بچوں کی اُنگلیوں میں قلم پھنسا کر اُسے ادھ موا کرتے، اب اس سے کاری ضرب اورکیا ہو سکتی ہے۔ او یہ ضرب میرے دیس کے قلم ہی لگاتے ہیں، ورنہ یورپین اور امریکی اس قسم کی نعمتوں سے محروم ہی ہیں۔ وہاں پڑھائی کو دیکھیں کتنی دوستانہ ماحول میں ہوتی ہے۔ایک اُستانی کی ویڈیو دیکھی جو ہر صُبح بچوں کو گلے لگا کر خوش آمدید کہتی ہے۔۔۔۔۔۔اب ایسی اُستانی سے پڑھے ہوتے تو ناسا کی سپیس شپ ہمارے اشاروں سے چلتی۔ ہمارے ہاں تو اُستاد صاحبان اپنی ڈکٹیٹر شپ کو قائم رکھنے کیلئے وہ وہ حربے استعمال کرتے ہیں ، کہ خفیہ ایجنسیاں بھی شرما جائیں۔ ایک مولانا صاحب تو تسبیح کا ضرب ننگی پیٹھ پر دینے کے شوقین تھے اور اسی طرح وہ خیر کو غالب کرتے اور شر کو پیٹتے۔۔۔ ۔ ہمارے اساتذہ کبھی بچوں کے سر آپس میں ٹکراتے ہیں اور کبھی کان اتنے مروڑ لیتے کہ ای۔این۔ٹی۔ سپیشلسٹ کو زحمت دیے بغیر بات نہیں بنتی۔ ۔۔ خیر فوجی جوانوں نے قلم کے ہتھیار کو قابلِ اعتنا نہ سمجھا اور ہمیں پبلک سروس کمیشن کے دفتر کی طرف جانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔۔۔جیبوں کی تلاشی کے بعد تاکہ کوئی ٹینک یا توپ جیب میں نہ ہو۔۔۔۔۔۔یہ تو بھلا ہو فوجی جوانوں کا کہ قائداعظم کے تصاویر کو کچھ نہ کہا ۔۔۔۔ورنہ پولیس والے بھائی تو اتنے محتاط ہیں کہ ان تصاویر میں سے بھی کچھ پاس رکھ لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
جب کمیشن کے دفتر میں داخل ہوئے تو جنت کاسا سماں تھا۔ ۔ مرمریں عمارت، اُس پہ پیڑ پودے اور پھول پتیاں، کشادہ صحن اور نہ جانے کیا کیاسامان اس فردوس کو حسن بخش رہاتھا۔ نرم گھاس میں مولوی حضرات بیٹھے اپنے مخصوص عربی لہجے میں پشتو بول رہے تھے۔۔ ہمیں بھی فردوس کا یقین سا ہو گیا ، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ وہاں بھی مولوی اور خوبصورتی ہوگی ، خوبصورتی کے پیچھے تو شاید ہم بھی چلے جائیں لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے ایم ۔اے اسلامیات کی ڈگری لی تھی اور چند کتابوں کی ورق گردانی بھی کی تھی لیکن آج کے دن اپنے حلیے پر کافی سے زیادہ ندامت ہوئی۔ داڑھی مُونڈنے کا افسوس تو سب سے زیادہ تھا۔ اور دل میں ایک خواہش نے انگڑائی لی ، کہ کاش!۔۔۔ ہمارے بھی شانوں تک لمبے بال ہوتے، لمبی داڑھی ہوتی اُس پہ تراشیدہ مونچھیں ہوتیں،ٹائیٹ پگڑی باندھے ، بغیر کالر کا سفید کرتہ پہنتے،ٹخنوں سے اُونچی شلوار ہوتی، آنکھوں میں بقدرِ شرح سُرمہ ہوتاایک جیب سے مسواک کا ایک سِرا جھانک رہا ہوتا اور ایک پانچ سو دانوں والی تسبیح ہمادے واسکٹ کی جیب میں پڑی ہوتی جس کا ایک سرا بوقتِ کفتگو میرے ہاتھ میں اور باقی اُسی جیب میں گھوم رہا ہوتا۔ کاندھے پر ایک عدد لمبی چادر ہوتی جواوڑھنے ، بچھانے اور شان بڑھانے جیسے عظیم کام کرتی۔ ہر ایک ناکے پر پولیس والے ڈر کر سلام کرتے، محلے والے جمعے کی تقریر کے عتاب سے بچنے کیلئے جُھک جُھک کر ہاتھ ملاتے، اپنی جیب سے جگہ جگہ مُجھے کھلاتے ، اور میں کھا پی لینے کے بعد جزاک اللہ کہہ کر چل پڑتا،لیکن یہ بھی اُن ہزار خواہشوں میں سے ایک ہے جس پر دم ہی نکلتا ہے۔
سب باریش شرکاء ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے، لیکن مجھے امریکی یا یورپی سمجھ کر کسی نے ہاتھ ملانے کی زحمت بھی نہ کی۔ میں کمیشن کے دفتر میں سکندر کی طرح آیا تھا لیکن میرے آتے ہوئے ہاتھ خالی تھے اور اُس کے جاتے ہوئے، اور ایسی جگہوں پر خالی ہاتھ آنے والے ، نامراد ہی لوٹتے ہیں(کوئی بھی غلط فہم اسے رشوت سے تشیح نہ سمجھے)۔ ٹیسٹ کا وقت قریب آرہا تھا اور باہر بیٹھے علماء کتابوں کے ڈھیر اُلٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے۔ صفحوں کی چڑچڑاہٹ اور قراء ت کی آوازیں تیز ہو رہی تھیں، اور پھر ایک عمر رسیدہ بزرگ نے ہال میں داخل ہونے کا حکم دیا۔ ہم اپنی الاٹ شدہ سیٹ پر بیٹھ گئے جو خدا کے فضل سے آگے سے پانچویں قطار میں، عین ہال کے وسط میں تھی۔ اب کیا دیکھتے ہیں کے ہمارے ارد گرد رنگ برنگی پگڑیوں کا ایک سیلاب آیا ہے۔ جواکثر سیاست میں اچھالی جاتی ہیں لیکن یہاں اچھالنے کے بجائے سر ڈھانکنے کا کام کر رہی تھیں۔ میرے ارد گرد تو سفید پگڑیاں تھیں لیکن کہیں کہیں سر سبز پگڑیاں بھی اپنے جلوے دکھا رہی تھیں۔ دو تین کالی پگڑیاں بھی دیکھیں جو قلم سے زیادہ تلوار کے داعی ہیں لیکن اچھے بُرے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ ہمارے اکثر علماء تو اختلاف کو دین کی خوبصورتی سمجھتے ہیں اور سچ بھی ہے، کیونکہ اتنے قتل تو بد صورتی پہ کوئی بھی نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی پرچہ شروع ہونے میں بیس منٹ رہتے تھے اورہم ادھر اُدھر نظریں دوڑا کر وقت خراب کر رہے تھے کہ یکایک ہا ل میں ایک دوشیزہ داخل ہوئی، میں دو دوشیزہ کی جگہ ڈیڑھ شیزہ ہی کہوں گا کیونکہ دو شیزہ سے ذہن میں تیس پینتیس سالہ عورت کاتصور آتا ہے،پر اس فتنہءِ دیوانگی کی عمر کا اندازہ میں نے چوبیس سال سے کم ہی لگایا ، خیر اس میں حُسنِ زن کا بھی عمل دخل ہو سکتا ہے۔۔ اور پھر ہمارے ذہن پر محترمہ ہی سوار ہوئیں، البتہ چچااقبال ؒ نے بارہا منع کیا تھا کہ انھیں سواری کیلئے ذہن مہیا نہ کریں! نہ کریں! لیکن ہم نے کہاں ماننا ۔ وہ خود بھی منع تھے یا نہیں ۔۔۔ ہم بڑوں کے بارے میں لب کشائی نہیں کرتے ، ورنہ اتنی وافر مقدار میں شادیاں وقت کی ضرورت کے تحت تو نہیں ہوتیں۔۔۔خیر اسے جملہء معترضہ سمجھ کر نظر انداز کر لیں۔۔۔۔۔
اب کیا کہیں کہ جنت میں فی کس سترحوریں تھوک کے حساب سے ملیں گی، لیکن یہ تو دنیا کی جنت تھی اس لئے سو ڈیڑھ سو علماء کیلئے صرف دوحوروں پر اکتفا کیا۔علماء کی تعداد کم یا زیادہ ہوسکتی ہے، ہمیں ساتھ میں گِن بھی سکتے ہیں اور نکال بھی سکتے ہیں، لیکن حوریں دو ہی تھیں ایک وہ موہنی صورت والی انچارج اور ایک اسسٹنٹ جو اتنی بُری بھی نہیں تھی۔انچارج نے گیسو اپنی ردا میں پیک کیے تھے اور مسلمانوں کو اس کی جھلک دکھانا خلافِ شرح سمجھ رہی تھی لیکن اسسٹنٹ نے عام سا دوپٹہ لیا تھا جو اکثر سرکتی حالت میں ہوتا، اور سچ پوچھیں تو ہمارا ایمان بھی ٹیسٹ کے دوران معلق رہا ، ردا کے سرکنے کے ساتھ سرکنے لگتا اور ہم اُسے فورََ پکڑ کر اُٹھا لیتے۔ ۔ مولوی حضرات ہم جیسے سادہ دل تو ہیں نہیں، جو ستر چھوڑ کر دو مشترکہ پر اکتفا کر لیں۔اس لیے اُنھوں نے ٹیسٹ کے یہ ایک سو بیس منٹ گرم پرات پر کھڑے ہوکر گزارے۔ اکثر نے تسبیح نکالی اور ستر کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ناپنے لگے۔۔ لیکن ہم تو راضی بہ رضا والے لوگ ہیں، ہمیں دو نقد نہ ستر اُدھار والا خبط چڑھااور پھر نظریں اِن شوخ حسیناؤں پہ مائل رہیں۔ موہنی صورت نے ایک مختصر سی تقریر ہمیں شریف رکھنے کیلئے کی لیکن ساری کی ساری خود اعتمادی سے خالی تھی، اور اسی میں نقل کی ممانعت بھی کی۔ ساتھ والی سرکتی ردا اثبات میں سر ہلاتی رہی۔ ساری کی ساری تقریر اکارت گئی ۔۔۔۔۔ نہ مولویوں کے پلے پڑی کیونکہ وہ اُنکی طرف دوسری نظر اُٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اس لیے جس کی طر ف بندہ دیکھنے سے بھی احتزاز کرے اُنکی بات سننااور اُس پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے۔ اور ہمارے بھی پلے نہ پڑی کیونکہ ہم اُن کی باتوں سے زیادہ اُن پر توجہ دے رہے تھے۔اور سچ پوچھیے کہ ہم بھی پہلی نظر میں گھور رہے تھے ، نظر ہٹانے کو دل کہاں مان رہا تھا۔ ۔۔کہ دوسری کی نوبت آتی۔۔ٹیسٹ شروع ہونے سے پہلے کچھ سُرخ ٹوپیاں بھی ہال میں داخل ہوئیں جو سوشلزم کے بجائے عبدالرشید غازی صاحب (لال مسجد والے) کی تقلید تھی۔
محترمہ نے اپنی لمبی کالی آستینوں سے کچھ نکالنے کی کوشش کی ، کیونکہ اُن کے ہاتھ نظر نہیں آرہے تھے یا شاید اُنکا پردہ تھا۔ اب کچھ علماء تو چہرے کو بھی پردے سے خارج سمجھتے ہیں،لیکن ہم تو پشتون اور سخت مذہبی قسم کے بندے ہیں، اور عورت کے لیے آنکھوں کا پردہ بھی فرض سمجھتے ہیں۔کیونکہ میرؔ کو" شراب کی سی مستی " یہیں نظر آتی ہے۔۔ کوئی نہ مانے تو پشتونوں کا شٹل کاک برقع دیکھ لیں، برقعے میں اتنے چھوٹے چھید ہوتے ہیں کہ آنکھیں نظر آنا تو دور کی بات ، بہن بیٹیوں کو میونسپلٹی کے کُھلے مین ہول اور جان کُن نالیاں تک نظر نہیں آتیں، اور کئی دفعہ تو محترمائیں اِن عزت افزا مقامات میں برقعے سمیت گر جاتی ہیں۔ اور پھر خدائی خدمت گار قسم کے مرد جب اُنھیں کھینچ کھینچ کر مکامِ محمود سے نکالتے ہیں تو، اس سے عزت اور غیرت پر کوئی قدغن نہیں لگتی۔۔۔ خیر ہم نے موہنی صورت کی آستینوں سے کچھ نکلتے دیکھا ، اور بچپن سے آستین کا سانپ والا محاورہ اتنی مرتبہ پڑھا ہے کہ آستین دیکھتے ہی سانپوں کا خیال آتا ہے۔۔ اور آجکل کے دور میں تو اسی جگہ رہنے والے سانپ سب سے باعزت ، معزز اور امیر ہوتے ہیں ، باقی جگہوں کے سانپ تو دکھائی دیتے ہی مار دیے جاتے ہیں۔کوئی نہ مانے تو سیاست اور اسمبلیوں پر نظر ڈالے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر موہنی صورت کی آستینوں میں واقعی مرمریں ہاتھ تھے۔ اور انھوں نے کمیشن کا سر بمہر لفافہ کھولا جو شاید کئی بار کھلا ہو، بڑے لوگوں کے بچے اسے پڑھ چکے ہوں، اور شاید جواب بھی ساتھ لائے ہوں ، مہر لگانا تو اہلِ فن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ زور شاید پر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موہنی صورت نے سرکتی ردا اور کچھ چپراسیوں کو پرچے تقسیم کرنے کے لئے دیے۔اور اللہ کی قدرت کہ سرکتی ردا کی ڈیوٹی ہماری قطار کی دیکھ بھال پر لگی۔پھر ہم نے اُن کے ہاتھ سے پرچہ تحفے کی طرح وصول کیا اور ساتھ میں شکریہ کے الفاظ بھی ادا کیے۔ ورنہ مرد حضرات تو ہر امتحان میں سامنے کی ٹیبل پر پرچہ رکھ کر چلے جاتے ہیں، مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک رینگے۔ اور حقیقت میں ہم اُس وقت سورہ مزمل پڑھ رہے ہوتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں ۔ لیکن یہ پر چہ بھی اسلامیات کا تھا اور نامحرم خواتین بھی تھیں اس لئے سورہ پڑھنے کا پروگرام موء خر کرلیا۔
پرچہ تقسیم ہونے کے بعد موہنی صورت نے ایک اور اعلان کیاکہ ہر غلط جواب کے نمبر نفی ہوں گے، اور ساتھ میں چند ہدایات جو سوالیہ پرچے کے اوپر جلی حروف میں لکھی ہوئی تھیں اُن کو دُھرانا اپنا فرض سمجھا کہ شاید کسی کو پڑھنا نہ آتا ہو۔۔ ٹیسٹ تو چار میں سے ایک پر لائن لگانے کا تھا اور یہ کام تو کوئی سبزی فروش بھی کرسکتا تھا۔۔۔ مگر ان پڑھ ہونے کے شرط لازمی ہے۔
سرکتی ردا قطاروں کے درمیان گردش کررہی تھی ، عطریات ا ور دوپٹے کے پَلو سے ہمارے پرچے اور ایمان متزلزل ہو رہے تھے۔ ہمیں تو یہ سب کچھ اپنے خلاف کمیشن والوں کی سازش لگی، کیونکہ اُن کے پاس ہمیں فیل کرنے کاشاید کوئی اور منصوبہ نہیں تھا۔۔۔ مولوی صاحبان ادھر اُدھر دیکھنے لگے جسے موہنی صورت ڈانٹ ڈپٹ کرکے چُپ کرتی۔ اُنکے چہرے پر غصے کی کوئی جگہ نہیں تھی ، لیکن پیشہ ورانہ مجبوری کے تحت اُنھیں یہ سب کرنا پڑا، حالانکہ اُنکی دھمکی بھی اہلِ دل کو دعوت محسوس ہوتی، لیکن یہ دھمکیاں ہمارے حصے میں نہ آئیں اور مولوی صاحبان کو نصیب ہوئیں۔ہم بار بار انھیں بلا کر مٹے ہوئے الفاظ کی تصحیح کراتے۔ کیونکہ وہ فارغ ہی بیٹھی تھی۔۔ ۔ کوئی بھی مولوی اُنھیں سرِ عام مُنہ نہیں لگانا چاہتا تھا(زور سرِ عام پر ہے مُنہ لگانے پر نہیں)۔ وہ ہمارے اشارے پر ہمارے پاس آتی اور ہمیں معقول بندہ سمجھ کر کچھ انگریزی اور کچھ اُردو میں سمجھاتی، اور جب ایک دفعہ ہم نے چند انگریزی فقرے بولے، تو اُنھیں ہماری معقولیت اور شرافت کا یقین سا ہوگیا، کیونکہ ہمارے ملک میں تو تعلیم یافتہ اور انگریزی بولنے والے ہی شریف اور معقول سمجھے جاتے ہیں،ورنہ بیوروکریٹ کونسے باکردار ہیں۔۔۔۔ پھرہم جو اُنکی گڈ بُک میں آئے تو ، ہمارے پہلو بدلنے پر بھی بیچاری سوال کا فرض کر لیتیں اور ہماری جانب دوقدم انجانے میں اُٹھالیتی۔۔ لیکن پرچہ اتنا آسان اور غلطیوں سے پاک تھا کہ " نہ پاس اپنے بُلا سکا"۔
رات کی شب بیدار ی اور مطالعے کی عادت نے ساتھ تو نبھایااور ڈیڑھ گھنٹے کا پرچہ ایک گھنٹے میں حل کرکے اسے پڑھنے لگے۔۔ پاس کر نے کادارومدار تو ممتحن کی قابلیت اورہمارے علمی حوالہ جات تک اُنکی رسائی پر ہے۔۔۔ اب پاس کرے یا فیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن خلد سے بے آبرو ہوئے بغیر کہاں جانے کو دل کرتا ہے۔ ہم بھی وہیں موجود رہے اور دیدار کا تجربہ حاصل کرنے لگے۔
ہم آدھے گھنٹے تک جوابات کو پڑھتے رہے اور ہمارے پہلو میں بیٹھے گھنگریالی داڑھی والے مولوی صاحب بھی یہی کام کرتے رہے لیکن دونوں کی توجہ کا مرکز میرا ہی پرچہ تھا۔ ۔ ۔ میں پرچے پر کہنی رکھ کر اُسے باز رکھنے کی کوشش کرتا اور وہ حسرتِ دیدار میں پہلو بدل بدل کر دیکھنے کی سعی کرتے۔ پھر وہ وقت ختم ہوگیا جس کے لیے یہ جنت سجائی گئی تھی ۔ ہم نے اپنا پرچہ سرکتی ردا کے حوالے کیا اور پھر موہنی صورت پر ایک اچٹتی نظر ڈال کر ، لاحول پڑھا اور ہال سے باہر آگئے۔۔ کمیشن کے اہلِ ایمان سے اس مذاق پر لعنت ملامت کی ۔ اور اسلام کے قلعے اور اسلامیات کے پرچے میں بھی موء منین کوغیر محفوظ سمجھا(اس سوچ کاکوئی انگور کھٹے ہیں کہہ کر مذاق نہ اُڑائے )،ہم نے خود کو بھی موء منین میں سمجھا کیونکہ جنت میں تو سب اکھٹے تھے، صرف چند لوازمات اور حُلیے کا فرق تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیم خان عابدؔ
ٹیسٹ کے دن صبح سویرے اُٹھے اور نماز و تلاوت کے بعد وہی دعائیں مانگیں جو اکثر طلباء مطلب نکالنے کے لئے امتحانات کے دنوں میں مانگتے ہیں، اور کئی دفعہ یہ دعائیں قبول بھی ہوجاتی ہیں۔ ہمارے ساتھ خود ایک واقعہ دعاؤں کے زود اثر ہونے کا ہوا ہے۔ ایک یونیورسٹی جو گھر بیٹھے آرام دہ تعلیم دینے کے پروگرام پر عمل کرتی ہے۔ہمارے پیپر نہ دینے کے باوجود بھی ڈی۔ایم۔ سی میں تین پیپر پاس ہونے کی خوش خبری ملی۔ اب اس سے زیادہ مستجابی تو صرف غُلو ہی ہوسکتی ہے۔ ہم توراسخ العقیدہ اسلامی بندے ہیں اور دُعاؤں پر یقین رکھنے والے ۔۔،اسی لئے تو محنت کیے بغیر ترقی کرنا چاہتے ہیں، انگلی زخمی کیے بغیر بہادر اور غازی بننا چاہتے ہیں،ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر دُنیاپر حکمرانی اور ساتھ میں صنعتی ترقی بھی چاہتے ہیں۔روزانہ نہ سہی جمعہ کے جمعہ اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں، اور میرے ہم خیال بھائیوں سے یہ دیس بھرا پڑا ہے اس لئے تو یہ حالت ہے۔۔ ۔ دُعاؤں کے ساتھ ساتھ ہم کفر کو بددُعائیں دینا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ کے جہاز خراب ہوکر گرجائیں ، بحری بیڑے خود بخود تباہ ہوجائیں، امریکہ بددُعاؤں سے اُجڑ جائے ، نیٹو میں بددُعاؤں کی وجہ سے انتشار پھیل جائے اور یہ آپس میں دست و گریبان ہوجائیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔ بددُعائیں ہمارے ایک جاننے والے مولوی صاحب کے ایمان کا حصہ ہیں ، وہ دُنیا کی حکمرانی اور ستاروں پر کمند ڈالنے کی خواہشیں دعاؤں سے پوری کرنا چاہتے ہیں۔وہ دُنیا کی امامت پانچ وقت صرف اپنا مُنہ دھو کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ منطق سے بی۔ باون کا علاج کرنا چاہتے ہیں اور فلسفہ سے بلیک واٹر کی بیخ کُنی۔۔۔۔۔خیر " دل کے خوش رکھنے کو غالب ؔ یہ خیال اچھاہے"
ہم نے دُعا کی اور پختونخوا پبلک سروس کمیشن کی طرف روانہ ہوئے۔ جوکاغذات جمع کرنے کے وقت سرحد پبلک سروس کمیشن تھا۔۔۔ پشاور کینٹ کا علاقہ جہاں قدم قدم پر فوجی جوان اور پولیس والے شریف اور نہتے لوگوں سے تفتیش کرتے ہیں (زور شریف اور نہتوں پر ہے)،اور باقیوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تو شریف بھی تھے اور نہتے بھی کیونکہ ایک قلم کا ہتھیار پاس تھا ، اور سیانے کہتے ہیں کہ اس کی ضرب تلوار سے کاری ہوتی ہے، ہم نے تلوار کی ضرب دیکھی نہیں لیکن قلم کی ضرب واقعی سخت ہوتی ہے۔ اللہ غریقِ رحمت کرے ہمارے ایک استاد صاحب کو جو روزانہ بچوں کی اُنگلیوں میں قلم پھنسا کر اُسے ادھ موا کرتے، اب اس سے کاری ضرب اورکیا ہو سکتی ہے۔ او یہ ضرب میرے دیس کے قلم ہی لگاتے ہیں، ورنہ یورپین اور امریکی اس قسم کی نعمتوں سے محروم ہی ہیں۔ وہاں پڑھائی کو دیکھیں کتنی دوستانہ ماحول میں ہوتی ہے۔ایک اُستانی کی ویڈیو دیکھی جو ہر صُبح بچوں کو گلے لگا کر خوش آمدید کہتی ہے۔۔۔۔۔۔اب ایسی اُستانی سے پڑھے ہوتے تو ناسا کی سپیس شپ ہمارے اشاروں سے چلتی۔ ہمارے ہاں تو اُستاد صاحبان اپنی ڈکٹیٹر شپ کو قائم رکھنے کیلئے وہ وہ حربے استعمال کرتے ہیں ، کہ خفیہ ایجنسیاں بھی شرما جائیں۔ ایک مولانا صاحب تو تسبیح کا ضرب ننگی پیٹھ پر دینے کے شوقین تھے اور اسی طرح وہ خیر کو غالب کرتے اور شر کو پیٹتے۔۔۔ ۔ ہمارے اساتذہ کبھی بچوں کے سر آپس میں ٹکراتے ہیں اور کبھی کان اتنے مروڑ لیتے کہ ای۔این۔ٹی۔ سپیشلسٹ کو زحمت دیے بغیر بات نہیں بنتی۔ ۔۔ خیر فوجی جوانوں نے قلم کے ہتھیار کو قابلِ اعتنا نہ سمجھا اور ہمیں پبلک سروس کمیشن کے دفتر کی طرف جانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔۔۔جیبوں کی تلاشی کے بعد تاکہ کوئی ٹینک یا توپ جیب میں نہ ہو۔۔۔۔۔۔یہ تو بھلا ہو فوجی جوانوں کا کہ قائداعظم کے تصاویر کو کچھ نہ کہا ۔۔۔۔ورنہ پولیس والے بھائی تو اتنے محتاط ہیں کہ ان تصاویر میں سے بھی کچھ پاس رکھ لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
جب کمیشن کے دفتر میں داخل ہوئے تو جنت کاسا سماں تھا۔ ۔ مرمریں عمارت، اُس پہ پیڑ پودے اور پھول پتیاں، کشادہ صحن اور نہ جانے کیا کیاسامان اس فردوس کو حسن بخش رہاتھا۔ نرم گھاس میں مولوی حضرات بیٹھے اپنے مخصوص عربی لہجے میں پشتو بول رہے تھے۔۔ ہمیں بھی فردوس کا یقین سا ہو گیا ، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ وہاں بھی مولوی اور خوبصورتی ہوگی ، خوبصورتی کے پیچھے تو شاید ہم بھی چلے جائیں لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے ایم ۔اے اسلامیات کی ڈگری لی تھی اور چند کتابوں کی ورق گردانی بھی کی تھی لیکن آج کے دن اپنے حلیے پر کافی سے زیادہ ندامت ہوئی۔ داڑھی مُونڈنے کا افسوس تو سب سے زیادہ تھا۔ اور دل میں ایک خواہش نے انگڑائی لی ، کہ کاش!۔۔۔ ہمارے بھی شانوں تک لمبے بال ہوتے، لمبی داڑھی ہوتی اُس پہ تراشیدہ مونچھیں ہوتیں،ٹائیٹ پگڑی باندھے ، بغیر کالر کا سفید کرتہ پہنتے،ٹخنوں سے اُونچی شلوار ہوتی، آنکھوں میں بقدرِ شرح سُرمہ ہوتاایک جیب سے مسواک کا ایک سِرا جھانک رہا ہوتا اور ایک پانچ سو دانوں والی تسبیح ہمادے واسکٹ کی جیب میں پڑی ہوتی جس کا ایک سرا بوقتِ کفتگو میرے ہاتھ میں اور باقی اُسی جیب میں گھوم رہا ہوتا۔ کاندھے پر ایک عدد لمبی چادر ہوتی جواوڑھنے ، بچھانے اور شان بڑھانے جیسے عظیم کام کرتی۔ ہر ایک ناکے پر پولیس والے ڈر کر سلام کرتے، محلے والے جمعے کی تقریر کے عتاب سے بچنے کیلئے جُھک جُھک کر ہاتھ ملاتے، اپنی جیب سے جگہ جگہ مُجھے کھلاتے ، اور میں کھا پی لینے کے بعد جزاک اللہ کہہ کر چل پڑتا،لیکن یہ بھی اُن ہزار خواہشوں میں سے ایک ہے جس پر دم ہی نکلتا ہے۔
سب باریش شرکاء ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے، لیکن مجھے امریکی یا یورپی سمجھ کر کسی نے ہاتھ ملانے کی زحمت بھی نہ کی۔ میں کمیشن کے دفتر میں سکندر کی طرح آیا تھا لیکن میرے آتے ہوئے ہاتھ خالی تھے اور اُس کے جاتے ہوئے، اور ایسی جگہوں پر خالی ہاتھ آنے والے ، نامراد ہی لوٹتے ہیں(کوئی بھی غلط فہم اسے رشوت سے تشیح نہ سمجھے)۔ ٹیسٹ کا وقت قریب آرہا تھا اور باہر بیٹھے علماء کتابوں کے ڈھیر اُلٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے۔ صفحوں کی چڑچڑاہٹ اور قراء ت کی آوازیں تیز ہو رہی تھیں، اور پھر ایک عمر رسیدہ بزرگ نے ہال میں داخل ہونے کا حکم دیا۔ ہم اپنی الاٹ شدہ سیٹ پر بیٹھ گئے جو خدا کے فضل سے آگے سے پانچویں قطار میں، عین ہال کے وسط میں تھی۔ اب کیا دیکھتے ہیں کے ہمارے ارد گرد رنگ برنگی پگڑیوں کا ایک سیلاب آیا ہے۔ جواکثر سیاست میں اچھالی جاتی ہیں لیکن یہاں اچھالنے کے بجائے سر ڈھانکنے کا کام کر رہی تھیں۔ میرے ارد گرد تو سفید پگڑیاں تھیں لیکن کہیں کہیں سر سبز پگڑیاں بھی اپنے جلوے دکھا رہی تھیں۔ دو تین کالی پگڑیاں بھی دیکھیں جو قلم سے زیادہ تلوار کے داعی ہیں لیکن اچھے بُرے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ ہمارے اکثر علماء تو اختلاف کو دین کی خوبصورتی سمجھتے ہیں اور سچ بھی ہے، کیونکہ اتنے قتل تو بد صورتی پہ کوئی بھی نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی پرچہ شروع ہونے میں بیس منٹ رہتے تھے اورہم ادھر اُدھر نظریں دوڑا کر وقت خراب کر رہے تھے کہ یکایک ہا ل میں ایک دوشیزہ داخل ہوئی، میں دو دوشیزہ کی جگہ ڈیڑھ شیزہ ہی کہوں گا کیونکہ دو شیزہ سے ذہن میں تیس پینتیس سالہ عورت کاتصور آتا ہے،پر اس فتنہءِ دیوانگی کی عمر کا اندازہ میں نے چوبیس سال سے کم ہی لگایا ، خیر اس میں حُسنِ زن کا بھی عمل دخل ہو سکتا ہے۔۔ اور پھر ہمارے ذہن پر محترمہ ہی سوار ہوئیں، البتہ چچااقبال ؒ نے بارہا منع کیا تھا کہ انھیں سواری کیلئے ذہن مہیا نہ کریں! نہ کریں! لیکن ہم نے کہاں ماننا ۔ وہ خود بھی منع تھے یا نہیں ۔۔۔ ہم بڑوں کے بارے میں لب کشائی نہیں کرتے ، ورنہ اتنی وافر مقدار میں شادیاں وقت کی ضرورت کے تحت تو نہیں ہوتیں۔۔۔خیر اسے جملہء معترضہ سمجھ کر نظر انداز کر لیں۔۔۔۔۔
اب کیا کہیں کہ جنت میں فی کس سترحوریں تھوک کے حساب سے ملیں گی، لیکن یہ تو دنیا کی جنت تھی اس لئے سو ڈیڑھ سو علماء کیلئے صرف دوحوروں پر اکتفا کیا۔علماء کی تعداد کم یا زیادہ ہوسکتی ہے، ہمیں ساتھ میں گِن بھی سکتے ہیں اور نکال بھی سکتے ہیں، لیکن حوریں دو ہی تھیں ایک وہ موہنی صورت والی انچارج اور ایک اسسٹنٹ جو اتنی بُری بھی نہیں تھی۔انچارج نے گیسو اپنی ردا میں پیک کیے تھے اور مسلمانوں کو اس کی جھلک دکھانا خلافِ شرح سمجھ رہی تھی لیکن اسسٹنٹ نے عام سا دوپٹہ لیا تھا جو اکثر سرکتی حالت میں ہوتا، اور سچ پوچھیں تو ہمارا ایمان بھی ٹیسٹ کے دوران معلق رہا ، ردا کے سرکنے کے ساتھ سرکنے لگتا اور ہم اُسے فورََ پکڑ کر اُٹھا لیتے۔ ۔ مولوی حضرات ہم جیسے سادہ دل تو ہیں نہیں، جو ستر چھوڑ کر دو مشترکہ پر اکتفا کر لیں۔اس لیے اُنھوں نے ٹیسٹ کے یہ ایک سو بیس منٹ گرم پرات پر کھڑے ہوکر گزارے۔ اکثر نے تسبیح نکالی اور ستر کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ناپنے لگے۔۔ لیکن ہم تو راضی بہ رضا والے لوگ ہیں، ہمیں دو نقد نہ ستر اُدھار والا خبط چڑھااور پھر نظریں اِن شوخ حسیناؤں پہ مائل رہیں۔ موہنی صورت نے ایک مختصر سی تقریر ہمیں شریف رکھنے کیلئے کی لیکن ساری کی ساری خود اعتمادی سے خالی تھی، اور اسی میں نقل کی ممانعت بھی کی۔ ساتھ والی سرکتی ردا اثبات میں سر ہلاتی رہی۔ ساری کی ساری تقریر اکارت گئی ۔۔۔۔۔ نہ مولویوں کے پلے پڑی کیونکہ وہ اُنکی طرف دوسری نظر اُٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اس لیے جس کی طر ف بندہ دیکھنے سے بھی احتزاز کرے اُنکی بات سننااور اُس پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے۔ اور ہمارے بھی پلے نہ پڑی کیونکہ ہم اُن کی باتوں سے زیادہ اُن پر توجہ دے رہے تھے۔اور سچ پوچھیے کہ ہم بھی پہلی نظر میں گھور رہے تھے ، نظر ہٹانے کو دل کہاں مان رہا تھا۔ ۔۔کہ دوسری کی نوبت آتی۔۔ٹیسٹ شروع ہونے سے پہلے کچھ سُرخ ٹوپیاں بھی ہال میں داخل ہوئیں جو سوشلزم کے بجائے عبدالرشید غازی صاحب (لال مسجد والے) کی تقلید تھی۔
محترمہ نے اپنی لمبی کالی آستینوں سے کچھ نکالنے کی کوشش کی ، کیونکہ اُن کے ہاتھ نظر نہیں آرہے تھے یا شاید اُنکا پردہ تھا۔ اب کچھ علماء تو چہرے کو بھی پردے سے خارج سمجھتے ہیں،لیکن ہم تو پشتون اور سخت مذہبی قسم کے بندے ہیں، اور عورت کے لیے آنکھوں کا پردہ بھی فرض سمجھتے ہیں۔کیونکہ میرؔ کو" شراب کی سی مستی " یہیں نظر آتی ہے۔۔ کوئی نہ مانے تو پشتونوں کا شٹل کاک برقع دیکھ لیں، برقعے میں اتنے چھوٹے چھید ہوتے ہیں کہ آنکھیں نظر آنا تو دور کی بات ، بہن بیٹیوں کو میونسپلٹی کے کُھلے مین ہول اور جان کُن نالیاں تک نظر نہیں آتیں، اور کئی دفعہ تو محترمائیں اِن عزت افزا مقامات میں برقعے سمیت گر جاتی ہیں۔ اور پھر خدائی خدمت گار قسم کے مرد جب اُنھیں کھینچ کھینچ کر مکامِ محمود سے نکالتے ہیں تو، اس سے عزت اور غیرت پر کوئی قدغن نہیں لگتی۔۔۔ خیر ہم نے موہنی صورت کی آستینوں سے کچھ نکلتے دیکھا ، اور بچپن سے آستین کا سانپ والا محاورہ اتنی مرتبہ پڑھا ہے کہ آستین دیکھتے ہی سانپوں کا خیال آتا ہے۔۔ اور آجکل کے دور میں تو اسی جگہ رہنے والے سانپ سب سے باعزت ، معزز اور امیر ہوتے ہیں ، باقی جگہوں کے سانپ تو دکھائی دیتے ہی مار دیے جاتے ہیں۔کوئی نہ مانے تو سیاست اور اسمبلیوں پر نظر ڈالے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر موہنی صورت کی آستینوں میں واقعی مرمریں ہاتھ تھے۔ اور انھوں نے کمیشن کا سر بمہر لفافہ کھولا جو شاید کئی بار کھلا ہو، بڑے لوگوں کے بچے اسے پڑھ چکے ہوں، اور شاید جواب بھی ساتھ لائے ہوں ، مہر لگانا تو اہلِ فن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ زور شاید پر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موہنی صورت نے سرکتی ردا اور کچھ چپراسیوں کو پرچے تقسیم کرنے کے لئے دیے۔اور اللہ کی قدرت کہ سرکتی ردا کی ڈیوٹی ہماری قطار کی دیکھ بھال پر لگی۔پھر ہم نے اُن کے ہاتھ سے پرچہ تحفے کی طرح وصول کیا اور ساتھ میں شکریہ کے الفاظ بھی ادا کیے۔ ورنہ مرد حضرات تو ہر امتحان میں سامنے کی ٹیبل پر پرچہ رکھ کر چلے جاتے ہیں، مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک رینگے۔ اور حقیقت میں ہم اُس وقت سورہ مزمل پڑھ رہے ہوتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں ۔ لیکن یہ پر چہ بھی اسلامیات کا تھا اور نامحرم خواتین بھی تھیں اس لئے سورہ پڑھنے کا پروگرام موء خر کرلیا۔
پرچہ تقسیم ہونے کے بعد موہنی صورت نے ایک اور اعلان کیاکہ ہر غلط جواب کے نمبر نفی ہوں گے، اور ساتھ میں چند ہدایات جو سوالیہ پرچے کے اوپر جلی حروف میں لکھی ہوئی تھیں اُن کو دُھرانا اپنا فرض سمجھا کہ شاید کسی کو پڑھنا نہ آتا ہو۔۔ ٹیسٹ تو چار میں سے ایک پر لائن لگانے کا تھا اور یہ کام تو کوئی سبزی فروش بھی کرسکتا تھا۔۔۔ مگر ان پڑھ ہونے کے شرط لازمی ہے۔
سرکتی ردا قطاروں کے درمیان گردش کررہی تھی ، عطریات ا ور دوپٹے کے پَلو سے ہمارے پرچے اور ایمان متزلزل ہو رہے تھے۔ ہمیں تو یہ سب کچھ اپنے خلاف کمیشن والوں کی سازش لگی، کیونکہ اُن کے پاس ہمیں فیل کرنے کاشاید کوئی اور منصوبہ نہیں تھا۔۔۔ مولوی صاحبان ادھر اُدھر دیکھنے لگے جسے موہنی صورت ڈانٹ ڈپٹ کرکے چُپ کرتی۔ اُنکے چہرے پر غصے کی کوئی جگہ نہیں تھی ، لیکن پیشہ ورانہ مجبوری کے تحت اُنھیں یہ سب کرنا پڑا، حالانکہ اُنکی دھمکی بھی اہلِ دل کو دعوت محسوس ہوتی، لیکن یہ دھمکیاں ہمارے حصے میں نہ آئیں اور مولوی صاحبان کو نصیب ہوئیں۔ہم بار بار انھیں بلا کر مٹے ہوئے الفاظ کی تصحیح کراتے۔ کیونکہ وہ فارغ ہی بیٹھی تھی۔۔ ۔ کوئی بھی مولوی اُنھیں سرِ عام مُنہ نہیں لگانا چاہتا تھا(زور سرِ عام پر ہے مُنہ لگانے پر نہیں)۔ وہ ہمارے اشارے پر ہمارے پاس آتی اور ہمیں معقول بندہ سمجھ کر کچھ انگریزی اور کچھ اُردو میں سمجھاتی، اور جب ایک دفعہ ہم نے چند انگریزی فقرے بولے، تو اُنھیں ہماری معقولیت اور شرافت کا یقین سا ہوگیا، کیونکہ ہمارے ملک میں تو تعلیم یافتہ اور انگریزی بولنے والے ہی شریف اور معقول سمجھے جاتے ہیں،ورنہ بیوروکریٹ کونسے باکردار ہیں۔۔۔۔ پھرہم جو اُنکی گڈ بُک میں آئے تو ، ہمارے پہلو بدلنے پر بھی بیچاری سوال کا فرض کر لیتیں اور ہماری جانب دوقدم انجانے میں اُٹھالیتی۔۔ لیکن پرچہ اتنا آسان اور غلطیوں سے پاک تھا کہ " نہ پاس اپنے بُلا سکا"۔
رات کی شب بیدار ی اور مطالعے کی عادت نے ساتھ تو نبھایااور ڈیڑھ گھنٹے کا پرچہ ایک گھنٹے میں حل کرکے اسے پڑھنے لگے۔۔ پاس کر نے کادارومدار تو ممتحن کی قابلیت اورہمارے علمی حوالہ جات تک اُنکی رسائی پر ہے۔۔۔ اب پاس کرے یا فیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن خلد سے بے آبرو ہوئے بغیر کہاں جانے کو دل کرتا ہے۔ ہم بھی وہیں موجود رہے اور دیدار کا تجربہ حاصل کرنے لگے۔
ہم آدھے گھنٹے تک جوابات کو پڑھتے رہے اور ہمارے پہلو میں بیٹھے گھنگریالی داڑھی والے مولوی صاحب بھی یہی کام کرتے رہے لیکن دونوں کی توجہ کا مرکز میرا ہی پرچہ تھا۔ ۔ ۔ میں پرچے پر کہنی رکھ کر اُسے باز رکھنے کی کوشش کرتا اور وہ حسرتِ دیدار میں پہلو بدل بدل کر دیکھنے کی سعی کرتے۔ پھر وہ وقت ختم ہوگیا جس کے لیے یہ جنت سجائی گئی تھی ۔ ہم نے اپنا پرچہ سرکتی ردا کے حوالے کیا اور پھر موہنی صورت پر ایک اچٹتی نظر ڈال کر ، لاحول پڑھا اور ہال سے باہر آگئے۔۔ کمیشن کے اہلِ ایمان سے اس مذاق پر لعنت ملامت کی ۔ اور اسلام کے قلعے اور اسلامیات کے پرچے میں بھی موء منین کوغیر محفوظ سمجھا(اس سوچ کاکوئی انگور کھٹے ہیں کہہ کر مذاق نہ اُڑائے )،ہم نے خود کو بھی موء منین میں سمجھا کیونکہ جنت میں تو سب اکھٹے تھے، صرف چند لوازمات اور حُلیے کا فرق تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیم خان عابدؔ
written in 2011
No comments:
Post a Comment