Monday, 15 October 2018

افسانہ : غریب کا گناہ


وسیم خان عابدؔ 
بابوجی۔۔! یاد ہے کل۔۔۔۔۔۔فہیم نے تمبووں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کر کے میرے حافظے کو جھنجھوڑا۔۔۔۔۔اور میں نے کل کا منظراپنے ذہن میں کسی فلم کی طرح ریورس چلایادیا۔۔۔۔۔۔
عصرکے وقت انجن نے سیٹی بجائی اور اپنے پیچھے ڈبوں کی ایک لکیر کھینچتا ہوا سٹیشن کے حدود میں داخل ہوکر، آہستہ آہستہ پلیٹ فارم پہ آکر ساکن ہوگیا۔ مسافر ایک ایک کرکے اُترنے لگے ان ہی مسافروں میں ایک دوشیزہ بھی اُتری جس کا چھریرا بدن وہاں پر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب راغب کررہا تھا۔ اسکی گندمی رنگت پر کتھی رنگ کا سوٹ حد سے زیادہ جچ رہا تھا۔ بڑی بڑی آنکھیں ، ستواں ناک پتلے ہونٹ اور اُس پہ گلابی رنگ کی لپ سٹک دلوں کو للچا رہی تھی۔ قد درمیانہ تھا لیکن تنگ سلے ہو ئے سوٹ میں جسم کے نمایا ں حصے ببانگِ دہل اپنے ہونے کا احساس دلا رہے تھے۔گاڑی اگلے سٹیشن کی طرف روانہ ہوئی اور وہ بینچ پر بیٹھے 
ہوئے ایک لڑکے کی طرف دیکھ کر مسکرائی جس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔اسکا رنگ حد سے زیادہ کالا تھا ، لیکن کسرتی جسم اس پتلی سی میلی قمیص میں نمایاں نظر آرہا تھا، اس کے بال گرد در گرد اور تیل در تیل کے استعمال سے سخت تنکوں کی طرح سخت ہوگئے تھے۔۔ اورپھر وہ دوشیزہ گھنی جھاڑیوں کے پیچھے بنے ہوئے گھروں کی راہ پر گامزن ہوگئی اور اس لڑکے نے بھی وہی راہ اختیار کی۔ 
ریلوے سٹیشن کے شمال مغربی جانب خانہ بدوشوں کی جگیاں تھیں،لیکن یہ خانہ بدوش وہ لوگ ہیں جنھیں مسلمان معاشرے میں شودر کا مقام حاصل ہے۔ انکی کالی سیاہ جلد،گھنگریالے بال، موٹے موٹے ہونٹ، بھرے جسم اور چپٹی ناک انھیں معاشرے کے لئے ناقابلِ قبول بناتی ہے۔ کہیں اُنہیں چنگڑ کہیں مُصلی اور کہیں اور حقارت بھرے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ان کی عورتیں دن بھر کام کاج کرتی ہیں اور مردوں کیلئے روزی کماتی ہیں ۔ ان کے مرد نکمے ہوتے ہیں اور گھر میں بیٹھ کر گھر گھرستی کرتے ہیں۔ انکے ٹاٹ سے بنے وہوئے تمبو اُنکے واحد محافظ ہیں جو اُنھیں جاڑے اور گرمی کی شدت سے بچاتے ہیں۔اِن کی جوان عورتیں پھیری والے کی طرح گھر گھر جاکر چھوٹی موٹی اشیاء فروخت کرتی ہیں ، جن میں اکثریت عورتوں کے ضروری سامان کی ہوتی ہے۔ کبھی بھیک مانگتی ہیں اور کبھی معاشرے کی بے راہ روی کا شکار ہو کر، سہل کمائی کے ذرائع پیدا کرتی ہیں۔۔ ۔ سفید پوش اُنکے میلے کپڑوں سے کراہت ظاہر کرتے ہیں لیکن اکثر اپنی بھوک مٹانے کے لیے ان میلے جسموں کو اوڑھ لیتے ہیں۔۔ 
رشید بھی ایسے ہی گھرانے کا فرد تھا۔جسے اپنے پرائے سب شیدو کہہ کر مخاطب کرتے۔ ان خانہ بدوشوں کے بچے بلوں میں گھسنے والے ایک جانورجسے سانڈہ کہتے ہیں کا شکار کرتے اور اسکا تیل حکیم حضرات مہنگے داموں خرید لیتے ۔ شیدو کا بچپن بھی اسی طرح گزرا۔ تعلیم ، نماز ، روزہ ، زکوات،مذہب ، فرقہ ،یہودی مسلمان،اور جنت جہنم جیسے الفاظ اُس کے ہاں بے معنی تھے۔ دنیا کی سیاسیا ت سے بے خبر وہ اپنی زندگی اپنی موج میں گزار رہا تھا۔ اُن کی زندگی میں صبح صادق اور پُرسرور شام وہی آٹھ فٹ کا جھونپڑی نما تمبو تھا۔ریلوے اراضی آوارہ کُتوں ، فقیروں ، خانہ بدوشوں اور سرمایہ داروں کے لئے تر نوالہ ہے اور شیدو کا خاندان بھی اس زمیں پر بیس سال سے آباد تھا۔ یہ لوگ مقامی لوگوں کے ساتھ مانوس ہوگئے تھے۔ اور ان کے گھروں میں آتے جاتے تھے۔ اس علاقے میں پردے کا رواج بھی نہیں تھااس لئے عورتیں مردوں کے شانہ بہ شانہ پھرتی رہتیں ۔ 
شیدو بھی رحم داد کے گھر کبھی کبھی کام کے سلسلے میں چلا جاتا تھا ، لیکن وہ اسکا باقاعدہ ملازم نہ تھا۔ رحمداد اپنی زندگی کی اٹھاون بہاریں دیکھ چکا تھالیکن مصنوعی کالک سے جوانی کو روکے ہوئے تھا ۔ رحمداد کی دوسری بیوی زرمختار جسے سب زری کہتے تھے اُس کی اصل حکمران تھے وہ اپنی زندگی کا بتیسواں سال کاٹ رہی تھی ، لیکن کافی چالاک اور شاطر عورت تھی ، وہ رحمداد کو اپنی عمر اور حسن کی وجہ سے انگلیوں پر نچاتی۔ سب ملازمین زری سے ڈرتے تھے ، لیکن شیدو پر عنایات کی بارش تھی۔ اور اسی مہربانی نے شیدو کو ایک عدد موبائل فون کا مالک بنادیا تھا۔ اس موبائل فون کا مصرف صرف زری کے دربار میں بروقت حاضری اور عطااللہ نیازی کے گانے تھے۔ شیدو اور زری کے درمیان ایک تعلق تھا جو آہستہ آہستہ بے کیف سے پُر کیف بن گیا۔ اور اس پر کوئی بھی شبہ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ زری کے ذہن نے وہ مہرہ تراشا تھا کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اُن کے بیچ کیا چل رہاہے۔۔۔ 
یہی وہ عمل ہے جو شریف زادیوں کو بازاری عورت سے نیچ اور گٹھیا بناتی ہے۔ کیونکہ بازاری عورت کا فعل برا ہوتا ہے لیکن وہ کسی رشتے سے غداری کی مرتکب نہیں ہوتی بلکہ مجبوری اور رواروی میں ایک گناہ کرتی ہیں،لیکن شریف ذادیوں کا فعل اُن پاک رشتوں سے غداری ہے جو اُنھیں اپنی مان اور آبرو سمجھتے ہیں اور یہ ایک اصول ہے کہ غدارکو کوئی بھی معاشرہ معاف نہیں کرتا۔ لیکن زری غداری بھی بڑے سلیقے سے کررہی تھی۔ شیدو، زری کے حکم پر رحمداد کی غیر موجودگی میں راتوں کو اُنکے گھر جاتا اور زری اپنے گھر کے پچھلے دروازے سے اُسے اپنے کمرے میں بلالیتی۔ یہ سلسلہ ناتمام ایک عرصے سے جاری تھا اور رحمداد اپنے گھر سے بے خبر اپنی زمینوں کی فکر میں گاؤں گاؤں کی خاک چھانتا اگرچہ اُنکی اولاد نہ پہلی بیوی سے تھی اور نہ زری سے،لیکن پھر بھی دولت کے انبار لگانے میں لگا ہوا تھا۔ شیدو ہزار بے تکلفی کے باوجو زری کو بی بی جی کہتا اور یہی معمول خلوت اور جلوت دونو ں جگہوں میں ہوتا۔لیکن سلسلہ ضرور کسی موڑ پر رُکتا ہے ۔اس کہانی کا انجام گزشتہ رات کوہو جس نے جگی والوں کو رسوا ئے زمانہ بنا دیا۔ 
رحمداد نے گھر نہ آنے کی اطلاع صبح سے زری کو فون پر دی تھی ۔سٹیشن سے جانے کے بعد عشاء تک شیدو آس پاس کے کھیتوں میں وقت گزارتا رہا اور جب بی بی جی کا فون آیا تو فوراََ، اپنے مقام پر پہنچ گیا۔ وہ زری کے کمرے میں فرش پر بیٹھا اس کے حکم کا انتظار کر رہا تھا۔ زری بستر پر آکے بیٹھ گئی اور شیدو کوشمولیت کا حکم ملا۔۔۔۔ زندگی ایک عجیب رنگ دکھا رہی تھی۔ گہری کالی رات میں دو مختلف ذاتوں اور حیثیتوں کے انسان ایک ہی بستر میں پڑے دنیا کے اصولوں اور ذات پات کی تقسیم پر پھبتیاں کس رہے ہیں۔ اُن کا فعل چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ دیکھو دنیا والو! دیکھو! سب سے بڑا رشتہ بھوک کا ہے جسم کی بھوک کا، جو گورے کے لئے کالے کو قابلِ قبول بناتاہے اور کالے کیلئے گورے کو۔صاف ستھرے کیلئے میلے کچیلے میں کشش پیداکرتاہے اور چوہدری کیلئے مصلی اور چنگڑقابلِ قبول بن جاتاہے۔ دیکھو دنیا والو ! انسان کی انسان سے برابری دیکھو۔ محمود وایاز کے افسانے چھوڑو عملی زندگی دیکھو ، حقیقت کو دیکھوکہ بھوک کس طرح دو جسموں کو ملاتی ہے۔ ۔
گھر کے دروازے پر دستک ہوئی اور زری نے رحمداد کی آواز سن ۔۔۔۔اور فوراََ اُٹھ کر اپنے سارے گہنے ڈبوں سے نکال کر شیدو کے رومال میں لپیٹ کر اُس کے ہاتھ پر رکھے اور ڈبوں کو کمرے میں ادھر اُدھر پھینک دیا۔ شیدو نے دروازے کاپٹ کھولا اور اندھا دُہن دوڑ لگائی ۔ رحمداد نے صرف ایک جھلک دیکھی ،لیکن بلب کی روشنی کی وجہ سے حلیہ پہچان لیا۔۔۔اور ایک اونچی آواز لگائی ۔۔۔شیدوو!۔۔۔۔ لیکن جونہی زری کے کمرے میں داخل ہوا تو اسکے منہ سے ایک خوفناک چیخ نکلی ۔ ۔۔زری کے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا اور اپنے بسترپر بے ہوش پڑی تھی۔ راتوں رات حکیم بلوایا گیا لیکن زخم گہرا نہیں تھا اس لیے مرہم پٹی کردی، اور بے ہوشی کی وجہ صدمہ ہی بتایا گیا۔
صبح شیدو چور کے خلاف تھانے میں ایف۔آئی ۔آر ، درج ہوئی زری کا بیان لیا گیا ،جس نے چور کی ایک جھلک دیکھی تھی جب وہ گلدان سے اُس کے سر پر وار کر رہا تھا ۔ تھانیدار نے نوٹوں کا ایک بنڈل اپنی جیب میں رکھتے ہوئے شیدو کے خلاف اقدامِ قتل اور چوری کے مقدمات درج کرلیے۔۔اور پولیس والے رحمداد کے نمک خوار بن کر جگیاں ہٹانے اور شیدو کی تلاش میں لگ گئی۔ ۔ زری محلے کی عورتوں سے رورو کر اپنی بے بسی کی داستان بیان کر رہی تھی اور محلے کی منہ پھٹ عورتیں خیرات کے پلاوسے بوٹیاں اُٹھا اُٹھا کر۔۔ نمک حرام شیدو کی لعنت ملامت میں لگی ہوئی تھیں ۔ زری کے ماتھے کے گرد سفید پٹی لپٹی تھی اور رحمداد اُس کے زندہ بچ جانے کی خوشی میں پھولے نہیں سما رہا تھا ۔۔درباروں پر چڑھاوے اور خیرات کے ٹائم ٹیبل بن رہے تھے ۔۔۔اور نئے گہنوں کے وعدے ہو رہے تھے۔ 
شیدو کو نہ ملنا تھا اور نہ ملا، لیکن اُنکے خاندان والوں کے وہ تمبو جو بیس سالوں سے اس زمین پر انکے گھر تھے، پلیٹ فارم پر پڑے آنے والی گاڑی کا انتظار کر رہے تھے۔ رخصت ہونے والوں کی آنکھوں میں بیتے ہوئے بیس سالوں کی یادیں آنسووں کی شکل میں تیر رہی تھیں ۔۔اور غریب کا گناہ مُنہ پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہا تھا۔۔۔۔
(Written in 2011)

No comments:

Post a Comment