Saturday, 20 October 2018

(Dog collars)کالم: پٹے

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک دُبلا پتلا جنگلی کتا شہر کی طرف نکل آیا اور ایک نہایت پَلے ہوئے کتے سے ملاقات ہوئی ۔ پالتو کتے نے اپنی عیاشیوں کی داستان سنائی جس نے جنگلی کتے کے دل میں بھی پالتو بننے کی خواہش پیدا کی ۔لیکن پھر اچانک اُسکی نظر پالتو کتے کی گردن میں پڑے ہوئے پٹے پر پڑی اور پالتوبنے پر کمزوری اور بھوک کو تر جیح دی۔۔۔ خیر یہ تو ایک حکایت تھی اور سینکڑوں مرتبہ دھرائی ہوئی،مگر یہ چھوٹی سی حکایت زندگی کا ایک عظیم فلسفہ پیش کرتی ہے۔کہ پُرتکلف زندگی سے آزادی ہزار درجہ بہتر ہے مگر ہم نے یہ حکایت سینکڑوں مرتبہ سننے کے باوجود ایک مرتبہ بھی غور نہیں کیا،اور اُن پٹوں پر کبھی نظر نہیں ڈالی جو ہماری گردنوں میں کَس کر باندھے گئے ہیں۔
امریکہ کے پٹے کا طعنہ تو ہر حکومت کو دیا جاتا ہے۔۔اور جن لوگوں نے الیکشن سے پہلے یہ پٹہ پہننے سے انکار کیا تھا ،اب اضطراری طور پر پہن رہے ہیں۔۔ خیر یہ تو جملہءِ معترضہ تھا ۔مگر میں آج اُن چھوٹے چھوٹے پٹوں کی بات کروں گا جو گلی ، محلے ،ضلع اور صوبے کی سطح پر ہماری گردنوں میں ڈالے جاتے ہیں۔اور یہی ایک قسم کی ریہرسل ہے جو ہمیں امریکہ بہادر کے بڑے پٹے کے لیے تیار کرتی ہے۔ارسطو نے کہا تھا۔۔مجھے سقراط پیارا ہے مگر سچائی اُس سے کہیں زیادہ پیاری ہے۔۔ 
اوریہی وہ اخلاقی معراج ہے جس کے بعد قوم نہ جھکتی ہے اور نہ بکتی ہے۔کیونکہ سچائی سے محبت کرنے والا نہ اکابر پرست ہوتا ہے،نہ مقابر پرست ہوتا ہے،نہ زرپرست،نہ پارٹی پرست اور نہ مخصوص ادارہ پرست،بلکہ ایک آزاد خود دار اور بہادر انسان ہوتا ہے۔وہ سچ کہتا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہے۔
جب معاشرے کاگرس روٹ لیول سے جائزہ لیتے ہیں تو عوام کی گردنوں میں برادری ، خان خوانین،جاگیر داروں اور پارٹیوں کے پٹے چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں،پٹے سب کے سب ایک جیسے ہوتے ہیں اور سُرخ یا سبز کی وجہ سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔ہم نے کبھی بھی آزاد قوم پیدا کرنے کی شعوری کوشش نہیں کی،اور جھکڑے ہوئے احساسِ کمتری کے شکار مریضوں میں اضافہ کرتے رہے ۔آج اگر مخالف پارٹی کوئی بہت اچھا اور اعلٰی کام بھی کرلے لیکن جس کے گلے میں پٹہ ہو وہ مکھی کی طرح سب اچھا میں زخم ڈھونڈ کر وہیں بیٹھنے کی کوشش کرے گا، کیونکہ اصل مسئلہ مخالفین کے کام میں نہیں بلکہ اُس پٹے کا ہوتا ہے جو گردن میں پڑا ہوا ہے۔۔ اسی طرح جب ایک چھوٹی سی بچی دُنیا میں سراہی جاتی ہے تو ہمارے پٹوں میں پڑی ہوئی رسی پتہ نہیں کہاں سے ہلائی جاتی ہے اور ہم اُس بیچاری کے خلاف غوغائے رستخیز شروع کردیتے ہیں۔ کیوں؟ ۔۔ کیونکہ جس گلے میں پٹہ پڑا ہو وہ کبھی بھی اپنے دل کی اور ضمیر کی نہیں سُنے گا بلکہ پٹہ ڈالنے والے کی ایما ء پر بولے گا خواہ دانشور ہو ،صحافی ہو یا کوئی اور۔۔ !میرا مسئلہ ملالہ کی وکالت نہیں بلکہ میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے کسی کی تھپکی پر شور مچانا اشرف المخلوقات کا کام تو نہیں، تھپکی پر تو شور صرف پٹے والے ہی کر سکتے ہیں۔علاقائی لیول پر آئیں تو خان خوانین کے پٹوں والے نہایت پُرتکلف زندگی گزار رہے ہیں ،ہر محکمے میں پٹے والے بیٹھے ہیں ، ہر بڑی کرسی والے کے گلے میں کسی کا پٹہ پڑا ہے اور جب رسی کھینچی جاتی ہے تو پٹے والا ری ایکٹ کرتا ہے۔ پٹے والے کی سیدھی سادی پہچان اتنی سے ہے کہ گردن میں سریہ ہوگا مگر ریڑھ کی ہڈی نہیں ہوگی۔۔اپنے اردگرد ،دیکھ کر تجزیہ کر لیں۔۔
کہیں پڑھا تھا کہ ہجوم میں عقل نہیں ہوتی بلکہ جذبات ہوتے ہیں ، سیاسی ورکروں سے جب ملتے ہیں تو بات ایک کے بھی پلے نہیں پڑتی مگر اپنے چمکتے ہوئے پٹے کی وجہ سے پھدکتے پھرتے ہیں ۔اکثریت کے پاس اپنے فعل کا کوئی جواب ہی نہیں ہوتا ،کچھ خدااور رسولﷺ کے کاندھے پر اپنی مقاصد اور مفادات کی بندوق رکھتے ہیں،اور کچھ کا قبلہ واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان گردش کرتا رہتاہے۔۔۔
ہمارا کوئی بھی مسئلہ اتنا بڑا نہیں جتنا پٹے کا مسئلہ ہے۔نہ معاشی ،نہ سیاسی اور نہ دفاعی آج ہم پیچھے ہیں تو صرف اور صر ف اپنی اخلاقی تنزلی کی وجہ سے اور میری اخلاقیات دینداروں کی طرح صرف جنسیت کا طواف نہیں کرتی بلکہ رشوت، اقرباء پروری، میرٹ کا قتل، ظالم کی مدد ،مظلوم کامضحکہ ،مفاد پرستی،بے جا عقیدت،عدل وانصاف کا مذاق اُڑانااور مفاد پرستی جیسی سب برائیوں کا سدِباب چاہتی ہے۔ ۔ہم میں کوئی بھی پاکستانی نہیں کیونکہ ہم یا رائٹسٹ ہیں یا لیفٹیسٹ، یاپارٹی لور ز،یا وردی لورز،لیکن پاکستان لور کوئی بھی تو نہیں ۔ہم میں سے ہر ایک اپنے پٹے کی چمک کے لیے لڑ رہا ہے اور سچائی کہیں دور اندھیروں میں گم ہو چکی ہے ۔۔موجودہ 2018کو دیکھ لیں۔۔اتنی بھونڈی اور فضول باتوں کی سوشل میڈیا پہ وکالت ہو رہی ہے کہ الامان الحفیظ ۔۔۔ ہر پارٹی اور چند ایک اداروں نے کچھ پالتو سوشل میڈیا کے لیے ہائر کیے ہیں اور وہ ہر بات کا دفاع کر رہے ہیں۔۔۔ اتنا عظیم پروپیگنڈہ ہو رہا ہے کہ سادہ دل لوگوں کو دایاں بایاں سجھائی نہیں دے رہا اب ایسے ماحول میں ترقی کیسے ہو۔۔۔ کیوں دُنیا میں نام روشن ہو۔۔۔کیوں امن و سکون قائم ہو۔۔۔۔ایک اور مذاق جوآجکل اکثر دیکھنے کو مل رہا ہے کہ نوازشریف کے کسی غلط کام پر تنقید کر لیں۔۔تو آپ کو پی۔ٹی۔آئی والا سمجھ لیا جاتا ہے، پی۔ٹی۔آئی کے متعلق بات کریں تو ،ن لیگی،محروم قوموں کے حق یا آئین کی پاسداری کی بات کریں تو فوج کا دشمن اورارضِ پاک کا غدار۔۔لیکن ان سب کے لیے اتنی سی عرض سے کہ کوئی آزاد بھی تو ہوسکتا ہے، پٹے کے بغیر۔۔۔۔۔ اگر دیس کی بھلائی مقصود ہے تو سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اپنے اپنے پٹے اُتار پھینکیں،سچ کا ساتھ دیں ،تنقید اپنے ضمیر کے مطابق کریں کسی پٹے کے زیرِ اثر نہیں۔۔ اور پھر کسی حکمران سے شکوہ کریں۔۔ ۔ورنہ بیٹھے رہیں اپنے اپنے پٹوں کو چمکانے۔۔۔۔۔۔اور لٹتا دیکھیں اپنی قوم کی عزت و غیرت۔۔۔
وسیم خان عابدؔ 
(updated in: 2018)

No comments:

Post a Comment