Wednesday, 17 October 2018

افسانہ : ببلی

آج سے اٹھایس سال پہلے کی بات ہے ،جب میں لاہور کیش آفس میں کام کرتا تھا۔ ایک دن میرے گاؤں کا بدنامِ زمانہ کار لفٹر اور میرے دور کا رشتہ دار جبار انجم میرے آفس میں اچانک آدھمکا۔اسکی غیر متوقع آمد پر میں چونک پڑا ،لیکن حواس بحال کرکے اُسکی خاطر مدارت میں لگ گیا اور چھٹی کے بعداُسے اپنے ساتھ اپنے کوارٹر لے گیا۔ گاؤں کا حال احوال دریافت کیا اور دوگھنٹے تک رسمی سی گفتگو ہوتی رہی۔
رات کھاناکھانے کے بعد جبارانجم نے اچانک ایک سوال کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ببلی کو جانتے ہو؟۔۔۔۔۔۔۔مجھے اس قسم کے سوال کی توقع نہیں تھی ،اس لیے کچھ دیر اسکے چہرے کو گھورنے کے بعد خود سوال کیا۔۔ کون ببلی؟۔۔۔ ببلی رقاصہ!۔۔۔۔۔۔وہی ببلی جو بندے کوایک دفعہ چُھو لے تو اُس کے ہاتھ میں مٹی سونا بن جائے ،اور پتھر ہیرے۔۔۔! میرے دل میں لالچ اور طمع کے جذبات اُبھر اور بات کریدنے لگا۔۔۔۔! وہ کس طرح۔۔؟ اُس نے خود فراموشی کے انداز میں چارپائی پر کروٹ بدلی۔۔۔۔بھائی میرے !یہ دیکھنے کی باتیں ہیں بیان کر نے کی نہیں۔۔۔!، لیکن مجھے تو لاہور میں چار سال سے اوپر ہوچکے ہیں میں نے تو کسی ببلی جادوگرنی کا نام تک نہیں سُنا؟۔۔۔ اُس نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا!لیکن میں تو ببلی سے ملنے آیا ہوں ۔۔۔۔ جو مجھے سونا بنا دے گی۔۔!
جبار ایک مہینے تک لاہور کی سڑکوں پر اپنی گاڑی پھراتا رہا، جب میں دفتر کے لیے نکلتا تو جبار مجھے آفس تک چھوڑنے جاتا اور رات دس بجے کے بعد کوارٹر میں آکر سو جاتا۔۔۔ ایک رات وہ خلافِ توقع رات آٹھ بجے ہی کوارٹر آپہنچا اور کافی سے زیادہ خوش تھا۔۔ میں نے کہا خیر تو ہے؟۔۔۔بولے کل شام تیار رہنا ببلی سے ملنا ہے!۔۔۔ساری رات میں نے کروٹ بدلتے ہوئے کاٹی کیونکہ ، ببلی سے زیادہ مجھے اُس سونے کی چاہ تھی ،جو میں مٹی کو چھو کر بناتا۔۔۔۔یہ نوکری اور تنخواہ کا چکر بندے کی زندگی گھول کر رکھ دیتا ہے۔ ہر مہینے پہلی تاریخ کا انتظار کرو اور ہر مہینے کی بیسویں کے بعد پائی پائی کا حساب کرکے خرچہ کرو۔۔! 
یقیناََ آج صبح کا فی دیر سے ہوئی اور رات لمحہ لمحہ کر کے کٹی۔۔ میں نے زندگی میں اتنی لمبی رات کبھی نہیں دیکھی۔۔۔ صبح دفتر گیا تو گھڑی کے کانٹے ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے، میں کبھی کلائی کو دیکھتا اور کبھی دیوار کو۔۔اور یوں لمحہ لمحہ شام ہو گئی ۔۔۔ گھر پہنچا تو جبار خلافِ عادت سفید شلوار قمیص میں ملبوس تھا ،کالی واسکٹ ،چترالی ٹوپی اور کاندھے سے گھٹنوں تک لٹکتی ہوئی چادر اُسکی شان بڑھا رہے تھے۔۔اُس نے سو اور پچاس روپے کے نوٹ واسکٹ کی جیبوں میں بھر لیے تھے۔۔۔اور جب اندھیرا پھلنے لگا تو ہم اپنے کوارٹر سے نکل پڑے۔۔جبار گاڑی کو داتا دربار ، یادگار اور کئی بازاروں سے پھراتے ہوئے ایک گلی کے نکڑ پر لے گیا اور ہم دونوں اتر کر پیدل گلی میں داخل ہوگئے۔۔ ایک دومنزلہ عمارت کے دروازے پر پہنچ کر جبار نے گھنٹی بجائی۔۔ ایک کالا منحنی سالڑکا دروازے پر آیا جسے جبار نے کچھ بات کرنے کے بعد اندر بھیج دیا۔۔اور پانچ منٹ بعد اُس لڑکے کے ہمراہ ایک بڑی توند اور کھچڑی داڑھی والا شخص آیا جس نے جبار کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور ہمیں مکان کے اندر لے گیا۔۔مکان باہر سے تو عام سا نظر آرہا تھا لیکن اند ر سے فردوسِ بریں تھا۔ایک بڑا سا ہال جس میں نفیس قالینوں پر گاؤ تکیے لگے ، دیواروں سے ریشمی پردے لٹک رہے تھے۔ ہر دو تکیوں کے درمیاں ایک ایش ٹرے پڑی تھی اور چار پانچ بندے پہلے سے ان تکیوں پر نیم دراز تمباکو پھونک رہے تھے۔۔دھویں میں چرس کی ہلکی سی بو بھی شامل تھی۔۔ شاید کوئی گھنٹہ آدھ گھنٹہ پہلے پھونک گیا تھا۔۔جنوری کا مہینہ تھا اور مجھ پر خجالت اور سردی کی وجہ سے کپکپی سی طاری ہورہی تھی۔۔ بات چیت تو جبار کر رہا تھا اور میں کھسیانا کھسیانا پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔۔ زندگی میں میرا واسطہ کبھی اس طرح کے ماحول سے نہی پڑا تھا، کیونکہ جیب نے کبھی عیاشی کی اجازت دی ہی نہیں!،تو میں نے خود کو شریف سمجھ لیا،اور آج سالوں سے کمائی ہوئی بہ امرِ مجبوری کی شرافت، مجھے خطرے میں لگ رہی تھی۔۔؟ میں جبار کی ذات میں اپنی عیاشی کی تاویلیں ڈھونڈ رہا تھا۔۔بیٹھے ہوئے تماشائی ہمیں گھور رہے تھے اور پھر ہم دونوں چلتے ہوئے ہال کے ایک کونے میں ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔۔جبار نے" بینسن " کی ڈبیا نکالی اور ایک سگریٹ سلگا کر ہلکے ہلکے کش لینے لگا، ایک ایک کرکے لوگ آتے گئے۔۔ جب مہمانوں کی تعداد بشمول ہمارے بارہ تیرہ ہوگئی تومحفل میں ایک جان سی دوڑ گئی، سازندے مغنیہ اور طبلہ نواز ہال میں آکر بیٹھ گئے۔۔۔ کچھ دیر بعد ایک اٹھائیس سالہ لڑکی ،بھی خراماں خراماں قدم اٹھاتے ہوئے ہال میں داخل ہوئی اور دوزانوں ہوکر بیٹھ گئی۔ جبار نے مجھے کہنی چبو کر کہا ۔۔۔ یہ ببلی ہے!!!۔۔
ببلی بھی کیا لڑکی تھی ۔۔۔ جو خُدا کے "احسنِ تقویم" والے قول کو سچ کرکے دکھا رہی تھی، سڈول جسم پر ہلکے سُرخ رنگ کی فراک آنکھوں کو عیاشی کروا رہی تھی۔۔ اس فراک کے ساتھ چولی اتنی کس کے باندھی گئی تھی کہ نظریں نہ چاہتے ہوئے بھی ناپ لینے پہ مجبور تھیں۔۔ سفید جمپئی رنگ بلکل ایسے جیسے دودھ میں چند قطرے جامِ شیریں کے ڈال کر ہلایا گیا ہو۔۔! بازؤں کا گوشت کفوں کو چیرنے کی کوشش میں مصروف تھا اور پیروں کے گرد لپٹی ہوئی پائل سُرخ رنگے ہوئے قدموں کے بوسے لے رہی تھی۔۔!
میں نے جب حسن کو اتنے جوبن پہ دیکھا تو بے اختیار ایک سگریٹ جبار کی ڈبیا سے نکال کر سلگائی ،وہ مجھے حیرت سے دیکھنے لگا کیونکہ میں نے زندگی بھر سگریٹ ،نسوار یا دوسرے کسی نشے کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔۔ لیکن اگر آج شراب کی بوتل بھی سامنے ہوتی تو پوری کی پوری چڑھا جاتا۔۔میرے تن بدن میں مستی عود کر آئی تھی۔۔اور جب چمپئی جسم لچکنے لگا،۔۔ جھکنے لگا اور تھر تھرانے لگا تو پرندے کے پروں کی طرح پھڑپھڑاہٹ پیدا کرتے ہوئے نوٹوں کی بارش ہونے لگی۔۔ میری جیب خالی تھی لیکن جبار نے پچاس اور سوسو کے چند نوٹ تھما دے جسے میں شاہانہ طمطراق سے اُڑانے لگا۔۔۔ میری شرافت آج کھل رہی تھی کیونکہ میں شریف نہیں بلکہ بے بس تھا۔۔۔! جب ببلی جھکتی تو میرے جسم میں خون کا ایک ایک قطرہ جھوم اُٹھتا۔۔ میں ناچنا چاہتا تھا ،گانا چاہتا تھا اور چلانگیں لگانا چاہتا تھا مگر ہمت اکٹھی نہیں ہوئی۔۔۔طبلے اور سازندوں کی تان ماحول کو سحر انگیز بنا رہی تھی۔۔اور گانے کی آواز روح کو گدگدا رہی تھی۔۔۔یہ سچ ہے کہ میں نے جنت کا مفہوم کسی مولوی کی وعظ سے نہیں سمجھا بلکہ ببلی کی اس محفل سے سمجھا ہے۔۔
محفل چند گھنٹے رنگ پر رہی ، اور پھر برخاست ہوگئی ، محفل کے دوراں وہ کھچڑی داڑھی والا شخص جبار کے قریب بیٹھ چکا تھا جس نے محفل کے اختتام پرہمیں پیچھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔۔ وہ ہمیں دو کمروں سے پھرا کر ایک خوبصورت سجے ہوئے کمرے میں لے گیا جہاں ببلی دونوں پیر صوفے کے اُوپر رکھے ناخنوں سے نیل پالش کھرچ رہی تھی۔۔۔ داڑھی والے نے ببلی سے جبار کا تعارف کیا۔۔اور ببلی نے جبار کو اشارہ کرکے اپنے قریبی صوفے پہ بیٹھنے کو کہا ۔۔جبکہ میں دروازے کے قریب رکھی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔۔ ۔ 
جبار نے نزدیک جاکر رازدارانہ اندازمیں ببلی سے کہا۔۔مجھ پہ بھی ہاتھ رکھ لو۔۔! اور اس نے روکھائی سے جواب دیا۔۔۔۔۔۔ کیوں؟۔۔۔جبار نے ہمت نہیں ہاری اور جھٹ سے کہا ۔۔۔۔ دونوں کا فائدہ ہوگا ۔۔! ببلی نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور پھر جبار کو گھورنے لگی۔۔؟جباراسکے سوال کو سمجھ گیا۔۔۔ جی یہ میرا دوست ہے اور ادنیٰ سرکاری ملازم ہے۔۔۔ تو یہاں کیوں آیاہے؟۔۔۔ببلی نے استفسار کے بعد طنزیہ قہقہہ لگایا۔۔جبار بھی مسکرانے لگا۔۔اور میری طرف دیکھ کر گویا ہوا دوست کے ساتھ آیا ہے۔۔۔ببلی نے جبار کو آنکھ ماری اور مجھے نظر انداز کرکے اُس سے بات چیت شروع کردی۔۔میرا حصہ؟۔۔ تیس فیصد۔۔!! ببلی نے کہا بہت کم ہے۔۔!۔۔ جبار نے کہا پولیس چوکیوں کو ادائیگی میں کروں گا۔۔ببلی نے مسکرا کر کہا۔۔اور آدمی کا خرچہ۔۔۔۔ جبار نے اثبات میں سر ہلا کر کہا وہ بھی میرے ذمہ۔۔۔۔ببلی نے ہاتھ اٹھا کر جبار کے ہاتھ پر رکھا اور جبار نے اپنا دوسر ہاتھ اس کے مرمریں ہاتھ پہ رکھ کراُس کا ہاتھ سینڈوچ کرلیا۔۔۔۔
میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا اور ہم دونوں وہاں سے چلے گئے جبار اعلی الصبح کوارٹر سے رخصت ہوا ۔۔۔پھر لاہور میں گاڑیاں چوری ہونے کی وارداتیں مزید بڑھنے لگیں۔۔۔ جبار انجم مجھے پھر کبھی اکیلے میں نہیں ملا۔۔ لیکن جب میں گاؤں جاتا تو پتہ چلتا کہ جبار انجم ایک بڑا بیوپاری بن چکا ہے، اسکے پچاس کے قریب ٹرک پشاور سے کراچی تک دورتے پھرتے ہیں۔۔۔وہ ٹرانسپورٹ کا بے تاج بادشاہ بن گیا ہے۔۔۔کئی عالیشان ہوٹل بھی خریدے ہیں اوربچوں کو بیرون ملک تعلیم کے لیے بھی بھیج چکا ہے۔۔۔آج میں جب اُس چارپائی کی طرف دیکھتا ہوں جس پر لیٹے ہوئے اُس نے کہا تھا کہ۔۔ میں تو ببلی سے ملنے آیا ہوں ،جومجھے سونا بنا دے گی ۔۔۔ اور اس ملاقات کا نقشہ ذہن میں لاتا ہوں تو عجیب سے خیالات میں اُلجھ جاتا ہوں۔۔۔ یہ سچ ہے کہ ببلی نے اُسے چُھواتھا۔۔۔ میں تو ویسے ہی گیا تھا اور ویسے ہی رہا۔۔۔ ایک ادنیٰ سرکاری ملازم۔۔۔۔ جو ہر ماہ اپنی تنخواہ کا انتظار کر تا ہے۔ جبکہ جبار انجم آج جبار احمد خان بن چکا ہے۔۔ ہزاروں لوگ اُس کے در پہ جھکتے ہیں، سینکڑوں بھوکوں کو روزانہ کھانا کھلاتا ہے،پورے صوبے کیا پورے ملک میں اُسکی چلتی ہے۔۔۔پولیس والے اُس کی بیٹھک سے اپنے تبادلے کرواتے ہیں اور بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کے رہنماء اُس کے ساتھ کھانا کھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔۔۔
شاید دُنیا میں اور بھی ببلیاں ہوں، مگر جبار ہر کوئی نہیں ہوتا جوچھونے پر سونا بن جائے۔۔۔ میں اسی لئے ببلی کی محفل سے بے فیض لوٹا،کیونکہ کھوٹے سِکے کبھی نہیں چلتے۔۔۔ ببلیاں آج بھی موجود ہیں لیکن مجھ میں جبار انجم کا حوصلہ ،ہمت اور دماغ نہیں اسی لئے میں ایک ادنیٰ ملازم ہی رہا اور وہ بادشاہ بن گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اورشایدیہی فرق ہے خاص و عام کا۔۔۔!!!
وسیم خان عابدؔ 
written in 2011

No comments:

Post a Comment