آج کل کوئی بھی ذی فہم بند ہ اخبارصرف اورصرف دو چارحادثوں سے دل خراب کرنے، سی۔این۔جی سیلنڈروں کے پھٹنے ،سیاسی جوڑتوڑ اور صدر صاحب کے خلاف چند اداریے پڑھنے (صدرخواہ کوئی بھی ہو قوم اُس سے نالاں ہی رہی، غلام محمد سے لیکر آج تک دیکھ لیں) کے لئے خرید تا ہے۔ اور پھراپنے منظورِ نظر کالم نویس کی باتیں چٹخارے لے لے کر ہر ایک محفل میں اپنی سیاسی بصیرت ثابت کرنے کے لئے طوطے کی طرح دُھراتا پھرتا ہے۔شادی ہو یا غمی مبصر صاحب جب تک دن بھر کے کالموں کا نچوڑ لوگوں کے کانوں میں نہ بھر دیں اُنھیں چین نصیب نہیں ہوتا۔مگرگفتار کے غازی، اپنے حصے کا دیا جلانے کی کوشش کبھی نہیں کرتے۔ حکومت کی برائیاں پھدک پھدک کر کرتے ہیں مگر اپنے آس پاس پھیلی ہوئی خباثتیں محسوس نہیں کرتے ۔آجکل سب سے زیادہ کرپٹ بندہ محفل میں بُرائی کے ذکر پرسب سے پہلے کانوں کو ہاتھ لگا کر استغفا ر کرتا ہے۔ اصلاح کا پہلا اصول ہی یہی ہے کہ پہلے اپنے ارد گرد پھیلی گندگی کو کوڑے دان میں ڈال دو اور پھر دُنیا بھر میں صفائی مہم چلاؤ۔
ہم چھوٹا منہ بڑی بات کرنے کے کسی طور بھی قائل نہیں۔ دُنیا پر تبصرہ تو صرف جہاندیدہ بندے کرسکتے ہیں، ہم نے تو اپنے پیارے ضلع کو دیکھا ہے اور اُسی کی بات کرنا اپنا اولین فرضِ سمجھتے ہیں۔یہ ایک جانی مانی حقیقت ہے کہ تعلیم اور تعلیمی نظام کسی بھی قوم کو عروج اور زوال سے دوچار کر سکتی ہے۔پہلے پہل تو انگریزی کو ہم پر اس طرح مسلط کیا گیا جس طرح ان کے بولنے والے خود مسلط ہوئے، مگر چند گئے گزرے قوانین ،افسر شاہی اور انگریزی کو ہمارے سر تھوپ کر،برطانوی تو اپنے دیس سدھار گئے۔ اور اپنی باقیات ہم مسلمانوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے چھوڑ دیں ۔انگریزی کو ہم نے زبان نہیں بلکہ اپنا آقا تسلیم کیااور آجکل اسی زبان میں ماہرافراد تعلیم یافتہ ذی فہم اور قابل گردانے جاتے ہیں۔ورنہ عربی اور فارسی بھی اسی طرح کی زبانیں ہیں جنھیں ہم نے گوروں کی غلامی سے مخمور ہو کر چند مدرسوں کے حوالے کردیا۔خیرقومی ز بان کی بات ہی کیا وہ تو " سیکریٹریٹ کے باہر دھتکاری ہوئی کھڑی ہے "۔ہماری اسی خودساختہ آزادی، ذہنی غلامی اور احساسِ کمتری کے بارے میں ایک دوست نے پھبتی کسی کہ:
اُڑگیا ہے وہ قفس سے تو کوئی بات نہیں ۔ گھر سے مانوس ہے دیوار پہ بیٹھا ہوگا
اور اگر سچ پوچھیں تو آج بھی ہم انگریزوں کے در اور انگریزی کی دیوار پر اُس پنچھی کی طرح پیٹھے ہیں، جسے پنجرے کا چسکاایسا لگ جاتا ہے کہ آزاد ہونے کے بعد بھی پنجرے کے گرد طواف کرتا رہتا ہے۔ خیر یہ المیہ تو ملکی لیول کا ہے مگر میں اپنے پیارے ضلع کی حد تک بات کروں گا کہ ہمارے زوال کا ناسور کہاں پنپ رہا ہے۔سیاست اور جمہوریت خواہ کتنے ہی سود مند کیوں نہ ہو ،ہمارے دیس کی حد تک تو زہرِ قاتل ہی ثابت ہوئے ہیں۔ہم نے سیاست سے ادرے مستحکم نہیں کیے بلکہ اُنھیں سولی پر چڑھا دیاہے۔ آج ہم نے مُعلم کوبھی سیاسی بھنور میں پھنسا لیا ۔ جس سے اُسکی رہی سہی ساکھ بھی مٹی میں مل گئی ۔اسمبلیوں کے لئے ممبران کے انتخاب کا تو بظاہر یہی مقصد ہے، کہ وہ قانون سازی کرکے ملک کی سوئی ہوئی قسمت جگائیں، اسمبلیوں تک اپنے علاقے کی آواز پہنچائیں اور اپنے علاقے کا نمائندہ ثابت ہو۔ مگریہاں تو سیاسی رنگ ہی کچھ اور ہے،سیاسی بساط اُلٹتے ہی ، سب سے پہلے اُفتاد اساتذہ پر پڑتی ہے۔ جو اُستاد مخالف پارٹی کا ہو اُسے وہاں ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے کہ اُنکا آنے جانے کا کرایہ تنخواہ سے زیادہ نکلے۔ پھر وہ چِلے کے جِن کی طرح خود بخود آکر لکیر پر سر رکھ دیتا ہے۔اور نئے آقا کی چاکر ی میں جُت جاتا ہے۔اس سارے گھن چکر میں قسمت اُن بچوں کی ماری جاتی ہے جو ایک سال میں ایک مضمون چار چار اساتذہ سے پڑھتے ہوں (اگر پڑھانے آجائے)۔ مگر اللہ اور اساتذہ معاف کرے اُنھوں نے بھی ایک آدھ دھمکی سے اپنی خودی داؤ پر لگا دی ہے ۔ ایسے ایسے نادرِ روزگار ہیں کہ صرف مہینے کی پہلی تاریخ کو بینک جاتے ہیں اور باقی 29 دن آقاؤں کی چارپائیوں کے ادوائن ٹائٹ کرتے ہیں۔۔یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر جس محکمے کے افسرانِ بالا میں ریڑھ کی ہڈی موجود ہو، وہ نہ کسی سیاسی دباؤ میں آتے ہیں اور نہ اُنھیں کوئی خرید سکتا ہے ۔ لیکن اگر وہ بھی سیاستدانوں کے پالتو ہوں تو باقیوں کاکیا گلہ کیونکہ جب پیڑ جھکنے لگیں تو ٹہنیاں خود بخود زمیں بوس ہوتی ہیں۔
دوسرا اہم مسئلہ ہمارے تعلیمی نظام میں گھوسٹ سکولوں کا ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے کسی جگہ ایک گھوسٹ ڈسپینسری کا ذکر کیا تھا جس کے کمروں میں جانوروں کا بھوسہ اور واڈ میں بھینسیں بقدم خود موجود تھیں، مگر میرے علاقے کے سکولوں کے لحاظ سے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، کیونکہ سِٹی کو چھوڑ کر باقی علاقوں کے سکول کوئی بھی جاکر خوددیکھ سکتا ہے، جسے حجرے یا طبیلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک سکول کو تو میں نے ان گنہگار آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ جس کی چھت غائب تھی اور اُستاد کی حیثیت اُس کلاس فور کے سامنے جس کی زمین میں سکول بناتھا ، چپراسی کی سی تھی(ایسے ہی ایک کلاس فور نے ایک مڈل سکول کوکچھ عرصہ پہلے مقفل بھی کیا تھا ،اور اساتذہ دروازے تک جاکر پھر آتے تھے)۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سیلاب چھت کو تمام اینٹوں اور لوہے سمیت اُڑا کر لے گیا۔ البتہ پانی نے دیوارو ں کو نم بھی نہیں کیا، اور وہ صحیح سلامت اپنے مقام پر موجود تھیں۔خیر اُس کلاس فور میں ایک گُن تھا کہ چائے اور کیک دس منٹ میں حاضر کر سکتا تھا۔۔۔ اکثرایسے سکولوں میں پانچ کلاسوں کا اکلوتا استاد ہوتا ہے،اور تعلیم کا حال یہ کہ۔۔ اللہ سلامت رکھے میرے اُستادصاحب کو فرماتے ہیں کہ: " جب میں انسپیکشن کے لئے ۔۔۔سکول میں گیا تو بزبانِ مانیٹر پتہ چلا کہ کلاس کے فلاں فلاں لڑکے بادشاہ کہلائے جاتے ہیں ان سے کچھ نہ پوچھیں! کیونکہ استاد صاحب کے کھانے پینے کا بندوبست اور اُنھیں کرسی سمیت دھوپ چھاؤں میں کرنے کا ٹھیکہ ان ہی بادشاہوں کو مِلا ہے"۔خیر یہ تو رہی استاد صاحب کی بات لیکن اگر کسی گلی میںآپکو دو سکول نظر آجائیں تو چونکنے کی ضرورت بالکل نہیں بات صرف اتنی سی ہے کہ چند سکول اپنے سیاسی حلیفوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے بھی کھولے جاسکتے ہیں خواہ کاغذات میں اُنکا مقامِ تعمیر کہیں اور ہو۔ اساتذہ کی بھرتی سے تو کوئی بھی نا واقف نہیں مگراپنی کم ہمتی کی وجہ سے چپ سادھ لی ہے،اور جب اپنے من میں چور ہو تو چپ ہی بہتر ہے۔ مامے بھانجے کی بنیاد پر بھرتیاں روز کا معمول ہے مگر آجکل تو قائد کی تصویر والے کاغذ ات کی بھی کافی توقیر ہورہی ہے ۔ ڈومیسائل کی تبدیلی اور چند ماہ تک آرڈر دفتر میں دبائے رکھنا ،تاکہ قانونی چارہ جوئی سے بچ سکیں کوئی انوکھی بات نہیں ،البتہ دستورِ زباں بندی پر سب متفق ہیں۔۔
سیاسی جلسوں میں تو یہاں تک سننے کو مِلا : " کہ اگلی دفعہ موقع ملا (اسمبلی میں) تو تھوک کے حساب سے اپنی برادری کے لوگو ں کو محکمہءِ تعلیم میں انجیکٹ کرونگا"( اس دفعہ بھی انجیکٹ کیے، لیکن لیڈر صاحب اُس تعداد کوپرچون سمجھتے ہیں)۔ اب بندہ یہ تو پوچھ سکتا ہے کہ پھر قابل ، غریب اور میرٹ پر پورا اُترنے والے کہاں جائیں گے۔کیا معاشرے سے دل برداشتہ ایسے نوجوان اگر کل کو اپنی پناہ بندوق میں ڈھونڈ لیں تو گنہگار وہ ہیں یا وہ لیڈر ،جو اُنھیں ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ۔۔ دیس میں ایسے ایسے شاندار سکولوں کا بیڑا صرف سیاسی دھما چوکڑی نے غرق کردیا ،جس میں پڑھنا اور پڑھانا کبھی ایک خواب تھا۔ ہمارے دوست "ن" صاحب فرماتے ہیں کہ سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے ایسے عظیم الشان اداروں میں اساتذہ کی تعداداب طلباء سے تھوڑی سی تجاوز کر گئی ہے،جو کسر باقی رہ گئی وہ حکومت کے آخری دنوں میں نکل جائے گی۔ جس زمانے میں ہم سکول جاتے تھے تو فوج سے ریٹائرڈ سپاہی سکولوں میں ڈسپلن قائم رکھنے کے لئے ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے تھے۔ مگر اب زمانہ بدل گیا ہے اب ریٹائرڈ میجر صاحبان بڑے بڑے تعلیمی اداروں کے سر پرست بن کر ڈسپلن قائم کرتے ہیں۔مگر ایجوکیشن میں ایم فل اور پی۔ایچ۔ڈی کرنے والے کہاں جائیں ؟یہ سوال ابھی تک تشنہ ہے۔خیر (ر)میجر صاحب نے ایف ایس سی کے بعد وار کورسز ضرور کیے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
کچھ عرصہ پہلے کمیشن کے ذریعے ایجوکیشن کے کچھ افسران بھی بھرتی ہوئے، مگر بعدمیں پتہ چلا کہ اُن میں سے ایک دو کو ایمانداری کا لاعلاج مرض لا حق ہے، اس لئے اُنھیں جلد از جلد کُھڈا لائن ڈال کر گلو خلاصی کرالی گئی۔تیسری اہم ذلالت بوٹی(نقل)کلچر ہے۔ویسے تو "امتحانی ہال "ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے،کیونکہ ہر ہال اتنا ہی بے حال دیکھا ہے، مگر گزشتہ ایم۔اے کے امتحانات کے بارے میں نہ لکھنا قلم سے نا انصافی ہوگی۔ سب سے بڑے افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ والدین خود بچوں کے ساتھ آکر امتحان والوں کو کیک کے ڈبے اور چائے کے تھرماس حوالہ کرتے ہوئے کہتے ہیں "جی!۔ ہمارا بچہ ہے خیال رکھنا" اللہ رحم کرے ایسے والدین پرجن کی عقل گھاس چرنے گئی ہے ۔ بیٹے / بیٹی کے لئے ہال میں نقل کا بندوبست کرکے باہر بیٹھ جاتے ہیں اور پانی پلانے والے کے ذریعے برکت کے تعویذ اولاد تک بھیجتے رہتے ہیں۔ کل جب یہی جھوٹ کی پروردہ اولاد اپنے والدین کو ٹھوکر مارتی ہے تو نا خلف کہلاتی ہے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ دھوکہ دہی اور دھاندلی تو محترم والدین نے ہی سکھائی ہوتی ہے۔اب ابراہیم لنکن کا فقرہ اس قوم پر کیسے لاگو کیا جائے کہ" سو دفعہ فیل ہونا نقل کرکے پاس ہونے سے بدرجہا بہتر ہے" ۔اسی امتحانی ہال میں ایک صاحب نقل کرنے کو اپنا پیدائشی حق ثابت کرنے کے لئے پیپر کے درمیان کھڑے ہوگئے "بقول اُن کے: میں خود بھی استاد ہوں اور تم لوگوں نے میرے ہاتھ سے نقل چھین کر اچھا نہیں کیا!" جس کے بعد ڈیوٹی والے پسیج گئے، اور نقل کی ندیاں بہا دیں۔ ۔۔۔ بوٹی کے لحاظ سے تو پرائیویٹ سکولوں کی بات ہی نرالی ہے ، یہاں پڑھنے والے بچے میٹرک کے امتحانات میں نقل بالکل نہیں کرتے بلکہ امتحان کے دوران کتابوں سے تھیسس تیار کرتے ہیں(اور پرنسپل صاحبان ڈیوٹی والوں کی خدمت میں جی جان سے جُت جاتے ہیں،نقدی اور سوٹ اس پر مُستزاد)۔۔۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے تو اقبالؒ کا نام اور تعلیم کا بیڑا ہی غرق کر دیا ۔ان کے امتحانات تو دیکھیئے!۔۔ باجماعت بدتمیزی اور دھوکہ دہی کا اس سے بڑا اور شاندارمظاہرہ شاید ہی دُنیا نے روئے زمین پر کبھی دیکھا ہو۔
یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ، قوم اور معاشرے کی اساس تعلیمی نظام پر ہے دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاپانیوں نے ہر ذلت آمیز شرط منظور کرلی مگر اپنے تعلیمی نظام پر سمجھوتہ نہیں کیا!آج ہم اس تعلیمی نظام سے سند یافتہ افراد میں اضافہ کر رہے ہیں مگر تعلیم یافتہ افراد ندارد۔اب اگر ایسے افراد در در جھکتے ہیں یا چند سِکون کے عوض بِکتے ہیں،تو ان سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ انکی تعلیم اور تربیت ہی اسی ڈگر پر ہوئی ہے۔ لیکن آج ہر ایک شخض شکوہ ءِ ظلمتِ شب میں منہمک ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ کیا ہم تبدیلی کے لیے سنجیدہ ہیں؟۔ یاصرف ٹائم پاس کے طور پر تبصرے کرتے ہیں!۔۔۔ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں! اگر ہم واقعی انقلاب چاہتے ہیں !تو کسی پارٹی کی چند جھنڈیاں گھروں پر لہرا کر کچھ نہیں ہونے والا ۔ کبھی بھی انقلاب چند جھنڈیاں لہرانے سے نہیں آتا۔اس کے لئے سپرٹ چاہیے ، خود کو بدلنا چاہیے۔ اپنے آپ سے ابتدا کرنی چاہیے۔اپنے بیٹے / بیٹی کی ناراضگی مول کر اُسے بتانا چاہیے، کہ تمہارے پڑھنے کے اخراجات پورے کرنا میرا فرض تھا ،تمہارے لیے نقل کا بندوبست کرنااور پانی پلانے والے کو سو روپے پکڑا کرپرچیاں بھیجنا میر ی خودی کی موت اور ذلت ہے۔ تبدیلی کے لیے ہمیں استاد کو اُنکا جائز مقام دینا ہوگا ۔اُنھیں سیاسی شکنجوں سے آزاد کرنا ہوگا ۔ اُن میں خود اعتمادی پیدا کرنی ہوگی تاکہ وہ سر اُٹھا کر اور سینہ تان کر کسی غلط بات کو غلط کہہ سکے۔ اُن کو معاشی استحکام فراہم کرنا ہوگا، تاکہ چند سکوں کے لئے وہ اُمراء کے دروں پر بھکاری کی طرح روزانہ اپنی انا کو نہ کچلتے پھریں۔۔ہمیں ماہانے بند کرکے ڈیوٹیاں کرنی اور کرانی ہوں گی۔۔ ہمیں اپنے آپ میں بُرائی کو بُرا کہنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا ۔۔۔اور پھر راہِ حق میں ثابت قدمی سے ہر تکلیف خندہ پیشانی سے بر داشت کرنی ہوگا۔۔۔ لیکن ابتدا اپنے آپ سے۔کیونکہ : بقولِ احمد فراز:ؔ
شکوہءِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا ۔ اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
یہ مضمون خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت ،این ۔ٹی ۔ایس بھرتی سسٹم اور ما نیٹرنگ یونٹ سے پہلے کا ہے
No comments:
Post a Comment