Wednesday, 17 October 2018

افسانہ: شاملات .....مشترکہ پراپرٹی

جب ہوش سنبھالا تو سب سے پہلی بات جو میرے حافظے پرنقش ہوئی وہ میری ماں کی گالی تھی،" ابے۔ ک۔ن۔۔۔ سارا دن کھیلتی رہتی ہے،بھائی کو اُٹھا کر باہر لے جا رو رہا ہے، مجھے گھر کے کام کاج کرنے ہیں"۔ اور یہی میری ابتدائی زندگی تھی جس کی واپسی کی نہ میں تمنائی ہوں ،اور نہ مجھے اپنے بچپن پر فخر ہے۔۔کیونکہ نہ میرے پاس کاغذ کی کشتی تھی اور نہ افلاس کے باعث بارش کے پانی پر توجہ دے سکی۔۔افلاس کے ساتھ ساتھ میرا خاندان بھی میرے لئے وبالِ جان تھا،کیونکہ پشتون معاشرے میں ہماری وہی حیثیت ہے جو کبھی برِصغیر میں ہندوستانیوں اور افریقہ میں کالوں کی تھی۔۔ہمارا آبائی پیشہ ہاتھ کا ہنر ہے جسے کاریگری بھی کہتے ہیں۔اور یہ ہنر ہمارے لئے معاشرے میں ایک گندی گالی سے زیادہ اذیت ناک ہے۔۔ میرے ابو ادریس احمدسارا دن لوگوں کے بال کاٹتے اور شام کو ماں کی باتیں اور غربت کے تانے سنتے۔۔۔اور جب یہ جِھک جِھک مار کٹائی پر منتج ہوتی توہم رات کا کھانا آنسوؤں ، بددُعاؤں اور سسکتی ہوئی گالیوں کی جھرمٹ میں کھاتے۔۔۔ ہمارے علاقے میں ناموں کے ساتھ خان کے لاحقے لگتے ہیں ،لیکن میرے ابو اس عزت کے لئے ہمیشہ تڑپتے رہے۔۔میری بڑی بہنیں محلے کے سکول میں گئیں، لیکن دو تین کلاسوں کے بعد گھر بیٹھ گئیں، مگر مجھ میں ایک جنون تھا جو مجھے کتاب سے الگ ہونے نہیں دیتا۔اور پھر میں اپنے خاندان کی واحد فرد بنی جس نے کالج جاکر تعلیم حاصل کی۔۔ عورتوں کا مذکور ہی کیا ہمارے خاندان کے کسی مرد نے آج تک کالج کا منہ تک نہیں دیکھا ۔۔۔ ابو نے میرے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے دن رات ایک کئے۔۔ اورساتھ ساتھ خاندان والوں کے طعنے بھی سہتے رہے۔
ہمارے خاندانوں کی ایک اور بھی خصوصیت ہے کہ ہر ممیرا، چچیرا، اور دور دراز کا رشتہ داربِلا عذرایک دوسرے کے گھر میں داخل ہوجاتا ہے ،اور کبھی کبھی دنوں بلکہ ہفتوں تک وہیں رہتا ہے ۔ابو کے رشتے داروں کو امی کاٹ کھانے والی نظروں سے دیکھتی ، لیکن میکے والے سر آنکھوں پر بٹھائے جاتے۔۔ میرا ماموں زاد سلیم بھی اکثر ہمارے گھر آتا اور بے تکلف اپنے گھر کی طرح رہتا۔۔۔ اُس نے مجھے رجھانے کی کافی کوشش کی اورپہلے پہل میں نے بھی بچنے کی سعی لا حاصل جاری رکھی ، مگر جب جوانیوں کو تنہائیاں میسر آئیں ، تو پارسائیوں کے بستر لدھ جاتے ہیں۔ اور یہ محبت کی پاکیزگی بھی میری سمجھ سے بالا تر ہے ۔۔۔ ہاں کتابوں میں کچھ سچے اور پاک عشق کی کہانیاں سنیں لیکن وہ عشق کتنا پاک تھا یہ میں نے نہیں دیکھا ۔۔ مگر جس عشق کو میں نے دیکھا وہ صرف انسانی خواہشات کی تکمیل تھی ۔۔ یا اُسے ضروریاتِ زندگی قسم کا عشق بھی کہہ سکتے ہیں۔۔مطلب پیاس لگی پانی پیا۔۔ بھوک لگی کھانا کھایا اور ۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔، میری اور سلیم کی محبت بھی کچھ اسی قسم کی تھی، اور پھرمیرے کچھ اخراجات وہ بھی پورے کرلیتا، تو میں بھی اُس کے کام آرہی تھی۔۔۔ 
میری ماں بھی اندھی بہری نہ تھی اور وہ یہ سب کچھ سمجھ رہی تھی ، لیکن جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھیں۔ ۔۔کیونکہ اُسے اور مجھے چند سکوں کی ضرورت تھی اور سلیم کو میری۔۔۔ نہ مجھ پر گھر میں روک ٹھوک تھی اور نہ کوئی مجھے باز رکھنے کی کوشش کرتا۔۔۔اس لیے میں نے اپنے اردگرد پھیلے ہوئے ماحول میں جو کچھ کیا بالکل درست کیا۔۔ آمدنی کے مسدود ذرائع، خاندانی پستی ، بڑھتے ہوئے اخراجات اور خاندان کے مرد و زن کا آزادانہ اختلاط، ان ہی افعال کی ترغیب دے رہے تھے۔۔۔۔ مگر میں کیا کرتی کیونکہ مجھے پیدائش سے پہلے یہ آپشن نہیں ملا تھا کہ ایک نائی کے گھر، گندے ماحول میں پیدا ہونا ہے یا پھر ایک پشتون کے گھر میں پیدا ہوگر معزز بننا ہے۔۔۔مجھے جس برتن میں ڈالا گیا تھا پگھلے ہوئے موم کی طرح میں نے بھی اُسی برتن کی شکل اختیار کرلی۔۔۔۔
بات سلیم تک رہتی تو بھی درست تھی لیکن ، جب کھلے شہد کا پتہ چیونٹیوں کو چلتاہے ، تو اُس کی طرف کھچے چلے آنا عین فطرت ہے۔۔ سلیم سے آنکھ بچا کر اکبر، جاوید، مجید اور حبیب نے بھی ہمارے گھر کا طواف شروع کر دیا۔۔ بس اسی آس پر کہ اُنگلی دو اُنگلی شہد شاید قسمت میں لکھا ہو۔۔۔ دلاور چچا جو ہمارا دور دراز کا رشتہ دار تھا ، لیکن اتنا دور۔۔۔ کہ رشتہ تک یا د نہیں، اُس نے بھی امی سے آنکھ بچا کر مجھے گھورنا اور ہونٹوں پر گندی مسکراہٹ لاناشروع کردی۔۔دلاور چچا کو میں نے بچپن سے امی کے ساتھ راز و نیاز کی باتیں کر تے دیکھا تھا ۔۔ لیکن اب اُس کی نظروں کی تپش میرے بدن کو بھی جھلسا رہی تھی۔۔۔۔۔ میں نے بھی حتی الوسع ہر ایک کو اُسکے اوقات کے مطابق لفٹ کرائی۔۔۔ کیونکہ یک نہ شد دو شد ۔۔ اور دونہ شد چار شد۔۔۔۔ کیا فرق پڑتاہے۔ اور سچ پوچھیں تو یہ درمیان میں معلق لو گ مجھے زہر لگتے ہیں۔۔ یا تو انسان پارسا ہو یا نہ ہو۔۔ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والا فلسفہ میری پہنچ سے بالکل باہر ہے۔۔۔یہ قدرت کا قانون ہے کہ یا روشنی ہو گی یا تاریکی ۔۔اور تیسری توجیع بس ریا ہی ہوسکتی ہے۔۔۔
ؓ میں بی۔اے ۔تک گھنٹہ پیکیج کے ثمرات سے آگاہ ہو چکی تھی، اور پھر دوستیاں فاصلے توڑ کر حدوں سے نکلنے لگیں۔ کالج کی لڑکیاں میرے خاندان اور میرے کر دار سے آگاہ تھیں اس لئے میری قربت سے ہچکچاتیں اور میری دوستی سے گریز کرتیں۔۔کبھی کبھی کوئی شوخ اپنے خاندانی جاہ وجلال کے خمار میں طعنہ بھی مار دیتی جو مجھے سخت نا گوار گزر تا لیکن حقیقت سے کون منہ پھیرے گا ۔۔ اس لئے دل کو سمجھا لیتی۔۔۔ بی۔اے۔ کے امتحانات کے بعد میں گھر بیٹھی تھی کہ فرزانہ کی وساطت سے مجھے معلوم ہوا کہ کسی غیر سرکاری تنظیم نے کوئی پراجیکٹ شروع کیا ہے۔۔ جس کے لئے میں خود کو موزوں گر دانتی تھی۔۔۔ میں نے کاغذات جمع کرائے ، اور اُنھوں نے مجھے سلیکٹ کیا۔۔ اس پراجیکٹ سے ہاتھ میں کچھ پیسے بھی آئے اور ساتھ ساتھ ماسڑ ڈگری بھی حاصل کی ،مجھے تجربہ ملا اور گھر کے چولہے کو کچھ ایندھن۔۔۔ اور پھر دو ڈھائی سال بعد یہ پراجیکٹ بھی ختم ہوگیا۔۔لیکن مجھے این۔جی۔اوز۔ سیکٹر میں متعار ف کر ا دگیا۔۔۔ جب بیمہ پالیسی والوں کو سٹاف کی ضرورت محسوس ہوئی،تو مجھے بھی پرانے تجربے کی بنا پر ملازمت مِل گئی۔۔۔
اصل بات تو یہ تھی کہ اُنھیں ضرورت بھی مجھ جیسی لڑکیوں کی تھی، جو پالیسیاں بیچ سکیں۔۔مالدار حضرات سے میرا تعارف ہونے لگا اور میں اپنوں کے چنگل سے نکل کر غیروں کی جھرمٹ میں چلی گئی۔۔مُجھے اپنے موبائل پر کال آتے اور میں بُرا ماننے کے بجائے کال کرنے والے کے کاروبار اور اُس کی بچت کے بارے میں سوالات کرتی ۔۔۔ پھر میں پالیسیاں بیچتی اور جسم کے بھوکوں کو گھر کے دروازے پر گوشت مِلتا۔۔ نہ دنیا کا ڈر نہ قانون کی فکر میں اپنے کلائنٹ کے پاس جاتی اور ادارہ چار پیسے کماتا۔۔۔ سچ کہیں تو ایسے دفتر ہم جیسی لڑکیوں کی وجہ سے ہی چلتے ہیں ہم اپنے لئے بھی کماتی ہیں اور اپنے افسرانِ بالا کے لئے بھی روزی روٹی کا موٗجب بنتی ہیں۔۔
میرا گھر میری وجہ سے ترقی کرنے لگا گھر کی کچی دیواریں پکی ہوگئیں۔۔کمروں میں نئے پنکھے آگئے ، گھر میں کلر ٹی وی اور ریفریجریٹر بھی آگئے ، تو زندگی مزے میں کٹنے لگی ۔۔۔ سلیم اب میرے لئے عضوئے معطل بن چکا تھا اس لئے اُسے چلتا کیا ۔۔ باقی رشتے داروں کو بھی جوتے کی نوک پر رکھا جانے لگا۔۔ ۔۔کیونکہ دولت مندکے پیر خواہ کتنے بھی میلے اور ٹیڑھے ہوں ، دھونے کے لئے ہر ایک مچلتا ہے۔۔۔۔ چھوٹے بہن بھائی اچھے سکولوں میں جانے لگے اور اچھا پہننے لگے۔۔۔ میری کمائی میری تنخواہ سے کئی گنا زیادہ تھی اور میں گھر کی منظورِ نظر۔۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عورت جب کمانے پر آتی ہے تو مردوں سے کئی گُنا زیادہ کماتی ہے ۔۔۔اور یہ عزت ہوتی کیا چیز ہے جو چلی جائے۔۔۔۔شاید اُنکی جاتی ہو جن کے پاس پہلے سے موجو ہو۔۔۔میرے پاس تو نہیں تھی۔۔۔ جس کے پلے پیدائش سے محرومی اور بے عزتی لکھ دی گئی ہو اُسے عزت گنوانے کا کیا قلق۔۔۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ لاکھوں لڑکیاں جو چاردیواری کے اندر عزت گنواتی ہے وہ شریف زادیاں ہی رہتی ہیں مگر جس کی عزت چاردیواریوں سے باہر جانے لگے تو بدنام ، بے عزت اور گَشتی جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔۔۔۔ اس دُنیا میں بُرائی بُری نہیں بلکہ اُنکا ظاہر ہوجانابُرا ہے۔۔۔اور چُھپاناتو میں نے سیکھا ہی نہیں تھا اس لئے میں بُری بن گئی۔۔۔جس پر مجھے فخر ہے۔۔۔۔۔
آج کئی سرمایہ دار ، سندیافتہ اور تعلیم یافتہ میرے کلائنٹ ہیں ۔ اور میں اپنی قسمت سے خوش ہوں۔۔۔ کیونکہ نہ مجھے اپنے کئے پر کوئی ندامت ہے اور نہ شرمندگی۔۔مگر کبھی کبھی جب تنہائی میں لیٹ کر سوچتی ہوں کہ، کیا دولت مند بننے کے لئے سب کو اتنے کھٹن اور احساسات خشک کرنے والے راستے سے پا پیادہ گزرنا پڑتا ہے، تو بڑے بڑے نام اور لمبی لمبی تقریریں کرنے والی عورتیں بھی مجھے باالکل اپنے جیسی بے بس نظر آتی ہیں۔۔۔ مجھے وہاں بھی بل چڑھے تیوروں اور خود ساختہ ذہانتوں کے درمیان پائمال عزتیں سسکتی ہوئی ملتی ہیں ۔۔۔اُس ہر عورت کے اندر مجھے شازیہ ادریس نظر آتی ہے۔۔ جو اس سفر کی پہلی سیڑھی پر کھڑی یہ سوچ رہی ہے کہ مردوں کی اجارہ داری والے اس معاشرے میں اُوپر اُٹھنے کے لئے مزید کتنی قربانیاں، اور چڑھاوے درکار ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیم خان عابدؔ
(A true story written in 2010)

No comments:

Post a Comment