Saturday, 29 December 2018

عشق سے عاشقی۔۔۔۔۔


تیری محفل میں مجھ سے ہزاروں صنم 
میری بانہوں میں تجھ سا نہیں اور ہے
تیری باتیں صنم مختصر ہیں بہت۔۔۔۔
تیری مہماں نوازی میں بھی چور ہے؟
ہم زمانے میں رُسوا یوں، پہلے نہ تھے
سُرخ ہونٹوں کی چاہت کا یہ شور ہے
دل تو پاگل ہوا تیری مسکان سے
!ایسے ناداں پہ میرا کہاں زور ہے
یہ گنہگار تیرے سرِ دار ہیں
عاشقوں کی سزا زلفِ گھنگھور ہے
زندگی کا قرینہ سمجھنے لگا۔۔۔۔۔۔
تجھ سے باہم جو میری ہوئی ڈور ہے
یہ کہانی بھی سادہ سے لوگوں کی ہے
تیرا شاعر دکھاوےسے بھی کور ہے
تیرے عابدؔکو تجھ سے غرض ہی نہیں
عشق سے عاشقی اب نیا طور ہے

وسیم خان عابدؔ

متدارک مثمن سالم
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن

Sunday, 23 December 2018

اتنے پابند، یہ اظہار کے پیمانے کیوں؟

کون کہتا ہے کہ ہم تیرے خریدار نہیں؟
تم ہی یوسف ہو!یہاں مصر کےبازار نہیں
خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے شاداں پھرنا
لوگ بیزار محبت سے ،میں بیزار نہیں
تم جب آتے ہو مرےسوچ کے پیمانوں میں
ترے دیوانے کو دُنیا سے سروکار نہیں
سر جھکاتا تو ہے ہرروز تری چوکھٹ پر
ترے عابد کو وہ کہتے ہیں کہ دیں دار نہیں
حُسن تیرا یوں ہی دلکش ہے سنورتے کیوں ہو؟
مجھ کو بھاتی ہے نزاکت تری، سنگھار نہیں
پیار انجانا سا احساسِ جنوں ہے جاناں
تیر اعاشق ترے ہونٹوں کا طلبگار نہیں
بن پئےہم تری آنکھوں سے بہکنے والے
ہوش والوں میں گِنے جاتے ہیں ہشیار نہیں
ہم نہ دلی کے نہ امروہہ نہ لاہور سے ہیں
مرے اشعار ،میں معنی کے جو انبار نہیں
تری موہوم سی یادوں کا پُرانا خاکہ
نقش ہے دل پہ ،اگر صاحبِ اظہار نہیں
ہم نے مٹی سے بنا ڈالے ہزاروں پنچھی
دمِ عیسیٰ ہےکہاں؟ قشقہ و زنار نہیں
اپنی دانائی کے زمرے میں سیاست بھی نہیں
فہم رکھتے ہیں مگر ہم ابھی عیار نہیں
اتنے پابند، یہ اظہار کے پیمانے کیوں؟
چن لیا جس کو، وہ جمہور تھا جبار نہیں
تری بانہوں میں اُسے چین ملے میرے رقیب
ہائے عابدؔ کو سیاست سے سروکار نہیں

وسیم خان عابدؔ
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن

Monday, 3 December 2018

غزل نمبر 11۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم سے جو سال بھر کی دوری ہے

تم سے جو سال بھر کی دوری ہے
آبِ احمر بڑا ضروری ہے
مئے عنبر سے دست کش ہی رہے
جانے اب کیسی نا صبوری ہے؟
ہم نے جی جان تم کو سمجھا ہے
تیری یہ سوچ کیوں فتوری ہے؟
ربطِ باہم سے اُنس بڑھتا ہے
عشق کا فاصلہ صدوری ہے
تم سے یہ عشق روز بڑھتا  ہے
زندگی بِن ترے ادھوری ہے

وسیم خان عابدؔ
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن مفاعلن فِعْلن

Sunday, 2 December 2018

غزل نمبر 10۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عشق۔۔۔۔۔عقل۔۔۔۔۔اور پرُانی کشمکش

حرم ِعشق پہ لکھی تھی عبارت یہ بڑی
عشق دیوانگی ، دیوانگی کی کس کو پڑی
عقل والے تو ابھی گن ہی رہے تھے دانے
عشق والوں نے پرو ڈالی اطاعت کی لڑی
سوچ والے تو مگن پردہ ہٹانے میں رہے
عشق والوں کو ملی پردوں میں جاگیر بڑی
چشمِ بینا سے تو اوجھل رہے سب منظر
دلِ بینا پہ نظاروں کی تھی پر زور جھڑی
ہوش والوں کو کہاں بے خودی کے رمز ملے
عقل بے چاری تھی کم عقل اکیلی تھی کھڑی
عشق کی سادہ عبارت تھی جسے سب سمجھے
فلسفہ، منطق اور کلام کی تاویل سڑی

وسیم خان عابدؔ
2010

غزل 9۔۔۔۔2011 کی لکھی ہوئی ایک پرانی غزل کچھ رد و بدل کے ساتھ

اس گلشن میں ہر روز نئے قانون بنائے جاتے ہیں
جو پنچھی دن کو قید ہوئے وہ شام اُڑائے جاتے ہیں
جینے کے لئے دو سانسیں بھی دشوار ہیں مزدوروں کیلئے
آمر آجر کی قبروں پر کیوں پھول چڑھائے جاتے ہیں؟
ہم اندھے ہیں بے کار سہی ،پر دیپ چراغاں رستے میں
سر پھوڑ نہ دیں آنکھوں والے ، ہر شام جلائے جاتے ہیں
جینے مرنے کا ڈر کیسا ؟پر وقت سے ہے پرخاش مجھے
یہ عمرِ رواں جاتی ہے کہاں ؟ کیوں ساتھ نبھائے جاتے ہیں
ہم جیتے جی سب کرتے ہیں، کیوں جیتے ہیں؟ کیوں مرتے ہیں؟
جو مرتے ہیں کیا کرتے ہیں؟ اُلجھن سلجھائے جاتے ہیں
!عابدؔکا نام مقام نہیں ،     ہرصبح نہیں!    ہر شام نہیں
اس پیار بھرے میخانے سے کچھ جام اُٹھائے جاتے ہیں

وسیم خان عابدؔ
بحرِ زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف
فعْلن فعْلن فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن

Tuesday, 27 November 2018

بچوں کا تماشا ہے ۔۔حکومت تو نہیں ہے

بچوں کا تماشا ہے ۔۔حکومت تو نہیں ہے
دو دن کے بعد ٹیکس ،۔۔طریقہ نہ کوئی طور
مہنگائی کے طوفاں پہ تو غالبؔ بھی چِلاتے 
" کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور"

وسیم خان عابدؔ

سوچ مثبت رکھیں

اپنی تنخواہ تو ہے ہزاروں میں
جو وہ اِک رات میں کماتی ہے
!مومنو! ایسا ویسا مت سوچو۔۔۔
زچہ سنٹر فقط چلاتی ہے


وسیم خان عابدؔ
نجی زچہ بچہ سنٹرز کے من مانے ریٹس کے ردِ عمل میں


نوٹوں کی کمائی کا۔۔ اگر شوق تجھے ہو

نوٹوں کی کمائی کا۔۔ اگر شوق تجھے ہو؟
!اسکول کھول، علم کا شوشہ نکال دو
علم و ادب سے جن کانہ کچھ کام نہ دھندا
!اُن سے کہو،خبریں یا رسالہ نکال دو

وسیم خان عابدؔ

غزل۔۔۔8

حسیں بے درد ہوں لیکن اُنھیں درماں کہا جائے
نہ ہومحبوب تو دُنیا میں یارو! کیا جیا جائے
ہزاروں بت یہی سب جان کر دل میں بسائے ہیں
کہ کوئی آئے پیغمبر ،اِسے کعبہ بنا جائے
محبت شیفتگی کی حد سے یارو!جب نکلتی ہے
کتابوں میں اُسے بھر کر کوئی قصّہ کہاجائے
کروڑوں غم مچل جاتے ہیں تیرا تذکرہ سُن کر
یوں زائر صوفی کے دربار پر میلہ لگا جائے
عبس رٹنا کتابیں اور عبس ہیں تجربے کرنا
وہی تعلیم ہے آدم کو جو انساں بنا جائے
لٹیرے ملک کے دیکھے تو دل سے آہ یوں نکلی
اے عابدؔ!کاش اِن کو کوئی آئینہ دکھا جائے

وسیم خان عابدؔ

ہزج مسدس سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
2012

قطعہ


صرف غالبؔ نہ تھے وظیفہ خوار
ہم بھی سرکار ہی کی کھاتے ہیں
سچی تنقید کیسے ہم کردیں
ہائے اب شعر لڑکھڑاتے ہیں

وسیم خان عابدؔ

غزل.....7......دسمبر کی دُھندلی فضائیں

دسمبر کی دُھندلی فضائیں ہوائیں
جفائیں بھی لگتی ہیں دل کو وفائیں
ملاقات شرطِ محبت ہوئی کب؟
محبت میں یادیں بنی اب متاعیں
مصور کے ہاتھوں میں تھر تھر وہ کانپیں
قلم اُس کی تصویر کیسے بنائیں
شفق اُس کے ہونٹوں سے سُرخی چرائے
گلاب اُس کو دیکھیں... کَتر کر قبائیں
جگر جن سے ہوتے ہیں بس ریزہ ریزہ
مرے یار میں ہیں وہ ساری ادائیں
سمجھ کے نہ سمجھے ،ہے عابدؔکی غلطی
پیام اُسکا دیتی ہیں ساری ہوائیں

وسیم خان عابدؔ

متقارب مثمن سالم مضاعف
فعولن فعولن فعولن فعولن

Monday, 26 November 2018

نظم:1...ویلینٹائین

یہ سنکی ذہنوں ،قنوطی سوچوں،اُداس شہروں میں رہنے والے
عداوتوں کے پُرانے گُرگے 
محبتوں سے یہ جلنے والے 
کلوڈیس کے یہ ہیں پجاری
کہاں سُنیں گے یہ آہ و زاری
انھیں خبر کیا
کہ عشق کیا ہے
ویلینٹائین کی حسیں صدا ہے
جو دار پر بھی یہ کہہ چکا ہے
محبتوں کے اور چاہتوں کے 
سفینے تب تک 
عداوتوں کے سمندروں پہ
چلیں گے ....جب تک
دلوں پہ چاہت کا راج ہوگا
اور عاشقوں کے قبیل میں 
زندگانی دینے کا ...رواج ہوگا

وسیم خان عابدؔ
فروری14
2012

Saturday, 24 November 2018

غزل6............. حوالے کے بغیرکاپی پیسٹ کی اجازت نہیں

اُس سے رشتہ بھی کچھ پُرانا ہے
اور کچھ دل کو آزمانا ہے
ملنے جاتا نہیں ہوں باغوں میں
آج تو یار کو منانا ہے
میرے ہنسنے پہ وہ بھی روٹھے ہیں
جن کا معمول مسکرانا ہے
کیوں مرے قہقہوں سے جلتے ہو
دل پہ اِک بوجھ ہے گِرانا ہے
جانے کس دن مجھے وہ مل جائے
حضرتِ خضر تو بہانا ہے
مے کشی چھوڑ کر کہاں جانا
زندہ رہنا ہے جی جلانا ہے
اِن بتوں کی بھی کچھ پرستش ہو
جن سے رشتہ نیا بنانا ہے
یہ رہِ عشق بھی سہل تو نہیں
ہنس کے مقتل تلک ہی جانا ہے
وہ تو اقرار کرکے پلٹاہے
ہم نے وعدہ نیا نبھانا ہے
اُس کے پہلو میں غیر بیٹھا ہے
ہم کو اب صبر آزمانا ہے
چند گھڑیاں ہیں اب جُدائی کی
ربّ نے محشر میں ہی ملانا ہے
قیس لیلٰی کا ہو چکا ہوگا
اُس کو بارات میں بلانا ہے
وائےناکامی ءِ محبت اب
تم نے عابدؔکا ساتھ پانا ہے

وسیم خان عابدؔ

بحر: ہزج مثمن اشتر
وزن:فاعلن فاعلن مفاعیلن

غزل5............. حوالے کے بغیرکاپی پیسٹ کی اجازت نہیں

ظلم میں میرے مفادات نہیں ہوسکتے
ہم تو غاصب کے کبھی سات نہیں ہوسکتے
دین کو بیچ کے منصب کے لیے پر تولے
ناخُدا ایسے،معیارات نہیں ہوسکتے
میں بھی مؤمن ہوں کہ ڈرتا ہوں نئی صدیوں سے
اتنے کج تومیرے صافات نہیں ہوسکتے
یہ بھی ہوسکتا ہے ،میں تجھ کو بنا لوں اپنا
کیا تیرے دل میں یہ جذبات نہیں ہوسکتے
وہم کیا؟ تو ہے فقط خواب کُھلی آنکھوں کا
خواب کے کوئی جوابات نہیں ہوسکتے
مرا دل باندھ کے پاؤں میں سرِبزمآئے
یار سے کیوں؟کے سوالات نہیں ہو سکتے!
دل میں چاہت لیے بیٹھا ہوں تری سوچوں میں
مشترک اپنے خیالات نہیں ہوسکتے؟
تجھ پہ تحقیق مری عرش تلک جائے گی
رد مرے سارے مقالات نہیں ہوسکتے
مجھ سے بچھڑا ، تو کسی اور کو اپنا نہ سکا
رنج مائل بہ مکافات نہیں ہوسکتے..؟
زود رنجی میں ہے عابدؔکا بھی ثانی کوئی!
غمِ دُنیا کے بھی صدمات نہیں ہوسکتے؟

وسیم خان عابدؔ

بحر:رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
وزن:فاعلاتن فاعلاتن فَعِلاتن فِعْلن

Friday, 23 November 2018

غزل4............. حوالے کے بغیرکاپی پیسٹ کی اجازت نہیں

یار کہتا ہے کہ یہ بات نہیں ہوسکتی
وصل میں چپ کی مُلاقات نہیں ہوسکتی
دل میں کچھ درد تھا کچھ عشق تھا مجبوری بھی
ایسی باتوں میں عیاں بات نہیں ہوسکتی
تو نے مجھ سے تو وفا کی مرے ہمدم لیکن
صبح دم ،عشق کی کیا رات نہیں ہوسکتی؟
دل کے صحراؤں میں مُنہ زور ہوا چلتی ہے
ایسے ویرانوں میں برسات نہیں ہوسکتی
مجھ سے مِل کر ترا کھل کھل کے وہ ہنسنا جاناں
ہر کسی سے یہ مساوات نہیں ہوسکتی
بجھ سا جاتا ہے مرے دل کا دیا اب اکثر
کیا تصور میں بھی وہ ساتھ نہیں ہوسکتی؟
یوں تو عابدؔ بھی خطاکار نظر آتا ہے
کامل انساں کی مگر ذات نہیں ہوسکتی


وسیم خان عابدؔ
بحر:رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
وزن:فاعلاتن فاعلاتن فَعِلاتن فِعْلن

غزل3۔۔۔۔ حوالے کے بغیرکاپی پیسٹ کی اجازت نہیں

دل میں رکھیں گےہم اک تصویر اُس بیداد کی
زندہ کر سکتے نہیں، سنّت میاں فرہاد کی
ہم نے بھی جنّت بنائی اِک تخیل سے وراء
کرکری وہ ہوگئی، جیسے ہوئی شداد کی
بُت میرے توحید کا قسمت نے کرچی کردیا
اب بناء کچھ پڑچکی ہےکفر اور الحاد کی
ہم نے رو رو کر کلیجہ اپنا چھلنی کر دیا
جب سُنا اُس نے، تو ہنس کر ہوگئی حمّاد کی
غمزدہ لوگوں سے ملنا، بیٹھنا اچھا لگا
ہوچکی تعزیر میرے عشق کے روداد کی
اب نہ کوئی نامہ بر، نہ خط ، نہ لکھنا خون سے
ظالمو! کیوں برقی خط کی پھلجھڑی ایجاد کی؟
ظلم ہے عابدؔ وصالِ یار،سننایار سے
کیا غلط ہے؟ دوست نے اِک دوست سے فریاد کی

وسیم خان عابدؔ

غزل2۔۔۔۔ حوالے کے بغیرکاپی پیسٹ کی اجازت نہیں

پلک اُس کی گری ہے آنکھوں میں
کس کی قسمت میں ہے یہ قربِ حبیب
ہم تو مرتے ہیں تیرے وعدوں پر
اور جیتا ہے رو سیاہ رقیب
مری دیوانگی فضیحت تھی
ہائے!غمخوار میرے اُس کے نقیب
بھیگی زلفوں سے جو گِرا قطرہ
دل پہ کچھ نقش کر گیا ہے عجیب
پکڑی جو نبض حالِ دل پوچھا
ہنس کے کہنے لگے سلام طبیب
تیرے سائل کے لب پہ آیا سوال
بن گئےیار طرحَدار مجیب
اب تو عابدؔخدا پرستی بھی
دار مانگے نہ مانگے ٹیڑھی صلیب

وسیم خان عابدؔ
بحر: خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
وزن:فاعلاتن مفاعلن فِعْلن





غزل۔۔۔۔ حوالے کے بغیرکاپی پیسٹ کی اجازت نہیں

میں ترے دل میں اُتر جاؤں ضروری تو نہیں

خواہشیں ساری مری دیکھو ادھوری تونہیں
مجھ سے کہنا آپ کا اے دل مجھے پروا نہیں
اور پھر رو رو کے کہنا ، اتنی دوری تو نہیں
اب نگاہِ یار سے پردہ نہیں ممکن صنم
ہاتھ میں غزلیں ہیں میری پر قدوری تو نہیں
ناصِحا مجھ کو نہ سمجھا کون سمجھا ہے اسے
عشق کی بیداد غزلیں خانہ پوری تو نہیں
تم مرے ہوکر بھی مجھ سے دور رہتے ہو ابھی
غیر کی باتوں میں اب تک جی حضوری تو نہیں؟
ہائے عابدؔیار کے انکار میں بھی چین ہے
وہ غلط فہمی میں گم ہے رائے پوری تو نہیں


.وسیم خان عابدؔ
بحر: رمل مثمن محذوف
وزن:فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

Wednesday, 21 November 2018

کھٹا میٹھا مضمون: ایم فل کم تعلیمِ بالغان حصّہ دوم

گزشتہ سے پیوستہ،ہمارا ایم فل جاری ہے۔۔۔ناول امراؤ جان ادا میں مرزا ہادی رسواؔ نے امراؤ جان کی زبان سے ایک شعر کہلوایا ہے کہ: (لطف ہے کونسی کہانی میں۔آپ بیتی کہوں کہ جگ بیتی)، لیکن ہم جگ بیتی کو آپ بیتی بنانے کی جسارت کررہے ہیں۔۔۔عرضِ حال یہ کہ،ہم ورکشاپس کے بعداپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور اسائمنٹ کے نام پر اپنی نیندیں بر باد کرنے لگے۔رات ۲ اور ۳ بجے تک انٹرنیٹ ٹٹولتے اور پھر اسی سوچ کو جو یقیناًکسی انگریز کی سوچ ہوتی ( انگریز کی چول کو بھی ہم آجکل اسکا فلسفہ سمجھتے ہیں۔۔شاید ایم فل ایجوکیشن کا اثر ہے) کو اپنے الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کرتے جو، اکثر کمخواب میں ٹاٹ کا پیوند ثابت ہوتا۔۔ یہ نقل، اصل سے زیادہ مشکل کام تھا ۔ لیکن پلیجرازم کا توڑ، ایک محترمہ نے یہی بتایا تھا کہ ہر تیسرے یا پانچویں لفظ کو تبدیل کر لو(مطلب مترادف لگا لو)تو سافٹ وئیر کنفیوز ہو کر پاس کر دے گا،یعنی چوری کرو اور سینہ زوری بھی کرو۔۔۔ کچھ احباب نے تو ورکشاپ کے دنوں میں ہی اسائمنٹ مکمل کرکے (مطلب مترادفات تبدیل کرکے) پلیجرازم معلوم کرنے کے سافٹ وئیر بھی انسٹال کر لیے، اور بار بار ہماری آنکھوں کے سامنے اپنی اسائمنٹ کا پوسٹ مارٹم کرکے کہتے ۔۔ دیکھیں صرف اٹھارہ فیصد ہی سُرقہ(پلیجرازم) نکلاہے۔۔۔اور ہم اتنی قابلیت پر ہکا بکا ہی رہ جاتے۔۔۔ہمیں تو اتنی لمبی اور مشکل انگریزی میں بنی ہوئی اسائمنٹ پڑھتے ہوئے بھی چکر آنے لگتے۔۔۔لکھنا تو دور کی بات۔۔۔پھر ہم جس انداز سے ڈاؤن لوڈنگ میں مگن تھے ہمیں یقین تھا کہ اٹھارہ فیصد بھی میرا ذاتی کام نہیں نکلنا (وہ بھی ۔ایم ایس ورڈ۔ پروگرام خود مترادفات لاتا ہے ورنہ ہمیں کیا پتہ کہ انگریز ایک چیز کو کتنے ناموں سے پکارتے ہیں)،چہ جائیکہ بیس سے کم پلیجرازم۔۔یہ قدرت کا نظام ہے کہ ایک جیسی طبیعت والے لوگ اکھٹے ہو جاتے ہیں اور چل بھی جاتے ہیں۔۔۔ ایک محاورہ بھی اسی ضمن میں کسی شوخ نے گڑھ رکھا ہے۔۔ کہ کبوتر کبوتروں کے ساتھ اور باز بازوں کے ساتھ اُڑتے ہیں۔۔ہم کچھ دوستوں کے مزاج بھی اسی انداز سے ملنے لگے۔۔۔ہم جتنے بھی سنگی جمع تھے ان ہی فارمولوں پر عمل پیرا تھے۔۔۔لیکن پلیجرازم کی تنبیہوں سے دل لرز جاتے تھے اور اسائمنٹ بھیجنے کے بعد بھی رہ رہ کے فیل ہونے کے خوف سے راتوں کو آنکھ کھل جاتی۔۔۔ کہ بھیجا تو سوفیصد پلیجرائزڈ ہے، اب کیا ہوگا۔۔۔لیکن جہاں انسانی ذہن اب کیا ہوگا۔۔کی سٹیج پر پہنچتا ہے تو چہرے بے اختیار اللہ رب العزت کی طرف اُٹھ جاتے ہیں ۔۔۔ہم بھی دل کو طفل تسلی دینے لگے کہ اللہ مالک ہے،اور معجزے مشکلوں میں ہی تو ہوتے ہیں۔۔۔پاس ہی کریں گے۔۔۔ ۔ہم نے مقررہ تاریخوں پر پورے اُترتے اُترتے اپنے سارے پلیجرائزڈ، اسائمنٹس متعلقہ پروفیسرز تک پہنچانے کی کوشش کردی ۔۔ لیکن رزلٹ تک اعتبار نہیں تھا کہ پاکستان پوسٹ نے پہنچا دیے ہوں گے ۔ (کیونکہ اس یونیورسٹی کی فاصلاتی کتابیں ڈاک خانوں میں جس طرح فرش پر پھینکی جاتی ہیں اور جس سست روی سے ترسیل کی جاتی ہیں، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔۔۔ہر ایک کو کتابیں پہلے اسائمنٹ کی مقررہ تاریخ کے دومہینوں بعد ہی موصول ہوتی ہیں)،لیکن میرے اسائمنٹس ڈاکخانے نے پہنچا دیے تھے۔۔۔ کتابوں کی تاخیر سے موصولی کی شکایات کے لیے یونیورسٹی ھذا میں ایک ایکسچینج بھی بنا ہے جس پر کال کرنے کے بعد آپکی بات کرنے کی باری شروع ہوجاتی ہے، اور آپ بات کرنے کے لیے لائن میں لگ جاتے ہیں۔۔۔۔ پتہ نہیں ایکسچینج میں بیٹھی محترمہ ہر ایک شائقِ گفتگو سے پندرہ پندرہ منٹ تک کس موضوع پر بات چیت کرتی ہے ۔۔۔کیونکہ ہمارا تو جب بھی نمبر ریسیو کیا ،صرف دس سیکنڈ میں ٹرخاگئی۔ ۔۔ہم سلام کے بعد کتابوں کا پوچھتے ۔۔ اور وہ محترمہ تھکے ہوئے بیزار لہجے میں ابھی نہیں بھیجیں کہہ کر۔۔ اگنور ہی کر دیتی ۔۔۔ ہر مرتبہ ساری کلاس کو کتابیں ترسیل ہونے کے بعد، ہم نے وہیں جاکر بہ نفسِ نفیس اور بقلم خود دستخط سے وصول کیں ہیں، اُنھیں بھیجنے کی زحمت نہیں دی(یا انھوں نے کی نہیں)۔۔۔
اسائمنٹ کے سلسلے میں اگر بات کی جائے ،تو طلباء کو اتنا ڈرایا اور دھمکایا گیا تھا ،کہ ایک دوسرے سے اعتبار اُٹھ چکا تھا۔کوئی بھی اپنے اسائمنٹس ایک دوسرے کو دکھانے پر راضی نہ تھا ،اور کسی سے لینا تو جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔۔کیونکہ انٹلیکچول پراپرٹی پر ناجائز قبضے کا خطرہ تھا۔۔۔ (یہ تو ہم بھی مانتے ہیں، کہ ہمارے گاؤں (ضلع) میں جتنی بھی لڑائیاں اور قتل مقاتلے ہوئے پراپرٹی ۔۔یا حُسن پر ہوئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ پراپرٹی اور حُسن بہت قیمتی چیز یں ہیں۔۔۔حُسن سے متعلق ایک مرتبہ ایک مدرسے کے دوست نے کہا کہ۔۔ اختلاف دین کا حُسن ہے۔۔بے ساختہ ہمارے مُنہ سے نکل گیا۔۔جی سچ ہے کیونکہ اتنے قتل تو بدصورتی پر ہونے سے رہے۔۔) ہماری کلاس بھی پراپرٹی پر ناجائز قبضے کے سلسلے میں محتاط تھی ۔۔۔پوچھنے پر بھی کوئی ایک دوسرے سے اظہار نہ کر تا ، کہ میرے اسائمنٹس مکمل ہیں۔۔۔ کیونکہ آگے سے مانگنے کا خطرہ ہمہ وقت سر پر منڈلاتا رہتا۔ ۔۔ لیکن ہمارا سسٹم تھوڑا ساالگ تھا۔۔۔ہماری اسائمنٹ میں ہماری محنت سرے سے تھی ہی نہیں، اس لیے سُرقہ کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔۔بقولِ قتیل شفائی مرحوم (اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی۔۔ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا)،ہم نے کبھی بھی اپنی کاپی پیسٹ پر (جسے باقی طلباء اور اساتذہ اسائمنٹ سمجھتے) تکبر نہیں کیااور نہ چھپایا ۔۔بلکہ سرِ عام پیش کیے۔۔ جس نے بھی علم کی روشنی مانگی، فوراََ۔ای میل ۔ کردی۔ ۔ کیونکہ مجھے سرقے کا کوئی ڈر نہیں تھا( سب کچھ پہلے سے انٹر نیٹ پر موجود تھا، چند مترادفات تبدیل کرنے کی کوشش ضرور کی تھی، لیکن سارے فقرے کا مزہ اور موسیقیت ختم ہو جاتی اس لیے جوں کا توں ہی کاپی پیسٹ کرتارہا)۔۔ مگرایک مزے کی بات رزلٹ میں پتہ چلی کہ ایک ہی اسائمنٹ جو پانچ چھ طلباء کے ناموں سے ۔ایل ایم ایس۔پہ ڈالی گئی ،اور کچھ نے ڈاک کے ذریعے بھیجی ،الگ الگ گریڈز سے نوازی گئیں تھیں۔۔۔اس سے چیکنگ کے اعلیٰ معیار اور پیمانوں کا بھی ادراک ہوا۔۔۔۔کہ نام کی تبدیلی سے بھی چیز کی قدرگھٹتی یا بڑھتی ہے۔۔۔ حالانکہ شیکسپئرصاحب تو کہہ چکے ہیں کہ، نام میں کیا رکھا ہے گلاب کو کسی بھی نام سے پکاریں ،گلاب ہی رہے گا۔۔۔۔(جامن نہیں بنے گا)۔۔
خیر جب نتیجہ موصول ہوا۔۔۔تو ہم دوسرے سمسٹر کے سلسلے میں یونیورسٹی میں موجود تھے۔۔۔ہمیں تو ہمارے رزلٹ کے بارے میں ساری زندگی دوسروں نے اطلاع دی ہے ۔۔کیونکہ اتنے لائق رہے نہیں کہ انسان کو یونیورسٹی ٹاپ کرنے کی حسرت ہو، اور اسی خواہش میں اپنی راتوں کی نیندیں حرام کر کے ،رزلٹ کے لیے دُبلا ہوتا پھرے۔۔۔ لیکن رزلٹ کے نمبر دیکھ کر محسوس ہوا کہ سب ایک ہی گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں۔۔ ۵۰ سے ۶۵نمبروں کے درمیان سارے طلباء رکھے گئے تھے۔۔اور پرفیکٹ سیمیٹرک کرو(سٹیٹسٹک کی اصطلاح ہے)،حاصل کی گئی تھی ۔ کوئی آؤٹ لائیرز(سٹیٹسٹک کی اصطلاح ہے) نہیں تھے۔۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا گیا تھا۔۔مجھے تو یہ نتائج الیکشن۲۰۱۸ کے نتائج لگے۔۔ یعنی تراشیدہ۔۔۔اب کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں شکایت لگا رہا ہوں بلکہ مجھے میری اوقات سے زیادہ نوازا گیا تھا۔اس کی حیرت ہے۔۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ علم کی انتہا حیرت ہے۔۔۔صوفیا ء تو عشق کی انتہا بھی حیرت ہی کو کہتے ہیں۔۔۔ لیکن ہمیں ان بحثوں میں نہیں پڑنا۔۔ ہاں میرے ریزلٹ کی انتہا حیرت تھی،علم اور عشق کا ابھی تک پتہ نہیں۔۔۔
اب دوسرے سمسٹر میں پھر ہم کو چھ مضامین میں سے چار چُننے کا اختیار ملا اور ہم نے نہ چاہتے ہوئے بھی،حسابی کتابی مضامین چُنے۔۔۔حالانکہ حساب میں بی ایس سی تک رعایتی نمبروں سے پاس ہوئے ہیں (رعایتی نمبر وہ نمبر ہوتے ہیں جو چیکنگ والا شش و پنج کی سیچویشن میں مبتلا ہو نے کے بعد انسانی ہمدردی کے تحت دیتا ہے،اور۳۰، ۳۲ کی جگہ ۳۳ لکھ دیتا ہے۔اں حسابی کتابی مضامین کی وجہ سے ساری زندگی گریڈزپر پالاپڑتا رہا۔۔ اور ۔ڈی ایم سیز۔ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں)۔ ہم سیکنڈری ٹیچر ایجوکیشن والے پھر سے دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے (ہم اس گروہ بندی کوبھی اپنے پکے مسلمان ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں،کیونکہ تاریخ میں مسلمان ہی تقسیم در تقسیم ہوئے ہیں،کبھی بہ حیلہءِ مذہب کبھی بہ نامِ وطن)۔ اب کلاس اتنی چھوٹی رہ گئی تھی، کہ اساتدہ یا توخالی کرسیوں کی طرف دیکھ دیکھ کر لیکچر دیتے یا ہمیں مخاطب کرتے ۔۔۔ اسی روش سے تنگ آکر،ایک محترمہ نے تو ایک دن بھری کلاس میں میڈم۔م۔صاحبہ کو کہہ دیا ،کہ ہماری طرف بھی دورانِ لیکچر دیکھ لیا کریں۔۔زنانہ وارڈ،اگنورڈ، اگنورڈ سا فیل کررہاہے۔۔۔ اس کے بعد میڈم نے سب تک پیڈسٹل فین کی طرح گردن گھما گھما کر نظر ڈیلیور کی۔۔اور طلباء نے بقدرِ ظرف وصول کی۔۔۔۔ کلاس میں ہم طلباء کی تعداد انگلیوں پر گننے جوکے رہ گئی تھی۔۔۔اس لیے اساتذہ کی کہی ہوئی ہر بات ذاتی ،اور سرگوشی سی لگتی تھی۔۔۔ ہر سیشن میں اساتذہ اتنے قریب سے لیکچر دیتے کہ لگتا ، ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز،اور،نہ کوئی بندہ رہا اور نہ ہی کوئی بندہ نواز۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ میڈم ۔ت۔ نے ہمیں بارہا دیوار کے ساتھ بیٹھنے کو کہا۔۔۔،کیونکہ ہم نظر کی کمزوری کا بہانہ کر کے بار بار بورڈ کے قریب کُرسی سرکا لیتے جو اُس کے بالکل نزدیک پڑا تھا۔۔۔اور جس نزدیکی سے ہم لیکچر سننے کے لیے بیٹھتے ہیں اتنے قرب سے تو خیالات کے ساتھ ساتھ انسانوں کے سپنے بھی مشترک ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔۔۔اس لیے یہ میڈم ہمیں حدِ ادب فاصلے پر رکھتی یعنی دیوار کے ساتھ لگنے کا کہتی، حالانکہ دورانِ کلاس نہ ہم زیادہ بولتے ہیں اور نہ گھورتے ہیں (زور زیادہ پہ ہے،گھورنے اور بولنے پر نہیں)۔ ان ہی کلاسوں میں میڈم ۔س۔ ہمیں ڈانٹنے اور ڈرانے دھمکانے کے لیے بھیجی جاتی۔۔جب کوئی وجہ نہ ہوتی تو بِلاوجہ ڈانٹتی۔۔۔ایک دن اس بات پر بگڑ گئی کہ ۔اے سی۔ ٹھنڈا کیوں نہیں کرتا۔۔۔ اور ہم اتنے سہم گئے تھے کہ ، یہ بھی نہ پوچھ سکے کہ۔۔۔کِسے؟۔۔۔ ہم نے کبھی بھی اُس کی موجودگی میں پریزینٹیشن نہیں دی۔۔کیونکہ ہم اُن لوگوں میں سے ہیں جن کے لیے ویڈیوز کے شروع میں لکھا جاتا ہے کہ کمزور دِل والے اور بچے نہ دیکھیں۔۔۔لیکن اُس سے ڈرتے ڈرتے ہم باقی کلاسوں میں نڈر ہوگئے۔۔میڈم ۔س۔ جب اچھے موڈمیں ہوتی تو اپنے بچوں کی ڈانٹ ڈپٹ کے واقعات سُناتی۔۔اور اینڈرائیڈ موبائل کے لیے اُن کی شاہ خرچیوں کے قصّے بیان کرتی۔۔جو ہم بڑی دلچسپی اور غور سے سُنتے ۔۔۔کیونکہ ڈانٹ ڈپٹ سے بچے رہتے۔۔۔ان لیکچرز کے دوران ایک بزرگ اور ملنسار ڈاکٹر صاحب پر تواس قرب کا اتنا ،اثر ہوا کہ سرِ عام بخاری صاحب کا ماتھا چومنا پڑا ،اور ہم نے ریکارڈ کے لیے اس عظیم لمحے کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھا،جو تا دمِ تحریر محفوظ ہے۔۔۔ ۔
ان ورکشاپس میں،کچھ ۔پی ایچ ڈی۔ کے طلباء بھی ہم پر علم آزمائی کرنے کے لیے بُلائے جاتے۔۔۔وہ ہمیں پڑھانے سے زیادہ نصیحتیں کرتے۔۔۔ سارے سیشنز ڈو اینڈ ڈونٹس کی گفتگو میں گزر جاتے۔۔۔ اور کچھ خود ستائی میں۔۔۔ ایک اسی قسم کے اُستاد نے جب ایک سکول میں اپنی بھرتی سے پہلے اور بھرتی کے بعد کے حالات کا نقشہ کھینچا تو دل بے ساختہ حالیؔ مرحوم کے مدوجزرِ اسلام کے عرب کی طرف مائل ہوگیا۔۔(اُس کا سکول بھی اُس کی آمد سے پہلے وہی نقشہ پیش کر رہا تھا۔۔جو اسلام سے پہلے عرب کا تھا۔۔۔یعنی عرب جس کا چرچا تھا یہ کچھ وہ کیا تھا ۔۔جہاں سے الگ اک جزیرہ نما تھا۔اور۔کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا ۔۔کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا۔۔۔باقی مسدس حالی خود پڑھ لیں اور اُس صاحب کے ظہور سے پہلے اُس کے سکول کا نقشہ ملاحظہ کر لیں)،لیکن ہمیں کیا پڑھانا چاہتے تھے پتہ نہیں چلااور سیشن گزار لیے۔۔۔ہمارے ایک ڈاکٹر صاحب پروجیکٹرز وغیرہ کے سخت خلاف واقع ہوئے تھے ،اس لیے ہر بات تختہءِ سفید (وائیٹ بورڈ)پر مارکر سے لکھ کر سمجھاتے۔۔۔شاید پیراڈائم کے متعلق کچھ سمجھانا چاہتے تھے ۔۔۔ایک مثال جس میں ایک بچے نے کوئے پر سفید رنگ کیا ہوتا ہے، اور ریسرچر اُس کے پیچھے بھاگتا ہے اورپکڑتا ہے۔۔۔استادِ محترم کی عظیم مثالوں میں سے ایک تھا۔۔۔ استادِ محترم اسے کوالیٹیٹیو ریسرچ کہتے۔۔۔ہمارے علاقے میں اسے شکار کہتے ہیں (لیکن مسلمان کسی ایسے پرندے کو تکلیف نہیں دیتے جسے وہ پکا کر کھا نہیں سکتے۔۔ماخوذاز یوسفی)۔۔ اورکوے کو ایک ریسرچر ہی پکڑ سکتا ہے (کیونکہ اسلام آباد میں ابھی کوّا بریانی کی روایت قائم نہیں ہوئی)۔۔۔ اس سے ریسرچر کی تگ و تازاور ذہنی کیفیت کا خود اندازہ لگا لیں۔۔مگر کوے کے شکار سے آگے ہم نے غور نہیں کیا۔۔۔ اس استاد صاحب نے امریکہ کی کوئی بات نہیں سُنائی کیونکہ آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی یافتہ تھے۔۔۔جب بھی دیتے آسٹریلیا ہی کی مثال دیتے۔۔اور حد سے زیادہ بیزار رہتے۔۔شاید سسٹم کے شاکی تھے۔۔۔۔ایک استادِ محترم سے تو ہماری اتنی علیک سلیک ہوئی کہ بیچلر ہاسٹل(ہاسٹل کا صرف نام ہی بیچلر ہے ،شادی شدہ کو بھی رہنے کی اجازت ہے)، میں ہم دوست جاکر اُس سے ریسرچ کے متعلق بات چیت کرنے لگے۔۔۔۔اسی محترم سے سُنا تھا کہ لوگ کوانٹی ٹیٹیوسے کوالیٹیٹیو پر چلے جاتے ہیں۔۔۔لبرل ،کُھلے ذہن اوراُس سے زیادہ کھلے جسم کے انسان تھے۔۔۔ سکولوں میں ڈانس کے حق میں تھے۔۔اسی ایک خیال کی ہم خیالی، ہمارے اشتراک کی وجہ تھی اور یہ بھی سچ ہے۔۔کہ ہم نے کئی مرتبہ اسی ڈانس اور میوزک فلسفے کے تحت اپنی اسائمنٹ اور پریزینٹیشن ادھور ی چھوڑ کر یونیورسٹی کے ادب میلے اور کلچرایوننگز میں شرکت کی اور رات بارہ بارہ بجے تک کی،لیکن پھر بھی تشنگی باقی رہی۔۔ہاں۔۔ بخاری صاحب ہمیشہ پڑھائی کو میوزیکل نائٹس پر ترجیع دیتے رہتے، حالانکہ شاعر ہیں(بقول اُن کے) اور شاعر کے متعلق تو یہ نظریہ ہے کہ یہ کھوکھلے ہوتے ہیں،ان سے بانسری کی طرح آواز سریلی نکلتی ہے لیکن اسے کوئی بے سہارا ضیعف ٹیک کر منزل تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ بہت جلد ٹوٹ جاتے ہیں،اور دوراہے پر چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔پُرانے زمانے کا تو پتہ نہیں لیکن آجکل کے شعراء کا کلام تو وزن سے گراہی ہوتا ہے۔۔۔(شاعر معاف کریں)۔۔
ضمنی طور پر یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ ایک ادبی میلہ جسکانام لٹریچر کارنیوال رکھا گیا ہے ،اور سال بہ سال یونیورسٹی میں منعقد ہوتا ہے میں ہم رات گئے تک کلچرل موسیقی، قوالیاں اور اشعار سُنتے رہے۔ ۔افتخار عارف صاحب ،اور احمد حمادؔ صاحب جیسے بڑے بڑے شعرا نے اس میلے میں شرکت کی اور اپنے اپنے کلام سُناے،حمادؔ کا ایک شعر یاداشتوں سے چپک کر رہ گیا کہ (تیرے حماؔ د کو لوگوں نے بتایا ہی نہیں۔۔شاہ کو بولنے والے نہیں اچھے لگتے)۔اس میں بچے، بچیوں کاایک بیت بازی مقابلہ بھی ہوا جس میں سب سے چھوٹے بچے جیت گئے ۔۔۔حالانکہ بچیوں نے بھی دل کھول کے شعر سُنائے،اور ہم نے کان کُھول کر سُنے ۔۔جیسے (یہ ضروری تو نہیں ہیر فقظ جھنگ سے ہو۔۔ یار کا شہر کراچی بھی تو ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔دفعتاََ ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے ۔۔الجھے دامن کو چُھڑاتے نہیں جھٹکا دیکر)، اس کارنیوال میں کتاب میلہ بھی ہوتا ہے، کپڑوں کے سٹال بھی ہوتے ہیں اور ملتانی قلفیاں بھی ۔۔۔لیکن مجھے ملتانی قلفیاں ہی سب سے اچھی لگیں(اور ہاں ملتانی قلفی ،ربڑی اور فالودے کا تو ایک ہی ذائقہ ہوتا ہے،پھراسے لوگ الگ الگ طریقوں اور لوازمات کے ساتھ کیوں کھاتے ہیں)۔۔ اکثر پروفیسر صاحبان اور صاحبات کوکپڑوں کے سٹالوں پر دیکھا۔۔۔خیر اپنے مدعا پر آتے ہیں کہ بیچلر ہاسٹل والے پروفیسر صاحب کا کلاس میں کافی ایٹیٹیوٹ تھا، مگربے تکلف محفل میں انتہا درجے کے ملنسار، مہمان نواز اور خوش مزاج انسان تھے۔۔۔ حسِ ظرافت اعلٰی ،اور مشاہدہ کافی سٹرانگ تھا(مشاہدے کے ضمن میں مثالوں سے دانستہ گریز کر رہا ہوں۔۔ورنہ اُس کا ہر مشاہدہ بعد میں ناسٹراڈیمس کی پیشن گوئی ثابت ہوا)۔۔۔۔ ہم نے ہزار مرتبہ دل پر جبر کیا ،کہ اُس سے علم کی باتیں بھی گرہ میں باندھ لیں۔۔۔ لیکن اِس خود سردل نے ہماری ایک نہ مانی،اور کچھ نہ سمجھا۔۔۔۔ 
ہر ورکشاپ میں پریزنٹیشن کا ٹنٹنا ضرورہوتا اور ہم کچھ بھی بول کر پاس ہوجاتے۔۔۔ یعنی ہمارے پاس جتنی بھی انگریزی بہ کفایت دستیاب ہوتی اس کو جوڑ کر تقریری لب و لہجہ اختیار کرتے۔۔ لیکن جب کوئی آگے سے سوال پوچھتا تو ہمارے علم کا دریا سوکھ جاتا (پریزینٹیشن میں اساتذہ کے ساتھ ساتھ طلباء کو بھی جمہوری نظام کی طرح سوال کرنے کا حق حاصل تھا،اور وہ پاکستانیوں کے ووٹ کی طرح یہ حق استعمال کرتے)، اصل مسائل ہمیں ان پریزینٹیشنز کی تیاری کے وقت ان کے عنوانات سے ہوتے ، کیونکہ یہ موضوعات اتنے گنجلک ہوتے کہ گنجینہءِ معنی ہاتھ ہی نہیں آتاتھا،اور آخری وقت تک ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے، کہ جو کچھ بنایا ہے کیاعنوان کی زد میں آتا ہے یا نہیں۔۔۔۔کیونکہ میڈم ۔س۔ جتنی پریزینٹیشنز دیکھتی ایک ہی اعتراض کرتی۔۔۔یہ عنوان کی زد میں نہیں آرہا۔۔۔۔۔۔
ہم چونکہ دور دراز علاقوں کے طلباء میں سے تھے اس لیے مسکن ہاسٹل ہی رکھا ۔۔۔یونیورسٹی والوں نے صنف نازک اور صنفِ سخت(میں نے نازک کا متضاد سخت ہی سمجھا ہے ،آپ صنف کُھردرابھی کہہ سکتے ہیں) کے ہاسٹل آمنے سامنے بنائے تھے لیکن اسلامی ملک کی رعایت سے ایک پتلی سی سڑک بیچ میں ڈال دی تھی تاکہ حدِ ادب فاصلہ قائم رہے اور اگر کوئی سڑک پار کرے تو کیمرے کی آنکھ یا تاک میں بیٹھے چوکیدار کی آنکھ میں محفوظ ہو جائے ۔۔۔ بخاری صاحب بھی ایک صبح کاونٹر پر بغیر اطلاع دیے کمرے میں آگئے تھے اور کیمرے کے بجائے چوکیدار کی آنکھ میں محفوظ ہوگئے تھے۔۔ پھر شام تک وارڈن کی جرح کے جوابات ضلع کچہری کی طرح ہم تینوں دوست دیتے رہے۔۔۔ ان جڑواں ہاسٹلوں کے نام آزادی کے عظیم رہنماؤں کے ناموں پررکھے گئے تھے۔ مردانہ ہاسٹل کے لیے قائدِ اعظم کا نام تو ٹھیک تھا لیکن زنانہ ہاسٹل کو لیاقت علی خان کہنے کی کوئی لاجک سمجھ نہ آئی۔۔۔کیونکہ فاطمہ جناح اور رعنا لیاقت علی خان جیسی عظیم خواتین اس تحریک کا حصہ رہی تھیں ،کسی کا بھی نام لگاتے تو خوب جچتا۔۔ مردانہ ہاسٹل میں صرف قیام تھا لیکن زنانہ کو طعام کی سہولت بھی حاصل تھی۔۔ ہم نے ساکنانِ مردانہ ہاسٹل کو بھی اکثر وہیں طعام کرتے پایا (خودہم بھی وہیں سے کھاتے تھے)۔۔۔ البتہ بخاری صاحب علیٰ ا لصبح بلاک نمبر۴ کے قریب کی طعام گاہ میں چلے جاتے جہاں بقول اُس کے کھانا اچھا ہوتا۔۔۔ لیکن ہم دو آلسی زنانہ طعام گاہ پر شکر بجالاتے،جس کے لیے صرف پتلی سی سڑک پارکرنی پڑتی۔۔ کیونکہ کھانا نہ سہی یہاں کا ماحول ضرور اچھا تھا۔۔۔ (انسان روح و بدن کا مجموعہ ہے ۔۔۔ماحول روح کی بالیدگی کرتا ہے ،اور کھانا جسم کی۔۔۔ہم دونوں کو روح کی بالیدگی درکار ہے۔۔جسم تو روح کا ضمیمہ ہے) بخاری صاحب کو کنوینس کرنے کے لیے ہم ایسے ایسے دلائل گڑھتے ۔۔۔اور،ان دلائل پر بخاری صاحب ہمیشہ تنقیدی اور طنزیہ ہنسی ہنسنے لگتے۔۔۔پھر پنجابی کے اشعار سُناتے جس میں میاں محمد بخش کے زیادہ ، اور بُلھے شاہ کے ضمنی ہوتے۔۔۔۔یہ سب اشعارویسی ہی نصیحتوں سے بھرے ہوتے ، جو عبدالرحمان بابا ہمیں پشتو میں کر چکے تھے، لیکن ہم نہ سمجھی کی اداکاری کرکے بات گول کرجاتے۔۔۔ روح اللہ بھائی اور میں اکثر اس زنانہ طعام گام میں ایک ہی چیز مختلف ناموں اور قیمتوں سے کھاتے۔۔۔اُسی سالن میں کبھی دال ہوتی،کبھی مٹر، کبھی انڈا ،اور کبھی گوشت لیکن اللہ حاضر و ناظر ہے کہ کسی نے ذائقے میں تبدیلی دیکھی ہو۔۔وہی ذائقہ اور مصالحہ ہرکھانے میں پڑتا۔۔ ہم نے بار ہا بریانی میں پلاؤ اور کابلی پلاؤ کا ذائقہ پایا۔۔اور قیمے میں ٹینڈوں اور کدو کا سواد۔۔۔ چائے ہمیں اکثر بنی بنائی ملتی(یعنی پہلے سے کسی کے لیے بنی پڑی ہوتی،یہ صرف گرم کرکے لاتے)۔۔ اور پراٹھے بھی ٹھنڈا ٹھارہوتے(گرمیوں کی رعایت سے) جن میں طعام گاہ والوں کا قصور کم اور ہمارا ذیادہ تھا کیونکہ ہم جولائی اگست میں بھی آٹھ نو بجے ناشتہ کرنے جاتے۔۔ہم تو راضی بہ رضائے الٰہی قسم کے لوگ ہیں ، لیکن بخاری صاحب ہر گلاس اور پلیٹ میں کیڑے نکالتے اورویٹر سے دوبارہ دھلواتے۔۔اورآخر کار تنگ آکر اپنے لیے نیسلے کی ایک الگ بوتل رکھ لی ، جس سے شیرخواروں کی طرح ہرجگہ،ہر موقع اور ہر کلاس میں پانی چوستے رہتے۔۔ ہمیں ڈرانے کے لیے بخاری صاحب نے دوعدد سفید کاغذ نیسلے کی بوتل میں ڈال رکھے تھے اور کسی پہنچے ہوئے بابا جی کے تعویز بتا رہے تھے۔۔ہم بھی ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو بابا جی کا تعویز اثر ہی کر جائے۔۔۔ کیونکہ بخاری صاحب کے جتنے بھی ناقابلِ بیان (اور ناقابلِ اشاعت )مسائل اور ارادے ہیں، مجھے ان دو سفید کاغذوں کی کرامات لگتے ہیں۔۔ یہ دونوں کاغذ جن کی سیاہی بخاری صاحب کب کے پی چکے تھے، اب بچوں کے نامہءِ اعمال کی طرح کورے تھے۔۔۔ ۔ ہر وقت مچھلیوں کی طرح بوتل میں تیرتے رہتے اور بخاری صاحب دن میں کئی مرتبہ ان پر ٹھنڈے کولروں سے پانی ڈالتے اور پیتے۔۔ہر ڈیپارٹمنٹ کے کولر اور نل کا پانی ان تعویزوں پہ ڈالا اور پیاگیا تھا۔۔۔اُردو ڈیپارٹمنٹ کا پانی ڈالنے اور پینے کے بعد کئی دنوں تک بِلا ارادہ مُنہ سے غالب ؔ مرحوم کے اشعار جوش ملیح آبادی کے سے جذبے کے ساتھ نکلے۔۔۔ماس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ کا پانی پینے کے بعد موجودہ حکومت کی ہر پالیسی سے متفق رہنے لگے۔۔۔اور سراہتے بھی رہے۔۔۔ ۔آئی ٹی۔ ڈیپارٹمنٹ کا پانی بوتل میں بھرتے ہی۔۔۔ اپنے متوقع لیپ ٹاپ کے دیدار کا غم ستانے لگا۔۔۔اور بڑی بے صبری سے کب ملے گا، کا ورد کرتے پائے گئے۔۔۔ہمارے سامنے ہر مرتبہ نئے جوش و جذبہ سے قبلہ رو ہوکر کورے کاغذوں کا پانی شفایابی کے جذبات سے مغلوب ہو کر پیتے۔۔۔اورہماری حالتِ زار پر کفِ افسوس ملتے،کہ تم لوگ اپنی کم فہمی کے باعث ان مجربات سے محروم رہ گئے۔۔۔القصّہءِ مختصر ایک ہفتے کے بعدہمیں زنانہ طعام گاہ کا کھانا باالکل اپنے گھر کے کھانے سا لگنے لگا جو ہم اکثر بے رغبتی سے شکم پُری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔۔۔۔
روح اللہ بھائی طبیعت کے ملنسار اور نفیس واقع ہوئے ہیں ،اس لیے ہر ایک سے انتہائی مدہم لہجے اور نفیس پیرائے میں بات کرتے ہیں ۔۔۔چھوٹی سے چھوٹی بات بھی تفصیلاََ ،اور انکساری سے کرتے ہیں اسی لیے ہم جب بھی یونیورسٹی سے باہر نکلے ، اسلام آباد پولیس نے ہمارا چالان ضرور کیا ہے۔۔۔لیکن پرچی کبھی نہیں پکڑائی ہاں ۲۰۰یا ۳۰۰ لیکر آئندہ محتاط رہنے کی نصیحت اور وارننگ کے ساتھ چھوڑدیا۔۔ ہم اکثر سیٹ بیلٹ لگانا بھول جا تے تھے ،لیکن ان رشوتوں کے باعث اب یونیورسٹی کے اندر بھی باندھ لیتے ہیں ، مبادا کوئی سنتری صاحب کھڑے نہ ہوں۔۔۔ہم چونکہ نئے تھے اس لیے کبھی بھی اسلام آباد میں گم ہوئے بغیر سفر نہیں کیا۔۔۔ایک رات تو سیور فوڈ سے آتے ہوئے گوگل میپ بھی بند ہوگیا ، اور ہم پانچ لوگوں پر، جو قیامت یونیورسٹی کا راستہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے گزری،وہ فتنہءِ محشر سے کسی طور کم نہیں تھی۔۔۔ سڑک کنارے عام بندوں کو چھوڑیں ہر ایک بھکاری سے بھی اپنی یونیورسٹی کا ایڈریس پوچھا ، جس کے بعد وہ اپنے ہاتھ کے اشاروں سے ہلالِ احمر کے راستے کا گوگل میپ بناتا،اور ہمیں سمجھاتا۔۔ ہم دوبارہ پوچھنے کی تاب نہ لاتے ہوئے ہاں کہہ دیتے، حالانکہ کچھ بھی سمجھ میں نہ آتا۔اوریوں خوار ہوتے ہوتے رات ۱۲ بجے کے لگ بھگ معجزاتی طور پر ہاسٹل پہنچے۔۔۔ ہمیں اسلام آباد کی ہر سڑک، ہر نوزائیدہ بچہ اور مرغی کے چوزے ایک سے لگتے ہیں۔۔۔یہ جو عورتیں کہتی پھرتی ہیں کہ بچہ فلانے پہ گیا ہے اس کی تُک مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی۔۔کہ کس بناء پر کہتی ہیں۔۔۔
چلو ہاسٹل کی طرف آتے ہیں۔۔۔ یہاں ہر کمرہ چار افراد کومشترکہ الاٹ کیا جاتا، جس میں ہم تین کے علاوہ ایک چوتھا بندہ بھی بطورِ ڈسٹریکٹر ڈالا جاتاتھا (حالانکہ ۔ایم سی کیوز ۔ میں تین ڈسٹریکٹرز ہوتے ہیں اور کوئی اُف تک نہیں کرتا)۔۔جو ہم تینوں کی ہنسی مذاق میں ہمیشہ کنفیوز رہتا ، کیونکہ وہ بے تکلف دوستوں کے درمیان ڈواینڈ ڈونٹس کا اندازہ نہیں لگا سکتاتھا۔۔۔ہم اتنے فری ہوچکے تھے کہ ایک دوسرے کے اشارے کنایے بھی سمجھ لیتے،جس سے اکثر بھری کلاس میں بھی کام لیا جاتا۔۔۔پڑھائی سے زیادہ ہمارے کمرے میں میوزک پسند کیا جاتا اورہر وقت مشاعرے کاسا سماں رہتا۔۔نہاتے وقت باتھ روم سے بھی شعر پھینکے جاتے۔۔کیونکہ کسی سیانے نے کہا ہے کہ شعر اور موت کاکوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا(میں نے تواس قول سے یہی مطلب لیا ہے کہ دونوں ہروقت، بے وقت لگتے ہیں)۔۔۔ہم صبح اکثر کلاس سے لیٹ ہوتے کیونکہ ایک مولانا صاحب کو یونیورسٹی نے ایک سمسٹر میں بطورِ ڈسٹریکٹر ہمارے کمرے میں بھیجا تھا۔۔۔۔ایم اے اسلامیات کے طالب علم تھے اور یونیورسٹی کے ظلم وستم کا شکار ۔۔۔کیونکہ یونیورسٹی بار بار فیل کرکے تھک چکی تھی۔۔۔ ہماری نمازوں کی تہہ دل سے نگرانی کرتے اور ہمارے جیتے جی نکیرین(قبر میں سوال و جواب والے فرشتوں)کا کردار نبھاتے۔۔یعنی اسلام کے باب میں سوال وجواب!۔۔۔ اُن کے سوال کچھ یوں ہوتے ۔۔صُبح کی کیوں قضا ہوئی ۔۔عصرکی کہاں پڑھی میں نے نہیں دیکھا۔۔مغرب اور عشاء ، شاید اکھٹی کرلی،کیونکہ خاصی لمبی تھی۔۔۔اُس کے سوالوں سے بچنے کے لیے ہم پانچوں کی پانچوں عین اُس کی آنکھوں کے سامنے خشوع وخضوع سے پڑھتے۔۔لیکن شومئی قسمت ۔۔مسجد کا راستہ اور باجماعت نمازوں کے اوقات ہمیشہ ہم سے پوچھتے۔۔۔اور مسجد سے واپس آنے کے بعد باجماعت نماز کی فضیلتیں بتاتے۔۔۔ہمیں گنہگار گنہگار فیل کراکے اندرونی سکون محسوس کرتے۔۔لیکن ہم یہ موقع اُنھیں بار بار نہ چاہتے ہوئے بھی مہیا کردیتے۔۔۔ وہ عین کلاس سے ایک گھنٹہ پہلے باتھ روم کی کنڈی چڑھا لیتے اور پھر ڈیڑھ گھنٹے بعد نکلتے۔۔۔اس دوران ہم تینوں بے چین نظروں سے باتھ روم کے دروازے کو تکتے اور کمرے میں ٹھلتے رہتے ۔۔ کہ کب کھلے گا دروازہ۔۔۔۔ہم اتنی افراتفری میں کپڑے تبدیل کرتے کہ کلاس کی طرف چلتے چلتے شرٹ کو اُس کے جائز مقام (پینٹ)میں اڑستے جاتے۔۔اور وہ سرپھری بار بار نکلتی جاتی۔۔ ۔چند راتوں کے لیے وارڈن نے ایک منیجمینٹ کے طالب علم کوبھی ہمارے صبر کا امتحان لینے بھیجا تھا۔۔۔جو بچاس سے تجاوز کر چکے تھے،اور ہنستے ہوئے اُس کا بیڈ چر چر کی صدائیں بلند کرتا۔۔۔ کیونکہ وہ ہلتے زیادہ اور ہنستے کم تھے۔۔یوں سمجھ لیں کہ ہنستے ہوئے وائبریشن پر لگ جاتے۔۔ یہ صاحب بَلا کے قیافہ شناس تھے اور نام کے الفاظ سے فال نکالتے تھے۔۔۔ کچھ مراقبہ میں بھی درک تھا اور اُس پر کسی میڈیٹیشن ہال میں کئی مرتبہ حال بھی آچکا تھا (بقول اُس کے)۔۔۔اسی مناسبت سے خود کو صاحبِ حال کہتے (یا ہال)۔۔ مجھ سے فوراََ گویا ہوئے۔۔۔ یار تم اپنا نام ۔آئی۔سے لکھتے ہو نا۔۔۔میں نے کہا ۔۔جی حضور۔۔۔۔تو بولے۔۔ڈبل ای ۔۔سے لکھا کرو مسائل ختم ہو جائیں گے۔۔۔۔اور میں ہنس دیا۔۔۔اُس نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا۔۔۔۔جناب۔۔پہلے تو یہ بات کہ، میرے جتنے بھی مسائل ہیں میری ذاتی کاوش اور خواہش کا نتیجہ ہیں (یعنی اپنی مرضی سے شادی شدہ ہوں۔۔۔۔وہ ہنستے ہنستے پھر سے وائبریشن پر لگ گئے)۔۔اور جہاں تک ۔آئی ۔ کی بات ہے ،تو یہ ۔آئی ۔ تو ہمارے درمیان مشترک ہے۔۔۔ہاں اگر یہ ۔آئی۔ نہ ہوتی تو زندگی اس سے یکسر مختلف ہوتی۔۔۔لیکن مجھے بھی اپنی اس تکلیف دہ ۔آئی۔ سے پیار ہے۔ اور اُسے بھی۔۔۔۔۔حضور یہ۔۔۔آئی۔اب باالکل بھی نہیں نکل سکتی۔ ۔۔ اس کے بعد بخاری صاحب ہر وقت تکلیف دہ ۔آئی ۔ کے طعنے دیتے رہے، اور اسے ختم کرنے کے درپے رہے۔۔۔۔۔ خیراس بات کو چھوڑتے ہیں
ہمیں اپنی پیدائشی امن پسندی،اور ڈر کی وجہ سے ہر، وردی والا سر لگتاہے۔۔ اس کے ثبوت میں، ہم ہر ناکے پر کھڑے سنتری کو سر کہہ کر پکارتے ہیں ،جس سے وہ اور بھی شیر ہو جاتا ہے۔۔۔اور کُھل کر پیسے مانگ لیتا ہے۔۔۔ان ہی وردی والوں پر قیاس کرکے اس یونیورسٹی کے سیکیورٹی گارڈز کو بھی سر کہہ کر مخاطب کرتا ہوں۔۔۔ لیکن یہاں خاکی وردی والے اور نیلی وردی والے دو قسم کے سیکیورٹی گارڈز پائے جاتے ہیں۔۔یعنی یونیورسٹی کی سیکیورٹی رنگین ہے۔ان رنگوں کا فرق مجھے نہیں پتہ حالانکہ بہت غور کیا۔۔۔۔خیر یہ سیکیورٹی والے دن کے وقت یونیورسٹی اور شام کے بعد طلباء کے چال چلن پر پہرہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ اس سمسٹر کے دوران ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ ان شب کے پہرے داروں کے ہاتھ میں ایک ایک عدد ٹارچ بھی تھما دی گئی ہے۔۔۔تاکہ دورتک اندھیروں کو چیر سکیں۔۔۔حالانکہ دیوار نما پودے جو باغیچوں کے گرد لگے ہوئے تھے اور قدِ آدم اونچائی پر تھے ۔۔اُس کی اونچائی بھی دوفٹ ہماری آنکھوں کے سامنے کر دی گئی۔۔۔تاکہ تاریکیاں کم ہوں اور روشنیاں ہر کونے میں پہنچ سکیں۔۔۔۔ لیکن طلباء علمی ضرورتوں کے پیشِ نظر اور مشترکہ پراجیکٹس کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں،بات چیت کرلیتے ہیں۔۔سب میجیور ہیں۔۔۔ اس میں اتنی بے اعتباری کی کیا ضرورت ۔۔۔کہ جہاں دومخالف اصناف کے لوگ کھڑے ہوئے یا بیٹھ گئے ۔۔ تو قریب سنتری صاحب بھی مشقوق سے ٹہلنے لگے۔۔۔۔ ایک مرتبہ تو صرف ہم حضرات ہی بیٹھے تھے کہ سنتری صاحب ہاتھ میں ٹارچ تھامے مشقوق گشت کرنے لگے۔۔۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ پشاور سے ہیں۔۔۔اس لیے ہم نے دیکھی ان دیکھی کر دی اور ہنس دیے، کیونکہ اُسکا شک بنتا تھا۔۔پشاور سے جو تھے۔۔۔ جب ایک دوست سے اس نئے بے اعتبار ماحول کی بابت بات کی،تو اس نے کہا ان ہاسٹلوں میں ایم اے کے طلباء بھی ٹھہرے ہوئے ہیں۔۔جو ابھی بچے ہی ہیں۔۔اُن کے چال چلن پر پہرہ وقت کا اہم تقاضا ہے۔۔۔ہم نے چال چلن اور پہرے کے تعلق پر کچھ تبصرہ تو نہیں کیا لیکن صرف اتنا کہاکہ:۔۔۔دل کے خوش رکھنے کو غالب ؔ یہ خیال اچھا ہے۔۔۔۔۔اور یوں یہ سمسٹر بھی ہنسی خوشی اختتام پذیر ہوا۔۔۔۔
اکثر لوگ منزلوں کے اسیر ہوتے ہیں لیکن میں راستوں کا قیدی ہوں ۔۔۔اور مجھے راستے منزلوں سے زیادہ دلچسپ لگتے ہیں منزل پر پہنچنے کے بعد وہ تڑپ ختم ہوجاتی ہے، وہ تکلیف ،وہ میٹھی تھکن اور منزل کی طرف کھینچنے والی قوت اور کشش زائل ہوجاتی ہے۔۔ راستے کی کسوٹیوں سے گزارکر ہی سیمرغ بنتے ہیں،منزل تو ایک سراب ہے۔۔میریج آف مائنڈ۔۔کسی شوخ نے کہیں لکھا ہے کہ پہاڑ اور چالیس سال سے اوپر کی عورت دور سے اچھے لگتے ہیں۔۔۔لیکن میں اتنی گستاخی نہیں کرسکتا۔۔ صرف منزلوں کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کرسکتا ہوں ۔۔۔کہ منزلیں دور سے اچھی لگتی ہیں۔۔۔ کیونکہ، منزل کے گرد،رومانیت کا ہالہ اُس کے قریب جانے سے مٹ کر تحلیل ہوجاتا ہے۔۔۔اور سچ میں منزل اتنی خوبصورت کبھی نہیں ہوتی جتنی اُس کی لگن۔۔۔اپنے ایم فل کے بارے میں بھی میرا یہی نظریہ ہے،کہ کاغذ کا ایک ٹکڑا ڈگری کے نام پرتھما دیا جائے گا اور ہم اُس ہجوم میں شامل ہوجائیں گے جن کے ہاتھوں میں ایسے ہی کاغذ کے ٹکڑے ہوں گے،۔۔ ایم اے ۔۔والا ہجوم پیچھے رہ جائے گا اور کچھ نہیں ہوگا۔۔ (ہاں ایم فل کے بعد بڑائی کی ایک ذہنی فینٹیسی موجود رہے گی) ۔۔۔کسی کی تنخواہوں میں اضافے ہوں گے۔۔۔اور کسی کی ۔پے سلپ۔ پہ پندرہ سے سولہ اور سولہ سے سترہ لکھ دیا جائے گا۔۔۔لیکن یہ گزرے دن ،یہ بیتے لمحے ،یہ ڈیڈلانز، اساتذہ کی ڈرانے والی باتیں،اور پڑھائی پر اکسانے والی بچگانہ دھمکیاںیادوں میں مٹھاس بھرتی رہیں گی۔۔۔یہ سچ ہے کہ جس چیز کا آغاز ہو اُس کا انجام بھی ہوتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ۔۔۔ اس ڈگری نے خیبر سے کشمیر اور لاہور تک اور گوادر سے سکردو تک کتاب کے پَنوں کی طرح لوگوں کو اکھٹا کیا۔۔۔اور خوبصورت لمحوں سے اس کتاب کے ہر پنے پر وقت نے بہت سی یادیں تحریر کیں۔۔ اس کتاب کا شیرازہ ٹوٹ بھی جائے،تو یہ یادیں نہیں مٹیں گی۔۔ یہ لمحے ہر صفحے پر نقش رہیں گے۔۔۔ مجھے یہ پَل یہ گزرے لمحے اور بیتا کل بہت عزیز ہے۔۔۔۔اور ان پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھ جیسے بے فیض کو ان اساتذہ ، قابل دوستوں اور کلاس فیلوز کا قرب نصیب ہوا۔۔۔۔

نوٹ:
۔۱۔کچھ کلاس فیلوز کی طرف سے چائے اور ڈنر کی،چار پانچ پارٹیوں کا بھی احتمام کیا گیا جس میں ہم نے شرکت کی،اُن سب کاتہہ دل سے مشکور ہوں۔۔۔۔ناموں کی چونکہ اجازت نہیں لی اس لیے نہیں لکھے 
۔۲۔روح اللہ بھائی اور بخاری صاحب سے اُن کے نام استعمال کرنے کی پیشگی اجازت لی ہے۔
۔۳۔ سیمرغ فرید الدین عطارؒ ؒ کی مثنوی منظق الطیر(پرندوں کے سات سفر) کا اعلی ترین مثالی کردار ہے۔۔آپ نے پرندوں کے سفر کے ذریعے سلوک وعرفان(تصوف) کی منزلیں بیان کی ہیں۔۔ 
۔۴۔اپنے لیے میں کی جگہ ہم استعمال کرنے پر معذرت۔
۔۵۔تذکیر و تانیث کی غلطیوں سے صرفِ نظر کرلیں کیوں کہ ہم اہلِ زبان نہیں پشتون ہیں ۔۔اُردو الفاظ میں تو پھر بھی بہت باریکی ہوتی ہے ہم پشتون تو۔۔۔۔۔خیر چھوڑیں ان باتوں کو
۔۶۔ناسٹراڈیمس(جس کی اکثر پیشن گوئیاں سچ ثابت ہوئیں)۔۔۷۔ ایل ایم ایس (لرننگ منیجمنٹ سسٹم۔۔ویب سائیٹ)۔۔

وسیم خان عابدؔ 
نومبر۲۰۱۸

Sunday, 18 November 2018

افسانہ: بیانوے ہزار

میں لمبی چھٹیاں گزارنے کے بعدگاؤں سےڈیوٹی پر واپس جارہا تھا۔ جب پشاور ریلوے سٹیشن پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ گاڑی کے روانہ ہونے میں ابھی تیس منٹ سے زائد کا وقت رہتاہے ۔سٹیشن پر کافی رش تھا اس لئے میں نے رش میں پھرنے کے بجائے اپنی سیٹ پر جاکر کتاب کی ورق گردانی کا فیصلہ کیا۔ کیبن میں میرے ارد گرد کی سیٹیں خالی تھیں ، اس لئے میں نے اپنا بیگ بھی سامنے والی سیٹ پر رکھا اور پیر پھیلا کر کتاب کی ورق گردانی شروع کردی۔گاڑی اپنے مقررہ وقت پر روانہ ہوئی ،مسافر ٹکٹیں لئے میرے پاس آتے کھڑکی کی طرف جھکتے سیٹ نمبر دیکھتے اور سر نفی میں ہلا کرگشت جاری رکھتے۔ جب گاڑی اگلے سٹیشن پر رُکی تو میری کیبن میں بھی کچھ مسافر آکر بیٹھ گئے۔نووارد مسافروں میں دو لڑکے اور ایک دس گیارہ سالہ بچی تھی۔لڑکوں کی عمریں باالترتیب چودہ اور تیس سال معلوم ہو رہی تھیں ۔میں نے انکا سرسری سا جائزہ لیا اور پھر سے ورق گردانی کرنے لگا۔مگر چند لمحوں بعد اُنکی گفتگو سے چونک گیا۔ وہ لڑکی اُس بڑے لڑکے کو ابا کہہ رہی تھی اور وہ پشتون تھی لیکن وہ دونوں لڑکے پنجابی۔۔۔ بندھن کچھ سمجھ سے بالا تر لگ رہا تھا،کیونکہ اُس بچی کا البیلا پن دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے ابھی ابھی اپنے کھلونے پٹاری میں بند کرکے سستانے بیٹھی ہے۔اُسے عورتوں کے سلیقے کا ابھی کوئی ادراک نہ تھا،کہ پرائے مردوں سے دور بیٹھنا چاہیے ،اُن کے سامنے نہ ہنسنا چاہیے اور نہ بولنا۔بلکہ چادر لپیٹ کر کسی کونے میں بوری کی طرح بے حس و حرکت پڑے رہنا چاہیے۔ادھر اُدھر دیکھنا اور اور بار بار سیٹ سے اُٹھنا تو زہرِ قاتل ہے کیونکہ گاہک قسم کے مرد اسے اخلاقی زوال پر قیاس کرتے ہیں اور دورانِ سفر باعثِ آزار ثابت ہوتے ہیں۔ 
مگر یہ البیلی ان تمام باتوں اور تکلفات سے نابلد تھی۔پہلے تومیرے سامنے والی سیٹ کے پہلوٹی شیشے سے دھینگا مشتی کرنے لگی اور پھر اُس چودہ سالہ لڑکے سے اسے کھونے کی التجا کی۔اُسکا ابا میرے پہلو سے اُٹھ کر ٹرین میں پھرنے گیا تھا، اور میں کتاب پڑھنے میں مصروف تھا اس لیے جب اُس نے چھولے فروش کو دیکھا تو دور سے آواز دی۔" روریالِگ خو دا کھلاؤکا کنہ" (بھا ئی زرا، اسے کھول دو !)۔ چھولے والے نے جواب دیا کیوں کھولتی ہو اسے، گردو غبار آئے گا!۔۔ اُس نے جھٹ سے کہا خیر ہے !۔۔۔۔ ٹھنڈی ہوا بھی تو آئے گی نا!۔۔چھولے والے نے بھی آکر زور آزمائی شروع کر دی۔۔لیکن ریل کا جودروازہ بند ہوجائے وہ کھلتا نہیں اور جو کُھل جائے اُسے کوئی مائی کا لال بند نہیں کرسکتا۔۔۔ میرے سائیڈ پر لگا ہوا شیشہ کُھلا تھا جسے اُس نے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا لیکن میں نے وہ سیٹ دینے کی آفر نہ کی،اور ماحول سے انجان بن کر صفحے اُلٹاتا رہا۔وہ چند لمحے مسافروں پر نظریں ڈالتی رہی اور پھر منہ پُھلا کر اس طرح بیٹھ گئی جیسے کوئی ننھی سی بچی اپنی گڑیا باہر کھیلتے ہوئے اپنی غلطی سے گم کردے ۔اور پھرنہ کسی کو بتا سکے اور نہ کھل کر رو سکے۔لیکن جب چھولے والے نے دوسرا پھیرا لگایا ،تو چہک کر آواز دی " یو پلیٹ خو تری نا راکہ،خدائی دے دا ریل تباہ کی،چی کڑکی یے نہ کھلاویگی" (ایک پلیٹ تو دے دو! ۔۔ اللہ اس ریل کو تباہ کرے جسکی کھڑکیاں نہیں کھلتیں)۔اور پھر تیزی سے چھولے کھانے میں لگ گئی۔۔۔۔۔اسی اثناء میں اُسکا اباّ بھی آگیا اور مجھ سے کاندھا ملاکر بیٹھ گیا۔۔۔۔اس نے وقت گزاری کے لئے رسمی سا سوال کیا۔۔ بھائی آپ نے کدھر جانا ہے؟۔۔ میرے ذہن میں ویسے بھی ہزاروں سوالات مچل رہے تھے ۔۔ اوراُس اللہ کے بندے نے موقع بھی خود یا تھا۔۔میں نے بھی کتاب بند کرتے ہوئے جواب دیا میں تو اپنی ڈیوٹی پر بسال جارہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آپ کہاں جارہے ہیں؟ ۔۔ اُس نے کہا!۔۔۔ہم تو اپنے گاؤں منکالہ جارہے ہیں۔اسے لائے تھے۔اُس نے بچی کی طرف اشارہ کیا۔۔ ۔۔ اس کی بہن کا خاوند قتل ہوا ہے ، اس لیے دُعا کے لیے لائے تھے۔۔ میں نے کہا اس بچی کو۔۔۔۔۔۔اور اس نے اثبات میں اپنا سر ہلا دیا۔۔۔۔۔یہ تو پشتون ہے نا! ۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اُسکی طرف دیکھا۔۔جی ہاں اُس کا جواب انتہائی مختصر تھا جس سے میری تسکین نہ ہوئی۔۔۔میں نے پھر سوال کیا۔۔مگر آپ تو پنجابی لگ رہے ہیں بات کچھ سمجھ میں نہیں آرہی؟۔۔۔انھوں نے کہا!۔۔ جی یہ پشتون بھی ہے اور اسکا تعلق زاہدوکلی ۔۔۔۔ایجنسی سے ہے۔۔مگر اب رہائش پشاور میں رکھی ہے۔۔۔مگر آپکے ساتھ؟ ۔۔ میں نے پھر سوال کیا۔۔۔" اے میڈی نو اے صاب" ( صاحب یہ میرے بہو ہے)۔۔ میں ایک بار پھر چونکا ۔۔اور بے اختیار منہ سے نکلا یہ بچی۔۔آواز کی اونچائی اختیا ر میں نہ رہی اس لیے وہ بچی بھی متوجہ ہوئی اور باقی مسافروں نے بھی ملتجی نظروں سے دیکھا ۔۔ جن سے کافی خفت ہوئی لیکن جلد ہی اوسان بحال کرلیے۔۔ مگر آپ تو ابھی ۔۔نوجوان ہی لگ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔میں نے پوچھا! ۔۔۔۔آپ کی بات درست ہے مگر ہمارے علاقے میں یہ رواج ہے کہ جونہی لڑکا لڑکی جوان ہوتے ہیں ۔۔اُن کا بیا ہ کر ادیا جاتا ہے۔۔۔ اُس نے باتوں باتوں میں اپنی عمر پینتیس سال بتائی جو میرے اندازے سے چند سال اوپر تھی لیکن یہ اُنکے ہلکے پھلکے بدن کی کارستانی تھی میرے اندازے کی غلطی نہیں۔اور بقول اسکے اُس نے نویں جماعت میں شادی کی تھی۔۔۔۔اور ساتھ والا لڑکا اسکا بیٹا اور لڑکی کا دیور تھا۔۔ اُس نے کہا !۔۔ میری بیوی بھی پشتون ہے اور اُسکا تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے۔ ۔جسے میرے ماں باپ نے پچیس ہزار روپے میں خریدا تھا۔۔۔ میں نے کہا! کیا؟۔۔ لڑکی خریدی تھی!۔۔۔اُس نے ایک مرتبہ پھرسر سے زبان کا کام لیا اور اثبات میں ہلادیا۔۔۔۔ میرا بڑا بیٹا بھی ضد کر رہا تھا کہ میں بھی پٹھانی سے شادی کروں گا۔۔۔۔ میرا سلوک چونکہ بیوی کے ساتھ اچھا تھا۔اور اُسے ہر سال میکے کا ایک چکر بھی لگواتا تھا اس لیے ظہیرہ کے گھر والوں نے اسے سستے داموں ہمارے ہاتھ بیچ دیا۔۔۔ میں نے کہا اس بچی کا نام ظہیرہ ہے ۔۔ تو اس نے برا سا منہ بنا کر کہا۔۔۔ یہ آپ بار بار کیوں بچی کہہ رہے ہیں اس کی عمر بارہ سال ہے اور شادی کو نو مہینے ہو چکے ہیں ۔۔۔میں نے دل میں اسے کوسنا شروع کیا ۔۔کہ اس کے تو ابھی کھیلنے کے دن تھے یہ کس بدبخت نے اس کی قسمت خراب کردی۔۔۔ یہ بیچاری تو ابھی آدابِ جوانی سے بھی ناواقف ہے۔ ۔۔ بات زبان تک آگئی تھی ، لیکن اندیشہ فساد کی بنا پر لبوں تک نہ پہنچی ۔۔۔۔ انھوں نے اپنی بات جاری رکھی۔۔ظہیرہ کے بھائی تو پہلے ایک لاکھ روپے مانگ رہے تھے۔۔ لیکن بعد میں بیانوے ہزار میں بات پکی ہوئی، کیونکہ ہمارا خاندان اچھاہے اور ہم عورتوں پر ظلم بھی نہیں کرتے۔ ورنہ تو ڈیڑھ دو لاکھ تک بات پہنچ جاتی ہے۔ میں نے پھر سوال کیا ۔۔کہ کیا ظلم و ستم کا ادراک ہونے کے باوجود بھی سودہ ہوتا ہے لیکن فرق صرف بولی پر پڑتا ہے،فیصلے پر نہیں۔۔انھوں نے پھر معصومیت سے جواب دیا ۔۔جی ہاں ۔۔۔لڑکی تو دیتے ہیں لیکن جو بندہ دولاکھ خرچ کرے وہ روز میکے کے چکر تو نہیں لگواتا۔۔۔یہ تو ہم ہیں کہ خریدنے کے باوجود بھی اسے اللہ کی مخلوق سمجھ کر اسے میکے پھراتے ہیں۔۔۔ دیکھو جی !۔۔ چوبیس گھنٹے کا سفر کرکے اسے پشاور لائے اور اب نجانے واپس جانے میں ٹرین کتنے گھنٹے لگائے ۔۔اور پھر روڈ کا سفر ۔۔۔اُف آفت ہے۔۔ لیکن اس کا دل رکھتے ہیں۔۔۔۔اب اُنھیں منہ پر کیا کہتا کہ انسانی خرید و فروخت میں ملوث ہوکر بھی خود کوبری الزمہ قرار دیتے ہو۔۔۔ اور نہ چاہتے ہوئے بھی اُسکی تعریف کی کہ تم تو بہت ثواب کا کام کرتے ہو ۔۔۔کہ خریدی ہوئی عورت کو انسان سمجھتے ہو ۔۔۔وہ خوشی کے مارے پھولے نہیں سمارہا تھا۔۔ اور پھر اُس نے خود کو جنتی ثابت کرنے کے لئے اپنی پر ہیزگاری اور بھلائی کی کہانیاں شروع کردیں۔۔۔اس نے اپنی دین داری جتانے کے لئے ٹریں میں ایک مرتبہ وضو بھی کیا اور گیلی آستینیں میرے پاس آکر خشک کیں ۔۔۔لیکن کیا فائدہ۔۔۔۔۔! نمازاور روزے کی پابندی تو وہ پشتون بھی کرتے ہیں جو ظہیرہ جیسی معصوم کلیاں بیچنے کا دھندہ کرتے ہیں۔۔۔ ظہیرہ حسبِ عادت ہنس رہی تھی اور اُس لڑکے سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔۔ اُسے انسانی اور غیر انسانی افعال کا کیا پتہ تھا۔۔
اسکے اباّ نے بات جاری رکھی۔۔ہماری بہو بڑی اچھی ہے ۔نہ سکول گئی اور نہ کتابیں پڑھیں ۔۔پکی نمازی اور روزہ دار ہے۔۔۔ادھر اسکا ا باّاُسکی دینداری کی رام کتھا سنا رہا تھا اور اُدھر اُس نے اپنے دیور کے ہاتھ پر جھپٹ کر اُس سے چونگم چھین لی۔ جسے کاغذ سمیت منہ میں رکھ کر زبان سے ریپر ہٹانے کے لئے منہ کے مختلف سٹائل بناتی رہی ۔دیور پنجابی میں ناراض ہو رہا تھا اور وہ معصومیت کی زبان میں ہنس رہی تھی اور ٹوٹی پھوٹی اُردو میں اسے چِڑھا رہی تھی۔۔۔۔ کبھی وہ بندشیشے سے اشارہ کر کے اسے علاقوں کے غلط نام بتاتی اور کبھی مناظر کی طرف متوجہ کر تی ۔ ۔ وہ کئی مرتبہ ریل سے سفر کر چکی تھی اور اُسکا دیور پہلی بار سفر کر رہا تھا، اس لئے خود کو جہاندیدہ ثابت کرنے کے لئے وہ اُسے گائیڈ کر رہی تھی اور اُسکا دیور اُسکی طرف جھک جھک کر ہوں ہاں کر رہا تھا۔۔۔۔۔
اندھیرا بڑھ رہا تھا اور گاڑی میں بجلی نہ ہونے کے باعث باہر سے زیادہ تاریکی تھی۔۔۔ اس نے چپل نکال کر پیر سیٹ کے اوپر رکھے اور شیشے سے ٹیک لگا کر بے دھڑک سو گئی۔۔۔ جب باہر سے آنے والی روشنی اُس کے دودھ جیسے سفید گالوں اور بچوں جیسے معصوم چہرے سے ٹکراتی تو میرے ذہن میں بیانوے کا ہندسہ گردش شروع کر دیتا۔۔۔ اور جب میری جانب کھلی کھڑکی سے شوخ ہوا کا کوئی جھونکا اُس کے سنہرے کاکل سے چھیڑخانی کرتا ۔۔ تو پھر سے بیانوے کا وہ ہندسہ میرے ذہن میں جگمگانے لگتا ۔ بلکل اُسی طرح جس طرح جشنِ آزادی کے موقع پر جلتی بجھتی روشنیوں سے شہر کی اہم عمارتوں پرچودہ اگست لکھا جاتا ہے۔۔ مگر میرے ذہن میں چودہ اگست کی لکھائی مغلوب ہو رہی تھی اور بیانوے ہزار غالب ہو رہا تھا۔۔۔ اور آزادی و غلامی کے فلسفوں سے آزاد پنچھی میرے سامنے والی سیٹ پر دنیا ومافیہا سے بے خبر نیند کی اتاہ گہرائیون میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔
اُترنے سے پہلے ظہیرہ کے اباّ سے ہاتھ ملایا، اور دھیمے سے لہجے میں کہا ! ظہیرہ کا خیا ل اسی طرح رکھنا۔۔۔ کیونکہ بہو بیٹیاں اللہ کی امانت ہوتی ہیں ۔۔۔ یہ بیچاری اس چھوٹی سی عمر میں ماں باپ سے بھی دور ہے۔ اس سے اچھے سلوک پر اللہ تعالی تمہیں یقیناََ جنت عطا کرے گا۔۔۔ انھوں نے جنت کے ذکر پر چہک کر کہا ہاں صاب ہم خیال رکھتا ہے اور آگے بھی رکھے گا۔۔۔اور مجھے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ رخصت کیا۔۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ جنت کسے ملے گی اور کسے نہیں۔ مگر ایک لالچ تھی جو میں نے ایک نمازی بندے کے دل میں ڈال دی ۔۔ اور صرف اس آس پر کہ اس لالچ کے بعد شاید وہ ظہیرہ کا زیادہ خیال رکھے۔۔۔ اب اس سے زیادہ ایک مسافر دوسرے مسافر کودے بھی کیا سکتا ہے ۔۔۔اور اُس مسافر کو جسے جنم دینے والوں نے چندسکوں کے عوض بیچ دیا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*******
وسیم خان عابدؔ